سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر قومی اسمبلی میں منعقدہ کنونشن میں شرکت کی۔ ان کی اس شرکت پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے انتخابات پر حکومت سپریم کورٹ کے خلاف محاذ کھول چکی ہے۔ پارلیمنٹ میں قرارداد منظور ہوچکی ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرے۔ اتحادی حکومت چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بنچوں کی تشکیل کا اختیار ختم کرنے کا بل بھی منظور کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج کا اسمبلی میں ہونے والی تقریب میں شرکت کرنا اور حکومتی بنچوں پر بیٹھنا کئی سوالات کو جنم دے دیا۔

اس کے علاوہ خود قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار پر سوال اٹھا چکے ہیں جبکہ وفاقی حکومت ان کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں دائر کیا گیا ریفرنس واپس لے چکی ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر جسٹس فائز عیسیٰ پر جانبداری کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں جب وہ پارلیمان میں تشریف فرما ہوئے اور ان کے برابر والی نشستوں پر آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نظر آئے تو لوگوں کو انگشت نمائی کا موقع ملا۔

قاضی فائز عیسیٰ

پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے معروف صحافی کامران خان کا پیغام ری ٹوئیٹ کیا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ بے شک عقل سے بالا تر فیصلہ یا کچھ ایسے معاملات ہیں جن کا ہمیں علم نہیں۔ سپریم کورٹ پہلے کچھ کم متنازع تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے آج اس جلسے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ زرداری صاحب کے کندھے سے کندھا جوڑ کر گھنٹوں عمران خان مخالف عدلیہ مخالف تقاریر سنیں۔

قاضی فائز عیسیٰ

کامران خان نے ایک اور اینکر مہر بخاری کا ٹوئیٹ ری ٹوئیٹ کیا تھا۔ مہر بخاری نے سوال اٹھائے کہ کیا ساری ذہانت، تدبیر ختم ہو گئی ہے؟ جب جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کے 50 سال پورے ہونے پر اس مضحکہ خیز خصوصی دعوت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا تو کیا سوچ رہے تھے؟ یقیناً جشن منانے کے بہتر طریقے تھے۔ سپریم کورٹ کے لیے ایک نازک اور متنازع وقت میں اس سے بدتر آپٹکس کیا ہو سکتی ہے؟

قاضی فائز عیسیٰ کا کیا کہنا ہے؟

ٹوئیٹر پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ٹرینڈ بھی بنا ہوا ہے۔ ادھر قاضی فائز عیسیٰ کا موقف ہے کہ وہ کوئی سیاسی بات کرنے نہیں آئے بلکہ اپنے اور اپنے ادارے کی طرف سے صرف یہ کہنے آئے ہیں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اللہ کے سائے کے بعد اس کتاب کا سایہ ہمارے سر پر ہے، ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے شکوہ بھی کیا۔ انھوں نے اسپیکر راجا پرویز اشرف کو مخاطب کرکے کہا کہ میں نے آنے سے پہلے آپ سے پوچھا تھا یہاں کوئی سیاسی باتیں تو نہیں ہوں گی۔ آپ نے کہا تھا صرف آئین کی باتیں ہوں گی۔ مگر بہت ساری سیاسی باتیں ہوگئیں۔ خیر یہ ان کی آزادی اظہار ہے جس کا حق بھی یہی آئین دیتا ہے، میں ان کو کچھ نہیں کہتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ان سے اتفاق کرتا ہوں، میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔  آج آئین کی گولڈن جوبلی تھی، میں صرف اس کے جشن میں شرکت کے لیے آیا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے ادارے کی جانب سے کہنا چاہوں گا کہ ہم بھی آئین کے محافظ ہیں، آپ سب نے اور میں نے بھی یہ حلف لیا ہے کہ ہم ہر قیمت پر آئین کا تحفظ اور دفاع کریں گے، اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو آپ مجھ پر ہر قسم کی تنقید کر سکتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ  میں دوبارہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں آج جو سیاسی باتیں کی گئیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، ہوسکتا ہے کل کو آپ میں سے کوئی یہ کہے کہ ہم نے آپ کو بلایا اور آپ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔

شیئر

جواب لکھیں