خاکم بدہن آثار اچھے نظر نہیں آرہے۔  سپریم کورٹ کے نوے روز میں پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عمران مخالف اتحادی حکومت نے ٹھان لی ہے کہ الیکشن نہیں کرانے۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ اس فیصلے میں انھیں مقتدر قوت کی بھی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ اُدھر کے اشارے کے بغیر بھان متی کے کنبے جیسی یہ حکومت عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف کھڑی ہوسکتی۔

پاکستان میں سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ فیصلے پر جتنے بھی تحفظات اور اعتراضات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو عدالت کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے۔ اسی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے دور میں اسٹیل مل کی فروخت روکنے کا حکم دیا تھا اور پرویز مشرف جیسے آمر کو یہ فیصلہ تسلیم کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح عدالت عظمیٰ نے پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تو انھیں بھی فیصلے پر تحفظات کے باوجود گھر جانا پڑا تھا۔ اور اس وقت یہی میاں نواز شریف تھے جو کہا کرتے تھے کہ ایک وزیراعظم تو کیا اگر دس وزیراعظم بھی چلے جائیں تب بھی عدالت کے فیصلے پر عمل کرنا چاہیے۔

اس کے بعد جب پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل کیا اور انھیں وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ کر گھر جانا پڑا تب بھی بڑے میاں صاحب فیصلے پر اعتراض کے باوجود کچھ نہیں کر پائے۔ سوائے اس کے کہ انھوں نے جی ٹی روڈ پر مارچ کیا اور ’’مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دہائیاں دیتے رہے۔ سپریم کورٹ تو سپریم ہے، احتساب عدالت نے جب نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو قید کی سزا سنائی اس وقت بھی ہاؤس آف شریف عدالتی فیصلے کے سامنے دم نہیں مار سکا تھا۔ نواز شریف کو اپنی بیمار بیوی کو لندن میں چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ آکر گرفتاری دینی پڑی تھی۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی اور گرفتاری کے فیصلے پر بلاول بھٹو زرداری نے بہت بغلیں بجائی تھیں۔ وہی بلاول آج شہباز شریف کی بغل میں بیٹھ کر عدالتی فیصلے پر عمل کی صورت میں مارشل لا کا بگل بجنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

الیکشن کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد منظور

نواز شریف کی ماضی میں بھی عدلیہ سے محاذ آرائی ہوئی تھی اور بالآخر جیت انھی کی ہوئی تھی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو رخصت ہونا پڑا تھا۔ اب بھی نواز شریف کا یہی خیال ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرکے اپنی من مانی کرلیں گے کیونکہ اب تو پی ٹی آئی کے سوا ماضی کی ساری مخالف جماعتیں ان کے ساتھ ہیں۔ شہباز سرکار نے اس جنگ میں پیش قدمی کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے قرارداد بھی پاس کرالی ہے جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کیا گیا ہے کہ اس فیصلے پر عمل نہ کریں۔

قرارداد میں ’’سیاسی معاملات میں بےجا عدالتی مداخلت‘‘ پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ حالیہ اقلیتی فیصلے سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے اور ایوان ملک میں ایک ہی وقت میں الیکشن کو مسئلے کا حل سمجھتا ہے۔ سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے پر فل کورٹ بنا کر نظرثانی کرے۔

الیکشن نہیں کرانے

نوازشریف نے قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد کا خیرمقدم کیا ہے۔  لندن میں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس قراداد کے حق میں ہیں، پارلیمنٹ کو بتانا چاہیے کہ وہ ایک بالادست ادارہ ہے۔

ادھر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کہتے ہیں کہ اب پوری طرح سے واضح ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم ہر حال میں انتخابات سےفرار ہی چاہتی ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے حوالے سےایک غیرآئینی قانون لے کر آئےاور انھوں نےعدلیہ کے خلاف قومی اسمبلی سےایک قرارداد منظور کی۔ اب انتخابات کو التوا میں ڈالنےکی کوشش کرنے اور سیکیورٹی کو اس کے ایک جواز کے طور پر استعمال کرنےکیلیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ان کا یہ اقدام مسلح افواج کو عدلیہ ہی نہیں بلکہ براہِ راست قوم کے سامنے لاکھڑا کرے گا۔

صاف نظر آرہا ہے کہ وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتیں عدلیہ سے محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پارلیمنٹ کی قرارداد کا سہارا لے کر سپریم کورٹ کے حکم کو ٹال سکتی ہے؟ کیا الیکشن نوے دن میں کرانا لازمی آئینی تقاضا نہیں ہے؟ قانونی ماہرین کی رائے تو اس پر منقسم ہے۔ ن لیگ کے حامی ماہرین قانون کہتے ہیں سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ دینے کا کوئی اختیار نہیں تھا دوسری جانب کے قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم ماننا ہر حال میں لازم ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

ایک طرف جہاں معیشت سسک رہی ہے۔ عوام مہنگائی کے وار سے بلک رہے ہیں۔ کڑی شرائط ماننے کے باوجود آئی ایم ایف قرض کی قسط دینے پر آمادہ نہیں۔ ایسے میں ہماری مقتدر قوتوں کو ادراک کرنا ہوگا کہ سیاست کے کھیل میں ریاست کو نقصان نہ پہنچ جائے اور حالات ایسی نہج پر نہ پہنچ جائیں جہاں کسی کے کنٹرول میں کچھ نہ رہے۔

شیئر

جواب لکھیں