پاکستان مسلم لیگ ن عدلیہ کے خلاف فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہے۔ مریم نواز جلسوں میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت حاضر سروس ججوں کے نام لے کر ان پر الزامات عائد کر رہی ہیں۔ منگل کو قصور جلسے میں خطاب کرتے ہوئے بھی انھوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرکے کہا کہ عمران خان کے پیچھے نہ لگیں، اس نے اپنے ہر سہولت کار کو استعمال کرکے بعد مین اس کی مٹی پلید کی۔ مریم نواز نے الزام لگایا کہ کچھ ججوں کی جانب سے عمران خان کی سہولت کاری کی جارہی ہے۔ فیصلے آئین کے مطابق نہیں بلکہ ٹرک دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔

مریم نواز کی شعلہ بیانی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار کو محدود کرنے کے لیے بل بھی قومی اسمبلی میں منظور کرچکی ہے۔  پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا جب عدالت کے فیصلوں پر اعتراض اور اختلاف کیا گیا ہو۔

 24 اکتوبر 1954ء کو جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی تحلیل کی تو اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر کی۔ فروری 1955 میں سندھ چیف کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل کو غیرآئینی قرار دیا۔ وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ (جسے اس وقت سپریم کورٹ کی حیثیت حاصل تھی) میں اپیل دائر کی۔ چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے سماعت کی اور 10 مئی 1955 کو سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ انھوں نے اسمبلی کی تحلیل کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی پر کاری وار اور عدلیہ کے دامن پر سب سے پہلا بدنما داغ ثابت ہوا۔ جسٹس منیر نے اپنی ریٹائرمنٹ پر لاہور بار سے خطاب میں اعتراف کیا تھا کہ مقدمے کی سماعت کرنے والے جج دباؤ میں تھے۔

مقتدر قوتوں کے دباؤ پر ایک اور متنازع ترین فیصلہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا بھی تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت کے خلاف اپیل سپریم کورٹ نے مسترد کردی تھی۔ اس عدالتی فیصلے نے ذوالفقار علی بھٹو کو ہمیشہ کے لیے مظلوم بنادیا۔ وہ سولی پر چڑھ کر سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے۔ یہ فیصلہ بھی پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے لیے اب تک ایک طعنہ بنا ہوا ہے۔

Raftar Bharne Do

جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی

نواز شریف پاکستان کے سیاسی افق پر 1980 کی دہائی میں نمایاں ہوئے تھے جب پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی نے انھیں صوبے کا وزیرخزانہ بنایا تھا۔ 1985 میں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی بن گئے تھے۔ مگر ان کا سپریم کورٹ سے پہلا واسطہ اپریل 1993 میں پڑا جب صدر غلام اسحاق خان نے ان کی اسمبلی تحلیل کردی تھی۔ نواز شریف اس اقدام کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ قائم مقام چیف جسٹس جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 11 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اور 26 مئی 1993 کو نواز شریف کی حکومت بحال کرنے کا فیصلہ سنایا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کا خوب خیرمقدم کیا۔ یہ الگ بات کہ اس فیصلے کے بعد بھی نواز شریف کی حکومت قائم نہ ہوسکی اور آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی جانب سے دیے گئے فارمولے کے تحت نوازشریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو رخصت ہونا پڑا۔

Raftar Bharne Do
نواز شریف 1993 میں بحالی کے بعد مریم نواز سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے

مسلم لیگ ن کا سپریم کورٹ پر حملہ

نوازشریف کی عدلیہ سے محاذ آرائی کا پہلا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب 1997 میں وہ دوسری بار وزیراعظم بنے۔ اس وقت چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ نواز شریف سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کو پارلیمنٹ کا اختیار قرار دینا چاہتے تھے جب کہ چیف جسٹس اس پر ایک برس پہلے فیصلہ دے چکے تھے کہ یہ عدلیہ کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ بھاری مینیڈیٹ سے وزیراعظم بننے والے نواز شریف نے فلور کراسنگ کے خلاف آئین میں ترمیم منظور کی تھی جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس ترمیم پر عمل درآمد فیصلے تک روک دیا تھا اس پر نواز شریف نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ہارس ٹریڈنگ کی لعنت بحال کردی ہے۔ نواز شریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اور انھیں عدالت میں طلب کیا گیا۔ 17 نومبر 1997 کو نواز شریف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو وہاں کارکنوں نے ان کا استقبال اور ہنگامہ آرائی کی۔ 26 نومبر کو سپریم کورٹ کے کوئٹہ بنچ نے چیف جسٹس سجاد حسن شاہ کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کیا۔ اسی دن چیف جسٹس نے کوئٹہ بنچ کا فیصلہ غیر آئینی قرار دیا۔

27 نومبر کو مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے بد تمیزی کی۔ 28 نومبر کو جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنانے والے تھے۔ مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی بڑی تعداد سینیٹر سیف الرحمان کی قیادت میں سپریم کورٹ میں گھس گئی۔ ن لیگ کے کارکن چیف جسٹس اور ان کے ہمنوا ججوں کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ نہ سناسکے۔ کہا جاتا ہے کہ جج اپنی جان بچانے کے لیے اپنے چیمبروں میں محصور ہوگئے تھے۔ چیف جسٹس نے فوج سے بھی مدد طلب کی تھی۔

سپریم کورٹ
نومبر 1997 میں نواز شریف کی سپریم کورٹ میں پیشی کا منظر

اس معرکہ آرائی میں جیت نواز شریف کی ہوئی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں 15 رکنی بنچ نے چیف جسٹس سجاد حسین شاہ کو ہٹانے کا فیصلہ سنایا جس کے بعد جسٹس اجمل میاں چیف جسٹس بن گئے تھے۔

عدالتی فیصلے نواز شریف کے لیے کبھی خوشی کبھی غم ثابت ہوئے

نواز شریف کو اس کے بعد مشرف دور میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔  مگر مشرف کی رخصتی کے بعد عدالت نے ہی ان کو اس کیس سے بری کر دیا تھا۔

پیپلزپارٹی کے دور میں نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کی قیادت کا اعلان کیا تھا تاہم اس کی نوبت نہیں آئی تھی اور جنرل کیانی کی مداخلت پر پی پی حکومت نے چیف جسٹس افتخار چودھری اور دوسرے ججوں کو بحال کردیا تھا۔

پیپلزپارٹی کے دور میں ہی 2011 میں نواز شریف میمو گیٹ اسکینڈل میں زرداری کے خلاف خود مدعی بن کر سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ بعد میں انھوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اپریل 2012 میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر نااہل قرار دیا تو نواز شریف نے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

سپریم کورٹ نے ہی نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا

اس کے بعد نواز شریف 2013 میں تیسری بار وزیراعظم بنے اور پھر ان کا واسطہ بار بار عدالت سے پڑتا رہا۔ 2016 میں پاناما پیپرز آئے۔ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ نے انھیں نااہل قرار دیا اور ان کو وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں نے فیصلے میں نواز شریف کے لیے سسلین مافیا اور گاڈ فادر کی تشبیہات استعمال کیں۔  اس کے بعد نواز شریف نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ مہم چلائی اور جلسوں میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر سخت تنقید کرتے رہے۔ جولائی 2018 میں احتساب عدالت نے انھیں ایون فیلڈ کیس میں 10 سال قید کی سزا سنائی۔ 69 دن جیل میں رہنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے انھیں ریلیف ملا۔ دسمبر 2018 میں انھیں العزیزیہ اسٹیل مل کیس کے سلسلے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس بار انھیں طبی بنیادوں پر لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف ملا اور انھیں 8 ہفتوں کے لیے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ نواز شریف اس کے بعد سے وطن واپس نہیں آئے۔ ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں پیش نہ ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ انھیں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔

اپریل 2022 میں پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد سے مسلم لیگ ن کی قیادت کو عدالتوں سے ریلیف ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ تاہم منحرف ارکان یکے ووٹوں، پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر مسلم لیگ نالاں نظر آتی ہے۔ سیاسی مخالفین مریم نواز کی چیف جسٹس پر کھلی تنقید اور عدالتی اصلاحات بل کو عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں