ملک کے مختلف علاقوں میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران ایک مہینے میں 10 سے زائد لوگ موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی ویسے ہی آسمان کو چھورہی ہے غریب طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں غریب لوگ روزے کی حالت میں سستے آٹے کے لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا بھی گوارا کرلیتے ہیں۔
مفت یا سستے آٹے کے لیے قطاروں میں لگنے سے عزت نفس تو مجروح ہوتی ہے مگر جب گھر میں بچے بھوک سے بلک رہے ہوں تو ان کے آنسو ماں باپ کی خودی کو بھی بہا کر لے جاتے ہیں اور سڑکوں پر ہاتھ پھیلانے یا ایسی قطاروں میں دھکے اور ڈنڈے کھانے پر مجبور ہونا ہی پڑتا ہے۔
یادش بخیر، وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ وہ اپنے تن کے کپڑے بیچ کر بھی عوام کو سستا آٹا مہیا کریں گے۔ مگر یہ بھی شاید ویسا ہی سیاسی وعدہ تھا جیسے انھوں نے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا مال برآمد کرنے اور انھیں لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کیا تھا۔ زرداری سے لوٹا ہوا مال تو وہ کیا برآمد کرتے۔ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے وہ اسی زرداری کے دربار میں عاجزی سے حاضری دیا کرتے تھے اور اب اسی زرداری کا بیٹا ان کی کابینہ میں وزیر خارجہ بنا ہوا ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ ہم گندم کی گرانی اور غریب کی زندگی کی ارزانی پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
ملک میں آٹے کا بحران پہلی بار نہیں آیا
خوش قسمتی سے پاکستان میں قحط کی کوئی صورت حال نہیں۔ ملک میں گندم کی ضرورت تقریبا 2 کروڑ 90 لاکھ ٹن سالانہ ہے اور اس سال بارشوں سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کے بعد بھی 2 کروڑ 66 لاکھ ٹن گندم پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یعنی تقریبا 20 سے 24 لاکھ ٹن گندم کی مزید ضروت ہوگی جو عالمی مارکیٹ سے درآمد کرکے پوری کی جاسکتی ہے۔ اصل مسئلہ قحط الرجال کا ہے۔ بدقستمی سے بانیان پاکستان کی آنکھیں بند ہونے کے بعد سے ملک کو ایسی قیادت میسر ہی نہیں آسکی جس کی نظریں غریب اور غریب کے مسائل پر ہوتیں۔
ملک مقروض اور حکمران امیر سے امیر تر ہوتے رہے۔ امرا کی تجوریاں بھرتی رہیں اور غریب خالی پیٹ سونے پر مجبور ہوتے رہے۔ کبھی زرعی ملک زرعی ملک کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا اور کبھی صنعتی ترقی کے شادیانے بجائے جاتے رہے، مگر یہ کیسا زرعی ملک تھا کہ کبھی امریکا سے امداد میں گندم لیتا تھا اور یہ کیسی صنعتی ترقی تھی کہ دولت بیس بائیس خاندانوں کے گھر کی لونڈی بنی ہوئی تھی۔
اس کے بعد کبھی عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے وعدے سے ورغلایا گیا تو کبھی اسلامی نظام کے نام پر بہلایا گیا۔ مگر نہ عوامی وزیر اعظم کہلانے والا ذوالفقار علی بھٹو غربت کے زنجیروں کو کاٹ سکا نہ جمہوریت پر شب خون مارنے والا ضیاءالحق غریب کے گھر سے اندھیرے دور کرسکا۔ گیارہ سالہ آمریت کے بعد بے نظیر اور نواز شریف دو دو بار وزیراعظم بنے پھر بھی افلاس کے منحوس سائے اس ملک سے دور نہ ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں شاعر عوام حبیب جالب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
1999 میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا اور ملک دوبارہ جمہوریت کی شاہراہ سے اتر کر آمریت کے خار زار میں سفر کرنے لگا۔ مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں ڈالروں کی ریل پیل ہوگئی مگر غربت کے خلاف جنگ میں عوام کو کمک نہ مل سکی۔ پرویز مشرف تو ایک ماہر معیشت شوکت عزیز کو پہلے وزیرخزانہ اور پھر وزیراعظم بنادیا تھا لیکن غریب کی گھر کی معیشت میں کوئی خاص سدھار نہ آسکا۔ بلکہ مشرف کے دور میں آٹے اور چینی کے بحران آئے اور ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا تھا۔
پھر جمہویت کی گاڑی دوبارہ پٹری پر آئی، پیپلزپارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے روپ میں پورا کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ مگر یہ امداد اتنی اور ایسی ہی تھی جیسے علامہ اقبال فرما گئے ہیں کہ
دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
عوام کے پیسوں سے تھوڑے سے عوام کو آٹے میں نمک جتنی امداد دے کر پی پی سرکار نے نیک نامی تو کمائی مگر غریبوں کی بڑی تعداد کے لیے آٹے دال کا مسئلہ بدستور برقرار تھا۔ خاص طور پر سندھ میں جہاں پیپلزپارٹی کئی دہائیوں سے حکمران تھی وہاں زمینی حقائق پی پی کے آسمان چھوتے دعووں سے مختلف تھے۔ تھر میں غذائیت کی کمی کا اژدہا بچوں کی جانیں نگلتا جارہا تھا اور یہ سلسلہ اب تک برقرار ہے۔
پیپلزپارٹی کی باری کے بعد نواز شریف پھر وزیراعظم بنے۔ ان کے دور میں پاکستان میں دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ شروع کرنے سے امید تھی کہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی تاہم ابھی بھی وہ منزل بہت دور تھی کہ جس کے خواب دیکھتے دیکھتے ملک کے کروڑں غریبوں کی آنکھیں پتھرانے لگی تھیں۔ غریب کی چادر اس کے پیروں کے برابر اس دور میں بھی نہیں ہوئی۔ پھر عمران خان تبدیلی کے نعروں کے ساتھ اقتدار کے محل میں وارد ہوئے۔ پاکستان کو 92 کا کرکٹ ورلڈ کپ جتانے والے کپتان سے عوام نے بھی بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ غربت کا خاتمہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی طرح تحریک انصاف کے منشور کا بھی لازمی حصہ تھا۔ مگر امید کے سراب میں ڈوبے پاکستانیوں کو تبدیلی سرکار نے پہلا جھٹکا چینی کی قیمت میں ہوش ربا اضافے سے دیا جب 55 روپے کلو میں ملنے والی چینی 100 روپے تک پہنچ گئی۔ اسکینڈل میں عمران خان کے قریب ترین دوست جہانگیر ترین کا نام آیا۔ اسی وجہ سے دونوں کے تعلقات بھی ختم ہوئے مگر چینی کے دام کم نہ ہوئے۔ اس کے بعد دواؤں کے نرخ، ڈالر کے بھاؤ، آٹے کی قیمت میں اضافے نے بھی ثابت کردیا کہ طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ عمران خان کے وزرا اور مشیر بھی عوام کو وہی مشورے دینے لگے تھے جو سابق حکمرانوں کے درباری دیا کرتے تھے کہ روٹی کم کھائیں، چینی کم استعمال کریں۔
شہباز شریف کو وزیراعظم بنے تقریباً 12 مہینے ہوچکے ہیں اور عوام کے چودہ طبق روشن ہوچکے ہیں۔ آٹا، چینی، تیل، گھی اور کھانے پینے کی دوسری چیزوں کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل کی ریکارڈ قیمتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور مہنگائی کی یہ آگ بھڑکائی ہے ڈالر کی بلند ترین قیمت نے۔ خزانہ خالی ہوچکا ہے۔ ملک دیوالیا ہونے کے دہانے پر ہے اور ایسا ہو بھی جائے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ جب حکمران اخلاقی طور پر دیوالیا ہوں تو ملک دیوالیا ہوہی جاتے ہیں۔