شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے دوران لارجر بنچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لاجر بینچ  نے سماعت شروع کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر نقوی شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا تھا کہ مجھ پر اعتراض تو نہیں، میں نے کہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں، البتہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتے دار ہیں اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بنچ پر بار بار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا،  آپ ایک مرتبہ پھر بنچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔آپ کی چوائس یا خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی دن آ کر کہا تھا کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں، انھوں نے بینچ کا حصہ رہنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پبلک انٹرسٹ کا کیس ہے لہذا میں بینچ سے الگ ہوتا ہوں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمے داری ہے، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں، بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے؟

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بنچ کا حصہ نہیں رہتا۔

اعتزاز احسن کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے حکومت کے اعتراض پر حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ ’’ظالمانہ مذاق‘‘ ہے۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبہ سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انھوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بنچ پر اعتراض کر دو۔ وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔

یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‏کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججوں کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی۔  ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا حکومت ایک مرتبہ پھر تناسب کے ایشو پر جانا چاہتی ہے؟ کس نے یہ نہیں کہا 90 دنوں میں انتخابات آئینی تقاضا ہے،  فیصلے پر اصولی طور کوئی اعتراض نہیں تناسب پر اعتراض اٹھایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے الگ ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 6 رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے سماعت دوبارہ شروع کی۔

دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جارہے ہیں، چیف جسٹس

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو  وکیل چیئرمین پی ٹی آئی حامد خان روسٹرم پر آگئے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ری کور کر کے آرہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں۔

انھوں نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں، حامد خان نے جواب دیا کہ میں ان سے میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔

درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے؟ اپنے پہلے دن کے سوال پر جاؤں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی فوجی عدالتوں میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر  نے پوچھا ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو بنیادی حقوق معطل ہو تو کیا پھر سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ امریکا میں جو سویلین ریاست کے خلاف ہو جائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟ کیا ایسے سویلین کا ٹرائل امریکا میں عام عدالتیں کرتی ہیں؟ فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا تھا دنیا میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل ہوتاہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا 21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک فوجی افسر کا بھی ملٹری کوٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے، بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہو گا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل ملٹری آفسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے، متعلقہ بات ہی کریں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ آرٹیکل 175 کی شق 3 کو بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جوڑ رہے ہیں، اس کا اطلاق تو پھر فوجی عدالتوں پر بھی ہوگا، 175 کی شق 3 کا یہاں کیا تعلق ہے؟

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 شفاف ٹرائل کی دی گئی ضمانتوں کے آرٹیکل 9 اور 10 کے ذریعے مؤثر ہوتا ہے، کسی شخص کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں، 175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے، آپ اپنے دلائل مختصر اور صرف کیس سے متعلق دیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، جو اس سے مطابقت نہیں رکھتا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ آپ آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج کر رہے ہیں لیکن وجوہات نہیں بتا رہے۔

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، آپ جو بات کر رہے ہیں وہ فوجیوں کے حق میں جاتی ہے، ہم بہت سادہ لوگ ہیں، ہمیں سادہ الفاظ میں بتائیں، جو باتیں یہاں کرر ہے ہیں ہارورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔

سلمان اکرام راجا نے کہا کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا، میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ کسی پر الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا، سویلینز کی 2 اقسام ہیں، ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروس فراہم کرتے ہیں، فورسز کو سروس فراہم کرنے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں، دوسرے سویلین وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، جو مکمل طور پر سویلین ہیں ان کا ٹرائل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ہم فوجی عدالتوں کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 سے تعلق نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرمی چیف کے سامنے یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو۔

یہ کہنا کہ فوجی عدالتیں ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہوں تو یہ کیس کا دائرہ کار وسیع کر دے گا، اہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ ایک متوازی نظام ہے،جسے عدالت نہیں کہہ سکتے؟

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ  جی میں یہ ہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر افسران کا ٹرائل ہوتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟ آپ آرمی افیشل کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کر رہے؟

سلمان اکرم راجا نے کہا نہیں میں آرمی آفیشلز کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا۔

سلمان اکرم راجا نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کو اس لیے چیلنج کیا کہ اس کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ میرے موکل جنید رزاق کو اٹھا لیا گیا، جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا۔ یہ تفریق کیسے ہوئی کہ ایک ہی الزام پر کچھ لوگ عام عدالت جبکہ کچھ  فوجی عدالت میں ٹرائل کے لیے جائیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی اگر وہ کہیں کہ ہم کچھ کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کریں گے اور باقی گھر جائیں گے تو آپ کو پھر کوئی مسئلہ نہیں؟

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر ایسی عدالت لے جایا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تو مجھے اعتراض نہیں۔

سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اعتزار احسن کی درخواست میں فریق بنائے گئے چیئرمین پی ٹی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دینا شروع کیے۔

عزیز بھنڈاری نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ کھلی عدالت میں ٹرائل ہو۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا توقع کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے تک ملٹری عدالت میں کوئی ٹرائل نہیں چلے گا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار  کیا کہ ملٹری کی کسٹڈی میں ملزمان کی فیملی ملاقاتوں بارے کیا پالیسی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جن ملزمان کو فوج نے حراست میں لیا ہے، ان کی فیملی سے ملاقاتیں کروائی جانی چاہیے۔ سلمان اکرم راجہ کے کلائنٹ 9 مئی سے گرفتار ہیں اب تک فیملی ملاقات ہونی چاہیے تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل نے 9 مئی کے بعد گرفتار افراد کے اعداد وشمار عدالت میں پیش کیے تھے، اٹارنی جنرل کی رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں ملوث 102 ملزمان  فوج  کی تحویل میں ہیں۔ کوئی خاتون ،کم عمر افراد، صحافی یا وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہے۔ کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے ہوگی۔

شیئر

جواب لکھیں