اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل سے متعلق کیس میں ہائی کورٹ نے سزائے موت کے خلاف ظاہر جعفر کی اپیلیں نہ صرف مسترد کردیں بلکہ ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا بھی سزائے موت میں تبدیل کردی۔

نور مقدم قتل کیس کی تفصیلات

سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو سیکٹر ایف- 7/4 میں ظاہر جعفر نے اپنے گھر میں قتل کر دیا تھا۔ ظاہر جعفر کو اسی روز گرفتار کر لیا گیا تھا۔

نور مقدم کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ظاہر جعفر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین چوکیدار افتخار، مالی جان محمد اور خانساماں جمیل کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت 20 اکتوبر 2021 کو شروع ہوئی اور 4 ماہ آٹھ دن جاری رہی۔ ٹرائل کے دوران ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم میڈیکل ٹیسٹ میں اسے مکمل فٹ قرار دیا گیا تھا۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد 24 فروری 2022 کو ظاہر جعفر کو قتل عمد کے سلسلے میں سزائے موت سنائی تھی اور نور مقدم کے ورثا کو 5 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ظاہر جعفر کو نور مقدم کا ریپ کرنے کے جرم میں 25 سال، قتل کے لیے اغوا کے جرم میں دس سال اور حبس بیجا میں رکھنے کے الزام میں 1 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزم کی سزائے موت کی توثیق اسلام آباد ہائی کورٹ کرے گی۔

اس کے علاوہ قتل اور دیگر جرائم میں اعانت پر فیصلے میں شریک ملزمان  مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10، 10 سال قید اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

نور مقدم قتل کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف ظاہر جعفر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپیل پر سماعت کے بعد 21 دسمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج فیصلہ سناتے ہوئے ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کر دیں، اسی طرح شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر دی گئیں۔

عدالت کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ لوگ اسے انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں۔

اسلام آباد کی پولیس افسر آمنہ بیگ نے لکھا کہ یہ پاکستان کی تمام خواتین کی جیت ہے۔ اس کا تمام کریڈٹ نور مقدم کے والد کو جاتا ہے جو اپنی بیٹی کے لیے ثابت قدم کھڑے رہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

عثمان نے ٹوئیٹ کیا کہ یہ بہت شاندار خبر ہے۔ مگر اس پر عمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ نورمقدم کے قتل کو دو سال ہوگئے اور ہم اب تک ظاہر جعفر کو سزا دیے جانے کے منتظر ہیں۔ امید ہے یہ وحشی اپنے انجام کو پہنچے گا۔

عائشہ خالد نے لکھا کہ ظاہر جعفر کو دو بار سزائے موت سنائی گئی ہے، اس پر انھیں کسی حد تک خوشی ہے لیکن انھیں نہیں لگتا کہ اس سزا سے ملک کی خواتین کسی دوسرے ذہنی مریض ظاہر جعفروں سے محفوظ رہیں گی۔

ماہ رخ نے ٹوئیٹ کی یہ پیغام لکھتے ہوئے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں۔ پاکستان کے نظام انصاف کو ایک بدکردار قاتل کو سزا دینے میں 2 سال لگے۔ اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ بہر حال نور کے گھر والوں خاص طور پر اس کے والد نے جو قانونی جنگ لڑی وہ قابل تحسین ہے۔

شیئر

جواب لکھیں