ایک طرف جہاں عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں بھی بضد نظر آرہی ہیں کہ صوبوں کے الیکشن اکتوبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہوں۔

ہفتے کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد ہوا۔ اجلاس میں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹوزرداری، مریم نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنماﺅں نے شرکت کی۔

اتحادی جماعتوں کے قائدین نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔

اجلاس میں اتحادی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخاب ہونے چاہئیں، یہ غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی آئینی تقاضا ہے جس سے روگردانی سے ملک میں شدید سیاسی بحران جنم لے گا۔ جس سے ملک کی معیشت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے۔

شرکا کا کہنا تھا کہ ایک جماعت کے دباﺅ پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش قبول نہیں کی جائے گی۔ بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنا دیا گیا ہے۔ ایک جماعت لشکر اور جھتوں کے ذریعے ریاستی اداروں پر حملہ آور ہو کر ان کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے۔

اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ  ملک کے معاشی، سیکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے۔ خاص جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے۔ اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔

اعلامیے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 218(3) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کو آئین کے تحت آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نمبر 1/2023میں دے چکے ہیں۔

اجلاس نے قرار دیا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین آئینی وسیاسی بحران پیدا کرے گا۔ اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچوں میں اختلافی آوازوں کو سنیں اور فوری طور پر فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ ’وَن مین شو‘ کا تاثر ختم ہو۔

شرکا کا کہنا تھا کہ اعلیٰ ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے لہٰذا عدالت عظمیٰ کو متنازع سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیا جائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی رویہ اپنا رہے ہیں۔۔

الیکشن کا شیڈول دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، فضل الرحمان

اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ الیکشن کا شیڈول دینا اور الیکشن کرانا یہ الیکشن کمیشن کا آئینی اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن کے آئینی اختیار پر عدالت کو جھپٹنے کی جرات نہیں کرنی چاہیے۔ سوموٹو کیس 3-4 سے مسترد ہو چکا ہے لہٰذا اس کی دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے ہم موجودہ بینچ، چیف جسٹس اور ان کے دونوں رفقا پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔

پی ڈی ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے۔ مردم شماری کے بعد نئی ووٹر لسٹیں بننی ہیں، نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں۔ اس کے بعد ہی الیکشن ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم الیکشن کی تاریخ کے تعین کے لیے عمران خان سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے۔

شیئر

جواب لکھیں