- پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی پر حملہ ہورہا ہے، عمران خان
- فیصلہ کن وقت ہے، قوم آئین کی حکمرانی کے لیے کھڑی ہوجائے، عمران خان
- خدشہ ہے کہ یہ لوگ اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی
- 90 دن میں الیکشن نہ کرائے تو ہم سڑکوں پر آجائیں گے، عمران خان
- ان کو ڈر ہے کہ الیکشن ہوئے تو ان کی سیاسی موت ہوجائے گی، عمران خان
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت قانون کی حکمرانی اور آئین پر سب سے بڑا حملہ ہورہا ہے۔ ہم نے جب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں تحلیل کی تو نامور وکیلوں سے مشورہ کیا۔ وکلا نے بھی یہی کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن میں الیکشن کرانا لازم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ہم نے ملک کی معاشی صورت حال دیکھی جو روز بروز خراب ہورہی تھی۔ اس لیے ہم نے اپنی حکومتیں تحلیل کردیں تاکہ نئے الیکشن ہوں اور ملک مستحکم ہوسکے۔
اس وقت یہ حال ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپیا گر رہا ہے۔ برآمدات کم ہورہی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ یہ حالت ہوچکی ہے کہ لوگ آٹے کے لیے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ جب تک انتخابات سے استحکام نہیں آتا معیشت مستحکم نہیں ہوگی۔
ویڈیو لنک پر خطاب میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم کو الیکشن میں سیاسی موت نظر آرہی ہے۔ ان کو ڈر ہے کہ پنجاب اور کے پی میں بری طرح ہار جائیں گے۔ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانیں گے۔ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کرنے والا ادارہ ہے۔ اور ان کا کہنا یہ ہے کہ فیصلہ اگر ان کے حق میں ہوگا تبھی تسلیم کریں گے ورنہ نہیں۔ ایک قدم آگے چلے جائیں۔ انھی ججوں نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا۔ جب قومی اسمبلی تحلیل کی اور الیکشن کا اعلان کیا تو ہمارے خلاف سو موٹو نوٹس لیا اور فیصلہ ہمارے خلاف آیا۔ میں نے کبھی ججوں کے خلاف بات نہیں کی۔ مجھے صرف تکلیف یہ ہوئی کہ عدالت رات 12 بجے کھلی۔ میں نے کسی جج پر یا اس کی فیملی پر کوئی تنقید نہیں کی۔ لندن میں مفرور سزا یافتہ نواز شریف کہہ رہا ہے کہ ہم یہ فیصلہ نہیں مانیں گے۔ آپ ہیں کون یہ کہنے والے۔ اسی نواز شریف نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا اور ججوں کو پیسوں سے خریدا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کن وقت ہے۔ قوم کو آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ پاکستان میں ایک آمر نے 90 دن کا کہہ کر 11 سال حکومت کی۔ مجھے خطرہ ہے کہ یہ اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائیں گے۔ یہ انتظار کر رہے ہیں کہ مجھے پکڑ لیں یا نااہل کردیں پھر الیکشن کرائیں۔ پوری دنیا اور ملک کے عوام کو ان پر اعتبار نہیں۔ اکتوبر تک الیکشن لے جانے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ سوائے اس کے کہ مجھے راستے سے ہٹادیں اور پارٹی کو دبا دیں۔ ہمارے 3100 افراد جیلوں میں ہیں ہر روز ہمارے لوگ اٹھا لیتے ہیں، نگراں حکومت کا کیا یہ کام ہے کہ لوگوں کو ڈرائے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جنھوں نے 25 مئی کو ہم پر ظلم کیا تھا ان کو الیکشن کمیشن نے ہم پر مسلط کیا۔ انگریز کے دور میں بھی سیاسی قیدیوں پر ایسا تشدد نہیں کیا گیا۔ کارکنوں نے بتایا کہ پولیس گرفتار کرتی ہے پھر نامعلوم افراد آکر تشدد کرتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو ایسے رکھا جاتا ہے جیسے دہشت گرد ہوں۔ کیا اس نگراں حکومت کو اکتوبر تک بٹھانا چاہتے ہیں؟ یہ نگراں حکومت جو کر رہی ہے ماضی میں کسی نے نہیں کیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وفاقی حکومت میں بھی وہ لوگ ہیں جو ہمارے مخالف ہیں۔ جب سے ہماری حکومت گئی ہمارا میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا۔ رکاوٹوں کے باوجود مینار پاکستان پر ہمارا تاریخی جلسہ ہوا۔ جلسہ سوشل میڈیا نے دکھایا، اب یہ سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف بلیک آؤٹ کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے یہ ہمارے سوشل میڈیا کارکنوں کو اٹھا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر انہوں نے 140 مقدمات بنا دیے، ان ہی لوگوں نے مجھ پر حملہ کروایا جو اوپر بیٹھے ہیں۔ اگر یہ لوگ ملوث نہیں تھے تو جے آئی ٹی کا ریکارڈ کیوں تباہ کیا، اس حکومت پر کوئی اعتبار نہیں کر رہا، یہ جرائم پیشہ لوگوں کی حکومت ہے۔
اس سے پہلے صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ 90 روز کے اندر الیکشن نہ کروائے گئے تو ملک میں آئین نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی جب کہ ہم سڑکوں پر ہوں گے۔
جنرل باجوہ انڈیا سے دوستی چاہتے تھے اس لیے معاملات خراب ہوئے، عمران خان
سابق آرمی چیف کے متعلق انھوں نے دعویٰ کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہندوستان سے دوستی چاہتے تھے جس کے لیے مجھ پر دباؤ بھی ڈالا گیا اور معاملات خراب ہوئے۔ جنرل (ر) باجوہ ایک روز کچھ کہتے ہیں اور دوسرے روز اس بات سے مکر جاتے ہیں۔ ان کا احتساب فوج کے اندر سے ہونا چاہیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ بھی کہا کہ صدر عارف علوی اب ہمارے اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان کسی قسم کا کردار ادا نہیں کر رہے۔ شاہ محمود اور پرویز الٰہی کو دوسری جماعتوں سے رابطے کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔ پارٹی کے کسی بھی رکن کے دیگر جماعتوں اور سیاسی شخصیات سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کو نیوٹرل کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو وہ ادا نہیں کر رہے۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آئی جی پنجاب جرائم پیشہ افراد ہیں۔ انھوں نے میری غیر موجودگی میں میرے گھر پر حملہ کرایا۔ ان کے خلاف عدالت میں کیس درج کروانے جا رہا ہوں۔