ہزاروں سال قبل مسیح میں قدیم اور کلاسیکی یونانی دور میں کاہن (پجاری) انتظامی امور کے لیے حکمرانوں کو تجاویز دیا کرتے تھے۔ بادشاہِ وقت یا اس کا نمائندہ غیر معمولی امور سلطنت، بیرونی یلغار کے لیے دفاعی حکمت عملی یا جارحانہ اقدام کے حوالے سے مشاورت کے لیے یونانی بستیوں کے مضافات میں تنہا کھڑے پہاڑ کی جانب عازم سفر ہوتا۔ چوٹی پر پہنچ کر کاہن کے دروازے پر دستک دیتا۔ دروازہ کھلتا، بادشاہ یا اس کا نمائندہ انتہائی ادب سے معاملہ گوش گزار کرتا اور کاہن معبد کے دبیز پردوں کے پیچھے مدہوش پڑی نوجوان لڑکیوں جنھیں ’’اوریکل‘‘ کہا جاتا تھا کے پاس جا کر معاملہ سنا دیتا۔

یونانی خداؤں کی ترجمان سمجھی جانے والی یہ اوریکلز آنکھیں بند کیے، تپسیا کے عالم میں دیوی دیوتاؤں سے رابطہ کرتیں۔ کچھ دیر اسی حالت میں رہنے کے بعد جب اشارہ ہوتا، اوریکلز وہ اشارہ کاہن کے کان میں اُگل دیتیں۔ یہ کاہن معبد کے دروازے پر کھڑے بادشاہ یا اس کے نمائندے کو دیوی دیوتاؤں کی مرضی سے آگاہ کر دیتے۔

وقت بدل گیا، حکمرانِ وقت نہ تو کاہن کے پاس جاتے ہیں اور نہ پردوں کے پیچھے پڑی مدہوش اوریکلز سے رابطہ کرتے ہیں۔ مگر امور سلطنت میں ایسے مستند اشاروں، کنایوں اور آشیربادوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری سیاسی واقعات ایسے ہی کسی نہ کسی اشارے کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔ آگہی رکھنے والوں کو یقین ہے کہ مملکت خداداد میں کوئی بھی واقعہ کسی خاص اشارے کے بنا نہیں ہوتا۔

اردو کے معروف شاعر عباس تابش نے کہا تھا

اک اور ہاتھ بھی ہے پس رقص حیلہ جو

ہم تم تو پتلیاں ہیں، تماشا کسی کا ہے

پاکستان میں کسی واقعے کا رونما ہونا معمولی ہو سکتا ہے مگر اس کا وقت کیا ہے، پس منظر کیا ہے۔ کس سیاسی و غیر سیاسی کردار نے کس موقع پر اس کی جانب اشارہ کیا ہے وہ کسی طور بھی معمولی یا محض اتفاق نہیں ہو سکتیں۔

مریم نواز کی چھوٹی سی سرجری کے بعد جارحانہ حکمت عملی

مریم نواز جب سے چھوٹی سی سرجری کرا کے وطن واپس پہنچی ہیں، تب سے وہ سیاسی بیان بازی کی حد تک سرگرم اور فعال ہیں۔ ان کی جانب سے اپنے بیانات میں جو پوزیشن لی جاتی ہے، اگر وہ پس پشت (نواز شریف یا دیگر) قوتوں کے اشاروں کے عین مطابق نہیں تو کیا اسے جوئے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟

6  اکتوبر2021 کو اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی فیض حمید کو تبدیل کر کے ان کی جگہ ندیم انجم کو عہدہ دیا گیا۔ لیکن اس تبدیلی کی پیش بندی مریم نواز نے دو گھنٹے قبل اپنی میڈیا ٹاک میں اس وقت کی تھی جب انھوں نے جنرل (ر) فیض حمید کو آڑے ہاتھوں لیا۔

ہوا یہ تھا کہ مریم نواز اپنی ایک پیٹیشن کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ گئیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کے جنرل فیض حمید کے حوالے سے دیے جانے والے بیان کا حوالہ دیا۔ دوپہر ایک بجے کیمروں کے سامنے نمودار ہوئیں اور جنرل فیض کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنی اور اپنے والد کی سزا کے حوالے سے موقف کا اظہار کیا اور اپنے برے وقت کا ذمے دار جنرل (ر) فیض حمید کو ٹھہرایا۔ اسی پریس کانفرنس میں جب ان سے جنرل باجوہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ جواب گول کر گئیں۔

ٹھیک 2 گھنٹے بعد ٹیلیویژن اسکرینوں پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کی خبر بریکنگ نیوز بن کر چمک رہی تھی۔ کیا یہ  محض ایک اتفاق تھا یا کوئی اشارہ تھا کہ جانے والا جا رہا ہے، توپوں کا رخ اس جانب کر کے اپنے کندھے اور بندوق کو اس کا کریڈٹ دے لیں۔

اس سارے کھیل میں جہاں پس پردہ طاقتور افراد کو منصوبہ ساز تصور کیا جاتا ہے وہیں پریس بھی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مریم نواز کی گفتگو اور فیض حمید کی تبدیلی کو نیوز چینلوں سے وابستہ نامور صحافی فہد حسین نے اگلے روز انگریزی جریدے میں اپنے کالم میں کچھ ایسے لکھا

" بدھ کو مریم نواز کی شعلہ انگیز پریس کانفرنس کا وقت بہترین تھا۔ اس پریس کانفرنس نے ایک پیغام بھیجا ہے۔ بہت واضح پیغام۔ یہ ایک جوا ہو سکتا ہے۔ اس جوے کے ثمرات اگلے 13 مہینوں میں کھلیں گے۔ کیا یہ منافع بخش ہو گا؟ اور کس کے لیے؟"

فہد حسین کے اس تبصرے اور اقتباس نے جہاں کچھ پرتیں کھولیں وہیں آنے والے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے بہت کچھ کی جانب اشارہ کر دیا۔ بادی النظر میں مسلم لیگ نون، خاص کر مریم انھی لائنوں پر بیانیے کا جوا کھیل رہی ہیں۔ 

مریم نواز کا بیانیہ اپنا ہے یا کوئی ڈوریاں ہلا رہا ہے؟

مسلم لیگ نون کا گوجرانوالا میں ہونے والا حالیہ جلسہ بھی بادی النظر میں کچھ ایسے ہی اشاروں سے بھرپور تھا۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے حوالے سے ٹرک کی آڈیو منظر عام پر آئی تھی اور مریم نواز اپنے جلسے میں ٹرک لہراتی دکھائی دی تھیں۔

اس کے بعد عدلیہ کے خلاف باضابطہ طور پر ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ ججوں کو مصلحتوں سے مجبور قرار دیا گیا۔ عدلیہ کو عمران خان کا اتحادی کہا گیا۔ اس کے بعد سے حالیہ سپریم کورٹ بینچ کے معاملے پر مسلم لیگ نون کی پوزیشن مریم نواز کے انٹرویوز اور بیانات میں پہلے سے ہی عیاں دکھائی پڑتی ہے۔

کیا یہ سب بھی محض اتفاق ہے یا کوئی ہے جو پس پشت ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ کیا مریم نواز آشیر ایک مکمل باد کے ساتھ مہرے کا کردار تو نہیں نبھا رہیں؟ کہیں ان کی زبان کو استعمال کر کے ریاست کے متوازی ستونوں کی چولیں ہلانا مقصود تو نہیں؟

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، یہ طرز سیاست نیا نہیں ہے۔ 2011 کے بعد سے عمران خان بھی اسی طرح کی سیاسی بیان بازی اور مطلوبہ نتائج حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب عمران خان روزانہ اپنی پریس کانفرنسوں میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن جیسے ناخداؤں کی لنکا ڈھایا کرتے تھے۔ ان کے بنائے گئے بیانیے کے سامنے کیا ادارہ، کیا اس کا سربراہ اور کیا سیاسی شخصیت، کوئی نہ ٹھہر پاتا۔

ہماری سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں، کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، مگر مریم نواز کا یک طرفہ طور پر یوں طاقتور ہونا شبہات کو تو جنم دیتا ہے۔ مریم نواز کیسے اتنی طاقتور ہو جاتی ہیں۔

ایسا کیا ہے کہ وہ ماضی میں آئی ایس آئی کے حاضر سروس ڈی جی کو نشانہ بناتی ہیں، آج کل حاضر سروس ججوں کو نشتر کی زد پر رکھا ہوا ہے۔ وہ اتنی طاقتور کیسے ہوجاتی ہیں کہ کوئی نوٹس نہیں ہوتا؟ کوئی پکڑ نہیں ہوتی؟

یہاں ایک امر قابل ذکر ہے کہ ، مریم نواز جہاں حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی کو نشانہ بناتیں وہیں اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کے متعلق سوال کو نظر انداز کر جاتیں۔ مارچ دو ہزار بائیس میں عمران حکومت کے خلاف لاہور سے اسلام آباد مارچ کے دوران گوجرانوال پڑاؤ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں جب مریم نواز سے میں نے جنرل باجوہ کے حوالے سے سوال کیا تو جواب دینے کے بجائے محترمہ اگلا سوال کہہ کر پریس کانفرنس سے اٹھ گئیں۔ بالکل ایسے ہی عمران خان حکومت سے انخلا کے بعد جنرل باجوہ سمیت اسیبلشمنٹ کے ہر فرد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر جنرل فیض حمید کے سوال پر وہ بھی جواب گول کر جاتے ہیں۔

کیا مریم نواز کا بیانیہ اور اس کے نتائج محض اتفاق ہیں؟ کیا وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی سب سے اہم “مہرہ“ تو نہیں بن چکیں؟ ایسا مہرہ جس سے بڑی بڑی مقدس گائے کو متنازعہ بنایا جائے، اور کچھ مضبوط ریاستی ستونوں کی چولیں ہلانا مقصود ہو۔

کٹھ پتلیوں کا رقص بہت خوبصورت ہوتا ہے، دیکھتے دیکھتے ناظر خود کو دیومالائی منظر نامے میں کھڑا محسوس کرتا ہے۔ مگر جونھی ڈوریوں پر نظر پرٹی ہے تو نظر رقص سے ذرا ہٹ کر ڈوریوں پر ٹھہر جاتی ہے۔  جس ہاتھ نے بھی “ مریم نواز “ کو بطور مہرہ میدان میں اتارنے کی بساط بچھائی ہے “ وہ“ نظر کے سامنے بھی ہے اور قدیم یونانیوں کے معبد میں لٹکے دبیز پردوں کے پیچھے موجود اوریکلز کی طرح پوشیدہ بھی۔

شیئر

جواب لکھیں