یہ 11 نومبر 1954 ہے، ایک شخص برقع پہن کر رکشے میں بیٹھتا ہے اور سندھ چیف کورٹ، میں داخل ہو جاتا ہے، جسے سندھ ہائی کورٹ کہتے ہیں۔ یہ شخص کوئی چور ڈاکو نہیں تھا، اسے تو بس انصاف چاہیے تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا اسے عدالت میں پیش ہی نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ اس کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی ہو رہی تھی۔ یہ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ اس بندے کا نام تھا مولوی تمیز الدین، جو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر تھے۔

سینیئر وکیل خواجہ نوید بتاتے ہیں:

Unfortunate دور جو تھا، وہ تھا ہماری جوڈیشری کا ہمارے لیے جسے بلیک دور کا نام دیا گیا ہے، وہ شروع ہوتا ہے مولوی تمیز الدین کیس سے۔ مولوی تمیز الدین کیس کیا تھا؟ کہ اس وقت گورنر جنرل تھے۔ غلام محمد اور ان کو جب پتہ چلا کہ اسمبلی ان کے خلاف no confidence کر رہی ہے تو ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ اسمبلی توڑ دیں۔ انہوں نے اسمبلی توڑ دی کہ نہ اسمبلی ہوگی اور نہ ہی no confidence کا ووٹ ہوگا۔ اس وقت قانون بھی تھا، جو اب بھی ہے کہ جب ایک دفعہ جب نو کانفیڈینس کا نوٹس آ جاتا ہے تو اس کے بعد اسمبلی نہیں ٹوٹتی، اس وقت مولوی تمیز الدین صاحب اسپیکر تھے۔ انہوں نے تب پٹیشن داخل کی سندھ ہائی کورٹ میں۔ تب اس وقت بھی حالات ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں، پٹیشنر کا عدالت میں آنا ناممکن تھا اور تب مولوی تمیز الدین صاحب برقع پہن کر ہائی کورٹ میں آئے اور وہاں انہوں نے برانچ میں پٹیشن درج کروائی اس طرح یہ پٹیشن کورٹ میں لگ گی۔

چیف کورٹ نے مولوی تمیز الدین مقدمے کی سماعت کی اور پھر گورنر جنرل غلام محمد کے حکم کو ناصرف کالعدم قرار دیا، بلکہ آئین ساز اسمبلی کو بھی بحال کر دیا۔ مگر راستہ نکالنے والے تو کہیں سے بھی راستہ نکال لیتے ہیں۔ پھر کیا تھا؟ گورنر جنرل غلام محمد فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلے جاتے ہیں۔

مولوی تمیز الدین کا مقدمہ ان کے وکیل ڈی ایم پرٹ کے ہاتھوں میں تھا اور غلام محمد کی وکالت سر آئیور جیننگز کر رہے تھے۔ آپ کو حیرت ہوگی گورنر جنرل نے وکیل کو جو فیس دی تھی، وہ اس وقت کے چیف جسٹس کی تنخواہ سے بھی سات گنا زیادہ تھی۔ دوسری طرف بیچارے مولوی تمیز الدین کے پاس وکیل کو دینے کے لیے بڑی رقم نہیں تھی، اس طرح ان کی وکالت کی آئی آئی چندریگر نے۔

خواجہ نوید مزید بتاتے ہیں:

اب حکومت نے اس آرڈر کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں داخل کی کیونکہ یہ ہائی کورٹ کا آرڈر تھا اور اس کی اپیل سپریم کورٹ جاتی ہے۔ وہاں جسٹس منیر صاحب تھے۔ انہوں نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد اس آرڈر جو ختم کر دیا اور گورنر غلام محمد کا آرڈر برقرار ہو گیا اور اسمبلی ٹوٹ گئی۔ وہاں سے حالات خراب ہونا شروع ہو گے اور وہاں سے جسٹس منیر صاحب کی تنقید اخباروں میں بھی ہوئی عوام میں بھی ہوئی وکلا نے بھی کی، وہ آج تک چل رہا ہے جب ہم طالب علم تھے ہم نے جسٹس منیر کی کتابیں بھی پڑھیں لیکن جب ان کا یہ ججمنٹ آیا تو ان کی ساری قابلیت وہ زیرو ہو گئی۔

اب ذرا پکچر کو تھوڑا کلیئر کرتے ہیں۔ یہ جو کہانی ہے اس کے تین کردار تھے، یہ ایسی معلومات ہے جو آپ کو اور مجھے بھی مطالعہ پاکستان میں نہیں پڑھائی گئی۔ تو مولوی تمیز الدین کو کھڈے لائن لگانے والے تین کردار تھے: گورنر جنرل غلام محمد، جسٹس محمد منیر اور جنرل ایوب خان۔ جب پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبد الرشید ریٹائر ہوئے تو سینیارٹی کے اعتبار سے بنگالی جج جسٹس اے ایس ایم اکرام کی تقرری کی تیاری ہوتی ہے۔ مگر اس تقرری پر گورنر جنرل غلام محمد اور جنرل ایوب خان بالکل خوش نہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ایوب اور جونیئر جج جسٹس منیر کا بڑا یارانہ تھا۔ دونوں کی ملاقاتیں بھی خوب تھیں بلکہ یہ مل کر شکار پر بھی جاتی تھیں۔ اور پھر ججز کو مینیج کیا جاتا ہے اور بنگالی جج اے ایس ایم اکرام کا راستہ روک کر جونیئر جج جسٹس منیر کو چیف جسٹس بنا دیا جاتا ہے۔ یوں گورنر جنرل غلام محمد، جنرل ایوب اور جسٹس منیر کی ٹرائیکا گویا اپنی کمپنی بنا لیتی ہے اور یہیں سے پاکستان کے مستقبل کا منظرنامہ طے پایا جاتا ہے اور "ملک کے وسیع تر مفاد میں" نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ وہی نظریہ، جس نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں۔

ملک کے قیام کے صرف نو سال بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج جسٹس منیر کہتے ہیں کہ پاکستان ایک آزاد ملک نہیں۔ برطانوی کراؤن کے نمائندے گورنر جنرل غلام محمد ہی سب کچھ ہیں۔ ان کے سامنے پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ اسمبلی سالوں کی مشقت کے بعد کوئی قانون بنا بھی دے تو بادشاہ کے نمائندے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھنک دے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور قانون دان حامد خان اپنی کتاب "کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان" میں لکھتے ہیں:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جسٹس منیر بطور جج قابلیت اور علمی اعتبار سے بہت آگے تھے، لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک ہوتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس تو اسمبلی کی تحلیل کے خلاف انصاف حاصل کرنے کا سیدھا سا مقدمہ تھا۔

غلام محمد کا قدم بالکل غیر قانونی تھا، جس کے بعد جسٹس منیر نے جو فیصلہ سنایا، اس کے نتائج بڑے سنگین ہوئے۔ اسمبلی بھی ٹوٹی اور ملک کے 46 قوانین بھی کالعدم ہو گئے۔ اس کی وجہ سے کارِ ریاست بُری طرح سے متاثر ہوئے اور ملک بڑے بحران میں چلا گیا۔

پھر صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ایک ہنگامی آرڈینینس جاری ہوتا ہے اور گورنر جنرل غیر معمولی اختیارات لے کر ملک کا مزید بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ حامد خان کہتے ہیں کہ اُس وقت بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس ساری کاروائی میں فوج کی تائید شامل تھی کیونکہ چیف جسٹس منیر کے فیصلہ کے بعد گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے جو کابینہ بنائی گئی، اس میں کمانڈر اِنچیف ایوب خان کو وزیر دفاع کا عہدہ دیا گیا۔

"نظریہ ضرورت" کی بنیاد تو خیر مولوی تمیز الدین کیس میں ہی رکھی جاچکی تھی مگر قانون کے کچھ ماہرین کہتے ہیں 1958 میں جسٹس منیر نے ایک اور فیصلہ کیا جس نے پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کی راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹ ڈالی۔ ڈوسو کیس میں تو یہ نظریہ ضرورت کھل کر سامنے آ گیا۔ لیکن یہ ڈوسو کیس کیا تھا؟ یہ وہ کیس تھا، جس نے اسکندر مرزا کے مارشل کو ناصرف ان ڈائریکٹ چیلنج دیا بلکہ بری طرح سے ایکسپوز بھی کر دیا۔ یہ پاکستان کا پہلا مارشل تھا جو 7 اکتوبر1958 کو لگا۔

پاکستانی کورٹ یا عدالت کا نظام اور ڈوسو کیس

پاکستان کا سب سے پہلا آئین 1956 میں بنا۔ اس کے بعد پہلا constitutional کیس یہی ’’ڈوسو کیس‘‘ تھا۔ یہ ڈوسو کسی انگریز کا نام نہیں، وہ بلوچستان کے ڈسٹرکٹ لورالئی کا ایک عام آدمی تھا، جس کے ہاتھوں 1958 میں ایک شخص کا قتل ہو جاتا ہے۔ لوگ اسے پکڑ کر جرگے میں لے جاتے ہیں، جو 1901 میں دیے گئے گورے کے قانون یعنی فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کے مطابق اسے موت کی سزا سنا دیتا ہے۔

‏1956 کے آئین سے پہلے یہ قبائلی علاقوں پر یہی قانون لاگو ہوتا تھا۔ آئین کیونکہ نیا نیا بنا تھا، مکمل implementation بھی نہیں ہوئی تھی، اس لیے قبائلی علاقوں میں یہی قانون چل رہا تھا۔ ایف سی آر قانون تھا بڑا سخت، اس میں متاثرہ آدمی کی بات زیادہ سنی جاتی تھی، دوسرے فریق کی نہیں۔

جب ڈوسو کے رشتہ داروں کو پتہ چلا کہ ملک میں تو آئین بن چکا ہے، تو انہوں نے اسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یوں یہ کیس آ گیا لاہور ہائی کورٹ میں۔ جو آرٹیکل 5 اور 7 کے مطابق ڈوسو کی سزا ختم کر دیتی ہے۔ لیکن پکچر ابھی باقی ہے!

اس فیصلے کے بعد ایک نیا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔ ایک نیا سوال جنم لیتا ہے کہ 56 کے آئین کے مطابق جرگوں نے جو بھی فیصلے سنائے، وہ سب غیر قانونی اور غلط ہو گئے۔ اب صورتحال بڑی نازک ہو چکی تھی۔ بات یہیں نہیں رکتی۔

فیڈرل گورنمنٹ سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ سپریم کورٹ ڈوسو کیس کی ہیئرنگ کے لیے 13 اکتوبر 1958 کو فیڈرل گورنمنٹ اور لاہور ہائی کورٹ کو طلب کرتی ہے۔ مگر 7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا ملک میں مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی 1956 کا آئین ختم ہو گیا۔

اب ملک ایک عبوری نظام کے چلایا جاتا ہے۔ اس سچویشن نے سپریم کورٹ کو بری طرح سے کنفیوز کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ڈوسو کیس کا فیصلہ 1956 کے آئین کے مطابق سنایا تھا۔ اب اگر سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تو 1956 کا مرا ہوا آئین زندہ ہو جاتا اور مارشل لا آٹو میٹک غلط ثابت ہو جاتا۔

اب سپریم کورٹ بند گلی میں ہے۔ ڈوسو کیس اس کے گلے کی ہڈی بن جاتا ہے مگر حل نکالنے والے حل نکال ہی لیتے ہیں، یہاں ایک بار پھر جسٹس منیر آ جاتے ہیں اور نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ اگر ڈوسو کیس 7 اکتوبر سے پہلے آ جاتا تو شاید جسٹس منیر اتنی بری طرح ایکپسوز نہ ہوتے۔

خیر، جسٹس منیر نے اس مارشل لا کو ایک انقلاب کا درجہ دیتے ہوئے legalize کر دیا۔ یوں سمجھ لیجیۓ ملک میں پہلے مارشل لا پر سپریم کورٹ کی طرف سے مہر ثبت ہو گئی۔

شیئر

جواب لکھیں