مارچ 1981 کی ایک صبح
اُسے آج پھر کام پر جانا تھا۔ لیکن پہلے دو دوستوں کو ایئرپورٹ بھی تو چھوڑنا تھا، اس لیے وہ گھر سے ہی تیاری کر کے نکلا، لنچ باکس بھی ساتھ لے لیا کہ ایئرپورٹ سے ہی کام پر چلا جائے گا۔ لیکن اُسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آج یہاں اِس شہر میں بلکہ ملک میں ہی اُس کا آخری دن ہے کیونکہ کچھ ہی دیر بعد وہ ہائی جیکر بننے والا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کی بدنام ترین ہائی جیکنگ کا ایک کردار بننے والا تھا۔
ایک ایسے ہائی جیک کی جو 13 دن تک چلا۔ یعنی اپنے زمانے کی سب سے طویل ہائی جیکنگ۔ یہ ایک نہیں، پورے تین ملکوں پر پھیلی ہوئی تھی، پاکستان سے افغانستان اور پھر شام تک۔
اس ہائی جیکنگ میں کوئی جان سے گیا تو کئی لوگوں کی جان بچ بھی گئی۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہائی جیک کرنے اور کروانے والوں کا انجام بہت برا ہوا اور جن لوگوں کو رہا کروایا گیا، ان میں سے زیادہ تر کی زندگی عذاب بن گئی۔ تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 326 کی کہانی۔ جس کی بنیاد اصل میں پڑی تھی تقریباً چار سال پہلے۔
ہائی جیکنگ کا پسِ منظر
یہ تین جولائی 1977 ہے۔ الیکشن کے بعد ملک میں سیاسی حالات بہت خراب ہیں۔ جنرل خالد محمود عارف پریشان ہیں اور اسی پریشانی میں وہ خفیہ طور پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرتے ہیں۔ اور انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ بھٹو کو مخلصانہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اپوزیشن سے فوراً مذاکرات کریں، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیر ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ بھٹو کوئی قدم اٹھاتے، پانچ جولائی 1977 کا وہ دن آ گیا۔ ایک ایسا دن جس نے سب کچھ بدل دیا۔ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اب آئین معطل تھا اور اسمبلیاں ختم۔ اور ملک پر راج تھا فردِ واحد کا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا۔ وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ لیکن بھٹو کی عوامی مقبولیت سے بہت خوف زدہ بھی تھے۔ اس لیے ضیا نے فیصلہ کر لیا۔ ستمبر 1977 میں بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایسا کہ پھر وہ کبھی نہیں چھوٹ پائے۔ اُن پر قتل کا مقدمہ چلا اور 4 اپریل 1979 کو سینٹرل جیل راولپنڈی میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔
ایک ایسا فیصلہ جس نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُس دن بچا کچھا پاکستان مزید ٹوٹ گیا۔ یہاں تک کہ خود بھٹو خاندان میں بھی پھوٹ پڑ گئی۔
مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے مسلح جدوجہد کے راستے پر چل پڑے اور بیٹی بے نظیر بھٹو نے democracy is the best revenge کا فلسفہ اپنا لیا اور سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ عوامی ردِ عمل کا خطرہ بہت زیادہ تھا۔ اسے دبانے کے لیے ضیا حکومت نے بڑی سخت پالیسی اپنائی۔ لوگوں کو سرِ عام سزائیں دی جاتیں، انہیں کوڑے مارے جاتے، جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر دی گئی، اخبارات پر سینسر شپ لگا دی گئی لیکن لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا اور بالآخر پھٹ پڑا۔ اس کی پہلی علامت بنی پی کے 326 کا اغوا۔ اس بد قسمت طیارے کی کہانی کراچی سے شروع ہوئی اور اُس کو اغوا کرنے والوں کی کہانی کا آغاز بھی اسی شہر سے ہوا۔
نقطۂ آغاز: کراچی
کراچی ہمیشہ سے حزبِ اختلاف کا شہر تھا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک سے لے کر آج تک، ہر حکومت کو ٹف ٹائم کراچی سے ہی ملتا ہے۔ اسی لیے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی یہاں کے حالات خراب ہونے ہی تھے اور ہوئے بھی۔ اور کراچی میں حالات خراب ہونے کی واضح ترین جھلک نظر آتی تھی جامعہ کراچی میں۔
یہاں آئے دن پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مختلف طلبہ تنظیموں سے جھگڑے ہونے لگے۔ نومبر 1980 میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک جیالے نے مخالف طلبہ تنظیم کا ایک بندہ قتل کر دیا۔ یہ بڑا واقعہ تھا اس لیے بھاگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اب وہ آگے آگے تھا اور پولیس پیچھے پیچھے۔ اسے افغانستان بھاگ جانے کا مشورہ دیا گیا۔ اور وہ اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے کابل پہنچ گیا۔ وہاں اُس کا انتظار کر رہے تھے میر مرتضیٰ بھٹو۔ وہ مرتضیٰ جو ہر قیمت پر اپنے باپ کے قتل کے بعد بدلہ لینا چاہتے تھے اور اس کے لیے ہر انتہا پر جانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کا پہلا پی آئی اے کا ایک طیارہ اغوا کرنا۔
ہائی جیکنگ مرتضیٰ کے خوابوں میں سے ایک خواب تھا۔ کم از کم اُن کے قریبی ساتھی تو یہی کہتے تھے۔ انہوں نے پہلی بار اپنا ہائی جیکنگ پلان پیش کیا تھا جولائی 1979 میں، یعنی بھٹو کی پھانسی کے صرف تین مہینے بعد۔ یہ پلان اُس وقت کے افغان انٹیلی جنس چیف اسد اللہ سروری کو دکھایا گیا تھا۔ منصوبہ تھا پی آئی اے کی استنبول سے آنے والی کسی فلائٹ کو اغوا کر کے کابل لانے کا۔ افغان چیف نے صاف انکار کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جہاز اغوا کر کے دمشق، بیروت یا طرابلس لے جائیں لیکن یہ کابل نہیں آنا چاہیے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ جلد ہی حکومت بھی بدل گئی اور انٹیلی جنس چیف بھی۔ تب مرتضیٰ نے نیا پلان نئے چیف نجیب اللہ کے سامنے رکھا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ جہاز افغانستان نہیں آنا چاہیے۔ جب ہائی جیکنگ پلان پر عمل درآمد شروع ہوا تب بھی ہدایت ایک ہی تھی:
جہاز افغانستان نہیں آنا چاہیے!
آخر مرتضیٰ ہائی جیک ہی کیوں کرنا چاہتا تھا؟ کیونکہ اُس زمانے میں ہائی جیکنگ کا بڑا چارم تھا۔ اگست 1969 میں فلسطین کی لیلیٰ خالد سے لے کر 1972 میں میونخ اولمپکس کے واقعے تک۔ ستر کی دہائی میں ہائی جیکنگ کے کئی ایسے واقعات پیش آئے، جن میں ہائی جیکرز اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں میڈیا اٹینشن بہت زیادہ ملتی تھی۔ اسی لیے مرتضیٰ ہائی جیکنگ کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان میں ہو کیا رہا ہے؟
لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد بڑا مشکل تھا۔ اس کے لیے مرتضیٰ کو کوئی چلتا پرزہ چاہیے تھا۔ اور وہ مل گیا!۔ وہی لڑکا جو کراچی سے بھاگ کر کابل پہنچا تھا، اس کام کے لیے پرفیکٹ تھا۔ ایک چنگاری، ایک شعلہ بلکہ ایک چلتا پھرتا بم، نام تھا: سلام اللہ ٹیپو!
مرتضیٰ بھٹو کی پیپلز لبریشن آرمی کا پہلا آرمی چیف۔ مرتضیٰ نے ٹیپو کے ساتھ جو پہلا پلان ڈسکس کیا وہ یہی تھا: ہائی جیکنگ پلان۔
ہائی جیکنگ کا پلان
پی آئی اے کا کوئی جہاز اغوا کرنے کا منصوبہ لے کر ٹیپو جنوری 1981 میں کراچی واپس آیا۔ پلان کے لیے فنڈز چاہیے تھے تو اس کے لیے کراچی میں کچھ ڈکیتیاں کیں اور ریکروٹمنٹ بھی کی۔ پہلا بندہ جو ٹیپو نے بھرتی کیا، وہ تھا کراچی یونیورسٹی کا ناصر جمال۔
ناصر کی کہانی ٹیپو سے کافی ملتی تھی۔ وہ فروری 1981 میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کا صدر بنا۔ لیکن اگلے ہی دن جامعہ کراچی میں ایک اور clash ہو گیا۔ اِس بار بھی فائرنگ ہوئی اور پھر مخالف طلبہ تنظیم کا ایک کارکن مارا گیا۔ چھ لوگوں پر قتل کا کیس بنا۔ ان میں ناصر بھی شامل تھا۔ اب اُس کا حال ٹیپو والا تھا۔ بھاگنے کے سوا اب کوئی راستہ نہیں تھا۔ اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، ناصر کو ٹیپو مل گیا۔ یوں وہ بھی ہائی جیکنگ پلان میں شامل ہو گیا۔ بلکہ یہ سمجھ لیں کہ ناصر کے پاس پاکستان سے بھاگنے کا دوسرا کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔
تیسرا ہائی جیکر تھا ارشد علی خان۔ جی ہاں! وہی اسٹیل مل کا ملازم۔ اُس کا سیاست سے کچھ خاص لینا دینا نہیں تھا۔ نہ ہی وہ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں تھا۔ وہ تو بس ٹیپو کا دوست تھا۔ ٹیپو جب افغانستان سے واپس آیا تھا تو ارشد کے گھر پر ٹھیرا تھا۔ اسی لیے ایئرپورٹ چھوڑنے کے لیے بھی ارشد ہی آیا تھا لیکن اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ صرف ایک دن اُس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔
اور ہائی جیک ہو گیا!
دو مارچ 1981، پی آئی اے کا ایک بوئنگ 720 طیارہ کراچی ایئرپورٹ پر پر کھڑا تھا۔ فلائٹ پی کے 326 کو آج کراچی سے پشاور جانا تھا۔ لیکن وہ دو گھنٹے لیٹ تھی۔ ایئرپورٹ سے باہر اسٹیل ملز کی ایک بس موجود تھی۔ اس میں سلام اللہ ٹیپو، باقی دونوں ہائی جیکرز اور چند دیگر ساتھی موجود تھے۔ یہیں پر ٹیپو نے پہلی بار ارشد کو بتایا کہ اصل میں ہمارا ارادہ جہاز ہائی جیک کرنے کا ہے۔ یہی نہیں، اس نے ارشد کو ساتھ دینے پر قائل بھی کر لیا۔
اب یہ تینوں کی قسمت تھی یا کچھ اور۔ اُس دن کراچی ایئرپورٹ کا بیگیج اینڈ پیسنجر ایکسرے یونٹ خراب تھا۔ یوں ہائی جیکرز کا تمام تر اسلحہ آسانی سے جہاز کے اندر پہنچ گیا۔ جہاز میں کُل 135 مسافر تھے۔ جن میں ایک تھے طارق رحیم، میجر طارق رحیم۔ وہ تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے ملازم تھے اور اپنے والد کی اچانک موت کی خبر سننے کے بعد وطن واپس پہنچے تھے۔ اب کراچی سے اپنے گھر پشاور جا رہے تھے۔ لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ آج پاکستان میں اُن کا آخری دن ہوگا بلکہ اُن کے قاتل کو بھی دوبارہ ملک دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہوگا۔
بہرحال، بوئنگ 720 دو گھنٹے کی تاخیر سے فضا میں بلند ہوا۔ ٹیپو نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ اب میرا کوڈ نیم عالمگیرہے، ناصر کا نام سراج اور ارشد کا خالد رکھا گیا۔ زیادہ دیر نہیں گزری، جہاز مطلوبہ بلندی تک پہنچ گیا اور اب اس کا رخ پشاور کی طرف تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا لیکن ٹیپو حرکت نہیں کر رہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا جہاز میں عام لباس میں کمانڈوز موجود ہیں اور ہائی جیکنگ کا اعلان ہوتے ہی اسے پکڑ لیا جائے گا۔ وہ کافی دیر تک گو مگو کی کیفیت میں رہا، یہاں تک کہ جہاز میانوالی کے اوپر پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ پشاور کی طرف اترنے والا تھا۔ اب وقت بالکل ختم ہو چکا تھا۔ ٹیپو کو جو کرنا تھا، فوراً کرنا تھا۔
اچانک وہ اٹھا اور سیدھا کاک پٹ میں گھس گیا۔ پائلٹ پر اور پستول تان کر کہا:
یہ جہاز اب میری کمانڈ میں ہے اور اگر کسی نے کوئی حرکت کی تو گولی مار دوں گا۔ اس جہاز کو سیدھا دمشق لے چلو۔
دمشق؟ جہاز تو کراچی سے پشاور تک کا فیول لے کر چلا تھا۔ وہ اتنا دُور کیسے جا سکتا تھا؟ یہی بات پائلٹ نے ٹیپو کو بتائی کہ جہاز میں اتنا فیول نہیں ہے کہ ہم اسے شام لے جا سکیں۔ لیکن ہائی جیکرز کے پاس وقت بالکل نہیں تھا۔ انہیں فوراً جہاز کو ملک سے باہر لے جانا تھا اور قریب ترین جگہ ایک ہی تھی: کابل۔
یعنی جس کام سے روکا گیا، وہی کام ہو گیا۔ جہاز اغوا ہو کر وہیں پہنچ گیا۔ جہاں لانے سے منع کیا گیا تھا۔ مسافروں کو تب پتہ چلا جب جہاز میں ٹیپو کی آواز گونجی:
میرا نام عالمگیر ہے۔ غور سے سنو! ہم کابل جا رہے ہیں۔ جو میں کہوں اس بات کو مانو گے تو کچھ نہیں ہوگا۔ ظلم کے خلاف جدوجہد میں تم سب ہمارے بھائی ہو۔
زیادہ دیر نہیں گزری اور جہاز کابل میں اتر گیا۔
رن وے پر لاش
پی آئی اے فلائٹ 326 کابل ایئرپورٹ کے ایک ویران گوشے میں کھڑی ہو گئی اور کچھ ہی دیر میں کنٹرول ٹاور کو ٹیپو کا پیغام ملا:
میرا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے مسلح وِنگ پیپلز لبریشن آرمی سے ہے، ہمارا مقصد ہے بھٹو کے خون کا بدلہ لینا اور پاکستان میں جمہوریت بحال کرنا، ہم تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کروانا چاہتے ہیں۔ میرا فوراً ڈاکٹر صلاح الدین سے رابطہ کروایا جائے۔
ڈاکٹر صلاح الدین، مرتضیٰ بھٹو کا کوڈ نیم تھا۔ اس کی اطلاع سب سے پہلے افغان انٹیلی جنس چیف نجیب اللہ کو دی گئی، جنہوں نے مرتضیٰ کو فون کر کے بتایا کہ ہائی جیکڈ طیارہ تو کابل آ چکا ہے۔ یہ سن کر مرتضیٰ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ اپنے افغان کنکشنز کو اس طرح ایکسپوز نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن اب بات مرتضیٰ کے چاہنے نہ چاہنے سے کہیں آگے نکل چکی تھی۔ ٹیپو جہاز لے کر کابل پہنچ چکا تھا۔ اب کسی کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔
رات ہوتی چلی گئی اور رات 10 بجے مرتضیٰ بھٹو، نجیب اللہ کے ساتھ ہائی جیکرز سے ملنے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ٹیپو کو جہاز سے باہر بلایا گیا۔ جہاں دُم کے نیچے مرتضیٰ اور نجیب نے ٹیپو سے ملاقات کی۔ ٹیپو نے کابل آنے کی وجہ بتائی کہ جہاز میں اتنا فیول ہی نہیں تھا، اس لیے مجبوراً کابل آنا پڑا۔ پھر جہاز میں موجود مسافروں کی تفصیلات بھی دیں اور بتایا کہ پانچ امریکی مسافر ہیں اور ایک پاکستانی ملٹری آفیسر بھی ہے۔ جی ہاں! میجر طارق رحیم۔ اُن کا نام سامنے آتے ہی مرتضیٰ نے کہا:
لگتا ہے ہم نے کوئی بڑی مچھلی پکڑ لی ہے!
مرتضیٰ، طارق رحیم کو ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل رحیم کا بیٹا سمجھا، جبکہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ تو طارق رحیم کون تھے؟ وہ اصل میں ذوالفقار علی بھٹو کے ADC یعنی ملٹری سیکریٹری رہ چکے تھے۔ سن 1974 میں بھٹو صاحب جب قبائلی علاقوں کے دورے پر گئے تھے تو طارق رحیم بھی اُن کے ساتھ تھے۔ ایک جگہ اچانک دھماکا ہو گیا تو طارق رحیم نے چھلانگ لگا کر بھٹو کو اُس کے امپیکٹ سے بچایا تھا۔ واقعے میں ایک سینیٹر کی جان گئی اور طارق رحیم خود بھی زخمی ہوئے لیکن بھٹو بچ گئے۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ ایک دن آئے گا، جب اپنی جان پر کھیل کر بھٹو کو بچانے والا بھٹو کے بیٹے کے حکم پر مار دیا جائے گا۔
جی ہاں! اغوا کے کچھ دن بعد 6 مارچ کو سلام اللہ ٹیپو نے طارق رحیم کو قتل کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس قتل کی اجازت مرتضیٰ بھٹو نے دی تھی۔ ٹیپو نے طارق رحیم کو تین گولیاں ماریں اور جہاز کا دروازہ کھول کر اُن کی لاش باہر پھینک دی۔ بھٹو کے خون کا بدلہ ایک معصوم کی جان لے کر لیا گیا۔
ہائی جیکرز کے مطالبات
ہائی جیکرز کے مطالبات کیا تھے؟ انہوں نے حکومتِ پاکستان نے 55 لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ خیر سگالی کے طور پر بچوں، خواتین اور بیماروں کو رہا کیا گیا لیکن ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ جب تک مطالبات نہیں مانے جائیں گے۔ ہم روزانہ ایک مسافر کو قتل کر دیں گے۔
یہ خطرناک دھمکی تھی لیکن حکومتِ پاکستان اتنی آسانی سے قیدی چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔ اس لیے ڈیڈ لائن ختم ہو گئی۔ اور کوئی قیدی رہا نہیں کیا گیا۔ تب ایک دن مزید بڑھایا گیا، لیکن پھر بھی کوئی مطالبہ نہیں مانا گیا۔ اب ٹینشن بڑھ رہی تھی۔ افغانستان پر دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اور مرتضیٰ پر بھی پریشر بڑھتا جا رہا تھا۔ اب انہیں کچھ نیا کرنا تھا۔ بالآخر جہاز کو شام کے دارالحکومت دمشق لے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
8 مارچ کی رات 10 بجے جہاز ایک بار پھر فضاؤں میں تھا۔ لیکن کھلی فضاؤں میں بھی آزاد نہیں تھا۔ اندھیروں کو چیرتے ہوئے اس جہاز کی اگلی منزل تھی شام کا دارالحکومت: دمشق۔ وہاں شامی انٹیلی جینس کا سربراہ محمد الخولی منتظر تھا۔ ایک ڈیڑھ ہوشیار انٹیلی جنس آفیسر۔ اگر وہ نہ ہوتا تو شاید یہ ہائی جیک کبھی اتنا کامیاب نہ ہوتا۔
جہاز شام پہنچ گیا
پی آئی اے فلائٹ 326 دمشق پہنچی اور ہائی جیکنگ ڈرامے میں ایک نیا موڑ آیا۔ محمد الخولی نے ٹیپو کو مشورہ دیا کہ پاکستانیوں کو مارنے کی دھمکیوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ مطالبات منوانے ہیں تو پہلے امریکی مسافر مارنے کی دھمکی دو۔ کہو کہ یہ امریکن سی آئی اے کے جاسوس ہیں، اس لیے ہم انہیں ایک، ایک کر کے مار دیں گے۔ اور یہ چال کام کر گئی!
امریکی پریشر میں آ کر پاکستان نے بالآخر قیدیوں کو رہائی کا فیصلہ کر لیا، لیکن ایک آخری کارڈ کھیلنے کے بعد۔ وہ یہ کہ ٹیپو کے والد اور ناصر جمال کے بھائی کو دمشق بھیجا گیا تاکہ وہ ہائی جیکرز سے مذاکرات کریں۔ ناصر نے تو اپنے بھائی سے ملنے سے صاف انکار کر دیا لیکن ٹیپو اپنے والد سے ضرور ملا۔ جہاز کے دروازے پر باپ نے بیٹے سے کہا کہ اب ختم کرو یہ سب، مسافروں کو آزاد کر دو۔ ٹیپو کا جواب حیرت انگیز تھا:
آپ کون؟ میں آپ کو نہیں جانتا۔ میرے باپ کا نام تو ذوالفقار علی بھٹو ہے اور ماں کا نام نصرت بھٹو۔ اور میری زندگی اب بھٹو خاندان کے نام ہے۔
آخری کوشش بھی ناکام ہو گئی اور بالآخر ڈیڈ لائن ختم ہونے سے صرف 20 منٹ پہلے حکومت پاکستان نے ہائی جیکرز کے مطالبات مان لیے۔ تمام قیدیوں کو رہا کر کے شام پہنچا دیا گیا۔ وہاں معاہدے کے مطابق قیدیوں اور ہائی جیکرز کو سیاسی پناہ مل گئی۔ یوں اپنے وقت کی طویل ترین ہائی جیکنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ جو تقریباً 13 دن چلی۔
بد قسمت جہاز ایک نئے عملے کے ساتھ واپس کراچی لایا گیا اور ریٹائر کر دیا گیا۔ رہا ہونے والے مسافر اور عملے کو حکومتِ پاکستان نے پہلے عمرے پر بھیجا، وہاں سے وہ 18 مارچ کو پاکستان پہنچے۔ دو مارچ کو کراچی سے نکلنے والے مسافر 16 دن بعد اپنی منزل پشاور پہنچے۔ جہاں استقبال کے لیے خود جنرل ضیاء الحق آئے ہوئے تھے۔
رہا کروائے گئے سیاسی قیدیوں کا کیا ہوا؟ مرتضیٰ بھٹو نے ان سے خطاب کیا اور کہا:
میں مرنے کے لیے تیار ہوں اور مارنے کے لیے بھی، جو میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے، میرے ساتھ کابل چلے۔
اور 22 اپریل 1981 کو 54 میں سے 25 لوگ بذریعہ دلّی کابل پہنچ گئے۔ اور یوں اُن کی زندگی کے ایک بھیانک دور کا آغاز ہو گیا۔ پاکستانی جیلوں میں رہتے تو شاید دو، تین سال میں آزادی مل جاتی لیکن ہائی جیکنگ سے ملنے والی ’’رہائی‘‘ نے انہیں سالوں کی جلا وطنی اور بے سر و سامانی دی۔ رہا ہونے والوں میں پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ہم لوگ ہائی جیکنگ کے ذریعے رہائی نہیں چاہتے تھے، لیکن ہمیں زبردستی ہتھکڑیاں لگا کر طیارے میں سوار کر دیا گیا تھا۔
بہرحال، اس کامیاب ہائی جیک کے دوران ایک نیا نام آیا: الذوالفقار
ایک نئی تنظیم، جس کا مقصد بھٹو کے خون کا بدلہ لینا تھا اور پاکستان میں جمہوریت بحال کرنا تھا۔ تب مرتضیٰ نے ٹیپو کو ’’بھٹو شہید میڈل‘‘ بھی دیا، سمجھیں یہ الذوالفقار کا نشانِ حیدر تھا۔ لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا، ٹیپو کو اپنی اندھی وفاداری پر اگلا تمغہ بھی مل گیا۔ سینے پر گولی کی صورت میں!
ہائی جیکرز کا انجام
مرتضیٰ کا مزاج ذرا مختلف تھا۔ جو بھی کارنامہ ہو، وہ پورا کریڈٹ خود لینا چاہتا تھا لیکن ٹیپو مشہور ہو چکا تھا، اس لیے مرتضیٰ نے اسے منظر سے ہٹانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ ٹیپو جس کے سر پر حکومتِ پاکستان نے بڑا انعام رکھا ہوا تھا، کابل کی سڑکوں پر آوارہ پھرتا نظر آتا۔ نہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا گھر تھا اور نہ ہی گاڑی۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد ٹیپو یہ لائف deserve نہیں کرتا تھا۔ اس کی frustration بڑھ رہی تھی اور مرتضیٰ نے اِسے بغاوت سمجھ لیا۔
دسمبر 1981 میں مرتضیٰ نے ٹیپو کو مارنے کا حکم دے دیا۔ بڑی مشکل سے اس کی سزا کم کروائی گئی اور کم سزا یہ تھی کہ ٹیپو کو لیبیا بھیج دیا جائے۔ تب مارچ 1982 میں سلام اللہ ٹیپو لیبیا پہنچا اور یہاں اسے ایک بہت خطرناک مشن پر بھیجا گیا۔ ایک ایسے مشن پر جو کامیاب ہو جاتا تو شاید آج دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔
یہ منصوبہ تھا فروری 1983 میں ضیاء الحق کو قتل کرنے کا، وہ بھی انڈیا میں۔ مشن کے لیے جو چار لوگ سلیکٹ ہوئے تھے۔ ان میں سے تین دبئی میں پکڑے گئے، لیکن ٹیپو کسی طرح نکل کر اکیلا دلّی پہنچ گیا۔ یہاں وہ حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر ضیاء الحق کو نشانہ بنانا چاہتا تھا لیکن وہ انتظار کرتا ہی رہ گیا۔ کیونکہ اس کارروائی کے لیے اسے اسلحہ نہیں پہنچایا گیا۔ اسلحہ پہنچانے کی ذمہ داری تھی کابل میں موجود مرتضیٰ کے قریبی دوست پرویز شنواری کی۔ یوں پرویز کی وجہ سے ٹیپو اپنے مشن میں ناکام ہو گیا۔
پلان کی ناکامی کے بعد ٹیپو غصے سے پاگل ہو گیا۔ 12 مارچ 1983 کو کابل پہنچا اور کچھ دن بعد پرویز شنواری کو قتل کر دیا۔ افغان انٹیلی جنس نے 20 مارچ کو ٹیپو اور ناصر جمال کو گرفتار کیا لیکن کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس لیے انہیں چھوڑ دیا گیا لیکن اب افغان ٹیپو سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ کیونکہ اب مرتضیٰ بھی کابل میں نہیں تھے، وہ کہیں دُور شام میں تھے۔ اس لیے افغان حکام نے دلّی کا ایئر ٹکٹ دے کر ٹیپو سے کہا کہ یہاں سے چلا جائے اور انڈیا جا کر نئی زندگی شروع کرے۔ لیکن ٹیپو کسی کے اشارے پر چلنے والی چیز ہی نہیں تھا۔ اس نے انڈیا جانے سے صاف انکار کر دیا۔
تب 28 اگست 1983 کو افغان انٹیلی جنس نے ٹیپو کو گھر سے اٹھایا اور دلّی کی پرواز میں بٹھانے کے لیے ایئرپورٹ پہنچا دیا، جہاں اس نے بڑا ہنگامہ کھڑا کیا۔ ایئر انڈیا کے کاؤنٹر پر جا کر چلّانے لگا:
میں مشہور ہائی جیکر عالمگیر ہوں، کوئی ایئر لائن جان بوجھ کر کسی ہائی جیکر کو اپنی پرواز میں نہیں بٹھائے گی۔ اس لیے ایئر انڈیا میری سیٹ کینسل کرے۔ اگر زبردستی کی تو میں نئی دلی میں پریس کانفرنس کروں گا اور دنیا کو بتاؤں گا کہ اس ہائی جیکنگ میں نجیب اللہ اور مرتضیٰ کا کیا کردار تھا؟
یہ حرکت کر کے ٹیپو نے سب حدیں پار کر لی تھیں۔ اب اسے ٹھکانے لگانا ضروری تھی۔ چھ ستمبر 1983 کو رات گئے پانچ افغان کمانڈوز اُس کے گھر میں داخل ہوئے اور گرفتار کر کے کابل کی بدنامِ زمانہ جیل پلِ چرخی پہنچا دیا۔ اس پر پرویز شنواری کے قتل کا کیس چلایا گیا اور سزائے موت سنا دی گئی۔ پھر ایک دن فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مرتے وقت ٹیپو کی عمر صرف 28 سال تھی۔ ایک سرپھرا، جذباتی کارکن اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن ناصر جمال اور ارشد علی کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ لیبیا گئے اور ہمیشہ کے لیے گمنام ہو گئے۔ آج تک نہیں پتہ کہ وہ دونوں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟
البتہ اس ہائی جیک میں ساتھ دینے والے ناصر بلوچ، ایوب کباڑیا اور سیف اللہ خالد پاکستان میں گرفتار ہوئے۔ ناصر کو 1984 میں سزائے موت دے دی گئی جبکہ ایوب اور سیف اللہ کو 14، 14 سال قید کی سزا ہوئی۔
ظالم پرندہ
پی آئی اے کے اغوا ہونے والے جہاز کا رجسٹریشن تھا AP-AZP۔ رواج کے مطابق رجسٹریشن آخری دو حروف جہاز کے اگلے حصے پر لکھے جاتے تھے۔ اس لیے اس جہاز پر لکھا ہوتا تھا: ZP اور پی آئی اے میں اس کا نک نیم تھا: "ظالم پرندہ" لیکن اس اغوا کے بعد اس ظالم پرندے کے پر کاٹ دیے گئے۔ ZP کو ریٹائر کر دیا گیا۔ کچھ سال تک یہ کلفٹن فن لینڈ میں بھی رکھا گیا لیکن بعد میں اسکریپ میں بیچ دیا گیا۔
ویسے جہاز کی ایک ایئر ہوسٹس کو 1985 میں فلائٹ سیفٹی فاؤنڈیشن نے ’’ہیرو ازم ایوارڈ‘‘ بھی دیا۔ نائلہ نذیر کی عمر صرف 19 سال تھی اور انہیں ایئر ہوسٹس بنے ہوئے صرف دو مہینے ہوئے تھے۔ لیکن اس ہائی جیک کے دوران انہوں نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔ دمشق میں انہیں ہائی جیکرز نے رہا کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے جانے سے انکار کر دیا اور آخر تک جہاز میں ہی رہیں۔
مرتضیٰ بھٹو کا خاندان آج بھی یہ بات نہیں مانتا کہ یہ ہائی جیکنگ الذوالفقار کا کارنامہ تھی۔ بلکہ کہتے ہیں کہ ہائی جیک فوجی حکومت کا ڈراما تھا اور سلام اللہ ٹیپو اُن کا ایجنٹ تھا۔
مرتضیٰ بھٹو کی صاحب زادی فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ یہ سب پیپلز پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا۔ ہائی جیکرز ضیا کے ایجنٹ تھے۔ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کیا کیونکہ اس سے سارا نقصان پیپلز پارٹی کا ہوا اور ضیاء الحق کا اقتدار اور مضبوط ہو گیا۔ فاطمہ بھٹو کی معلومات کا ذریعہ اُن کے والد کے قریبی ترین دوست سہیل سیٹھی ہیں لیکن مرتضیٰ بھٹو کے دوسرے قریبی ساتھی راجہ محمد انور اور خواجہ آصف جاوید یہی کہتے ہیں کہ یہ کام الذوالفقار کا ہی تھا اور پلان مرتضیٰ بھٹو نے بنایا تھا۔
حقیقت کیا ہے؟ شاید کبھی پتہ نہ چلے۔ لیکن اس پورے واقعے سے یہ حقیقت ضرور سامنے آ گئی کہ لیڈر اور کارکنوں کی نفسیات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سیاست دان ہر قیمت پر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو، اور اس مقصد کے حصول کے لیے کارکنوں کا استعمال کرتے ہیں اور کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ لیکن لیڈرز کی ایک ریڈ لائن ہوتی ہے۔ جو اِس لائن کو کراس کرے گا، اُس کی زندگی تباہ کر دی جائے گی۔ پھر چاہے وہ سلام اللہ ٹیپو، ناصر جمال یا ارشد علی خان!