اپریل 1985 کا زمانہ تھا۔ بشری زیدی کی موت کے بعد کراچی مہاجر پٹھان فسادات کی اگ میں جل رہا تھا۔ دو ماہ پہلے ہونے والے انتخابات کے بعد ملک میں اب کسی حد تک جمہوریت تو اچکی تھی لیکن امن کے لیے کراچی والوں کی نظریں اب بھی جونیجو نہیں، ضیاء الحق کی طرف ہی اٹھ رہی تھیں۔

لیکن جنرل کے دماغ پر ان دنوں ایک اور پریشانی سوار تھی۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ضیا کی چھوٹی صاحبزادی زین نے کچھ دن پہلے 1971 کی سپر ہٹ بالی وڈ فلم ہاتھی میرے ساتھی دیکھ لی تھی۔ بس اس دن سے زین کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی۔

’’ابو مجھے بھی ہاتھی چاہیے!‘‘

پھر ایک دن وہ اسکول کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ جنرل ضیا ان کے کمرے میں آئے، آنکھوں پر پٹی باندھی اور ہاتھ پکڑ کر باہر پریذیڈنٹ ہاؤس کے لان میں لے آئے۔ پھر انہوں نے زین کا ہاتھ کسی کھردری چیز پر رکھا۔ ہاتھ لگتے ہی زین گھبرا گئی اور اپنی آنکھوں سے پٹی اتار دی۔ آنکھیں کھولیں تو ان کے سامنے ایک ہاتھی کا بچہ کھڑا تھا۔

زین کی تو عید ہو گئی۔ فوراً دوسری فرمائش کر دی۔ ابو کیا ہم اسے اپنے گھر پر رکھ سکتے ہیں؟

جنرل ضیا نے کہا، ’’بیٹی ایوان صدر ہاتھیوں کی جگہ نہیں یہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رہے گا اور وہاں تم جب چاہو اس کے ساتھ کھیل سکتی ہو۔ ‘‘

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ کہانی ختم ہو گئی۔ مگر پکچر ابھی باقی ہے میرے ساتھی۔ یہ ہاتھی کوئی عام ہاتھی نہیں تھا۔ یہ ہاتھی بڑا ہوا کر ’’کاوَن‘‘ کے نام سے جانا گیا۔ وہی ’’کاوَن‘‘ جس کے رنڈاپے کے دکھ نے ساری دنیا کے میڈیا کو پریشان کر دیا۔ وہی ’’کاوَن‘‘ جسے لے جانے کے لیے مشہور امریکی گلوکارہ شر پاکستان چلی آئیں۔

وہ کہتے ہیں نا سائیں تو سائیں، سائیں کا ہاتھی بھی سائیں!

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں مسئلہ کیا ہے، باپ تو بیٹیوں کو گفٹ دیتے ہی رہتے ہیں۔ ہم اور آپ گڑیا اور کھلونے گفٹ کرتے ہیں وہ آرمی چیف تھے انہوں نے اپنے حساب سے محبت کا اظہار کیا۔ بالکل ٹھیک بات ہے!

اصل مسئلہ ہاتھی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب پریذیڈنٹ ہاؤس میں کھلے عام بالی وڈ فلمیں دیکھی جا رہی تھیں اور شتروگن سنھا جیسے انڈین ہیروز کو سرکاری مہمان بنایا جا رہا تھا، عین اسی وقت مرد مومن مرد حق ضیاء الحق عام پاکستانیوں اور میڈیا پر نفاذ شریعت کے نام پر سخت ترین پابندیاں نافذ کر رہے تھے۔

ضیا پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا اور دلچسپ کردار ہے۔ لیکن افسوس کے ایک عام پاکستانی جو آج تک ضیا کے پاکستان میں جی رہا ہے وہ انہیں جانتا تک نہیں۔ ضیا کی کہانی میں اتنے ٹوسٹ اور ٹرنز ہیں کہ خود ہمارا دماغ بھی چکرا گیا۔ ہم نے تو پوری کوشش کی ہے کہ آپ کو سمجھا سکیں کہ ضیا کون تھا؟ لیکن آپ سے بھی ایک درخواست ہے کہ اس تحریر کو کھلے اور فریش دماغ کے ساتھ پڑھیں، ورنہ ضیا کو سمجھ نہیں پائیں گے اور اگر آپ کو سمجھ نہیں آیا تو پھر ہمیں مزا نہیں آئے گا۔

تو چلیے مرد مومن مرد حق ضیاء الحق سے ملتے ہیں!

1975 کا دور تھا۔ رات کے دس بج چکے رہے تھے۔ بھٹو کا آج بہت ہی مصروف دن گزرا تھا انہوں نے آرام کے لیے اپنے کمرے میں جانے سے پہلے ایک آخری سگریٹ سلگائی اور ٹہلتے ہوئے ریسٹ ہاؤس کے صحن میں آ گئے۔ صحن کے بیچوں بیچ ایک فوجی انتہائی الرٹ پوزیشن میں کھڑا ڈیوٹی دے رہا تھا۔ بھٹو اس کے پاس گئے اور پوچھا، ’’جوان! ڈو یو سموک؟‘‘

فوجی نے زور سے بوٹ زمین پر مارا اور سیلوٹ کرتے ہوئے جواب دیا نو سر۔ لیکن جب بھٹو نے اس فوجی کا چہرہ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ کیوں کہ ان کے سامنے کوئی عام فوجی نہیں بلکہ کور کمانڈر ملتان لیفٹننٹ جنرل ضیاء الحق کھڑا تھا۔

بھٹو نے سوال کیا، ’’جنرل! آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘

تو ضیاء الحق نے جواب دیا، ’’سر! میں خود ذاتی طور پر آپ کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو۔‘‘

کہتے ہیں ضیا کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ بھٹو نے اسی رات کر لیا تھا۔

محمد ضیاء الحق کا تعارف

12 اگست کو دہلی کے آرمی ہیڈ کوارٹر کے کلرک اکبر علی کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام انہوں نے ضیاء الحق رکھا۔ اکبر علی کو ان کے مذہبی رجحانات کی وجہ سے مولوی اکبر علی بھی پکارا جاتا تھا۔ ضیا سمیت اکبر علی کے چھ بچے تھے۔ ضیا کی اسکولنگ تو سملہ میں ہوئی لیکن پھر اپنے والد کے پاس دہلی چلے گئے اور وہیں کے مشہور سینٹ اسٹیفن کولج سے گریجویشن کیا۔

ضیا کو سینٹ اسٹیفن کالج سے بہت لگاؤ تھا۔ سابق بھارتی سفیر نٹور سنگھ ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔

ضیا کا فوجی کیریر 1945 میں دوسری جنگ عظیم سے شروع ہوا۔ تقسیم کے بعد ضیا انڈیا سے آنے والی مہاجروں کی آخری ٹرین میں سوار ہو کر پاکستان آ گئے۔ جنرل ضیا کے قریبی ساتھی جنرل چشتی لکھتے ضیا سے ان کی پہلی ملاقات 1966 میں ہوئی اور لیفٹیننٹ کرنل ضیا نے انہیں کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا۔ اسی لیے جب 1974 میں ضیا کو لیفٹیننٹ جنرل بنایا گیا تو چشتی نے انہیں مبارک باد تو دی مگر ساتھ ہی ایک چروکا بھی لگا دیا کہا، ’’اس عہدے پر بہت ذمہ داری ہوتی ہے، ذرا سنبھل کر چلنا۔‘‘ حاضر جوابی میں تو ضیا کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا فوراً جواب دیا، ’’جی مرشد، میں محتاط رہوں گا۔‘‘ لیکن شاید آپ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ 1976 میں آرمی چیف کے عہدے تک پہنچنے والا ضیا چھ سال پہلے فوج سے فارغ ہوتے ہوتے بچے تھے۔

27 ستمبر 1970

جنرل نوازش دوڑے دوڑے آرمی چیف جنرل یحیی خان کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں، ان کی سانس پھولی ہوئی ہے اور ان کے ہاتھ میں ایک فائل ہے جسے وہ جنرل یحیی کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’سر! میرے خیال سے ضیاء الحق کے کورٹ مارشل کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔‘‘ ’’کورٹ مارشل؟ لیکن کیوں؟‘‘ جنرل یحیی نے سوال کیا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ان دنوں ضیا اپنی ٹریننگ کے سلسلے میں اردن گئے ہوئے تھے۔ وہاں پی ایل او اور شاہ حسین کی حکومت کے درمیان سیاسی کشمکش اب ایک فوجی بغاوت میں بدل چکی تھی۔ ستمبر کے آغاز میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے چار کمرشل پروازوں کے اغوا کے بعد شاہ حسین نے بالآخر 16 ستمبر کو مارشل لا نافذ کیا اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے مرکز پر فوجی چڑھائی کر دی۔ بتایا جاتا ہے کہ جی ایچ کیو سے اجازت نہ ہونے کے باوجود ضیا نے شاہ حسین کے حکم پر فلسطینیوں کے خلاف اس کارروائی میں نہ صرف بھرپور حصہ لیا۔ بلکہ اس بریگیڈ کی کمانڈ بھی کی جس نے پانچ ہزار سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کو شہید کیا گیا۔

ضیا کی اس ’’پرفارمنس‘‘ سے شاہ حسین بہت خوش ہوئے لیکن جی ایچ کیو میں کھلبلی مچ گئی۔ شدید دباؤ کے باوجود جنرل یحیی نے جنرل گل حسن کی سفارش پر ضیا کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اوریوں ضیا کورٹ مارشل سے بچنے میں کامیاب ہو گئے۔

خیر واپس 1976 میں چلتے ہیں۔

وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا۔ جنرل ٹکا خان نے مشاورت کے بعد سینیئر افسران کی ایک لسٹ وزیر اعظم ہاؤس بھجوا دی۔ مگر جب آرمی چیف کے لیے ضیا کے نام کا اعلان ہوا تو سب حیران رہ گئے۔ کیوں کہ بھٹو کو بھیجی گئی لسٹ میں جنرل ضیا کا نام ہی نہیں تھا۔

جنرل چشتی لکھتے ہیں کہ وہ بھی حیران تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ امپریسڈ بھی کہ کیسے ضیا جیسا ایک انتہائی ان امپریسو شخص آرمی چیف کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ڈونٹ فکس سمتھنگ انٹل اٹس بروکن، ضیا کا بھی یہی حال تھا۔ جس پالیسی پر چلتے ہوئے وہ آرمی چیف بنے تھے اسی پالیسی کو انہوں نے آرمی چیف بننے کے بعد بھی جاری رکھا۔ لیکن مظہر عباس بتاتے ہیں کہ آرمی چیف کے عہدے تک پہنچنے میں صرف چاپلوسی ہی ان کے کام نہیں آئی۔

لیکن ضیا کی وفاداریاں صرف اردن کے شاہ تک محدود نہیں تھی۔ جنرل چشتی اپنی کتاب Betrayals of Another Kind میں بتاتے ہیں کہ مارشل لا سے پہلے جب بھی بھٹو پنڈی اتے تو ضیا میک شیور کرتے کہ ماتحت افسران اور ان کے خاندان ان کا استقبال کرنے کے لیے سڑکوں پر کھڑے نظر آئیں، ایک بار جب کسی افسر نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ضیا کو اتنا غصہ آیا کہ اسے فوج سے نکالنے کی دھمکی تک دے دی۔

Zia Ousts Bhutto

انیس سو ستتر کا سال تھا۔ بے تحاشہ اختیارات اور طاقت نے بھٹو کو ایک ایسا بدمست ہاتھی بنادیا تھا جو اپنے راستے کی ہر چیز کو روندتا جا رہا تھا۔ چاہے وہ عوامی رائے ہی کیوں نہ ہو۔

انتخابات ہوئے اور دھاندلی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 8 فروری کی دھاندلی تو یاد ہے نا؟ بس سمجھیں کم و بیش اتنی ہی دھاندلی بھٹو نے انیس سو ستتر کے انتخابات میں کر ڈالی۔

ملک میں انارکی پھیل گئی۔ خفیہ ہاتھ حرکت میں آئے اور کیا دائیں، کیا بائیں، کیا مذہبی، کیا لسانی، ساری جماعتیں یکایک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئیں۔ بالکل PDM کی طرح، لیکن مقبولیت کے گھوڑے پر سوار بھٹو زمین پر آنے کو تیار نہ تھے۔ اور پھر5 جولائی کو وہ خفیہ ہاتھ سامنے آ گئے۔ بھٹو کے کمرے کے باہر پہرہ دینے والے ضیا نے بھٹو کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ لیکن یہ فیصلہ ضیا کے لیے آسان نہیں تھا۔ وہ بھٹو سے شدید خوفزدہ تھے اسی لیے انہوں نے بغاوت سے دو ہفتے پہلے ہی اپنی ساری فیملی کو لندن بھیج دیا۔

قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے۔ ضیا اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے اس غیر قانونی فوجی بغاوت کا نام کیا رکھا، ’’آپریشن فیئر پلے‘‘۔

آپ کے لیے بہت مشکل ہوگا لیکن پھر بھی ذرا ایک منٹ کے لیے تصور کیجیے، آپ آرمی چیف ہوں اور اپنے سب سے بہترین جرنیل کو ایک خطرناک مشن پر بھیج رہے ہوں، تو آپ اس سے آخری بات کیا کہیں گے؟ ہاں؟ کوئی چھوٹا سا موٹی ویشنل لیکچر دیں گے؟ یا پھر دعائیں؟ یا پھر بس ایک آخری سیلوٹ کے ساتھ گڈ لک کہ کر روانہ کر دیں گے؟

لیکن مارشل لا کوئی میرے اور آپ کے جیسے لوگ تھوڑی لگاتے ہیں، ذرا ضیا کی حرکتیں دیکھیے۔

پانچ جولائی 1977 کی رات جب ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے فوجی بغاوت کا آغاز ہونے والا تھا، تو جنرل ضیاء الحق نے اپنے سب سے قریبی ساتھی کمانڈر ٹین کورلیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی کو اپنے قریب بلایا۔ ایک کونے میں لے گئے اور پھر ان کے کان میں آہستہ سے گھبرائی ہوئی اواز میں سرگوشی کی، ’’مرشد، مروا نہ دینا‘‘۔

یاد رکھیں کہ یہ وہی مرشد ہیں جنہوں نے ضیا کو جرنیلی ملنے پر احتیاط کا مشورہ دیا تھا، لیکن ضیا اب اس مرشد کا باس بننے کے بعد بھی اسے مرشد ہی پکار رہے ہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ یہ ضیا کا پسندیدہ طریقہ واردات تھا۔ چاپلوسی کر کے اپنے سے نیچے اور کم طاقتور شخص کو یہ احساس دلانا کہ ان کے بغیر تو ضیا کچھ بھی نہیں۔

ضیاء الحق کی پہلی تقریر سن کر ایک قصہ یاد آ گیا۔

بد معاشوں کے خاندان میں کسی کی موت ہو گئی۔ اب جو ڈاکٹر گھر آ کر موت کی تصدیق کرتا بد معاش اس کی خوب ٹھکائی کرتے۔ آخر محلے کے سارے ڈاکٹرز ختم ہو گئے تو پھر ایک حکیم صاحب کو بلایا گیا۔ حکیم صاحب نے باڈی کا معائنہ شروع کر دیا۔ کبھی ہاتھ اٹھا کر نبض چیک کرتے، تو کبھی آنکھیں کھول کر پتلیوں پر غور کرتے۔ کبھی سینے سے کان لگا کر دھڑکن سننے کی کوشش کرتے۔ بہت دیر چیک آپ کے بعد وہ کھڑے ہوئے اور کہا، ’’جناب الحمدللہ باقی سب بالکل ٹھیک ہے، بس تھوڑی سی جان نکل گئی۔‘‘ یہ کہا پیسے پکڑے اور خود بھی نکل گئے۔

لیکن آئین کی منسوخی کا با ضابطہ اعلان نہ کرنے کی ایک قانونی وجہ بھی تھی اور وہ تھا 73 کے آئین کا آرٹیکل سکس جس میں کسی بھی غیر جمہوری عمل سے ایک منتخب صدر اور وزیر اعظم کی برطرفی پر سخت ترین سزائیں موجود تھیں۔


مارشل لا کے ابتدائی دنوں میں ضیا کافی گھبرائے ہوئے نظر آئے۔ ان کے ایکشنز میں کسی ربط یا پلاننگ کی شدید کمی نظر آ رہی تھی۔ انہوں نے اقتدار حاصل تو کر لیا تھا لیکن ملٹری کونسل کے ذریعے سارے ملک کے معاملات چلانے میں کافی مشکل ہو رہی تھی۔

دوسری طرف مری کے گیسٹ ہاؤس میں نظر بند بھٹو بھی ان کے اعصاب پر سوار تھے۔ شجاع نواز اپنی کتاب ’’کروسڈ سورڈز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بھٹو انتہائی شاطر انسان تھے وہ ضیا کی یہ گھبراہٹ بھانپ چکے تھے، اسی لیے ایک میٹنگ کے دوران ضیا کی ٹینشن کم کرنے کے لیے انہوں ضیا کو ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ قائدِ عوام نے ڈکٹیٹر ضیا کو یہ آفر تک کر دی کہ ذرا حالات نارمل ہو جائیں تو وہ اور ضیا مل کر بھی پاکستان چلا سکتے ہیں۔

بھٹو کی ’’ٹِرک‘‘ کام کر گئی۔ ضیا نے تئیس دن بعد بھٹو کی نظر بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ رہائی کسی ڈیل کے تحت ہوئی یا نہیں، اس کا اندازہ آپ باہر نکلنے کے بعد بھٹو کے پہلے بیان سے لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مارشل لا ملکی مسائل کا حل نہیں اور یہ کہ انہیں سیاست سے زیادہ پاکستان کے مستقبل کی فکر ہے۔

نہ کوئی مذمت نہ ضیا کا نام۔ لیکن پھر چند دنوں بعد جیسے ہی بھٹو نے عوامی رسپانس دیکھا تو ان کے تیور بدل گئے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے جلسے یاد ہیں نا؟ بھٹو نے بھی ویسے ہی جلسے کرنے شروع کر دیے۔ جہاں جاتے وہاں ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے۔ عوامی جوش و خروش نے بھٹو کی ہمت بڑھا دی۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں فوج اور ضیا کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

بھٹو کے پاس عوام تھی لیکن جنرل ضیا کے پاس ڈنڈا، معاف کیجیے گا سرکار۔ بیورو کریسی کو حکم ہوا کچھ بھی کر کے بھٹو کے خلاف کوئی کیس بنایا جائے اور پھر ایک کیس سامنے آ گیا۔

چار ستمبر کو بھٹو پھر گرفتار ہو گئے۔ بھٹو تو اندر تھے مگر ان کے بہت سے دوست پاکستان سے باہر بیٹھے تھے۔ اور ضیا جانتے تھے کہ بھٹو کے خلاف کسی بھی کارروائی پر اسلامی ممالک سے شدید ری-ایکشن آ سکتا ہے۔ اور اسی ری-ایکشن سے نمٹنے کے لیے ضیا نے خود کو سفارتی محاذ پر ایکٹو کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے سعودی عرب اور پھر تہران پہنچ گئے جہاں کے شاہ ان دنوں خود خمینی کی مقبولیت سے شدید پریشان تھے۔ شاید ضیا ان کے پاس یہی سوچ کر گئے ہوں گے کہ خوب گزرے گی جب مل بیٹھے گے دیوانے دو۔ اور لگتا یوں ہے کہ شاہ ایران سے ضیا کو کچھ زیادہ ہی شہ مل گئی۔ اسی لیے انہوں نے 18 ستمبر کو تہران میں بیٹھے بیٹھے ہی ایک انتہائی جارحانہ بیان داغ دیا:

یہ آئین وائین کچھ نہیں ہے، یہ تو بس کاغز کے کچھ ٹکڑے ہیں۔ میری مرضی میں اسے پھاڑ کر پھینک دوں اور کل ایک نیا سسٹم لے آؤں۔ مجھے کون روک سکتا ہے۔ پاکستان میں وہی ہوگا جو میں کہوں گا۔ بھٹو سمیت سارے سیاستدانوں کو دم ہلاتے ہوئے میری بات ماننی ہوگی۔

لیکن لاہور ہائی کورٹ کے بہادر جج خواجہ صمدانی نے بھٹو کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ضیا نے پنجاب کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل اقبال کو فون کیا اور سوال کیا کہ یہ بھٹو باہر کیسے آ گیا؟ اسے فوراً دوبارہ گرفتار کرو۔ جنرل اقبال نے جواب دیا کہ سر! بھٹو پر اس وقت کوئی کیس ہے ہی نہیں تو گرفتار کس بات پر کروں۔ اس قانونی اور اصولی جواب کو سن کر آپریشن فیئر پلے کے خالق کا دماغ گھوم گیا اور جنرل اقبال کو حکم دیا کہ میں کچھ نہیں جانتا، مجھے بھٹو ملتان والے جلسے سے پہلے سلاخوں کے پیچھے چاہیے۔ لیکن یہاں بھی جنرل اقبال کی شرافت کو داد دینی پڑے گی۔ جنہوں نے اس ارڈر پر بھی عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اگے چل کر مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کو گورنرز کے عہدے پر پروموٹ کیا گیا تو جنرل اقبال کا نام لسٹ سے نکال دیا گیا۔

خیر ملتان کا جلسہ ہوا، بھٹو واپس سندھ آ گئے، 16 ستمبر کی فجر کا وقت تھا۔ بھٹو لاڑکانہ کے المرتضی ہاؤس میں سو رہے تھے جب فوجی گاڑیوں نے ان کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ پاک فوج کے بہادر کمانڈوز دیواریں پھلانگ کر ایک سابق وزیرِ اعظم کے گھر میں داخل ہو گئے۔ اور پھر بھٹو کو ان کے بیڈ روم سے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔

کمانڈوز بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ وہ آپریشن تو نہیں، جس کی تیاری انہوں نے ساری زندگی کی تھی۔ لیکن پھر ارڈر از ان ارڈر اینڈ اٹ مسٹ بی او بیڈ۔ خیر سندھ کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے وہ کام کر دیا جو پنجاب کے جنرل اقبال نہ کرسکے۔

گرفتاری کے بعد جنرل ضیا نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے پاس بھٹو کی کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور الیکشنز میں دھاندلی کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔ ان کی بنیاد پر ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کچھ سنا سنا لگ رہا ہے نا؟ خیر، آگے بڑھتے ہیں۔

وکیل چھوڑو، جج کرنے والی مثال تو آپ نے سنی ہی ہوگی؟ چلیں اب اس کا اوریجنل قصہ بھی سن لیں۔

20 ستمبر کو مارشل لا کے نفاذ اور بھٹو کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں بیگم نصرت بھٹو نے ایک پٹیشن فائل کی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت شروع بھی ہو گئی لیکن اس بار ضیا تیار تھے۔ سماعت کے دوران ہی سپریم کورٹ کے سٹنگ چیف جسٹس یعقوب علی خان کو ہٹاکر جسٹس انوار الحق کو نیا چیف جسٹس لگا دیا اور اس کے ساتھ ہی پانچ جولائی کو شروع ہونے والا ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ ستمبر کے آخر میں مکمل ہو گیا۔

اب ضیا کے راستے کی تمام رکاوٹیں صاف تھیں۔ جسٹس انوار الحق پاکستان کی بربادی کی کہانی کے ایک ایسے ان-سنگ ہیرو ہیں جنہوں نے آمریت کے لیے جسٹس منیر سے کہیں زیادہ خدمات پیش کیں لیکن نہ جانے کیوں ٹاک شوز میں ان کا کوئی نام تک نہیں لیتا۔ ایسی ناقدری دیکھ کر یقیناً ان کی روح کو سخت تکلیف پہنچتی ہوگی۔ ہم نے سوچا کیوں نہ پینتالیس سال بعد رفتار پر مرحوم کا ذکر زندہ کیا جائے۔

تو 77 کے مارشل لا کو قانونی کپڑے پہنا کر جسٹس انوار الحق نے ضیا کی خدمت میں پہلا تحفہ تو وہی پیش کیا جو جسٹس منیر نے ایوب کو پیش کیا تھا۔ لیکن آمر کی خدمت میں ان کا یہ دوسرا نذرانہ اپنی مثال آپ ہے اور اللہ کرے کہ تا قیامت یہ اعزاز صرف انہی کے پاس رہے۔

24 مارچ 1978 کو لاہور ہائ کورٹ بھٹو کو موت کی سزا سناتی ہے۔ سپریم کورٹ میں اپیل ہوتی ہے۔ تقریباً 11 ماہ کیس چلنے کے بعد 2 فروری 1979 کا دن آتا ہے۔ سب کی نظریں ملک کی سب سے بڑی عدالت پر ہیں۔ اور پھر وہ ججز جو کچھ دن پہلے ہی جنرل ضیا کو آئین اور قانون کے قتل پر بے گناہ قرار دے کر با عزت بری کر چکے تھے۔ ملک کے سب سے پاپولر لیڈر کو ایک انتہائی کمزور اور بھونڈے کیس میں موت کی سزا سنا دیتے ہیں۔

لیکن یہ فیصلہ کسی بھی طرف جا سکتا تھا۔ وہ ایسے کہ تین ججز کا خیال تھا کہ بھٹو بے قصور ہے جبکہ تین ججز کا خیال تھا کہ بھٹو قتل کا ذمہ دار ہے۔ بینچ تین، تین سے برابر بٹا ہوا تھا لیکن پھر یہاں بھی چیف جسٹس انوار الحق نے ایک انتہائی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اپنا وزن قانون کے بجائے ضیا کے پلڑے میں ڈال دیا۔ انصاف ہو گیا۔ بھٹو کو پھانسی گھاٹ بھیج دیا گیا۔

اگلے چند مہینوں میں مختلف بیرونی حکومتوں کی جانب سے کم و بیش تیس رحم کی اپیلیں ضیا سرکار کو بھیجی گئیں لیکن اس وقت ایک کہاوت مشہور ہو چکی تھی کہ قبر ایک ہے اور امیدوار دو۔ ضیا کے پاس فوج تھی، بھٹو کے پاس عوام۔ 8 سال بعد ایک بار پھر ڈکٹیٹر اور عوام آمنے سامنے تھے لیکن اس بار عوام ہار گئے۔

قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے 9 سال بعد 1988 میں ضیا کو قبر تو ملی مگر اس قبر کو ضیا کی لاش نہ ملی۔ خیر واپس 1979 میں چلتے ہیں یکم اپریل کو ضیا نے PETITION IS REJECTED کے الفاظ لکھتے ہوئے رحم کی اپیل مسترد کر دی۔

4 اپریل کی صبح ایک بجے بھٹو کو ان کے سیل سے اسٹریچر پر ڈال کر پھانسی گھاٹ لے جایا گیا۔ اس حالت میں بھی بھٹو کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ انہیں سہارے دے کر پھانسی گھاٹ میں کھڑا کیا گیا۔ ہاتھ اگے سے کھول کر پیچھے کی طرف باندھ دیے گئے۔ ایسے میں بھٹو نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ کرنل رفیع ان کے قریب گئے تو بھٹو نے ہتھکڑیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا، ’’یہ مجھے تکلیف دے رہی ہیں۔‘‘ پھر تارا مسیح نے بھٹو کے چہرے پر کالا کپڑا ڈالا اور لیور کھینچ لیا۔ کروڑوں عوام کے لیڈر کی لاش بہت دیر تک پھانسی کے پھندے سے لٹکتی رہی۔ اور یوں بھٹو زندہ ہو گیا۔

مگر ضیا کے لیے صرف یہی کافی نہیں تھا۔ حکم ہوا کہ پھانسی کے بعد بھٹو کی ختنہ تک چیک کی جائے۔

THE YEAR WHEN EVERYTHING HAPPENED

کہا جاتا ہے کہ کچھ سال ایسے ہوتے ہیں جن میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ 1979 بھی ایسا ہی سال تھا۔ مارچ 1979 میں بھٹو کی پھانسی سے چند دن پہلے ضیاء نے انتہائی غیر متوقع طور پر پاکستان کے جوہری طاقت ہونے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا:

پاکستان کے پاس بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ آپ آج یہ لکھ کر رکھ سکتے ہیں کہ پاکستان جب چاہے بم بنا سکتا ہے۔ ایک بار جب آپ کے پاس وہ ٹیکنالوجی آ جائے جو پاکستان کے پاس ہے، تو آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

اس اعلان کے بعد دنیا میں کھلبلی مچ گئی۔ اس بم کو اسلامک بم بھی قرار دیا جانے لگا۔ نئی دہلی میں بھارتی حکومت پر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا اور واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان پر پابندیاں لگانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ چند ہی ہفتوں میں امریکی حکومت نے پاکستان کو ملنے والی تمام ملٹری اور معاشی امداد بند کرنے کا اعلان کر دیا۔

لیکن بظاہر کول اینڈ کام نظر آنے والے ضیا شاید اس طرح کے امریکی رد عمل کے لیے تیار نہیں تھے۔ 22 ستمبر کو بھٹو کی پھانسی کے پانچ ماہ بعد جنرل نے ایک اور انٹرویو دیا اور اس بار ان کا انداز بالکل مختلف تھا۔ انہوں نے یو-ٹرن لے لیا۔ اعلان کر دیا کہ پاکستان نہ تو بم بنا رہا ہے اور نہ اس پوزیشن میں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔ امریکیوں کے پاس کہوٹا پراجیکٹ کی مکمل انفارمیشن پہنچ چکی تھی اور وہ جنرل ضیا کے کسی بیان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھے مگر پھر روس افغانستان میں داخل ہو گیا اور ساری امریکی پالیسیاں راتوں رات بدل گئیں۔

اس پر بہت تفصیل سے بات کریں گے لیکن اس سے پہلے کچھ ذکر اس سال ہونے والے ایک اور تاریخی واقعے کا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ شیر سے پہلے نواز شریف کا انتخابی نشان سائیکل تھا؟ وہ تو مشرف بغاوت کے بعد چوہدری برادران اس سائیکل کو چرا کر ق لیگ میں لے گئے ورنہ اسلامی جمہوری اتحاد والی حکومت سے لے کر دو تہائی والی ستانوے حکومت تک نواز شریف کا انتخابی نشان ہمیشہ سے سائیکل ہی تھا۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سائیکل آئی کہاں سے تھی؟ چلیں بتاتے ہیں آپ کو۔

21 نومبر 1979 کی صبح پاکستانیوں کی آنکھ حرمین شریفین سے آنے والی ہولناک خبر سن کر کھلی، ایک گروہ نے جس کی قیادت جوہیمان العتیبی کر رہا تھا۔ مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا تھا اس گروہ کا دعویٰ تھا کہ ان کا ایک رکن، محمد عبد اللہ القحطانی، امام مہدی ہے اور اب ملک میں قائم مغرب نواز بادشاہت کو مزید چلنے نہیں دیا جا سکتا۔

اس صورت حال کو دیکھ کر مسلم ممالک میں پہلے ہی شدید بے چینی تھی اور پھر جنرل ضیا کے اس سارے واقعے میں امریکی انوولومنٹ کے بیان نے اس بے چینی کو ایک ٹارگٹ فراہم کر دیا جمعیت کارکنان کی قیادت میں سینکڑوں مشتعل مظاہرین ’’اللہ اکبر‘‘ اور ‘‘ضیاء الحق زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے امریکی ایمبیسی اسلام آباد پہنچ گئے۔ وہاں موجود سیکیورٹی گارڈز کو بھگایا، دیواریں پھلانگیں اور بیت اللہ پر قبضے کے جواب میں امریکی ایمبیسی کو اگ لگا دی۔ اس واقعے میں دو امریکی ملازمین سمیت چار افراد اپنی جان سے گئے۔

فوجی حکومت میں آرمی بیس سے چند کلومیٹر دور امریکی ایمبیسی جل کر راکھ ہو رہی تھی سو کے قریب ملازمین اس جلتی عمارت میں محصور تھے مگر سات گھنٹے تک کوئی سیکیورٹی فورس ان کی مدد کو نہیں آئی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت راولپنڈی اسلام آباد کا سارا سیکیورٹی سیٹ آپ کس اہم کام میں مصروف تھا؟؟؟ دل تھام کے پڑھیے۔

مارشل لا کے شروع کے دن تھے اور ہر ڈکٹیٹر کی طرح ضیا بھی اپنے پبلک امیج کو بہتر بنانے کے لیے بے چین تھے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ کیوں نہ ایک عوامی جرنیل کا تاثر قائم کرنے کے لیے آپ اپنے گھر سے آفس کا آدھا کلومیٹر کا سفر سہراب سائیکل پر کریں۔ ضیا کو مشورہ پسند آ گیا، پھر کیا تھا۔ ہر صبح ضیا سائیکل چلاتے ہوئے اپنے گھر سے نکلتے اور آفس پہنچ جاتے۔

سائیکل پلان کی ابتدائی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ضیا نے اس کا دائرہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اور راجا بازار بھی سائیکل پر ہی جانا شروع کر دیا۔ مگر راجا بازار ذرا دور تھا تو اس ڈرامے میں حقیقت کا رنگ ڈالنے کے لیے ان کے ساتھ سادہ لباس میں موجود درجنوں سیکیورٹی اہلکاروں بھی عام شہری بن کر سائکلنگ کرتے نظر اتے۔

21 نومبر کو بھی سارا سیکیورٹی نظام اپنے سائکلنگ آرمی چیف کی حفاظت پر معمور تھا جب جنرل کا آمنا سامنا فوارہ چوک پر مظاہرین کے ایک گروپ سے ہوا۔ اب یہ آمنا سامنا ہو گیا یا کروایا گیا یہ تو ضیا اور اللہ ہی جانتا ہے لیکن اس ہی انٹریکشن میں ضیا نے امریکا پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور پھر جو ہوا وہ ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں۔

لیکن اب سب سے مزے کی بات جانیے۔ دن کا آغاز تو امریکیوں پر الزام لگا کر ہوا مگر اختتام کیسے ہوا؟

شام چار بجے کے قریب جنرل جنرل ضیا حرکت میں آئیے سارے ایمبیسی اسٹاف کو ریسکیو کروایا اور پھر جس ایمبیسی پر خود حملہ کروایا، اسے حکومتی فنڈ سے ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر خرچ کر کے دوبارہ بنوانے کا اعلان بھی کر دیا۔ اور تو اور اس اعلان پر امریکی صدر کارٹر سے شاباشی اور داد بھی وصول کی۔

اب سمجھ آیا سیاست میں سائیکل کہاں سے آئی تھی؟ ویسے یہ سائیکل آج بھی اسی گھر میں کھڑی ہے جہاں سے 1979 میں آئی تھی۔

ضیا اور امریکا

بھٹو سے ناراض امریکیوں کے لیے ضیا کی آمد بھی کوئی خاص اچھی خبر نہیں تھی۔ پاکستان کے اسلامی نیوکلیر پروگرام سے پریشان امریکی اپریل 1979 میں پاکستان کی تمام معاشی اور ملٹری امداد بھی بند کر چکے تھے لیکن پھر اسی سال دسمبر میں روس افغانستان میں داخل ہو گیا۔ اور اچانک اسلامسٹ ملٹری ڈکٹیٹر ضیاء الحق امریکیوں کو اچھے لگنے لگے۔ امریکی صدر کارٹر نے ضیا کو فون ملایا اور کہا جنرل لیٹ بائی گونز بی بائی گونز! جو ہوا سو ہوا چلیں اب دوستی کر لیتے ہیں۔ یہ لو چالیس کروڑ ڈالر اور ذرا افغانستان میں ہماری مدد کرو! مگر ضیا کے جواب نے امریکی صدر کو حیران کر دیا۔ ضیا کا جواب تھا، ’’Absolutely NOT‘‘۔

یہ کہانی کا پہلا حصہ تھا۔ اگلے حصے میں ہم آپ کو بتائیں گے:

  • آئی ایس آئی کو کیوں دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہونے کی شہرت ملی؟
  • کراچی کو کس طرح اگ اور خون کے سمندر میں دھکیلا گیا؟
  • سیدھے سادھے جونیجو نے کیسے ضیا کو ناکوں چنے چبوائے؟
  • اور ضیا کس شخصیت کے لیے ہاتھ میں لوٹا اور تولیہ لے کر ان کے کمرے کے باہر کھڑے ہو گئے تھے؟

ضیا پر ہونے والے ناکام حملوں سے لے کر ان کی موت تک کی ساری کہانی ہم بتائیں گے اگلے حصے میں۔

شیئر

جواب لکھیں