رحمت اللعالمین ﷺ کو غصہ بہت کم آیا کرتا تھا۔ مگر آج، چہرہ مبارک غصے سے لال ہو رہا تھا۔ ان کے سامنے کوئی اور نہیں، بلکہ ان کے اپنے منہ بولے پوتے کھڑے تھے۔ اسامہؓ تڑپتے ہوئے یہ خواہش کر رہے تھے کہ کاش! وہ آج ہی مسلمان ہو جاتے۔ کم از کم اس ڈانٹ سے، اس گناہ سے تو بچ جاتے۔
وہ آج حضور ﷺ کے سامنے سر جھکائے اپنی ایک غلطی کا اعتراف کرنے کھڑے تھے۔ غلطی ایک ہی تھی، مگر تھی بہت خوفناک۔ ایک مسلمان کا قتل۔ حضور ﷺ نے پوچھا، کیا تمہارے قتل سے پہلے اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا؟ اسامہؓ بولے یا رسول اللہؐ، اُس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا۔ اب حضور ﷺ کی آواز جیسے صحابیِ رسول کا سینہ چیرتی ہوئی گزر گئی، ”کیا تم نے اُس کا سینہ کھول کر دیکھا تھا کہ اس نے اسلام دل سے قبول کیا یا نہیں؟‘‘
سرور دو عالم ﷺ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ کوئی مسلمان کیسے کسی دوسرے مسلمان کے ایمان پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ اور پھر کیسے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا قتل کر سکتا ہے۔ حضور اکرم تو وہ ہستی تھے جو اپنے امتیوں کے لیے اشک بہاتے، ان کی سلامتی کے لیے رب سے التجائیں کرتے۔ تو پھر ساڑھے چودہ سو برس بعد آج اُن کا نام قتل و غارت کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
نفرت کی داستان
لاہور سے 40 کلومیٹر دور، اٹانوالہ کے چھوٹے سے گاؤں میں سورج طلوع ہو رہا ہے۔ روزانہ کی طرح آج بھی آسیہ بی بی اپنے شوہر اور بچوں کو ناشتا دے کر باقی خواتین کے ساتھ کھیت میں کام کرنے پہنچ چکی ہے۔ جون کا مہینہ ہے اور ساری عورتیں تپتی دھوپ میں کام کر کے تنگ آ چکی ہیں۔ شدید پیاس لگ رہی ہے۔ آسیہ بی بی ایک جگ اٹھاتی ہے اور کنویں کا رخ کرتی ہے۔ جگ بھر کے وہ باقی خواتین کے پاس لے جاتی ہے اور رستے میں دو گھونٹ پانی خود بھی پی لیتی ہے۔ آسیہ یہ بھول گئی کہ اس کا تعلق کرسچن کمیونٹی سے ہے۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ یہ دو گھونٹ، اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوں گے۔
اس کو پانی پیتا دیکھ کر دوسری عورتوں کا خون کھول جاتا ہے۔ تم ناپاک ہو! تم کیسے ہمارے برتن سے پانی پی سکتی ہو؟ یہ سن کر آسیہ بی بی کو بھی غصہ آ جاتا ہے اور وہ جواب میں چبھتے ہوئے بول کہہ دیتی ہے۔ یہاں معاملہ ختم ہو جاتا ہے اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دن ڈھلنے کے ساتھ وہ بد مزگی بھی بھلائی جا چکی ہے۔ لیکن پھر پانچ دن بعد، آسیہ بی بی کے گھر کے باہر ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔
ڈر کے مارے آسیہ بی بی گھر سے نکلنے کی ہمت نہیں کرتی۔ اچانک پولیس گھر میں داخل ہوتی ہے اور آسیہ بی بی کو گھسیٹ کر ساتھ لے جاتی ہے۔ اسے دیکھتے ہی سارے لوگ آسیہ بی بی پر دھاوا بول دیتے ہیں، خوب پٹائی کرتے ہیں۔ بے بس آسیہ لاتوں اور مکوں کے اس طوفان میں چیختی رہتی ہے۔ ’’بتاؤ تو صحیح میرا جرم کیا ہے؟‘‘ لیکن کوئی جواب نہیں دیتا۔ دل کی بھڑاس نکال کر لوگ جانے لگتے ہیں تو یہ بات سن کر آسیہ ہکا بکا رہ جاتی ہے کہ اسے توہین رسالت کے جرم میں آرٹیکل 295 سی کے تحت گرفتار کیا جا رہا ہے۔
مگر یہ سیکشن 295 سی ہے کیا؟
آخر یہ قانون وجود میں کیسے آیا؟
اس قانون کو آئین کا حصہ کس نے بنایا؟
جولائی انیس سو ستتر، بھٹو کو راستے سے ہٹا کر، ضیاء الحق ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ بھٹو کے اندر لیفٹسٹ رجحان پایا جاتا تھا تو ضیاء شدید کنزرویٹو ویوز رکھتے تھے۔ مارشل لا لگنے کے بعد ضیاء الحق نے اسلامی پالیسیز آئین کا حصہ بنانا شروع کر دیں۔ ان میں سے ایک تھی سیکشن 295 سی، ’’دی بلاسفیمی لا‘‘۔
اس قانون کے تحت اگر کوئی بھی شخص خاتم النبیین ﷺ کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پاس کرتا ہے تو اسے سزائے موت دی جائے گی۔ ملک کی 77 سالہ تاریخ میں بہت لوگوں نے اس قانون کا غلط فائدہ اٹھایا ہے جن کا ذکر آپ آگے سنتے جائیں گے۔ چلیں اب آسیہ بی بی کیس کی طرف واپس چلتے ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ سال مقدمہ چلنے کے بعد نومبر 2010 میں آسیہ بی بی کو سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ وہ لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کرتی ہے لیکن وہاں بھی فیصلہ اس کے خلاف آتا ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں۔ دوسری طرف آسیہ کا شوہر عاشق ایک با اثر شخص کے پاس جاتا ہے۔ پیروں سے لپٹ کر التجائیں کرتا ہے کہ خدارا میری بیوی کو بچا لیں۔
وہ شخص کافی دیر تک گہری سوچ میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ذہن میں ضمیر اور سیاست کی کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ آسیہ بی بی کی مدد ضرور کرے گا۔ آخر کون تھا یہ شخص جس نے ایک خاتون کے لیے سب سے لڑنے کا فیصلہ کیا؟ کون تھا وہ جس نے ایک عورت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی؟ یہ تھے پاکستان پیپلز پارٹی کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر۔
تاثیر صاحب ایک پریس کانفرنس میں وعدہ کرتے ہیں کہ جوڈیشیل پراسس میں ٹانگ اڑائے بغیر وہ صدر سے آسیہ بی بی کو معاف کروائیں گے۔ تاثیر صاحب ایک جذباتی آدمی تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے صدارتی معافی کی بات قبل از وقت تھی۔ نیوز چینلز پر کچھ انٹرویوز میں تاثیر صاحب نے اس قانون کو ’’کالا قانون‘‘ کہہ دیا۔ اس بیان کو لبرل طبقے نے ویلکم کیا مگر بہت سے پاکستانیوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ انہی میں ایک سلمان تاثیر کا اپنا باڈی گارڈ بھی تھا اور اس نے اپنے دل میں لگی آگ کو سلمان تاثیر کے خون سے بجھانے کا فیصلہ کر لیا۔
سلمان تاثیر اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں چہل قدمی کرتے ہوئے فون پر باتیں کر رہے تھے۔ دارالحکومت کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے بیٹے کا حال پوچھ رہے تھے۔ بیٹا محبت بھرے انداز میں ابا کو چھیڑتا ہے، ’’میں نے نیوز میں دیکھا کہ آپ کی کولیشن گورمنٹ ٹوٹ گئی ہے۔ کیا آپ بےروزگار ہونے والے ہیں؟‘‘ سلمان تاثیر ہنس پڑے اور فون رکھ دیا۔ فون رکھتے ہی وہ ایک کیفے میں داخل ہوئے۔
آج سلمان بہت خوش تھے۔ وہ طویل عرصے کے بچھڑے ایک دوست سے ملنے کیفے آئے تھے۔ سلمان نے لنچ کیا اور بل ادا کر کے باہر جانے لگے۔ جیسے ہی وہ دروازے سے نکلے، گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ کسی کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ فائرنگ رکی تو سب نے دیکھا کہ سلمان تاثیر خون میں لت پت زمین پر پڑے ہیں۔ فوراً ایمبولینس بلائی گئی لیکن وہ موقع پر ہی دم توڑ چکے تھے۔ آخر قتل کیا کس نے؟ قاتل کی کہانی ہم آپ کو تھوڑی دیر میں سنائیں گے۔ ابھی ذرا چلتے ہیں روشنیوں کے شہر کراچی کی طرف۔
اس گھر کو آگ لگ گئی
یہ ستمبر 2012 کا مہینہ تھا۔ دنیا بھر کے مسلمان یوٹیوب پر ایک توہین آمیز فلم کو لے کر غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ مظاہرے ہو رہے تھے۔ حکومتوں پر امریکیوں اور یوٹیوب کے خلاف کچھ کرنے کا شدید دباؤ تھا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ویڈیو ڈیلیٹ سے صاف انکار کر دیا تھا۔
انہی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پی پی پی حکومت 21 ستمبر کو ایک آفیشل ‘‘ڈے آف پروٹیسٹ‘‘ منانے کا اعلان کرتی ہے۔ اور اس دن کا نام رکھا جاتا ہے یومِ عشقِ رسول۔ لیکن اس دن پاکستان میں رسول کے امتیوں نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی زندگیوں اور املاک کے ساتھ جو کیا وہ خود کسی توہین سے کم نہیں تھا۔
اس روز دنیا بھر کی طرح کراچی میں بھی ہزاروں مظاہرین نے امریکی قونصل خانے میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی۔ سیکیورٹی فورسز نے پش بیک کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کی تو 2 افراد جان بحق ہو گئے۔ اور پھر ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا۔ پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ جب سورج غروب ہوا تو 31 مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے۔
یومِ عشقِ رسول، یومِ قتلِ امتِ رسول بن گیا تھا۔ سینماز، دکانیں، گھر، جس کے سامنے جو آیا سب جلا دیا۔ بس سمجھیں 27 دسمبر 2007 کا ایکشن ری پلے ہو رہا تھا۔ کراچی اور پشاور میں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ مگر مذہب کے نام پر اس قسم کے ہولناک جرم کوئی پہلی بار نہیں ہوئے۔ آئیے چلتے ہیں پری انڈیپنڈنس بنگال کی طرف۔
برطانوی راج کے ظلم و ستم نے ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کی آگ لگا دی تھی۔ اب پورے ہندوستان کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا، ’’آزادی‘‘۔ اسی دوران 1946 میں مسلمانوں کی الگ ریاست کی ڈیمانڈ برٹش کابینہ نے ریجیکٹ کر دی۔ قائد اعظم اس پر شدید ناراض ہوتے ہیں اور کانگریس کے صدر کو ایک آخری وارننگ دیتے ہیں۔ ”ہمیں یا تو ایک تقسیم شدہ ہندوستان ملے گا یا ایک تباہ شدہ ہندوستان“۔
کانگریس اس بات کو خاطر میں نہیں لائی اور یوں مسلم لیگ کی طرف سے احتجاج کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں۔ اور پھر 16 اگست کو، کلکتہ میں مسلم لیگ قیادت کی طرف سے جوشیلی تقریریں کی جاتی ہیں۔ مذہبی جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ احتجاج دنگے فساد کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر تو ظلم و بربریت کا ایک بازار گرم ہو جاتا ہے۔
پہلے ہی روز 4000 لوگ مارے جاتے ہیں۔ ان گنت خواتین کی عزتیں پامال ہوتی ہیں اور یہ پاگل پن ناردن انڈیا اور بہار کے کچھ حصوں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر کانگریس گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور جناح کے مطالبات قبول کر لیے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ کی ڈیمانڈز تو مان لی گئیں مگر اس کی قیمت تھی ہزاروں ہندوؤں کی جان۔
مطالبے منوانے کے لیے مذہب کو ویپنائز کرنا تو ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔ ممتاز قادری کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ بھی ریلیجیس ایکسٹریمزم کی بھینٹ چڑھ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ممتاز قادری کا کام تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی حفاظت کرنا تھا۔ مگر اسی محافظ نے حملہ آور بن کر 27 گولیاں سینے میں اتار دیں۔ عدالت میں بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور سلمان تاثیر کو توہین کا مرتکب قرار دیا۔ مگر بلاسفیمی کی کوئی ایویڈنس کورٹ کے پاس موجود نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ممتاز قادری کو سزائے موت سنادی گئی۔
تمام رائٹ ونگ پارٹیز آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر سلمان تاثیر سے بہت ناراض تھیں اور جب ان کو قتل کیا گیا تو عوام کے ایک بڑے حصے نے جشن منایا۔ جب ممتاز قادری پہلی بار ہیئرنگ کے لیے کورٹ آتے ہیں تو کئی لوگ ان پر پھول پھینکتے ہیں۔
آخر 2016 میں قادری کو پھانسی دی جاتی ہے اور اس کا شدید رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس جج نے ممتاز قادری کو سزا سنائی اسے دھمکیوں کی وجہ سے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ کراچی سے لے کر اسلام آباد تک بھرپور احتجاج ہوا۔ آپ حیران ہوں گے کہ ممتاز قادری کی یاد میں ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی۔ یہ ہیرو ہے یا وِلن اس کا فیصلہ تو آپ کریں گے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی سزا ممتاز قادری کو بھگتنا پڑی۔
ممتاز قادری کی تدفین کے ساتھ ہی آغاز ہوا ایک تحریک کا۔ ایک ایسی تحریک جس نے اگلے کئی سالوں تک پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔
تحریک لبیک کا قیام
ممتاز قادری کی میت نے ایک بیج کا کام کیا۔ ایک ایسا بیج جس کو نفرت اور ایکسٹریمزم کا فرٹیلائزر ملا تو وہ ایک کانٹے دار درخت بن گیا۔ جس دن ممتاز قادری کا جنازہ اٹھا اسی روز سے ٹی ایل پی سربراہ خادم حسین رضوی نے تقریریں کرنا شروع کر دیں۔ جتنے لوگ ممتاز قادری کی پھانسی پر احتجاج کر رہے تھے وہ سب یہاں جمع ہو گئے اور یوں ٹی ایل پی کی بنیاد پڑی۔
ٹی ایل پی نے ایک ایسے جھنڈے کا کام کیا جس کے نیچے تمام ایکسٹریمسٹ اکٹھے ہوگئے۔ آنے والے برسوں میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس اتحاد کا خوب فائدہ اٹھایا۔ لیکن کیسے؟ آئیے آپ کو بتائیں۔
مولانا مودودی سے لے کر آج تک مولوی طبقہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا سب سے ریلائبل پارٹنر سمجھا جاتا ہے۔ نفرت کی اس کہانی میں بھی ’’ملا ملٹری الائنس‘‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ تعداد کے لحاظ سے تو دیوبندی فرقہ مائنارٹی میں تھا لیکن ضیاء دور سے لے کر وار اگینسٹ ٹیرر تک تقریباً 30 سال تک وہ اسٹیبلشمنٹ کا پارٹنر آف چوائس رہا۔ لیکن وار اگینسٹ ٹیرر کے بعد دیوبندی جماعتیں گلوبل اسٹیبلشمنٹ کے راڈار پر آ چکی تھیں۔ اب فیصلہ ہوا ایک نیا پارٹنر کری ایٹ کرنے کا۔
نومبر 2017 کا زمانہ تھا۔ نواز شریف گھر جا چکے تھے۔ لیکن حکومت پھر بھی ن لیگ کی ہی تھی۔ اس وقت ایک بل سامنے آتا ہے جس میں پتہ چلتا ہے کہ الیکشن امیدوار کے حلف نامے میں الفاظ بدل دیے گئے ہیں۔ ختم نبوت کی گواہی پر حلف کی جگہ ’’آئی بی لیو‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ بس پھر کیا تھا، ٹی ایل پی نے اس بات کو بنیاد بنا کر فیض آباد انٹر چینج پر 2000 افراد کے ساتھ دھرنا دے دیا۔ بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ قادیانی لابی کو خوش کرنے کے لیے الیکشن بل میں یہ تبدیلی لائی جا رہا تھی۔ اس بات پر اکثریت شدید خفا تھی۔ ان دنوں عمران خان کو میڈیا اور ملٹری دونوں کا آشیرباد حاصل تھا اور ان کو کرسی پر بٹھانے کی ہر ممکن کوشش کی جار ہی تھی۔
ادھر ٹی ایل پی کو بھی گرین سگنل مل گیا۔ ہزاروں مظاہرین اسلام آباد کے دروازے تک پہنچ گئے۔ حکومت اور لا منسٹر کے خالف خطرناک تقریریں شروع ہو گئیں۔ اور آخر کار زاہد حامد کو 27 نومبر کو ریزائن کرنا پڑا۔ ساتھ ہی بل کے الفاظ میں تبدیلی کو ریورس کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی انوالومنٹ اُس وقت کھل کر سامنے آئی جب ایک ویڈیو میں نامی گرامی میجر جنرل گھر جاتے مظاہرین میں ہزار ہزار روپے کے نوٹ بانٹتے دکھائی دیے۔
عبداللہ کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے بستر کے گرد موجود ڈاکٹروں اور نرسوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کو اپنا سر پھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے درد سے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے دماغ میں پوری فلم دوبارہ چلنے لگتی ہے۔ وہ چیخ کر اٹھتا ہے۔ ’’مشال کہاں ہے؟‘‘ یہ سن کر ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہرے کا رنگ اڑ جاتا ہے۔ وہ خاموش رہتے ہیں۔ ان کی خاموشی عبداللہ کو مزید پریشان کر دیتی ہے۔ وہ چیخنے لگتا ہے۔ ’’کہاں ہے مشال؟ کیا ہوا اسے؟ کیا مار دیا اسے درندوں نے؟‘‘
لیکن ایک منٹ۔
عبداللہ کون ہے اور ہسپتال میں کیا کر رہا ہے؟
یہاں کن درندوں کا ذکر ہو رہا ہے؟
مشال کون ہے؟
ذرا ٹھہریے، ابھی آپ کو بتاتے ہیں۔ پٹھان فیملی سے تعلق رکھنے والا مشال خان پشاور کی عبدالولی خان یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اس کے والد بتاتے ہیں کہ وہ چھوٹی عمر سے ہی صوفیانہ مزاج رکھتا تھا اور فلسفے کی طرف اس کا خاصا رجحان تھا۔ ایک ایسا بچہ جس کے کمرے کی شیلف ٹرافیوں اور سرٹیفکیٹس سے بھرے ہوئے تھے۔ صحافت کا شوق اس کی رگ رگ میں بسا تھا۔ علمی اور نظریاتی بحث کرنا اس کا مشغلہ تھا اور وہ کارل مارکس کے گن گاتے نہ تھکتا تھا۔ ایک بار تو انہی نظریات کی وجہ سے اس پر دہریہ ہونے کا الزام بھی لگ گیا۔ جس کے بعد سے وہ یونیورسٹی میں تسبیح لے کر آنے لگا۔
مشال کو ایکٹیوزم کا بھی بہت شوق تھا۔ جب اسے یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کی کرپشن کا علم ہوا تو اس نے ایک لوکل نیوز چینل کو انٹرویو دے ڈالا جس میں سارے پردے چاک کر دیے۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ یہ انٹرویو اسے کتنا مہنگا پڑے گا۔
13 اپریل 2017 کو مشال خان اپنے ہاسٹل کے کمرے میں چھپا بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے دوست کو میسج کیا۔ ’’یہ مجھ پر توہین رسالت کا الزام لگا رہے ہیں۔‘‘ اس کا دوست کہتا ہے۔ ’’تم ٹھیک تو ہو مشال؟ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ مشال؟‘‘ لیکن مشال کی طرف خاموشی تھی۔ بے حرمتی کا الزام لگانے والا ہجوم اس تک پہنچ چکا تھا۔ مشال پر بہت تشدد کیا گیا۔ اس کے کپڑے پھاڑ کر اس کو ڈنڈوں، اینٹوں اور لاتوں سے مارا گیا۔ پھر اس کو دوسری منزل سے نیچے پھینک دیا گیا۔
اس کے بعد عمران نامی طالب علم آیا اور مشال کو تین گولیاں ماریں جس کے بعد وہ وہیں دم توڑ گیا۔ اب ذرا سوچیں کہ جس شخص پر دہریہ ہونے کا الزام تھا اس کے آخری الفاظ کیا ہوں گے۔ ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘۔
مشال کے مرنے کے بعد بھی اس کی لاش پر تشدد کیا جاتا رہا۔ یزیدیوں کا ٹولہ لاش جلانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ پولیس پہنچ جاتی ہے اور لاش ساتھ لے جاتی ہے۔ مشال کی والدہ بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے آخری بار اس کا ہاتھ چوما تو انہیں پتہ چال کہ اس کے ہاتھ کی ساری ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ تحقیقات میں سامنے آیا کہ مشال نے کسی قسم کی بلاسفیمی نہیں کی تھی۔ اس کے قاتلوں کو جرم کے مطابق سزا دی گئی۔ مشال خان کے والد تو یہ تک کہتے رہے کہ یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن نے مشال کو راستے سے ہٹانے کے لیے یہ سازش تیار کی۔ اسی سال مشال کو ’’ہیرالڈ کا پرسن آف دی ایئر ایوارڈ‘‘ ملا۔ یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں بلاسفیمی کو کس حد تک بطور ویپن استعمال کیا جاتا ہے۔
شرمساری کا ایک اور دن
3 دسمبر 2021 پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن کے طور پر لکھا جائے گا۔ اُس روز وزیر آباد روڈ کے بیچوں بیچ ایک جسم بے حرکت اور بے جان پڑا تھا۔ اس کی درد سے بھری آنکھیں آسمان تک رہی تھیں۔ اس کے اوپر لوگوں کا ایک ہجوم تھا، نعرے لگ رہے تھے اور کہیں کہیں سے دھواں بھی اٹھ رہا تھا۔ اُس روز ہماری قوم پوری دنیا کے سامنے شرمسار تھی۔
پریانتا کمارا، ایک سری لنکن تھے اور سیالکوٹ میں راجکو انڈسٹری گارمنٹ فیکٹری کے منیجر تھے۔ اس روز جمعہ کو انہوں نے معمول کے مطابق کام شروع کیا۔ امپورٹرز کے ایک ڈیلیگیشن کو اگلے چند روز میں فیکٹری وزٹ پر آنا تھا۔ دفتر پہنچتے ہی انہوں نے صفائی کروانی شروع کردی۔
پاکستان کمارا کے لیے اجنبی تھا، یہاں کی زبان، لوگ سب اجنبی تھے، مگر انہوں نے ہمیشہ دیانت داری سے نوکری کی۔ باتھرومز کی صفائی ہونی تھی، دروازے دیواریں۔ وائٹ واش ہونی تھیں، پوسٹرز ہٹائے جانے تھے۔ اسی لیے کمارا تو آج خاصے مصروف تھے۔ دیواروں سے اسٹیکرز اور پوسٹرز اتارے جا رہے تھے۔ ایک واش روم کی دیوار پر لگا پوسٹر انہوں نے اکھاڑ کر نیچے پھینک دیا۔ مگر وہ کیا ہی جانتے تھے کہ یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو گی۔
کچھ ہی دیر میں 800 لوگوں کا ہجوم راجکو فیکٹری کے باہر جمع ہو گیا۔ انہیں جنگلی بھیڑیوں کی طرح کمارا کی تلاش تھی۔ کمارا اس وقت چھت پر تھے کہ اچانک پورا ہجوم وہیں ان پر حملہ آور ہو گیا۔ مار پیٹ کر انہیں نیچے لے آیا۔ ’’ارے رکیں تو سہی، اس کا قصور تو بتا دیں۔‘‘ لیکن یہ سوال آپ پاکستانی موب سے بھلا کیسے پوچھ سکتے ہیں؟ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
دیوار پر چپکا جو پوسٹر کمارا نے اتارا اس پر عربی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ وہ نہ تو عربی جانتا تھا اور نہ ہی اردو۔ بس یہ پوسٹر ہٹانا تھا کہ اس پر بلاسفیمی کا الزام لگ گیا۔ انہیں وزیر آباد روڈ پر سر عام گھسیٹا گیا۔ کمارا کا جسم سڑک پر تھا اور روح اپنے اللہ کے پاس۔ پاکستان میں ایک اور شخص آج اسلام کے نام پر مارا جا چکا تھا۔
کاش یہ کہانی یہیں ختم ہو جاتی۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔ کمارا کو مار کے، اس کے جسم کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس اس مقام سے دور آنکھ اور کان بند کیے بیٹھی رہی۔ ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے کے بیس منٹ بعد پولیس وہاں پہنچی۔ سب نے بڑے فخر سے کہا کہ حرمتِ رسول کی خاطر ایک جان لے لی گئی ہے۔ ہاں مگر اس تاریک داستان میں ایک امید کی کرن بھی تھی۔ فیکٹری کے ڈپٹی منیجر ملک عدنان۔ قوم کے اس ہیرو نے تن تنہا پریانتھا کو ہجوم سے بچانے کی کوشش کی۔ اپنی جان بھی داو پر لگا دی۔ زبان سے روکا، ہاتھ سے روکا مگر جہالت کا سیلاب بھلا تنکے سے کہاں رکتا۔
یہ تو خیر سارے انفرادی کیسز تھے۔ پاکستان میں تو پوری پوری کمیونٹیز جلائی گئیں۔ فیصل آباد کے جڑانوالہ ڈسٹرکٹ میں ایک کرسچن کالونی تھی۔ اس کے 5 چرچ، بہت سے گھر اور قبرستان جلا دیے گئے۔ فروری 1997 میں شانتی نگر کے 13 چرچ اور مسیحیوں کے کوئی 775 گھر جلا دیے گئے۔ بائبل کی 2000 کاپیوں کو آگ لگا دی گئی۔ نفرت انسان کو اتنا اندھا کر دیتی ہے، کہ پھر نہ اسے دائیں دکھائی دیتا ہے نہ بائیں۔
مگر ایک سیکنڈ۔ ہمارے اندر اتنا غصہ آخر آیا کہاں سے؟ آئیے ذرا نفرت کی نفسیات کو ایکسپلور کرتے ہیں۔
نفرت کی نفسیات
اب یہ نفرت کوئی آسمان سے تو نازل نہیں ہوئی نا، کہیں سے تو آئی ہے۔ چلیں دوبارہ سارا الزام حکومت پر لگا دیتے ہیں۔ ویک لا اینڈ آرڈر، نو جوڈیشل سسٹم، دنیا جہان کی کرپشن۔ بھئی جب ایسا ہو گا، تو انسان فرسٹریشن کے مارے معاملات اپنے ہاتھ میں ہی لے گا۔ بڑھتی آبادی، سکڑتے وسائل، کمر توڑ مہنگائی، ایک عام بندے کا میٹر ایسا گھماتی ہے کہ وہ گھن چکر بن جاتا ہے۔ مگر ایک وجہ اور بھی ہے، اگنورنس۔ اور اس کیس میں اگنورنس ازنٹ بلس، ان فیکٹ اٹس باربیرک۔
ہمیں یہ جو نام کی اسلامیات پڑھائی جاتی ہے، اس سے ہم اسلام کے بارے میں کیا ہی سیکھتے ہیں۔ اور جب بندے کے دماغ میں مذہب کی فاؤنڈیشن ہی مضبوط نہ ہو، تو گمراہی پھیلنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اور یہی فرسٹریشن نفرت کی شکل میں دلوں کو جکڑ لیتی ہے۔ جب ایک فرد نفرت کے سامنے سرنڈر کر دیتا ہے، تو وہ اکثر ایک موب کے بیچ اپنے ضمیر کو کھو بیٹھتا ہے۔ ایک ہجوم کے درمیان، اپنی انفرادی ذمہ داری کا احساس ختم ہو جاتا ہے، اور انسان ہوا سے جھولتی شاخ بن کر رہ جاتا ہے۔ جب وہ اپنی انفرادیت کھوتا ہے تو ساتھ ہی اپنا مورل کمپاس بھی بھول جاتا ہے، پھر اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ اور جب وہ اللہ کا نہ رہا، خود کا نہ رہا، تو پھر کسی کا نہ رہا۔
انسان کہاں انسان کو انسان سمجھتا ہے؟ دوسرے کو اس کی نسل، شکل، اور ایمان پر پرکھتا ہے۔ لڑنا، مارنا، حملے کرنا، یہ سب تو جیسے انسانی فطرت کا حصہ بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے، عبادت گاہوں کو توڑا جا رہا ہے، مذہب کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ مگر بھئی، جس کی کرسی، اس کی دھرتی۔ اور جس کی دھرتی، اس کی مرضی۔
2021 میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں یہی بات کی۔ ’’فریڈم آف سپیچ‘‘ کے نام پر مغرب میں جو اسلام کی مسلسل بے حرمتی کی جاتی ہے، وہ ہرگز ٹھیک نہیں۔ اگر کسی بچے کے بھی یقین کو انویلیڈیٹ کیا جائے گا تو وہ بھی ریٹالی ایٹ کرے گا، ہم تو ایک پوری قوم کی بات کر رہے ہیں؟
اسلام کو ڈیفینڈ کرنا ہر مسلمان کا حق ہے، اور ذمہ داری بھی۔ ظاہر ہے پھر دنیا میں چین و سکون قائم رکھنے کے لیے غیر مسلموں کو یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانا یہودیوں کو ناپسند ہو سکتا ہے، اور مغرب اس کا احترام بھی کر سکتا ہے، تو وہ اس بات کا احترام کیوں نہیں کر سکتا کہ نبی ﷺ پر سوال اٹھانا مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے؟
سیاہی، اندھیرا، تاریکی
یہ سارے الفاظ ہمارے دل میں ایک خوف سا پیدا کرتے ہیں۔ انسان ان کہی سے ڈرتا ہے، آنے والی گھڑی سے ڈرتا ہے، اس گھڑی کی آمد کی آگاہی سے ڈرتا ہے۔ کیا ہی کر سکتے ہیں، انسانی دماغ کی وائیرنگ ہی کچھ ایسی ہوئی ہے، وہ کیوریس ہے، جاننا چاہتا ہے، اندھیرے میں نہیں رہنا چاہتا۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ وہ جاننا تو چاہتا ہے مگر سمجھنا نہیں چاہتا۔ اندھیرے میں اسے سمجھ ہی تو نہیں آتی، بس اسی لیے ڈرتا ہے۔
دنیا میں یہ بڑھتی نفرت کی جو سیاہی ہے، اس سب کے پیچھے چھپا ہوا، ایک ڈرے سہمے انسانوں کا ہجوم ہے، جن میں سمجھ کی گہری کمی ہے۔ جب سمجھ نہیں آتی، تو ڈر لگتا ہے، اور وہ ڈر اکثر غصہ بن کر باہر نکلتا ہے۔
جوتوں میں خون بھرا ہوا، ہر طرف سے پتھروں کی بارش تھی۔ کیا کچھ سننے کو نہیں ملا، کیا کچھ سہنا نہیں پڑا۔ اللہ کے رسول ﷺ کو طائف سے دھکے دے کر باہر نکالا گیا۔ مگر جب حضرت جبریلؑ نے طائف کے لوگوں کو پہاڑوں میں دفن کرنے کی پیشکش کی، تو رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ، نہیں، میں نے معاف کیا، اللہ نے چاہا تو ایک دن انہی لوگوں کی اولاد مسلمان ہو گی۔
مگر افسوس، کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہم۔ آج کل کے مسلمان میں جو اتنا غصہ، نفرت، دشمنی بھری ہے، سب ناسمجھی کی وجہ سے ہیں۔ اور جیسے ضرورت ایجاد کی ماں ہے اسی طرح جہالت نفرت کی ماں ہے۔ اور جہالت کا ایک بہت سیدھا سادہ حل ہے، تعلیم۔
علم کا ہماری اس دنیا پر بڑا خوبصورت اثر ہوتا ہے۔ دنیا پر چھائی ہوئی وہ سیاہی، وہ خوف، سب علم کی اس روشنی میں کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر علم کی روشنی، اور نفرت کا اندھیرا، سدا ایک دوسرے سے جنگ پر ہیں۔ کبھی ایک جیتتا ہے، اور کبھی دوسرا۔ کیونکہ اس دنیا کو بدلنے کی طاقت، علم اور نفرت دونوں میں ہے۔
اب فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے، کیا ہم نے اپنے رسول ﷺ کے نقش قدم پر چلنا ہے، ان کی اس محبت، اس رحم کو اپنانا ہے، یا پھر اس ظالم دنیا کے ہاتھوں اپنے دلوں کی نرمی کو کھو بیٹھنا ہے۔