2 مئی 2011 کا دن ہے۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے اسامہ بن لادن ایک آپریشن میں مارا جا چکا ہے لیکن امریکی بحری بیڑے کارل ونسن پر جشن کے بجائے شدید پریشانی کا عالم ہے۔ یہ پریشانی اس لیے ہے کہ کچھ ہی دیر میں نیوی سیلز ایبٹ آباد سے اسامہ کی لاش لے کر یہاں پہنچنے والے ہیں۔

زندہ اسامہ سے ڈرنے والے امریکی اب مردہ اسامہ سے بھی خوفزدہ ہیں اور پینٹاگون نے حکم دیا ہے کہ اس کی لاش کو ایسے ٹھکانے لگایا جائے کہ تا قیامت کوئی سراغ نہ مل سکے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اسامہ کی لاش کو سمندر برد کر دیا گیا۔

لیکن اسامہ سے ٹھیک 80 سال پہلے بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ بس امریکیوں کو برٹش اور اسامہ کو بھگت سنگھ سے بدل دیجیے۔ تاریخ تھی 23 مارچ اور شہر تھا لاہور!

بھگت سنگھ اور ساتھیوں کو سورج ڈھلنے کے بعد شام ساڑھے سات بجے سنٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ لیکن برٹش فوجیوں کا خیال تھا کہ بھگت کی لاش دیکھ کر ہندوستانیوں کے جذبات مزید بھڑک سکتے ہیں۔ انہوں نے بوڈیز کو خفیہ طور پر ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ اور یہ سعادت پنجاب پولیس کے سینیئر افسر ’’سعادت علی‘‘ کے حصے میں آئی۔

سعادت نے آدھی رات کے بعد انتہائی راز داری سے بھگت اور ساتھیوں کی لاشوں کو پہلے جلایا اور پھر ان کی باقیات کو ستلج میں بہا دیا۔ جب تک سورج نکلا تو اس جگہ کسی لاش کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔ برٹش سعادت سے اتنا خوش ہوئے کہ انہیں ’’خان‘‘ کا لقب عطا کر دیا اور تب سے وہ سعادت علی خان کہلانے لگے۔

بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کی تاریخ پر کچھ اثر چھوڑتے ہیں۔ ان سے بھی کم وہ ہوتے ہیں جو دنیا کا جغرافیہ بدلے دیتے ہیں۔ 4 فروری 1917 کو چکوال میں اسی سعادت علی کے گھر ایک اولاد پیدا ہوئی۔ ایک ایسی اولاد جس نے پاکستان کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل دیا۔ اور اس اولاد کا نام رکھا گیا، آغا محمد یحییٰ خان!

ایک بد قماش آمر

یحییٰ خان نے ابتدائی تعلیم گجرات سے حاصل کرنے کے بعد جامعہ پنجاب سے گریجویشن کیا۔ 1939 میں انگریز فوج جوائن کی اور دوسری جنگِ عظیم میں متعدد محاذوں پر لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ پھر 1945ء میں اسٹاف کالج کوئٹہ سے کورس مکمل کر کے اسی کالج میں انسٹرکٹر مقرر ہو گئے۔

بس یوں سمجھ لیجیے کہ اگر بھٹو ایوب کے سیاسی بیٹے تھے تو پھر یحییٰ ان کی عسکری اولاد تھے۔ کیوں کہ 1958 میں چیف آف جنرل اسٹاف سے لے کر 1969 میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے تک، نہ صرف ایوب نے انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا بلکہ ان کی ترقی کے سفر کو بھی فاسٹ ٹریک پر ڈال دیا۔

طاقت کا حصول

سن 65 یحییٰ کے لیے بہت ہی مبارک سال تھا۔ فاطمہ جناح کے خلاف بھرپور مہم سازی کے صلے میں پہلے تو ایوب نے انہیں لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی اور پھر واپس جی ایچ کیو بلا کر ڈپٹی کمانڈر اِن چیف کے عہدے پر بٹھا دیا۔ اگلے سال جنرل موسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر انہیں صرف انچاس سال کی عمر میں ’’فل جنرل‘‘ کے رینک پر ترقی دیتے ہوئے کمانڈر اِن چیف نامزد کر دیا۔ یوں سعادت علی خان کا لڑکا پاک فوج کا سربراہ بن گیا۔

1969ء کے آغاز میں یہ افواہ پھیلی کہ صدر ایوب پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔ جب 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقعے پر ایوب خان مسلح افواج کی سلامی نہ لے سکے تو یہ افواہ حقیقت بن گئی۔ ایوب خان نے 25 مارچ کو ریڈیو پاکستان پر اپنا آخری بیان ریکارڈ کروایا اور فوج کے بعد ملک کی باگ ڈور بھی یحییٰ خان کے سپرد کر دی۔

غیر قانونی طور پر اقتدار میں آنے والے ایوب نے جاتے ہوئے بھی اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی دھجیاں اڑا دیں کیوں کہ 1962ء کے آئین میں صاف صاف درج تھا کہ صدر کے استعفے کی صورت میں اقتدار کی منتقلی اسپیکر قومی اسمبلی کو ہونا چاہیے تھی، لیکن کیا کریں اولاد چیز ہی ایسی ہوتی ہے۔

ویسے ایوب یحییٰ سے کتنا پیار کرتے تھے اس کا اندازہ اپ ان کے اس بیان سے بھی لگا سکتے ہیں۔ جب انہیں کمانڈر اِن چیف کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے ایوب نے کہا کہ اگر مجھے یحییٰ خان جیسے کردار والے چند اور آفیسرز مل جائیں تو پاکستان آرمی اسلامی دنیا کی ’’لمبر ون‘‘، معاف کیجیے گا، ’’نمبر ون‘‘ آرمی بن سکتی ہے۔

لیکن ایک اور شخص بھی تھا جسے یحییٰ سے بہت امیدیں تھیں اور وہ تھے میاں محمد طفیل جو مولانا مودودی کے بعد امیر جماعت اسلامی بھی بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ یحییٰ ایک ایسا فرزند اسلام ہے جو ملک کو بائیں بازو کے فتنے سے پاک کر دے گا۔ ویسے اللہ جنت بخشے، طفیل صاحب کو بھی جرنیلوں سے بہت پیار تھا۔ پہلے یحییٰ سے امید لگائیں اور پھر ضیا کی گود میں جا بیٹھے۔

خیر، وہ کہتے ہیں نا خلف اولاد نہ مزا نہ سواد۔ ایوب خان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

الطاف گوہر اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ ایوب کی خواہش تھی کہ اگلے کچھ ہفتے انہیں پریذیڈنٹ ہاؤس میں ہی قیام کرنے دیا جائے لیکن اگلی ہی صبح یحییٰ نے انہیں یہ کہتے ہوئے چلتا کر دیا کہ سر پبلک کا بہت پریشر ہے، آپ یہاں نہیں رک سکتے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایوب کے استعفا پر غم زدہ چہرہ بنانے والے یحییٰ نے کمانڈر اِن چیف ہاؤس واپس آ کر اپنے چند مخصوص دوستوں اور منظورِ نظر خواتین کو طلب کیا، شیمپین کی بوتلیں کھلیں اور دیر رات تک شراب کا دور چلتا رہا۔

اور پھر جو اپنے باپ کا نہ ہوا وہ دھرتی ماں کا کیسے ہوتا؟

یحییٰ کی ایروگنس یا پھر کانفیڈنس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے کبھی اپنے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

پاکستان نازک موڑ پر

صدر بننے کے بعد یحییٰ نے اگلے ہی سال عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ مغربی پاکستان میں ’’ون یونٹ‘‘ ختم کر کے بہاولپور کو پنجاب اور کراچی کو سندھ میں شامل کر دیا گیا۔ یہاں کے چاروں صوبے بحال ہو گئے۔ اور یوں عام انتخابات سے پہلے پاکستان کے پانچ صوبے وجود میں آ گئے۔ ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کے تحت قومی اسمبلی کی 300 نشستوں کے انتخابات کے لیے 162 نشستیں مشرقی پاکستان کے اور 138 نشستیں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے حصے میں آئیں۔

اس زمانے میں ’’سرد جنگ‘‘ اپنے عروج پر اور پاکستان میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی تفریق بڑھتی جا رہی تھی۔ طلبا اور مزدوروں میں ’’سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے‘‘ اور ’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اجتماعات کرنے، دفاتر کھولنے، کتابچے اور پمفلٹ شائع کرنے، مخالفانہ تقاریر کرنے، اپنے اپنے جھنڈے لگانے اور جلسے کرنے میں آزاد ہو گئیں۔

سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور شائع کرائے اور انہیں گھر گھر پہنچایا۔ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے بہت تفصیل سے اپنے منشور پیش کیے۔

مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان سیاسی جنگ کا ماحول بن گیا۔ جماعت اسلامی نے اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاہور میں ’’یومِ شوکتِ اسلام‘‘ منایا تو چار دن بعد پیپلز پارٹی نے ’’یومِ شوکتِ عوام‘‘ اس سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ منا ڈالا۔

جمعیت علمائے پاکستان کو مولانا شاہ احمد نورانی نے زندہ کیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام مولانا مفتی محمود کے دم سے آباد رہی۔

اسی رونق میلے میں ایک دن انتخابات ہو گئے تو اس کے نتائج نے دنیا کو حیران کر دیا۔ لوگ دنگ رہ گئے کہ یہ کیا ہو گیا؟ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے 160 اور مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے 80 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

طاقت کی جنگ

نتائج نے یحییٰ خان کو بوکھلا دیا۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مجیب الرحمٰن 162 میں سے 160 نشستیں جیت جائے گا۔ اسی گھبراہٹ کے عالم میں اعلان تو کر دیا کہ ملک کا اگلا وزیرِ اعظم مجیب الرحمٰن ہوگا لیکن اگلے ہی دن ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یوں یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی ملی بھگت سے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کرنے کے بعد مجیب اب ایک جن بن چکا تھا۔ اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا ناممکن تھا۔ اسمبلی اجلاس میں تاخیر ہونے پر شیخ مجیب الرحمٰن نے باغیانہ انداز اختیار کر لیا اور انتقالِ اقتدار پر زور دینے لگا۔ یحییٰ خان کا خیال تھا کہ اسمبلی اجلاس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان مستقبل کے آئین اور سیاسی ڈھانچے پر سمجھوتہ ہو جائے گا۔ لیکن بھٹو مجیب ملاقاتیں نتیجہ خیز نہ ہوئیں اور اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوتا چلا گیا۔

اس تاخیر سے مشرقی پاکستان میں غم و غصے اور احتجاج کی لہر دوڑ گئی اور وہاں مغربی پاکستانیوں، بہاریوں اور فوجیوں پر حملے ہونے لگے۔ یحییٰ خان نے سیاسی مسئلے کو سیاست سے حل کرنے کی بجائے فوجی طریقہ استعمال کیا اور آرمی ایکشن کا حکم دے دیا۔

مجیب الرحمٰن کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ عوامی لیگ کی قیادت ہندوستان جا کر پناہ گزین ہو گئی۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا، ان گنت لوگ مارے گئے اور ساتھ ہی کچھ فوجی چھاؤنیوں میں بھی بغاوت ہو گئی۔

یہ بھارت کے لیے ایک سنہری موقعہ تھا جس کا اسے ہمیشہ سے انتظار تھا۔ چنانچہ بھارتی حکومت کے زیرِ سایہ عوامی لیگ کے لیڈروں نے کلکتہ میں جلا وطن بنگلہ دیشی حکومت قائم کرلی اور وہ آرمی ایکشن کے دوران قتل و غارت کو مبالغہ آمیز انداز سے عالمی سطح پر پیش کر کے دنیا کی ہمدردیاں جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ بھارتی فوج نے بنگالی نوجوانوں کو فوجی تربیت دے کر مکتی باہنی ترتیب دی اور گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ حتیٰ کہ نومبر 1971ء میں بھارتی فوج نے مکتی باہنی کی آڑ میں مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔

مشرقی پاکستان میں ہونے والی بھارتی کارروائی کے جواب میں تین دسمبر کو پاک فوج نے مغربی پاکستان سے ’’آپریشن چنگیز خان‘‘ لانچ کر دیا۔ شاید یہ نام مشرقی پاکستان کے شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مناسبت سے رکھا گیا ہوگا۔

سقوطِ ڈھاکہ

ویسے یحییٰ کا خیال تھا کہ چین بھارت کو شمالی محاذ پر مصروف کر دے گا لیکن چین نے ایسا نہیں کیا۔ چین مشرقی پاکستان کے معاملات کی سیاسی ہینڈلنگ پر پاکستان سے بہت ناراض تھا چین کا خیال تھا کہ یہ معاملہ یہاں تک پہنچنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

سابق ڈپلومیٹ اور یحییٰ کے قریبی ساتھی سلطان محمد خان بتاتے ہیں کہ چینی وزیر اعظم نے انہیں چینی پالیسی کی دو وجوہات بتائی۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ ایک ایسی پارٹی کے خلاف ملٹری آپریشن کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے جو مشرقی پاکستان میں بے انتہا پاپولر ہے۔ دوسرا یہ کہ چینی مداخلت روس کو اس تنازع میں داخل ہونے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔

یحییٰ نے مغرب میں بھارت کو انگیج کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہو سکا بھارتی فوجیں تیزی سے ڈھاکہ کی جانب بڑھ رہیں تھیں اور پھر 16 دسمبر 1971ء آگیا۔ بندوقیں پھینک دی گئیں، پیٹیاں اتار دی گئیں اور فوجی قیدی بن گئے۔

بی بی سی کا نمائندہ سرینڈر کرنے والے چیف آف ایسٹرن کمانڈ بریگیڈیئر باقر صدیقی سے پوچھتا ہے کہ آپ کی شکست کی سب سے بڑی وجہ کیا بنی؟ تو جنرل نیازی کا کمانڈر ایک دم بے نیازی سے کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں، یہ تو بس ایک کھیل تھا، کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔

یہ سب اگر کہیں بند کمرے میں بھی ہوتا تو بہت تکلیف دہ تھا۔ لیکن یہاں تو میدان سجا ہوا تھا جہاں ہزاروں بنگلہ دیشی جو اب سے کچھ گھنٹے پہلے تک پاکستانی تھے، اپنی ہی فوج کی تذلیل کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ یہ سب اس خطۂ بنگال میں ہو رہا تھا جہاں 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔

امریکیوں کی ڈرامے بازیاں

یحییٰ کے پاکستان میں چاہنے والے تو بہت کم تھے لیکن امریکی صدر نکسن ان کے بڑے فین تھے انہوں نے امریکا چین تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کرنے پر اپنے ہاتھوں سے خط لکھ کر یحییٰ خان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ جب مشرقی پاکستان میں کشیدگی بڑھنے لگی تو نکسن نے اندرا گاندھی ملاقات میں ان کے سامنے ٹینشنز کم کرنے کی کئی تجاویز رکھیں تھیں لیکن یحییٰ کی مس مینجمنٹ اور نااہلی دیکھنے کے بعد اب وہ بھی ان کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں تھے۔

تین دسمبر کے آپریشن چنگیز خان کے بعد وہ بھی حالات کی خرابی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہے تھے۔ اس دوران مغربی پاکستان میں بیٹھے یحییٰ خان کیا کر رہے تھے؟

یحییٰ خان کی نجی زندگی

دیوان بدری ناتھ اپنی کتاب ’’پرائیویٹ لائف آف یحییٰ خان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 6 دسمبر کا دن تھا، اکہتر کی جنگ اپنے عروج پر تھی، لیکن پاک فوج کی تمام ٹاپ براس اس وقت راولپنڈی میں ہونے والی ایک پارٹی میں موجود تھی اور مہمان خصوصی کوئی اور نہیں جنرل یحییٰ خان خود تھے۔ ہر طرف موسیقی ڈانس اور ڈرنکس کا دور دورہ تھا پھر اچانک یحییٰ خان اپنی سلگتی ہوئی سگریٹ سے گارڈن میں لگا ایک غبارہ پھاڑا اور کہا یہ گیا جُگ جیون رام۔ جُگ جیون رام ان دنوں بھارتی وزیر دفاع تھے، پھر دوسرا غبارہ پھاڑا اور نعرہ لگایا یہ گیا بھٹو۔ پھر ایک آخری غبارہ پھاڑتے ہوئے نعرہ لگایا یہ گیا مجیب۔ جس کے بعد ان کے ساتھ آنے والی میڈم نور جہاں اُن کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے ساتھ لے گئیں۔

بریگیڈیر گل مواذ بتاتے ہیں کہ جب مشرقی پاکستان میں صورتِ حال خراب ہونے لگی تو میں جنرل یحییٰ سے ملنے پریذیڈنٹ ہاؤس پہنچ گیا۔ وہاں میرے سوالوں پر یحییٰ نے بھڑکتے ہوئے کہا کہ میں کمانڈر اِن چیف ہوں میرا کام تھا فوجوں کو جنگ پر بھیجنا اب جنگ لڑنا جرنیلوں کا کام ہے۔

اتنی ہی دیر میں ان کی فون کی گھنٹی بجی۔ ہیلو بولتے ہیں یحییٰ کا موڈ ایک دم بدل گیا۔ رسیور پر ہاتھ رکھا اور آہستہ سے سر گوشی کرتے بولے نور جہاں کی ٹوکیو سے کال ہے۔ میں وہاں دم بخود، شاکڈ حالت میں کھڑا تھا۔ پھر یحییٰ نے نور جہاں سے فون پر ہی ’’سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا‘‘ گانے کی فرمائش کی جو نور جہاں نے فوراً پوری کر دی۔ یحییٰ جھوم رہے تھے اور میرا دماغ گھوم رہا تھا۔ میں فوراً وہاں سے نکل آیا اور پھر کبھی یحییٰ سے نہیں ملا۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ جب جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ بالکل اسی طرح ڈھاکہ ڈوب رہا تھا، پاکستان ٹوٹ رہا تھا اور حکمران ’’سیونی میرا ماہی‘‘ سے جی بہلا رہا تھا!

کہتے ہیں کہ یحییٰ خان کو میڈم نور جہاں کی آواز پسند تھی۔ یحییٰ خان کی خاص دوست میڈم اقلیم اختر المعروف ’’جنرل رانی‘‘ نے کئی سال بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایک رات یحییٰ خان مجھ سے ملنے آیا۔ اس نے آتے ہی مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں پنجابی فلم ’’دھی رانی’’ کا گانا ’’میری چیچی دا چھلا ماہی لا لیا‘‘ یاد ہے؟ تو میں نے کہا کہ مجھے تو یہ گانا نہیں آتا۔ اس پر اُس نے اسی وقت اپنے ملٹری سیکریٹری کو فون کیا اور حکم دیا کہ فوراً اس گانے کا ریکارڈ حاضر کیا جائے۔ وہ آدھی رات کا وقت تھا، بازار بند تھے۔ ملٹری سیکریٹری کو گھنٹہ بھر میں شہر کی ایک میوزک شاپ کو کھلوا کر اس گانے کا ریکارڈ حاضر کرنا پڑا۔ پھر یحییٰ خان نے وہیں خوشی خوشی یہ گانا سنا اور بعد میں ملکۂ ترنم نور جہاں کو بھی ان کے اس ’’اعزاز‘‘ کی اطلاع کر دی گئی۔

اسی دور میں معروف فلمی ہیروئن ’’ترانہ‘‘ کے بارے میں بھی ایک لطیفہ زبان زدِ عام ہوا کہ ایک شام وہ صدارتی محل پہنچی اور یہ کہہ کر اندر داخل ہونے کا مطالبہ کیا کہ ’’میں اداکارہ ترانہ ہوں‘‘، لیکن سیکورٹی اہلکاروں نے جواب دیا کہ تم جو بھی ہو ہماری بلا سے، یہاں تو اندر جانے کے لیے پیشگی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترانہ نے زیادہ زور دیا اور اے ڈی سی سے بات کرنے کا مطالبہ کیا تو اس سے اجازت لے کر اسے اندر جانے دیا گیا۔ جب دو گھنٹے بعد وہ واپس لوٹی تو گارڈ نے اسے سلیوٹ کیا۔ ترانہ نے رویے میں اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو گارڈ نے جواب دیا کہ پہلے آپ صرف ترانہ تھیں، مگر اب ’’قومی ترانہ‘‘ بن گئی ہیں!

آغا بمقابلہ نیازی

اِدھر یہ سب ہو رہا تھا اُدھر پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ مشرقی پاکستان سے واپس آ کر جنرل نیازی نے اپنے تاریخی سرینڈر کی ساری ذمہ داری جنرل یحییٰ خان پر ڈال دی۔ کہا کہ میرے تمام ساتھیوں نے آخر دم تک لڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جنرل یحییٰ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ مغربی پاکستان خطرے میں ہے اس لیے آپ لوگ ہتھیار ڈال دیں۔ اگر مغربی پاکستان ہی نہیں رہے گا تو ہم مشرقی پاکستان کا کیا کریں گے؟ بحیثیت ایک فوجی، سربراہِ مملکت کا حکم ماننا میرا فرض تھا۔ پھر بھی میں بار بار پیغام بھیجتا رہا، بار بار یحییٰ خان سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن مجھے ہر بار یہی کہا گیا کہ یحییٰ خان باتھ روم میں ہیں۔

ہمیں یحییٰ خان نے بتایا کہ بھارتی فوج پنجاب میں ہیڈ مرالہ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر وہ وہاں قابض ہو گئی تو غضب ہو جائے گا، لہٰذا جلد ہتھیار ڈال کر جنگ بند کراؤ۔ میں نے پھر یحییٰ خان سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ پھر باتھ روم چلے گئے۔

جنرل نیازی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ مشرقی پاکستان کے دفاع کی حکمت عملی شروع ہی سے یہ رکھی گئی تھی کہ اگر بھارت نے وہاں حملہ کیا تو ہم بھارتی پنجاب پر حملہ کریں گے۔ اس حکمت عملی سے بھارت کو مشرقی پاکستان سے اپنی فوجیں ہٹانا پڑتیں۔ لیکن مشرقی پاکستان کے پاس نہ فضائیہ تھی نہ بحریہ، جبکہ مغربی پاکستان میں ہماری اور ان کی برابری تھی، بلکہ ٹینکوں میں ہمارے پاس قوت زیادہ تھی۔

جنرل نیازی تو سارا ملبہ یحییٰ خان پر ڈالتے نظر آتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان کی اپنی حرکات بھی خاصی شرمناک تھیں۔ اس وقت کے پاک فوج کے ترجمان بریگیڈیر صدیقی اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ جب جنرل نیازی سے ریپ کیسز سے متعلق سوالات کیے جاتے تو وہ شرمندہ ہونے کے بجائے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے ان واقعات کا دفاع کرتے۔ دل تو بہت چاہ رہا ہے کہ یہاں وہ ایگیزیکٹ الفاظ نقل کر دوں، لیکن ڈر ہے کہیں قومی سلامتی کا مسئلہ نہ بن جائے۔

یحییٰ خان کا زوال

جنرل یحییٰ کے ڈسکنکٹ یا پھر delusional کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہاں مشرقی پاکستان میں ان کی فوج تاریخ کا سب سے بڑا سرینڈر کر رہی تھی اور یہاں مغربی یا پھر بچے کھچے پاکستان میں جنرل یحییٰ کو اپنا اقتدار بچانے کی پڑی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے اگلے ہی دن ایک آئینی ترمیم کا پلان بنا لیا جس میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی مدت ملازمت پانچ سال تک بڑھانے کی تجویز رکھی گئی۔ وہ تو بھلا ہو ساتھی جرنیلوں کا جنہوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔

ویسے یہ ایکسٹینشن کا شوق بھی ہمیں برباد کر کے چھوڑے گا۔

خیر، اب یحییٰ خان پنڈی میں اکیلے ہو چکے تھے۔ اُدھر ڈی سی میں بیٹھے یحییٰ کے دوست نکسن بھی ساری صورت حال کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ ‏16 دسمبر کو جب سرینڈر اور سیز فائر ہو گیا تو کریڈٹ لینے کے لیے میدان میں آ گئے۔ وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے نکسن کو فون کر کے کہا کہ جناب صدر آپ کو مبارک ہو آپ نے مغربی پاکستان بچا لیا۔

شاید مغربی پاکستان تو بچا لیا لیکن یحییٰ کا بچنا اب ناممکن ہو چکا تھا۔ یحییٰ خان کے پاس اب اقتدار چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ امریکا بہادر کی نظریں اب بھٹو کی طرف تھیں۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی یحییٰ خان کو نظر بند کر دیا۔ اس نظر بندی کو بالآخر یحییٰ کے پیٹی بھائی ضیاء الحق نے اقتدار میں آ کر ختم کیا۔ شاید ضیا یحییٰ کے اُس احسان کا بدلہ چکانا چاہتے تھے جو یحییٰ نے انہیں 1970 میں کورٹ مارشل سے بچا کر کیا تھا۔

خیر، رہائی کے اگلے ہی سال 1980ء میں پاکستانی سیاست کا یہ تاریخی کردار ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ لیکن اس کی legacy آج بھی زندہ ہے۔ شخصِ واحد کی انا اور خواہشات آج بھی جمہور پر حاوی ہیں۔ آج ہم ہر سال 65 کی جنگ میں جنرل ایوب کی کامیابی کا جشن تو مناتے ہیں لیکن 71 میں جنرل یحییٰ کی شکست کا ذمہ دار سیاستدانوں کو قرار دیتے ہیں۔ بقول سہیل وڑائچ، ’’کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘‘

شیئر

جواب لکھیں