ستمبر کی شدید گرمی تھی۔ درجن بھر لوگ کافی دیر سے دھوپ میں کھڑے کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ ویسے تو ٹمپریچر چالیس سے کچھ کم تھا لیکن صحرا کی ہواؤں میں پچاس سے ایک ڈگری کم محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ انتظار کرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق کسی سرکاری ادارے سے لگ رہا تھا۔
کچھ دیر بعد ایک گاڑی دھول اڑاتی آئی اور ان لوگوں کے پاس آ کر رک گئی۔ پھر اس گاڑی سے ایک تابوت باہر نکالا گیا اور ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔
اس تابوت کے دونوں کونوں پر موٹے موٹے تالے لگے ہوئے تھے، جیسے اندر کوئی لاش نہ ہو۔ کوئی خزانہ ہو۔ کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر تابوت کھولنے کی کوشش کی تو انہیں دھکے دے کر پیچھے ہٹا دیا گیا۔
امام صاحب آئے، صف بنی اور نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ سیکیورٹی اہلکار قبر کو چاروں طرف سے گھیر کر کھڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے منکر نکیر کی ڈیوٹی بھی آج انہیں ہی انجام دینی ہیں۔
تدفین سے پہلے ایک بار پھر کچھ لوگوں نے شور مچایا:
خدا کا واسطہ ہمیں ایک بار چہرہ تو دکھا دو۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس تابوت کے اندر ہمارا باپ ہے یا کوئی اور؟
ایک حکومتی آفیسر آگے آیا اور کہا، ’’باڈی کا بہت برا حال ہے، کنڈیشن ایسی نہیں ہے کہ آپ کو چہرہ دکھایا جائے۔‘‘
ہائے! وہ چہرہ بھی کیا چہرہ تھا۔ وہ چہرہ جس میں ایسی کشش تھی کہ جوانی میں لڑکیاں اس کی ایک جھلک دیکھ کر عاشق ہو جاتیں۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، چوڑا سینہ، لمبے گھنگرالے بال، تاؤ والی مونچھیں، گھنی سیاہ داڑھی، کھڑا ناک نقشہ اور ذہانت سے بھرپور آنکھیں۔
وہ بونوں کے شہر میں دیو جیسا دکھتا تھا۔
وہ سردار جسے ٹائیگر آف بلوچستان کہا جاتا تھا۔
وہ سردار جو خود تو یورپی گرل فرینڈز رکھتا تھا لیکن قبیلے کی عورتوں کو تصویر کھنچوانے کی اجازت بھی نہیں دیتا تھا۔
وہ سردار جس نے زندگی تو محلوں میں گزاری لیکن موت کو ایک غار میں گلے لگایا۔
وہ سردار جسے اپنی زمین کا بڑا مان تھا، ہمیشہ کے لیے اسی زمین کے اندر چلا گیا۔
گڑھی خدا بخش کی غلطی ڈیرہ بگٹی میں ایک بار پھر دہرائی جاچکی تھی، ایک اور لیڈر ہمیشہ کے لیے زندہ کیا جاچکا تھا۔ آج ہم آپ کو کہانی سنائیں گے بگٹی قبیلے کے سردار ’’نواب اکبر شہباز خان بگٹی‘‘ کی۔
آپ آج کل ماہ رنگ بلوچ اور مولوی ہدایت الرحمان کو مسلسل خبروں میں دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن بلوچستان کی کہانی اکبر بگٹی کو سمجھے بغیر ادھوری ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی کتابوں میں اکبر بگٹی ایک ’’سرٹیفائیڈ غدار‘‘ کے طور پر رجسٹرڈ ہیں لیکن ان کتابوں میں تو ایک دو کو چھوڑ کر تقریباً تمام سیاسی سویلین کردار غدار قرار دیے جا چکے ہیں۔
مولوی اے کے فضل حق سے لے کر حسین شہید سہروردی تک، فیض احمد فیض سے لے کر احمد فراز تک، مولانا مودودی سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک، حد تو یہ ہے کہ بانیِ پاکستانی کی بہن فاطمہ جناح بھی۔ اس لیے ان کتابوں پر دھیان دینا شاید زیادہ عقلمندی کی بات نہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اہل علم میں بھی آج ’’اکبر بگٹی‘‘ کو لے کر دو کلیئر پارٹیز موجود ہیں۔ ایک وہ جو انہیں واقعی غدار اور ملک دشمن سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جو انہیں حریت پسند اور وژنری لیڈر مانتے ہیں۔
اب ان میں سے کون ٹھیک ہے اور کون غلط؟ یہ فیصلہ ہمارا نہیں۔ ہمارا کام آپ کے سامنے سارے واقعات اور حقائق کو رکھنا ہے تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ اکبر بگٹی یار تھا یا غدار؟
مغرور لیکن خوب صورت سردار
آج اکبر خان کی اکیسویں سال گرہ تھی اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے قصے کہانیاں سنا رہے تھے۔ قہوے کا سپ لیتے ہوئے بولے، ’’پہلا قتل تو میں نے 12 سال کی عمر میں کیا تھا، اس کے بعد تو مجھے تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ میں کتنے بندے مار چکا ہوں۔ ‘‘ دراصل قبائلیوں میں ویسے بھی مرڈر کوئی بڑی چیز نہیں ہوتی تھی اور پھر اگر قاتل کا تعلق نواب خاندان سے ہو تو۔ خیر!
اکبر کچھ مختلف تھے۔ بلوچوں کے قدیم جنگجو قبیلے کا یہ چیف کراچی گرامر، ایچی سن اور اوکسفرڈ جیسے ایلیٹ اداروں سے تعلیم حاصل کر چکا تھا۔ لاؤنج سوٹس پہنتا، فر فر انگلش بولتا۔ مگر اس کا صرف حلیہ نہیں سیاست بھی مختلف تھی۔ 1947 میں کوئٹہ کے شاہی جرگے میں جب سارے بلوچ رہنماؤں نے بائیکاٹ کیا تو اکبر بگٹی نے آگے بڑھ کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ بگٹی ٹرائب کو متحد کر کے ایک کوڈ نافذ کیا۔ اسی لیے قبیلے والے انہیں لیجنڈری میر چاکر کا دوسرا جنم بھی قرار دیتے تھے۔
لیکن اکبر بگٹی کو سمجھنے سے پہلے آپ کو ان کے قبیلے کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے۔ کیسے دنیا کے خشک اور گرم ترین صحرا میں رہنے والی ایک چھوٹی سی قوم نے پاکستان کے طاقتور ترین آرمی چیف کی راتوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی تھیں۔ کوشش کریں گے اکبر بگٹی کے ساتھ ساتھ ہم آپ کو ہم ڈیرہ بگٹی سے جڑی کچھ ایسی کہانیاں بھی سنائیں جو آپ نے پہلے کبھی دیکھی یا سنی نہیں ہوں۔
بلوچ ٹائیگرز
بلوچ کے معنی ہیں wanderer یعنی آوارہ پھرنے والا خانہ بدوش۔ یہ عرب خون ہے جس میں آگے چل کر مرہٹہ اور راجپوت بلڈ کی آمیزش بھی ہو گئی۔ دراصل بلوچ شام کے شہر حلب میں رہتے تھے۔ فارسی شاعر فردوسی لکھتے ہیں کہ چھٹی صدی میں فارس کے بادشاہ خسرو نے بلوچیوں کو اس لیے تباہ کرنے کی کوشش کی کیوں کہ ان کے جھنڈے پر شیر کا نشان تھا۔
بلوچوں کی اکثریت سنی فقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد وہ موجودہ ایران کے جنوب مشرقی شہر کرمان کی طرف ہجرت کر گئے۔ آج بھی ان کے ہاں نغمے گائے جاتے ہیں کہ
ہم حضرت علی کے غلام ہیں، جو سچے امام ہیں
ہم حلب سے آئے ہیں، یزید سے لڑتے ہوئے
دسویں صدی میں بلوچ چیف الماش رومی کو پہلی بار ’’تمن دار‘‘ کا لقب ملا۔ ترکی زبان میں تمن دار کا مطلب دس ہزاری ہے۔ آج بھی بلوچ لیڈر کا صحیح لقب تمن دار ہی کہلایا جاتا ہے۔ کرمان کے بادشاہ نے الماش کو اپنے ہر تمن سے ایک لڑکی حرم میں بھیجنے کا حکم دیا۔ الماش نے ہوشیاری دکھائی اور لڑکوں کو لڑکیوں کے کپڑے پہنا کر بھیج دیا۔ مذاق مہنگا پڑا اور انہیں کرمان سے نکل کر سیستان ہجرت کرنا پڑی۔
سلجوق اور چنگیز خان کی چڑھائیوں کے بعد وہ انڈس ویلی اور مکران پہنچے بلوچ قوم جالاحان کے چار بیٹوں رند، ہوت، لاشار اور کورائی سے پھیلی۔ ان چاروں میں رند سب سے طاقتور تھے جن کا حکمران میر چاکر خان تھا۔ کہا جاتا ہے کہ میر چاکر نے افغانستان میں جلا وطنی کاٹنے والے شہنشاہ ہمایوں کی ہندوستان واپسی میں مدد تو کی، لیکن ہمایوں کے دہلی پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی وہ 96 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
اس کے بعد بہت سے جنگجو پنجاب میں بھی سیٹل ہو گئے لیکن رند قبیلے کا ایک حصہ سات ہزار مربع میل کے اُس ٹکڑے کو اپنا مستقل گھر بنا گیا جہاں آج مری اور بگٹی قبیلے موجود ہیں۔ اب یہ بہاء الدین زکریا کی بد دعا تھی یا انگریز دور سے جاری حکم رانوں کی ستم ظریفی کہ میر چاکر کے بعد سے بلوچ قوم ایسی منتشر ہوئی کہ دوبارہ ایک نہ ہو سکی۔
بگٹی قبیلہ
ڈیرہ بگٹی جائیں تو سر پر ایک بے رحم سورج ہوتا ہے جو اکثر ٹمپریچر 50 ڈگری تک لے جاتا ہے۔ 1952 میں ڈیرہ بگٹی میں سوئی کے مقام پر پاکستان کی سب سے بڑی گیس ڈسکوری ہوئی۔ آج اس فیلڈ کا وہ مقام تو نہیں لیکن گیس کے ساتھ سوئی کا نام جیسے جڑ کر رہ گیا ہے۔ پی پی ایل کے زیر انتظام اس فیلڈ میں ملک کا سب سے بڑا کمپریشن اور پیوریفیکیشن پلانٹ بھی ہے۔ باڑھ میں گھری یہ فیلڈ ایک چھوٹے شہر کی طرح ہے جہاں اسکول، ہسپتال اور اپنا ایئر پورٹ بھی موجود ہے۔ یہ فیلڈ کلپر بگٹیوں کی حدود میں ہے۔
افسوس یہ ہے کہ معاہدے کے باوجود بگٹیوں کو سوئی گیس کی رائلٹی کبھی نہ ملی بلکہ یہ رقم خود حکومت لیتی رہی۔ رائلٹی تو دور چراغ تلے اندھیرا کی مصداق یہاں قبائلیوں کو گیس تک نہ مل سکی۔ انہیں ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ گیس فیلڈ پر مقامیوں کے بجائے باہر سے آنے والوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں۔
سوئی گیس فیلڈ وہی جگہ ہے جہاں میر چاکر نے آ کر پناہ لی تھی اور پھر انیسویں صدی میں انگریز جرنل جان جیکب نے بگٹیوں سے اسی مقام پر بار بار جنگ بھی کی تھی۔
جنرل جیکب لکھتا ہے کہ اپریل سے اکتوبر تک یہاں کی گرمی دشمن کی تلوار سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ لوگ گنوائے بغیر یہاں سے گزرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ یہ جگہ ریتیلے طوفان، اور وائلینس کے لیے مشہور ہے۔ صحرا میں ریتیلے طوفان کے ساتھ ساتھ کبھی زہریلی ہوائیں بھی چلتی ہیں جو سبزیوں اور جانوروں کو جھلسا کر رکھ دیتی ہیں۔ یہ بگٹیوں کا ہی جگرا ہے کہ وہ بغیر رکے 60، 60 میل چل کر کسی کیمپ یا فوجی چوکی پر حملہ کرتے اور اسی تپتی گرمی میں بغیر آرام کیے اور پانی پیے واپس بھی چلے جاتے ہیں۔
مسلسل جنگوں کے باوجود انگریز بگٹیوں کی ہمت اور حوصلے کی داد دیا کرتے تھے جو کبھی سرینڈر پر راضی نہ ہوئے۔ گورا لکھتا ہے کہ بگٹی چاہتے تو اس ناقابل برداشت موسم اور terrainکا فائدہ اٹھا کر پیچھے سے حملہ کر سکتے تھے، مگر وہ ہمیشہ سامنے آ کر بہادری سے لڑے۔
ان کا لباس سفید ہے اور یہی وجہ ہے کہ برٹش آرمی ان جنگجوؤں کو کبھی بھرتی نہ کر سکی۔ وہ نہ تو اپنے لمبے گھنگریالے بال اور داڑھیاں کٹوانے کو تیار تھے اور اپنا روایتی لباس بدلنے پر تو بالکل بھی راضی نہیں تھے۔
اس دور میں ڈیرہ بگٹی میں پیدل چلنے والوں کے لیے گھوڑے یا اونٹ ایک لگژری سے کم نہیں تھے۔ ہفتے میں ایک بار دو مرہٹے صبح کے تین بجے ڈاک اٹھائے چالیس میل پیدل چل کر ڈیرہ بگٹی سے سوئی آتے۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر رات میں وہی دو لوگ چالیس میل پیدل چل کر واپس لوٹ جاتے۔
یہ گھوڑے استعمال کیوں نہیں کرتے؟ جب ایک بگٹی سردار سے یہ سوال ہوا تو وہ مسکرا کر بولے:
یہ ہمارے غلام ہیں، انہیں اس کی عادت ہے۔ جب یہ پیدل چل سکتے ہیں تو ہم ان پر اپنے قیمتی گھوڑے کیوں ضائع کریں؟
جیپ اور ٹرک آنے کے بعد بھی یہی رواج سالوں جاری و ساری رہا۔
میر چاکر کا دوسرا جنم
جب پاکستان بنا تو نوجوان اکبر بگٹی ایچی سن کالج سے پڑھ کر 42 ہزار بگٹیوں کی قیادت سنبھال چکے تھے۔ اصل میں تو اکبر بگٹی 12 برس کی عمر میں ہی اپنے والد محراب بگٹی کی موت کے بعد قبیلے کے چیف بن چکے تھے۔ لیکن انگریزوں نے ان کے اس ہی چچا کو علاقے کا ریجنٹ مقرر کر دیا جس پر اکبر بگٹی کے والد کے قتل کا الزام تھا۔ ساتھ ہی اکبر اور ان کے چھوٹے بھائی نواز کو معروف ماہر تعلیم علامہ آئی آئی قاضی کے سپرد کر دیا گیا۔ تعلیم کے دوران انہیں ڈیرہ بگٹی جانے کی بالکل بھی اجازت نہ تھی۔
اکبر بگٹی کرکٹ، پولو اور سوئمنگ کے چمپیئن تھے۔ پندرہ سال کے ہوئے تو ان کی شادی کر دی گئی۔ ان کی دوسری شادی ایک پختون اور تیسری ایرانی فیملی میں ہوئی۔ ایوب کے دور میں جب وہ جیل گئے تو ایک سویڈش خاتون بھی ان کی فکر میں جیل آتیں جو غالباً ان کی گرل فرینڈ تھیں۔
اکبر بگٹی پاکستان کے پہلے سی ایس پی آفیسرز میں سے ایک تھے۔ انہیں راتیں جاگ کر کتابیں پڑھنے کا جنون تھا۔ تاریخ، سیاست اور بلوچ شاعری پر ان سے بہتر کمانڈ شاید ہی کسی کی ہو۔ ڈیرہ بگٹی میں ان کے پاس پاکستان کی چند بڑی پرائیویٹ لائبریریز میں سے ایک تھی جو 2005 کی بمباری میں تباہ ہو گئی۔
انگریزوں کے دور میں موجودہ بلوچستان دو حصوں، ریاستِ قلات اور برٹش بلوچستان میں تقسیم تھا۔ برٹش بلوچستان براہ راست انگریزوں کی عمل داری میں تھا۔ چونکہ ڈیرہ بگٹی برٹش بلوچستان میں تھا اس لیے نواب بگٹی شاہی جرگے کا ممبر ہونے کے ناتے ان قبائلی عمائدین میں شامل تھے جنہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
1950 میں انہوں نے پہلا الیکشن لڑا اور خان عبدالغفار خان کے بھائی سے ہار گئے۔ اسی دوران ان کے چچا ہیبت خان کی لاش جیکب آباد سے ملی۔ الزام اکبر بگٹی پر ہی لگا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
1958 کے ضمنی انتخابات میں اکبر بگٹی بالآخر ممبر اسمبلی بن گئے لیکن چند ہی ماہ بعد مارشل لا لگ گیا، جس کی نواب بگٹی نے کھل کر مخالفت کی۔ پھر کیا تھا؟ ایوب خان نے چچا کے قتل کا الزام لگا کر ملٹری کورٹس کے ذریعے انہیں موت کی سزا سنا دی۔ خیر آٹھ سال بعد ایوب خان نے ہی یہ سزا معطل کی جس کے بعد اکبر بگٹی کی رہائی ممکن ہوئی۔
بلوچ اتحاد پر مبنی نیشنل عوامی پارٹی کا شروع میں ساتھ دیا مگر بعد میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ بھٹو نے اس اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مینگل بزنجو اور مری کو جیل میں ڈال کر نواب بگٹی کو بلوچستان کا گورنر لگا دیا۔ لیکن بھٹو-بگٹی پارٹنر شپ زیادہ دیر نہیں چل سکی اور کچھ ہی دن بعد نواب بگٹی حکومت سے علیحدہ ہو گئے۔
جب ضیاء الحق کا مارشل لا لگا تو نواب بگٹی نے انوکھا احتجاج کیا۔ کئی برس تک اردو ہی بولنا چھوڑ دی اور دوبارہ تب بولی جب ملک میں الیکشن کرائے گئے۔ 1990 سے 1993 تک وہ قومی اسمبلی کا حصہ رہے اور ایک بار وزیر اعلیٰ بھی بنے۔
ڈاکٹر شازیہ کیس
وہ جنوری 2005 کی ایک سرد رات تھی۔ ڈاکٹر شازیہ سوئی گیس فیلڈ کے سیکیورڈ اپارٹمنٹ میں سونے کے لیے بستر پر جاچکی تھیں۔ ان کے شوہر خالد لیبیا میں تھے اور وہ گھر میں اکیلی رہتی تھیں۔ سوئی پلانٹ کی ساری سیکیورٹی فوج کی ایک اسپیشل برانچ ڈیفنس سیکیورٹی گارڈز (DSG) کے پاس تھی۔
کہا جاتا تھا کہ بلوچستان کے اس خطرناک بیابان میں سیکیورٹی اتنی سخت ہے کہ یہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ شدید اندھیرے میں جب کبھی بجلیاں کڑکتیں تو گیس پلانٹ اور آس پاس لگی باڑ چمکنے لگتی۔
شازیہ گہری نیند میں تھیں کہ اچانک ان کی آنکھ کھل گئی۔ بجلی کڑک رہی تھی اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ شازیہ کو محسوس ہوا جیسے آنکھوں پر کوئی پٹی بندھی ہے اور ہاتھ کسی تار سے بندھے ہیں۔ کیا یہ خواب ہے؟ شازیہ نے پوری طاقت سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر وہ بے بس تھیں۔
’’کون ہو تم؟‘‘ شازیہ چلائی اور پورا زور لگا کر اٹھنے کی کوشش کی۔ ایک زناٹے دار تھپڑ شازیہ کے منہ پر پڑا۔ ایک بھاری بھرکم آواز شازیہ کے کانوں سے ٹکرائی، ’’میرے پاس پستول ہے۔ اگر تم نے چیخنے یا کسی کو بلانے کا سوچا بھی تو میں گولی تمہارے سر میں اتار دوں گا۔‘‘
سورج نکلنے تک وہ شخص شازیہ کے بیڈ روم میں رہا اور اس کی عزت تار تار کر کے صبح جاتے ہوئے بولا:
میں کوئی عام بندہ نہیں ہوں۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکو گی۔ بہتری اسی میں ہے کہ خاموش رہو اور کسی سے اس بارے میں کچھ بھی نہ کہو۔
پی آئی ڈی سی، کراچی میں موجود پی پی ایل کے ہیڈ آفس میں گھنٹیوں پر گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ لیکن چیف کمیونی کیشن آفیسر نصرت نصر اللہ کسی صحافی کے فون کا جواب نہیں دے رہے تھے۔ ادارہ انہیں سب ٹھیک ہے کہ رپورٹ دینے پر مجبور کر رہا تھا مگر وہ اس کوَر اَپ پر ایک لفظ بولنے یا لکھنے کو تیار نہ تھے۔ مجبوراً ان کے ڈپارٹمنٹ ہیڈ، جو سابق فوجی رہ چکے تھے، خود ہی پریس ریلیز لکھنے بیٹھ گئے۔ انہوں نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی لیکن پی پی ایل کی سوئی گیس فیلڈ میں ہونے والا ڈاکٹر شازیہ خالد ریپ، ایک انٹرنیشنل خبر بن گیا۔
ادھر ڈی ایس جی نے فیلڈ میں کنٹرول سنبھال لیا، سارے شواہد مٹا دیے گئے۔ ڈاکٹر شازیہ پر کمپنی مینیجر نے دباؤ ڈالا کہ وہ واقعے کو صرف ایک ڈاکا قرار دیں۔ اُن سے زبردستی دستخط لیے گئے اور انہیں راتوں رات اسلام آباد روانہ کر دیا گیا۔
پاکستان میں کسی مظلوم کا ریپ اور اس کا کوَر اَپ کوئی انہونی بات تو ہے نہیں۔ لیکن یہ کیس بہت مختلف تھا۔ ایک تو یہ واقعہ بگٹی territory میں ہوا تھا اور اس کا چیف suspect کوئی اور نہیں خود ڈی ایس جی کا ایک کیپٹن تھا۔
ابھی تحقیقات شروع بھی نہ ہوئی تھیں کہ فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ٹی وی پر آ کر کیپٹن کو سو فیصد بے گناہ قرار دے دیا۔ اس اسٹیٹمنٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بگٹی پہلے ہی فوج کے خلاف بھرے بیٹھے تھے۔ اُس وقت کسی نے اکبر بگٹی سے سوال پوچھا کہ ڈاکٹر شازیہ تو سندھی ہیں آپ نے اس واقعے کو کیوں اپنی عزت کا مسئلہ بنا رہے ہیں؟ اکبر بگٹی کا جواب بہت سادہ تھا:
کوئی سندھی اس معاملے پر آواز نہیں اٹھائے گا، میں مردہ لوگوں سے اپیل نہیں کیا کرتا۔
پھر میر چاکر کے پیروکاروں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ فوجی گاڑیوں اور سوئی فیلڈ پر راکٹ حملے شروع ہو گئے۔ سوئی، میدان جنگ بن گیا۔ یہ احتجاج صرف گیس فیلڈ اور اس کے اطراف تک محدود نہ رہا۔ پی آئی ڈی سی ہاؤس میں واقع پی پی ایل کے دفتر سے لے کر کوئٹہ شہر تک خود کش حملوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو سرکاری پراپگنڈہ مشین شازیہ خالد کی کردار کُشی پر اتر آئی۔ ڈاکٹر شازیہ سے یہ برداشت نہ ہوا، انہوں نے خود کُشی کی کوشش کی جو گھر والوں نے ناکام بنا دی۔ اب حکومت نے شازیہ کی فیملی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔ جو مظلوم تھی اسے ہی جان کا خوف دلایا جانے لگا۔ بالآخر ڈاکٹر شازیہ اپنی فیملی کے ساتھ لندن چلی گئیں اور حکومت نے سکون کا سانس لیا۔
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ پیچھے یہ خبر اڑا دی گئی کہ ریپ تو سرے سے ہوا ہی نہیں تھا بلکہ یہ سب ایک ڈراما تھا اور بس۔ واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز مشرف بولے کہ میں پیسے بنانے کا دھندا خوب پہچانتا ہوں، ریپ کرواؤ اور ویزا لگوا کر باہر سیٹل ہو جاؤ۔
اس بیان پر تو جیسے آگ ہی لگ گئی۔ رد عمل آیا تو مشرف بڑی معصومیت سے بولے کہ امریکی اخبار نے ان کی بات کا غلط مطلب لیا تھا۔ چند روز بعد واشنگٹن پوسٹ نے پوری ریکارڈنگ ویب سائٹ پر ڈال دی۔ مگر مشرف کا کیا بگڑتا؟ وہ تو ’’وار اگینسٹ ٹیرر‘‘ میں امریکی بغل بچہ بنے ہوئے تھے، لیکن اب ان کی ساری توجہ اُسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری نہیں بلکہ نواب اکبر بگٹی پر تھی۔
اکبر بگٹی کی موت
پاکستان بننے کی بعد بلوچستان میں تین فوجی آپریشنز ہوئے لیکن ڈیرہ بگٹی ہمیشہ اُن سے بچا رہا۔ بگٹیوں سے ریاست کو اب تک کوئی خاص شکایت نہ تھی، ہوتی بھی کیوں وہ ہمیشہ شاہ صاحب کے وفا دار بھی جو رہے تھے، لیکن گیس تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد مشرف کو یہ موقع بھی ہاتھ آ گیا۔
حکومت نے نواب بگٹی، خیر بخش مری اور عطاء اللہ مینگل کو باغی قرار دے ڈالا۔ یہ کہا گیا کہ تینوں سردار بلوچستان اور بلوچوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جواب میں بلوچ قوم پرست مشرف کو قومی وسائل پر قبضے اور عوام پر ظلم کا ذمہ دار قرار دینے لگے۔
مشرف پر 14 دسمبر کو ہونے والے حملے کا الزام بھی اکبر بگٹی پر لگا دیا گیا۔ اکبر بگٹی خود پر لگے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کا مطالبہ کرتے رہے مگر بات بڑھتی چلی گئی۔ دونوں کے درمیان سرد جنگ، گرم ہونے لگی۔ چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین نے کوششیں کر کے نواب بگٹی کو مذاکرات پر آمادہ کر لیا۔ ٹیم ڈیرہ بگٹی بھی پہنچی مگر نواب کو جلد اندازہ ہو گیا کہ ٹیم کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ ایک طرف مذاکرات چل رہے تھے تو دوسری طرف پراسرار گمشدگیاں اور ٹارچر کلیمز بڑھتے جا رہے تھے۔
ایک روز ایک خصوصی طیارہ اسلام آباد سے سوئی پہنچا۔ یہ طیارہ اکبر بگٹی کو لے جانے آیا تھا۔ جب نواب بگٹی اس میں سوار ہونے کے لیے پہنچے تو عین اسی وقت طیارے میں خرابی پیدا ہو گئی۔ وہ کچھ دیر انتظار کرتے رہے اور پھر سمجھ گئے کہ خرابی تو ایک بہانہ ہے، اصل معاملہ تو انہیں نیچا دکھانا ہے۔ وہ واپس ڈیرہ بگٹی روانہ ہوئے اور ان کے جاتے ہی طیارہ فضاؤں میں پرواز کر گیا۔
سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والے اکبر بگٹی صرف مسلح مزاحمت کے حامی نہ تھے، بڑے صبر کے ساتھ وہ سیاسی عمل میں حصہ لیتے آئے تھے۔ ان کے سر پر ہمیشہ بندوق تنی رہی۔ نواب خیر بخش مری تو اکبر بگٹی کو پہلے ہی خبردار کر چکے تھے۔ سردار عطا اللہ مینگل بھی مذاکرات سے دستبردار ہو گئے۔ ویسے بھی آپریشن اور negotiation بھلا ایک ساتھ کیسے چل سکتے تھے؟ معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر آگئے۔ اور پھر فوج نے ڈیرہ بگٹی پر بمباری شروع کر دی۔
اکبر بگٹی ہر انٹرویو میں یہ کہتے رہے کہ انہیں اور نواب خیر بخش مری کے بیٹے بالاچ مری کو مارنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، بس انہوں نے یہ انتخاب کرنا ہے کہ کیسے مارا جائے؟
بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے نواب بگٹی کے لیے اپنے گھر میں بھی زیادہ چلنا ممکن نہ تھا۔ مگر ایسا لگتا تھا جیسے 78 سال کے جسم میں کسی نوجوان کا دل دھڑک رہا ہے۔ مارچ 2005 میں ڈیرہ بگٹی پر ٹینکوں اور جہازوں سے حملہ ہوا، شدید بمباری کی گئی، درجنوں لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ لاکھ لوگ نقل مکانی کر گئے۔ اب اکبر بگٹی کے پاس اپنا گھر چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ بالآخر انہوں نے پہاڑوں کا رُخ کر لیا۔ اب ہوائی جہازوں میں گھومنے والا نواب عمر کے آخری حصے میں اونٹوں کی پیٹھ پر دربدر پھر رہا تھا۔
ٹائم میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اکبر بگٹی نے کہا کہ وہ بستر کے بجائے لڑتے ہوئے مرنا پسند کریں گے۔
قبائلیوں کا انداز بھی عجیب ہوتا ہے۔ خود پر حملے سے چند دن پہلے 79 برس کے اکبر بگٹی دو افراد کا سہارا لے کر پہاڑ پر چڑھ رہے تھے۔ جب انٹرویو کے لیے آئی ٹیم نے اُن کی تصویر لینا چاہی تو اکبر بگٹی نے رک کر ایک تاریخی جملہ کہا:
او پشتون! میری تصویر اس طرح نہیں لینا کہ دشمن سمجھے بگٹی کمزور ہو گیا۔
وہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے ایک دشوار گزار علاقے تراتانی میں تھے، جہاں 26 اگست 2006 کو آپریشن کے دوران ان کی پناہ گاہ پر بمباری ہوئی۔ غار گرنے سے اکبر بگٹی اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت مارے گئے جب کہ 21 فوجی بھی اسی غار میں دب گئے۔
اکبر بگٹی کے قتل نے بلوچستان کی سیاست ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ پورے ملک میں خونی احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کئی سرکاری دفاتر اور گاڑیاں آگ میں جھونک دی گئیں۔ ایک غیر ملکی ڈپلومیٹ کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی ایک پڑھے لکھے زیرک سیاستدان تھے، ریاست ان کی مدد سے ناراض بلوچوں تک پہنچ سکتی تھی، معاملات کو حل کیا جا سکتا تھا، مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
آئن سٹائن نے کہا تھا کہ ایک ہی عمل بار بار دہرا کر مختلف نتائج کی توقع رکھنا دیوانگی ہوتا ہے۔ آج بگٹی کے ساتھ ساتھ مشرف کی کہانی بھی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن 2006 کو لگنے والی آگ 2024 تک پوری آب و تاب سے جانیں نگل رہی ہے۔
45 سال پہلے بھٹو کو قتل کر کے زندہ کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا 2006 میں بگٹی کو ختم کر کے بلوچستان میں معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن بگٹی کے قتل کے 18 سال بعد بھی آج بلوچستان میں جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
یہ دیوانگی کب ختم ہوگی؟ اس کا جواب ہمارے پاس بھی نہیں۔