دو مئی 2011، رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت۔ ایبٹ آباد کے بلال ٹاؤن کی بجلی غائب ہے۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ اچانک فضا میں دو ہیلی کاپٹروں کی آواز گونجتی ہے جو کچھ ہی دیر میں ایک تین منزلہ عمارت کے اوپر پہنچ جاتے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں سے چند سائے نمودار ہوتے ہیں اور عمارت کے احاطے اور چھت پر اتر جاتے ہیں۔ لیکن۔ اچانک ایک ہیلی کاپٹر گر جاتا ہے۔ فضا میں کئی چھوٹے بڑے دھماکوں کی آوازیں گونجتی ہیں اور ساتھ ہی عمارت کے اندر عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں بھی۔

اِردگرد کے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ہیں لیکن جیسے ہی وہ عمارت کے قریب آتے ہیں۔ کالے کپڑوں میں ملبوس کمانڈوز انہیں پشتو زبان میں واپس جانے کا حکم دیتے ہیں۔ کارروائی چلتی رہتی ہے اور تقریباً سوا ایک بجے کمانڈوز عمارت سے ایک بڑا بیگ لے کر نکل جاتے ہیں۔ پہلے گرنے والے ہیلی کاپٹر کو تباہ کر دیتے یہں، جس سے نکلنے والے آگ کے بھڑکتے شعلے دُور سے نظر آ رہے ہیں اور پھر انہی شعلوں کی روشنی میں یہ کمانڈوز دوسرے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار ہو جاتے ہیں۔

کچھ دیر بعد پولیس اور فوج کے اسکواڈ پہنچتے ہیں۔ عمارت سے انہیں چار لاشیں اور کئی زخمی خواتین اور بچے ملتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کا پیچھا کرنے کے لیے کچھ ہوائی جہاز بھی قریبی ایئر بیس سے اڑے مگر وہ تو کب کا پاکستان کی فضائی حدود سے نکل چکا تھا۔

کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہوا؟ صبح ہوتے ہی ٹیلی ویژن اسکرین پر اچانک امریکی صدر براک اوباما نمودار ہوتے ہیں۔ پوری دنیا کو یہ دھماکا خیز اطلاع ملتی ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کے قریب ایک کارروائی میں دنیا کا ’’موسٹ وانٹڈ مین‘‘ اسامہ بن لادن مارا گیا۔

یہ ساری کارروائی ہزاروں کلومیٹرز دُور وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں براہ راست دیکھی جا رہی تھی۔ یہ خبر سن کر سب حیران رہ گئے۔ ہر ذہن میں اور ہر لب پر بس ایک ہی سوال تھا، اسامہ بن لادن پاکستان میں کیسے؟ اور یہ کہ پاکستان کی سرحدی حدود کی اتنی کھلی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ کیا ہم امریکا کی کالونی ہیں؟ ہم کوئی غلام ہیں؟

پاک امریکا تعلقات

پاکستان اور امریکا کے لو ہیٹ ریلیشن شپ کی کہانی 2011 سے نہیں، بلکہ اس سے کہیں پہلے شروع ہوتی ہے، بلکہ یہ تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود پاکستان۔

یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ ہے، امریکا سپر پاور بن چکا ہے۔ جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینک کر اس نے دنیا کو اپنے قدموں میں جھکا لیا ہے۔

پھر اقوامِ متحدہ بنائی تو اُس کا ہیڈ کوارٹر بھی نیو یارک کو بنا دیا۔ دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی واشنگٹن میں قائم کیے گئے۔ اسی ورلڈ وار میں امریکا کا اتحادی تھا سوویت یونین۔ جنگ جیتنے کے بعد وہ بھی طاقت پکڑنے لگا اور اپنا کمیونزم دنیا میں پھیلانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ مارچ 1947 سے دونوں کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہوئی۔

کچھ مہینوں بعد پاکستان اسلام کا نام لے کر وجود میں آیا۔ تو اُس کا جھکاؤ کمیونسٹ روس کی طرف نہیں بنتا تھا۔ ایک بائی پولر ورلڈ میں اگر پاکستان کو کوئی سائیڈ لینا ہی تھی تو وہ امریکا کی تھی۔ حالات اچھے نہیں تھے، پاکستان کا خزانہ خالی تھا۔ بھارت پاکستان کے کروڑوں روپے دبا کر بیٹھا ہوا تھا۔ تب قائد اعظم محمد علی جناح نے امریکا کو خط لکھ کر دو ارب ڈالر کی امداد کا مطالبہ کیا اور یقین دہانی کروائی کہ پاکستان روس کے مقابلے میں امریکا کا ساتھ دے گا۔ لیکن اس وقت امریکا نے پاکستان کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک تھا لیکن اسے دو ارب ڈالر کے بجائے صرف 10 لاکھ ڈالر ملے۔

پھر کشمیر پر پاک بھارت جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے مالی امداد اور ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ ایک بار پھر امریکا کا سہارا ڈھونڈا گیا، لیکن دوبارہ وہی سرد مہری۔ یہاں تک کہ 1949 میں امریکی صدر نے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو دورے کی دعوت دی ڈالی۔ پاکستان کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔

جب روس کے حکمران جوزف اسٹالن نے بھارت کو امریکی کیمپ میں جاتے دیکھا تو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ماسکو آنے کی دعوت دی۔ دورے کی تاریخ بھی طے ہو گئی: 14 اگست 1949۔ لیکن روسی دعوت قبول کرتے ہی پاکستان امریکا کی نظر میں اہم ہو گیا۔

پاک امریکا تعلقات میں پہل

‏11 اکتوبر 1949 کو پنڈت نہرو امریکا پہنچے اور اس سے صرف 10 دن پہلے کمیونزم کو ایک بڑی کامیابی ملی کہ چین میں کمیونسٹ اقتدار میں آ گئے۔ یوں امریکا کے لیے جنوبی ایشیا کی اہمیت بہت بڑھ گئی۔ اسی لیے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اپنے مشیروں سے کہا کہ اب وزیر اعظم پاکستان کو بھی بلانا چاہیے۔ یوں اگلے ہی مہینے پاکستان کو امریکا دورے کی دعوت مل گئی، جسے قبول کر لیا گیا۔

اب ایک طرف ماسکو تھا اور دوسری طرف واشنگٹن۔

یہاں امریکا کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پاکستانی بیورو کریسی نے وہ فیصلہ لیا، جس کے اثرات بہت دور تک گئے۔ بیوروکریسی نے یقینی بنایا کہ وزیر اعظم اپنا پلان بدلیں اور ماسکو کے بجائے پہلے واشنگٹن جائیں۔ بات مان لی گئی لیکن جانے سے پہلے لیاقت علی خان نے ایک کام ضرور کیا۔ جنوری 1950 میں انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کر لیا اور پاکستان ایسا کرنے والا دنیا کا پہلا مسلم ملک بن گیا۔

خیر، مئی 1950 میں لیاقت علی خان واشنگٹن پہنچے۔ اچھا خاصا پروٹوکول ملا۔ صدر ٹرومین کا خصوصی جہاز ’’دی انڈیپینڈنس‘‘ اُن کے لیے لندن بھیجا گیا۔ اُن کے اعزاز میں نیو یارک میں پریڈ ہوئی اور لیاقت علی خان نے امریکا کے ایوانِ نمائندگان سے بھی خطاب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اِسی دورے میں لیاقت علی خان نے امریکا کو پاکستانی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی جس کے جواب میں امریکا نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔

یہ حقیقت ہے یا نہیں۔ مگر جب مئی 1951 میں امریکا نے کورین وار کے لیے پاکستانی فوجی مانگے تو لیاقت علی خان نے دو شرطیں سامنے رکھ دیں: مقبوضہ کشمیر میں انڈین الیکشن رکوائے جائیں اور پختونستان کا شوشہ ختم کروانے میں مدد کی جائے۔ امریکا نے یہ مطالبے مسترد کر دیے اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ 16 اکتوبر 1951 کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم دن دہاڑے قتل کر دیے گئے۔

اس قتل کا الزام ہر کسی پر لگا، امریکا پر بھی انگلیاں اٹھیں کیونکہ لیاقت علی خان امریکا میں ہی واضح کر چکے تھے کہ وہ سرد جنگ میں فریق نہیں بنیں گے، غیر جانب دار رہیں گے۔ مگر ان کے اپنے وزیر خزانہ غلام محمد، جو کچھ عرصے بعد گورنر جنرل بنے، امریکا کو خط لکھ کر یقین دلاتے رہے کہ وہ کمیونزم کا خاتمہ کرنے میں ساتھ کھڑے ہیں۔ یعنی لیاقت علی خان کے خلاف اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی تھی۔ مگر کیا اُن کے قتل کو امریکی آشیرواد بھی حاصل تھی؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ویسے اُس زمانے میں ایک الزام یہ بھی سامنے آیا کہ لیاقت علی خان نے کورین وار میں حصہ نہ لے کر اور ایران سے تیل کا معاہدہ نہ کر کے امریکا کو ناراض کر دیا تھا، اسی لیے انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ امریکا نے لیاقت علی خان کے قتل کا اعتراف بھی کیا جس کی نشاندہی سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں کی گئی۔

لیکن حقیقت میں ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں۔ ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس میں ایسا کوئی ذکر نہیں، اس طرح لیاقت علی خان کا قتل ایک راز بن کر رہ گیا۔ ویسے ایک اور پاکستانی وزیر اعظم نے بھی امریکا پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا۔ اس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے، ابھی واپس اُسی دور میں چلتے ہیں جب خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک میں جمہوریت کا بھی خون گیا۔

امریکا نواز پاکستان

امریکا کے چہیتے غلام محمد گورنر جنرل بن چکے ہیں۔ انہیں اس عہدے پر آنے کی دعوت خود وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے دی۔ اقتدار میں آکر اپریل 1953 میں غلام محمد نے اپنے محسن کا تختہ الٹ دیا۔ محمد علی بوگرا نئے وزیر اعظم بنے اور غلام محمد نے کابینہ میں پاک فوج کے سپہ سالار ایوب خان کو وزیر دفاع بنوا دیا، اور میجر جنرل اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ۔ یوں پاکستان کی عسکری قیادت امریکا سے براہ راست رابطے میں آ گئی۔ یہ ایک ایسے رومینس کا آغاز تھا جو آج بھی love-hate ریلیشن شپ کی صورت میں برقرار ہے۔

بہرحال، جون 1953 میں ایوب خان نے امریکا کا دورہ کیا اور کمیونزم کے خلاف اپنی خدمات پیش کر دیں۔ وہ تو امریکا سے یہ تک کہہ آئے کہ ہماری فوج، آپ کی فوج ہے۔ پھر 1954 میں پاکستان اور امریکا میں دفاعی تعاون کا پہلا معاہدہ ہوا۔ اُسی سال ستمبر میں پاکستان ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی سیٹو (SEATO) میں شامل ہو گیا بلکہ 1955 میں امریکی سرپرستی میں ہونے والے بغداد پیکٹ کا بھی حصہ بنا، جو بعد میں سینٹو (CENTO) کہلایا۔

یہ سارے معاہدے کرنے کے بعد پاکستان کو امریکا سے فوجی امداد ملنی شروع ہو گئی۔ پاک فوج میں امریکی مشیر بھی آنے لگے۔ دونوں کے تعلقات اتنے اچھے ہو گئے کہ 8 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا اور ایوب خان نے مل کر مارشل لا لگا دیا، لیکن امریکا نے ذرہ برابر مذمت نہ کی۔ کیوں؟ کیونکہ اب امریکا کی ڈائریکٹ ڈیل ہو رہی تھی۔ سیاسی قیادت سے مشاورت کا جھنجھٹ ہی ختم ہو گیا تھا۔ آئین معطل تھا، مرکزی اور صوبائی حکومتیں ختم ہو چکی تھیں۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی اور الیکشن غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے۔

اب امریکا کو صرف فردِ واحد سے بات کرنی تھی اور کام ہو جانا تھا۔ اس کے کیا نتائج نکل سکتے تھے؟ ہر صاحب نظر کو صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سعادت حسن منٹو جیسے افسانہ نگار نے بھی اپنے مشہورِ زمانہ ’’انکل سیم کے نام خطوط‘‘ لکھ ڈالے، جو آج بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔ منٹو کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام غریب ضرور تھے لیکن غیرت مند تھے۔ مگر حکومتوں کا غیرت سے کیا لینا دینا؟ اُن کا تو امریکا سے معاشقہ شروع ہو چکا تھا۔

گولڈن پیریڈ سے خراب تعلقات تک

اب پاکستان اور امریکا کے درمیان رہنماؤں کی آوت جاوت شروع ہو گئی۔ ‏‏1959 میں امریکی صدر آئزن ہاور نے پاکستان کا غیر سرکاری دورہ کیا۔ پھر ایوب خان بھی امریکا گئے اور پشاور کے اڈے کا تحفہ دے آئے۔ امریکی طیارے یہاں سے اڑتے اور روس کی جاسوسی کرتے۔ یہ راز تب کھلا جب ایک جاسوس طیارہ روس نے مار گرایا۔

یہ مئی 1960 تھا، جب امریکا کا ایک یو 2 جاسوس طیارہ روس میں تباہ ہوا۔ اِس واقعے کے بعد روس نے پاکستان پر ایٹم بم مارنے کی دھمکی دی اور پاکستان کو باضابطہ معافی مانگنی پڑی۔ اتنا بڑا واقعہ ہونے کے بعد بھی پاک امریکا تعلقات میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ یہ تو تعلقات کا گولڈن پیریڈ تھا۔

یہی وہ دور تھا جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ’’اللہ، امریکا اور آرمی‘‘ چلاتے تھے۔ اُس زمانے میں ایوب خان نے ایک بار یہ تک کہ دیا کہ اگر امریکی معاشی اور فوجی امداد نہ ہو تو ہمارے ملک کا خاتمہ ہو جائے۔ اس امداد سے پاکستان کی افواج مضبوط سے مضبوط تر ہونے لگی۔

لیکن صدر ایوب خوش نہیں تھے۔ ‏1961 میں وہ امریکا گئے اور جانے سے پہلے ہی امریکی پالیسی سے بہت مایوس دکھائی دیے۔ وجہ یہ تھی کہ امریکا انڈيا کو بھی امداد دے رہا تھا جو ایوب خان کے مطابق پاکستان کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ آخرکار چھ جولائی 1961 کو ایوب خان نے دھمکی دے ڈالی کہ اگر انڈیا کی مدد جاری رہی تو پاکستان سیٹو معاہدے سے نکل جائے گا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھالے گا۔

اس دھمکی کے بعد امریکا نے جنوری 1962 کو ایک قدم اٹھایا۔ صدر جان ایف کینیڈی نے ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک کو مسئلہ کشمیر کے لیے میڈی ایٹر بنا دیا۔ ایوب خان نے تو یہ فیصلہ قبول کر لیا لیکن جواہر لال نہرو نہیں مانے۔ یہاں تک کہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچ گیا۔ جون 1962 میں سوویت یونین نے اسے ویٹو کر کے بھارت سے پکی دوستی کا ثبوت دے دیا۔

یہی سال ایک اور لحاظ سے بھی بہت اہم تھا۔ اسی سال چین اور انڈیا کی جنگ شروع ہوئی۔ ایسے میں چین سے تعلقات بڑھانے کا ایک اور موقع ہاتھ آیا۔ پاکستان نے اگست 1963 میں چین کے ساتھ معاہدہ کیا اور کینیڈی انتظامیہ نے پہلی بار پاکستان پر پابندیاں لگائیں۔

زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ نومبر 1963 میں کینیڈی کو قتل کر دیا گیا۔ اب نئی امریکی حکومت آئی اور اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت خراب رہے۔ صدر ایوب خان نے مارچ 1965 میں چین کا دورہ کیا اور اگلے ہی ماہ سوویت یونین بھی گئے۔ وہاں سے انہیں امریکا جانا تھا لیکن صدر لِنڈن جانسن نے یہ دورہ منسوخ کر دیا۔

کچھ ہفتوں بعد پاکستان کے تیسرے پنج سالہ منصوبے کے لیے امریکی امداد بند کر دی گئی۔ جب 1965 کی جنگ ہوئی تو ہر قسم کی امداد بند کی جا چکی تھی۔ صرف پاکستان ہی نہیں، انڈیا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ لیکن اُسے اس کا نقصان زیادہ پاکستان کو ہوا کیونکہ بھارت فوجی امداد کے لیے امریکا پر انحصار نہیں کرتا تھا۔ جنگ کے دوران بھی ایوب خان نے امریکی صدر سے وہی بات کی کہ کشمیر کا مسئلہ حل کروائیں لیکن لنڈن جانسن نے صاف جواب دے دیا کہ امریکا اقوامِ متحدہ کے ذریعے کام کرے گا۔ یوں 1965 جنگ پاک امریکا تعلقات کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔

جنگ اور جھٹکا

‏1965 کی جنگ میں امریکا کے کردار سے پاکستان کو شدید دھچکا لگا۔ دسمبر 1965 میں ایوب خان کو امریکا بلایا گیا۔ صدر جانسن نے ملاقات تو کی لیکن زیادہ گرم جوشی نہ دکھائی۔ صاف کہہ دیا کہ امریکا اور پاکستان کا اتحاد اب ختم ہو چکا، اگر فوجی امداد چاہیے تو چین کے ساتھ تعلقات ختم کرنا ہوں گے۔

جنگ کے بعد پاکستان کے حالات بہت بدل چکے تھے۔ مالی مشکلات اپنی جگہ، مشرقی پاکستان میں بھی حالات نہایت خراب تھے۔ مجیب الرحمٰن کی تحریک زور پکڑتی جا رہی تھی۔ امریکا کو اب پاکستان میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ویت نام جنگ عروج پر تھی اور اس کی ساری توجہ وہیں پر تھی۔

1967 آتے آتے ایوب خان اچھے خاصے اینٹی امیریکن بن چکے تھے۔ وہ یہ تک سمجھنے لگے کہ سی آئی اے اُن کے خلاف سازشیں کر رہی ہے۔ بہرحال، 1969 آگیا۔ امریکا میں جانسن کی حکومت ختم ہوئی اور پاکستان میں ایوب خان کا دور بھی اختتام کو پہنچا۔

رچرڈ نکسن اور ایوب خان کا استعفا ایک ساتھ آیا لیکن پاکستان میں حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ 71 کی جنگ نے پاک امریکا تعلقات کو زوال کی انتہا پر پہنچا دیا۔ امریکا نے اپنا ساتواں بحری بیڑا خلیجِ بنگال میں بھیجا تو سہی لیکن وہ پاکستان کو شکست سے اور 93 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے سے نہ بچا سکا۔

جوہری توانائی سے چلنے والے یو ایس ایس انٹرپرائز کے کپتان سے پوچھا گیا کہ خلیج بنگال میں ان کا مشن کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں کیا گیا۔ شاید امریکا دنیا کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ وہ مصیبت میں دوستوں کی مدد کرتا ہے۔

بچا کھچا پاکستان اور امریکا

‏1971 میں، بد ترین حالات کے باوجود، پاکستان نے امریکا کا ایک کام ضرور کیا اور وہ تھا جولائی میں امریکا اور چین کے تعلقات بہتر بنانے میں کردار۔ امریکا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کیسنجر پاکستان آئے اور یہاں سے خفیہ دورے پر چین گئے۔ یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور کمیونسٹ بلاک میں دراڑ ڈالنے کا امریکی مشن کامیاب ہوا۔ لیکن اتنے بڑے کام کا صلہ کچھ نہ ملا اور دسمبر میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔

اب بچا کچھا پاکستان تھا جس پر ذوالفقار علی بھٹو حکمران تھے۔ ان کے دور میں پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بہت بگڑ گئے۔ سقوطِ ڈھاکا کے فوراً بعد جنوری 1972 میں بھٹو نے ایٹمی سائنس دانوں سے ملاقات کی۔ اب انہیں بچے کچھے پاکستان کو بچانے کا نیا فارمولا بنانا تھا کیونکہ انڈیا ایٹمی پاور بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ 1974 میں اُس نے پہلا ایٹمی تجربہ بھی کر دیا تھا۔

جیسے جیسے پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تیز ہوا، امریکا کی تشویش بڑھنا شروع ہوگئی۔ یہ امریکا کے ناقابل برداشت تھا، بات بگڑتی گئی۔ یہاں تک کہ اپریل 1977 میں بھٹو نے پارلیمنٹ میں کہہ دیا کہ امریکا پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس سے پہلے وہ ایک دھمکی آمیز خط کا ذکر بھی کر چکے تھے، جو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھیجا تھا۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا خط نہیں تھا، ایسی ہی ایک دستاویز بعد میں بھی آئی، جس کے بارے میں ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔

سفید ہاتھی

بھٹو کا یہ کہنا تھا کہ ویت نام میں امریکا کی حمایت نہ کرنا اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ دینا، اُن کا جرم ہے اور یہ جرم امریکا کبھی معاف نہیں کرے گا۔ انہوں نے پونے دو گھنٹے تقریر کی، جس میں امریکا کو سفید ہاتھی کہا، جو بھول تو جاتا ہے لیکن معاف نہیں کرتا۔

بعد میں جب بھٹو کا دور ختم ہوا اور انہیں احمد قصوری قتل کیس میں گھسیٹا گیا۔ تب بھی عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو نے یہی کہا کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ میں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا عزم کیا۔ اس کیس میں بھٹو کو بالآخر پھانسی ہو گئی اور پھر شروع ہوا پاکستان میں آمریت کا ایک اور دور۔ اور جب ملک میں آمریت ہو تو امریکا سے پیار بڑھ جایا کرتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے آرمی چیف، ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ان کے دور میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے پاکستان اور امریکا کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ اتنے قریب کہ شاید اس سے زیادہ قربت پہلے کبھی نہ دیکھی گئی۔

پاکستان، فرنٹ لائن اسٹیٹ

پانچ جولائی 1977 کی وہ گرم رات، جو صبح میں بدلی تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ ریڈیو بلیٹن میں اعلان ہوا: مسلح افواج نے ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے اور سیاسی قیادت نظر بند کر دی گئی ہے۔ بس یہی اعلان تھا۔ اور کچھ نہیں لیکن ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ شروع ہو چکا تھا اور بغیر کوئی گولی فائر کیے کامیاب بھی ہو گیا۔

بھٹو کا اقتدار ختم ہو گیا اور اب جنرل محمد ضیاء الحق کا راج تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک ہنگامہ خیز دور شروع ہو گیا، 1979 وہ سال تھا جس میں تین بڑے واقعات ہوئے۔ فروری میں پڑوسی ملک ایران میں انقلاب آیا، پھر اپریل میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور اسی مہینے افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آ گیا۔ جسے بچانے کے لیے دسمبر میں سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دیں۔

یہ تینوں ڈیولپمنٹس ضیا کے حق میں گئیں۔ سوویت یونین کے افغانستان میں داخلے سے ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ پاکستان کے افغانستان سے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے تھے۔ اب تو سوویت یونین جیسی سپر پاور خود وہاں پہنچ چکی تھی۔ یہیں افغان جہاد کا آغاز ہوا، جس میں امریکا بھی کود پڑا۔

رونلڈ ریگن انتظامیہ نے اربوں ڈالر افغان مجاہدین کے لیے پاکستان کو دیے۔ یہاں تک کہ امریکا نے پاکستان کو ایف 16 طیارے بھی دیے۔ سعودی عرب سے بھی بہت کچھ ملا، مجاہدین بھی اور فنڈز بھی۔ یوں پاکستان فرنٹ لائٹ اسٹیٹ بن گیا۔

لانگ رن میں پاکستان کو اِس ایڈونچر کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی اور ملک آج تک اس دلدل سے باہر نہیں نکل پایا۔ افغان جنگ کے نتیجے میں 30 لاکھ مہاجرین پاکستان آئے، اور اسلحے اور منشیات کی ایک پیریلل اکانمی کھڑی ہو گئی۔

1988 میں جنیوا معاہدہ ہوا اور افغان جنگ کا خاتمہ ہوا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ 17 اگست 1988 کو صدر ضیاء الحق کا طیارہ بہاولپور میں پراسرار طور پر کریش کر گیا۔

جمہوریت شروع، امریکا ناراض

ضیاء الحق کے بعد پاکستان میں جمہوریت کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ افغان جنگ ختم ہو چکی تھی، سوویت یونین بھی ٹوٹ چکا تھا، اس لیے اب امریکا کا پاکستان میں کوئی مفاد نہیں تھا۔ جیسے ہی کام نکلا، ایک بار پھر سرد مہری شروع ہو گئی۔ لیکن ابھی ایک کانٹا اٹکا ہوا تھا۔ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام چل رہا تھا، جس سے امریکا کو شدید خطرہ تھا۔

جون 1989 میں بے نظیر نے امریکا کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو انہیں کھلے الفاظ میں وارننگ دے دی گئی کہ اگر نیوکلیئر پروگرام ختم نہ ہوا تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یہ بھی دھمکی دی گئی کہ پاکستان کو ’’دہشت گرد‘‘ ریاست قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن پاکستان نے امریکا کی نہیں مانی، جس پر اگلے سال پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی تمام تر امداد بند کر دی گئیں، سویلین بھی اور فوجی بھی۔ یہاں تک کہ ان ایف 16 طیاروں کو بھی روک لیا گیا، جن کی پیمنٹ پاکستان نے شروع کر دی تھی۔

ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ جب تک افغانستان میں جنگ تھی، نیوکلیئر ہتھیاروں سے زیادہ اہم افغانستان تھا اور جب امریکا کی افغانستان میں دلچسپی ختم ہوگئی تو یہ تو ہونا ہی تھا۔ اس حرکت پر امریکا کو انڈین لابی سے تو بڑی شاباشی ملی لیکن یہ حرکت پاک امریکا تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اگلے 10 سال تک پاکستان میں جمہوریت رہی اور جب پاکستان میں جمہوریت ہو تو امریکا سے تعلقات خراب ہی رہتے ہیں۔

اس عرصے میں کوئی پاکستان حکومت مدت پوری نہیں کر پائی، کھینچا تانی چلتی رہی۔ امریکا کی بے رخی بھی جاری رہی، یہاں تک کہ وہ ہو گیا جس نے امریکا سمیت پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔

پاکستان کے ایٹمی تجربات

پاکستان نے ایٹمی تجربہ کر لیا جب ایٹمی دھماکا کیا گیا۔ تو اُس وقت ملک پر 34 ارب ڈالر کا قرضہ تھا، یعنی مجموعی قومی پیداوار کا نصف۔ اس قرض پر سود کے لیے ہر سال ساڑھے چار ارب ڈالر درکار تھے۔ تجارتی خسارہ 4.5 ارب ڈالر کی تاریخی سطح پر کھڑا تھا۔ صنعتی پیداوار صرف تین فیصد تھی، مہنگائی 20 فیصد کی بلندی پر تھی اور بے روزگاری خطرناک حدوں کو چھو رہی تھی۔ پھر بھی پاکستان نے وہ فیصلہ کیا، جو امریکا کو بالکل پسند نہیں آیا۔ اُس نے پاکستان کو بڑی آفرز کیں، صدر کلنٹن نے پریسلر ترمیم ختم کرنے، ایف 16 طیارے دینے اور اربوں ڈالر کی امداد کا کہا لیکن پاکستان نہیں مانا۔

جو کسر رہ گئی تھی وہ 1999 میں کارگل ایڈونچر نے پوری کر دی۔ اس کے بعد بگڑتے حالات کو سنبھالنے کے لیے جولائی 1999 میں نواز شریف کو امریکا جانا پڑا۔ وہ امریکا سے خالی ہاتھ واپس آئے اور آج بھی ان کے خلاف یہ پروپیگنڈا ہوتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا سودا کر دیا۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ ستمبر 1999 میں امریکا نے واضح بیان دیا کہ پاکستان کے مسائل کا کوئی فوجی حل نہیں لیکن فیصلہ ہو چکا تھا۔ اگلے ہی مہینے پاکستان میں ایک اور مارشل لا لگ گیا۔

سب سے پہلے پاکستان

دنیا نئے حوصلے، نئے عزم کے ساتھ اکیسویں صدی میں داخل ہوئی لیکن پاکستان کا سر جھکا ہوا تھا۔ کارگل میں مداخلت کا الزام اور ساتھ ہی طالبان حکومت کی حمایت اور ہاں! یہ بھی کہ ملک پر ایک آمر کا راج تھا۔

معیشت کی بدحالی کے بعد بس اب یہی ہونا رہ گیا تھا۔ امریکا کی نظر میں پاکستان کی حیثیت کیا رہ گئی تھی؟ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن آخری وقت پر انہوں نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیا۔

امریکی صدر نے مطالبہ کیا کہ پاکستان عسکریت پسندوں کو لگام دے، انڈیا کے ساتھ کشیدگی کم کرے اور ہاں! جمہوریت بحال کرے۔ حکومتِ پاکستان نے لمبی چوڑی وضاحتیں اور ضمانتیں دے کر کلنٹن کو آنے پر آمادہ کیا۔ مارچ 2000 میں وہ پاکستان کے دورے پر آئے، اور صرف چار گھنٹے بعد روانہ ہوگئے۔ ان کے لیے پورا اسلام آباد بند کر دیا گیا۔

بل کلنٹن نے پاکستانی قوم سے خطاب بھی کیا، ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک غیر ملکی حکمران نے ٹیلی ویژن پر خطاب کیا تھا۔ امریکی صدر نے جمہوریت کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل پر زور دیا۔ اور ساتھ ہی نیوکلیئر اور فوجی اخراجات پر صرف ہونے والے وسائل کو ترقی پر لگانے کی ہدایت کی۔ جس طرح یہ دورہ ہوا، اس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بہرحال، اگلے ہی مہینے، یعنی اپریل 2000 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ اس میں پہلی بار جنوبی ایشیا کو دہشت گردی کا بڑا مرکز قرار دیا گیا۔ ہاں! پاکستان کو دوست ملک ضرور کہا گیا، جو اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان بد ترین حالات میں مشرف کی قسمت اچانک جاگ اٹھی۔ ایک تو 2000 میں امریکا میں ری پبلکن پارٹی جیت گئی جس کے آنے کے بعد پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ تو سمجھیں ختم ہو گیا۔ ہاں! انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی سمت بڑا کام ہوا۔ جولائی 2001 میں مشرف نے بھارت کا دورہ کیا اور دو مہینے بعد دنیا بدل گئی۔

11 ستمبر 2001 کو امریکا پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ امریکا نے الزام لگایا القاعدہ پر، جس کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں تھے۔ یوں پاکستان ایک بار پھر امریکی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ امریکا کی پاکستان سے بے وفائیوں کا ریکارڈ بہت پرانا ہے۔ 1965 میں نازک موڑ پر فوجی امداد بند کردینا، 71 میں پاکستان کو بچانے میں مدد نہ کرنا اور افغان جنگ کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دینا۔ لیکن اس بار جو ہونا تھا وہ سب سے زیادہ خطرناک تھا۔

القاعدہ کو افغانستان سے اکھاڑنے کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت تھی۔ مشرف کراچی میں تھے، جب انہیں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی کال آئی۔ انہوں نے انہیں صدر بش کا پیغام دیا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف؟ نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمیٹیج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں کا ساتھ دیا تو ہم بمباری کر کے اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ میں نے یہ الفاظ ادا نہیں کیے تھے۔ جو بھی ہو، دھمکی کام کر گئی۔ مشرف نے ہاں کر دی!

پاکستان نے 180 ڈگری کا ٹرن لیا اور اب پاکستان ایک نئے راستے پر تھا، ایک unknown territory میں۔ شروع میں اس ایڈونچر کا پاکستان کو بہت مالی فائدہ ہوا۔ واشنگٹن نے تمام پابندیاں ختم کر دیں، اربوں ڈالر کا فوجی اور معاشی پیکیج دیا، قرضے ری شیڈول کیے، گرانٹس دیں اور تجارتی فائدے بھی ملے۔ ڈالر کی وہ برسات ہوئی کہ پاکستان، اسرائیل اور مصر کے بعد امریکی امداد لینے والا تیسرا بڑا ملک بن گیا۔ پانچ سال پاکستان کو بھرپور امداد ملی۔ صرف 2002 میں پاکستان کو ملنے والی رقم 1151 ملین ڈالر تھی۔

امریکا ایک بار پھر پاکستان میں آمریت کا پشت پناہ بن گیا۔ اس بار تو یہ پیار اتنا بڑھا کہ مشرف کو لوگ ’’بشرف‘‘ کہنے لگے لیکن اس پیار کی قیمت پاکستان کو بھگتنا پڑی، اور یہ قیمت بہت بھاری تھی۔

نائن الیون کے بعد ملک میں حالات تیزی سے بگڑنے لگے۔ یہاں تک کہ 2005 میں تشدد کی وہ لہر اٹھی، جو اگلے دس بارہ سال تک ملک کو جلاتی رہی۔ اکبر بگٹی کے قتل نے بلوچستان میں آگ لگائی اور لال مسجد واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ انتہا 12 مئی 2007 کا واقعہ تھا، جسے مشرف نے ’’عوام کی طاقت کا اظہار‘‘ قرار دیا۔

پھر ملک میں آئین کو معطل کر دیا گیا اور ایمرجنسی لگا دی گئی۔ یہ قدم مشرف اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ تاریخ کے کوڑے دان میں ایک اور ٹشو پیپر کا اضافہ ہو گیا۔

پتھر کا دور

پرويز مشرف کے دور میں پاکستان سیاسی بحران کا شکار تو ہوا ہی، لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی، سماجی اور مذہبی بحران سے بھی دوچار کیا گیا۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ دہشت گردی نے پوری کر دی۔ ‏2006 میں 657 حملے ہوئے جن میں 907 افراد جاں بحق ہوئے۔ آنے والے چند برسوں میں ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 2007 میں 1515 دہشت گرد حملے، ‏2008 میں 2148 اور 2009 تو بدترین سال ثابت ہوا، 2586 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 3 ہزار سے زائد لوگوں نے جان دی۔

نائن الیون کے بعد صرف 10 سال میں پاکستان میں 35 ہزار لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور معیشت کو 67 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ پرویز مشرف نے پتھر کے دور سے بچانے کے لیے امریکا کا ساتھ دیا، لیکن پاکستان پھر بھی پتھر کے دور میں پہنچ گیا۔ تبھی کہتے ہیں امریکا کی دشمنی بھی بُری اور دوستی بھی! اس لیے پاکستان میں جو کچھ ہوا، امریکا دیکھتا رہا کیونکہ وہ اپنا کام نکلوا چکا تھا بلکہ اب تو اس نے الزام لگانا شروع کر دیا کہ پاکستان نے امریکا کو ڈبل کراس کیا۔ ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبات بڑھتے چلے گئے اور یہ ڈو مور بعد میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ تک پہنچ گیا، کیسے؟ یہ آپ کو آگے بتائیں گے۔ ابھی چلتے ہیں پوسٹ مشرف پاکستان کی طرف، جس میں دہشت گردی، بد امنی اور معاشی بد حالی تو ایک طرف، ایک نیا کردار بھی کھل کر سامنے آ گیا: ڈرون حملے!

ڈرونز سے میمو تک

نئی صدی، نئی جنگ اور نئی ٹیکنالوجی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک نیا ہتھیار بھی سامنے آیا، ڈرونز۔ مشرف کے جانے کے بعد ڈرون حملوں میں بلا کی تیزی آ گئی۔ مشرف کے ہوتے ہوئے پانچ سالوں میں 45 حملے ہوئے، جن میں سے چھتیس 2008 میں ہوئے۔ ان کے بعد 2009 میں 54 اور 2010 میں 122 حملے ہوئے۔ یہ سلسلہ 2017 تک چلتا رہا، جس میں پاکستان پر ٹوٹل 409 ڈرون حملے کیے گئے۔ ان حملوں میں 3096 لوگ مارے گئے۔ پاکستانی سرحدی حدود کی اتنی کھلی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ کیا اس میں پاکستان کی رضا مندی شامل تھی؟ یا یہ پاکستان کے دفاع کا مذاق تھا؟ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان دنیا میں ایک ناکام ریاست تصور ہونے لگا تھا۔

سال 2010 میں ڈرون حملے اپنی پیک پر پہنچے، 122 حملوں میں 849 افراد مارے گئے۔ 2011 اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ لاہور میں سی آئی اے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے دو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پاکستان اور امریکا میں کشیدگی اتنی بڑھی کہ انٹیلی جنس شیئرنگ تک بند ہو گئی۔ تب واشنگٹن نے امریکی اور پاکستانیوں شہریوں پر مشتمل ایک پرائیوٹ نیٹ ورک بنایا جس نے ڈراپ سین کر دیا۔

دو مئی 2011 کو ایک آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی قیادت انکار کرتی رہی کہ انہیں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا کوئی پتہ نہیں تھا لیکن۔ domino effect شروع ہو چکا تھا۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک اور دھماکا ہو گیا۔

لندن کے اخبار فائنانشل ٹائمز میں ایک کالم چھپا۔ ایک پاکستانی امریکن بزنس مین منصور اعجاز نے دعویٰ کیا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ایک سینیئر پاکستانی سفارت کار نے انہیں پیغام رسانی کا ٹاسک دیا۔ امریکیوں کو آگاہ کرنا تھا کہ پاکستانی فوج حکومت میں مداخلت کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس میمو پر نہ کوئی تاریخ تھی اور نہ دستخط لیکن یہ امریکی ایڈمرل مائیک مولن کو بھیجا گیا۔ اس میمو کو پاکستان میں سویلین گورنمنٹ کی آرمی پر اپر ہینڈ حاصل کرنے کی کوشش کہنا چاہیے کیونکہ اس میں بہت سی باتیں تھیں۔ ایک، پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کو تبدیلی کرنے کی کوشش کی بات۔ یہی نہیں، شمالی وزیرستان میں جلال الدین حقانی گروپ کی سپورٹ ختم کروانے اور نیوکلیئر ویپنز کے لیے ایک ٹرانسپیرنٹ رجیم بنانے کا وعدہ بھی۔

منصور اعجاز کے مطابق اس میمو کا سورس کوئی اور نہیں امریکا میں موجود پاکستانی سفیر حسین حقانی تھے۔ لوگ ایبٹ آباد آپریشن کو بھول گئے، اب ہر طرف میمو گیٹ کا ہنگامہ تھا۔ حسین حقانی نے استعفا دے دیا اور انہوں نے منصور اعجاز سے رابطے اور میمو کا سرے سے انکار کردیا۔ یہاں حسین حقانی اور منصور اعجاز کی بلیک بیری پر ہوئی گفتگو ریلیز ہو گئی۔ ثابت ہو گیا کہ میمو انہوں نے ہی لکھا تھا۔

حسین حقانی پر سنگین غداری کا مقدمہ بنا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا نے عدالت میں بیانات دیے۔ وزیر اعظم گیلانی نے دونوں کے حلف ناموں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا۔ جواب در جواب کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ معاملہ خطرناک حد تک پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ یوسف رضا گیلانی کی وزارت چلی گئی۔

2011: بدترین سال

ایبٹ آباد آپریشن پاکستان کو پہنچنے والا کوئی پہلا دھچکا نہیں تھا۔ اس سے کچھ مہینے پہلے 27 جنوری 2011 کو لاہور میں بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ امریکی سی آئی اے کے ایک کانٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے دن دہاڑے دو لڑکوں کو قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد لوگوں نے اسے گھیر لیا، تب امریکی قونصلیٹ کی ایک گاڑی اس کی مدد کے لیے رانگ سائیڈ سے اتنی اسپیڈ سے آئی کہ ایک نوجوان کچل کر مارا گیا۔ ہجوم بہت تھا، اس لیے یہ گاڑی ریمنڈ ڈیوس تک نہ پہنچ سکی، عوام نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ کیس سیدھا سادا قتل کا تھا مگر امریکی حکومت اپنے ایجنٹ کو بچانے کے لیے کود پڑی۔ یہاں تک کہ امریکی صدر نے تو ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار کہہ دیا۔ صرف اس لیے کہ اسے diplomatic immunity مل جائے۔

ایک معمولی سے اہلکار کو بچانے کے لیے امریکا اپنا فرنٹ لائن اتحادی قربان کرنے کے لیے بھی تیار تھا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑنے لگے۔ پاکستان کی امداد تک روک دی گئی لیکن صدر آصف علی زرداری امریکا سے تعلقات قائم رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو ذمہ داری دی کہ یہ مسئلہ حل کریں اور پھر مارے گئے نوجوانوں کے گھر والوں کو خوں بہا لینے پر راضی کر لیا گیا۔

چیف جسٹس افتخار چودھری اور اپوزیشن رہنماؤں کو بھی آن بورڈ لیا گیا۔ نواز شریف ہمیشہ کی طرح نازک مرحلے پر بیمار پڑ گئے اور ملک سے چلے گئے۔ ان کے پیچھے شہباز شریف عیادت کے لیے روانہ ہو گئے۔ پھر 16 مارچ 2011 کا وہ دن آیا جب لواحقین نے ریمنڈ ڈیوس کو معاف کر دیا۔ خوں بہا کے 21 کروڑ روپے بھی وزیر اعظم کے خصوصی فنڈ سے ادا کیے گئے۔ ریمنڈ ڈیوس رہا ہو گیا۔ امریکی سفیر کیمرون منٹر اسے لینے خاص طور پر لاہور آئے اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر لاہور ایئرپورٹ سے روانہ کیا۔

اس پورے معاملے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وزارت بھی گئی اور یہ سب اُس وقت ہوا جب ’’وار آن ٹیرر‘‘ اپنے عروج پر تھی۔ نیٹو فورسز افغانستان میں موجود تھیں اور اِن فوجوں کے لیے سپلائی بھی پاکستان سے ہی جاتی تھی۔ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکا افغانستان میں ایک دن نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر امریکا کے لیے اپنے فرنٹ لائن اتحادی سے زیادہ اہمیت تھی۔ ایک کانٹریکٹر کی۔ ذرا ٹھیریے!

اِن دو واقعات کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ امریکا نے پاکستان کو ایک اور چرکا لگا دیا۔ ‏26 نومبر 2011 کی رات دو بجے افغانستان سے دو ایف 15 طیارے، دو اپاچی ہیلی کاپٹروں اور ایک اے سی ون تھرٹی گن شپ جہاز پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے اور پاک فوج کی سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں 24 پاکستانی فوجی شہید اور 13 زخمی ہوئے۔ پاکستان نے بڑا سخت ردِ عمل دیا اور اسے ملک پر حملہ قرار دیا۔

نیٹو اور امریکا نے غلطی کا اعتراف تو کیا لیکن باضابطہ معافی نہیں مانگی۔ جواب میں پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کر دی۔ متبادل سپلائی روٹ کی وجہ سے امریکا کو ہر مہینے لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہونے لگا۔ بالآخر اُس نے گھٹنے ٹیک دیے۔ تین جولائی 2012 کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے باضابطہ معافی مانگی اور 12 جولائی کو طورخم اور چمن بارڈر سے نیٹو سپلائی بحال ہو گئی۔

صرف ایک سال میں یہ تین واقعات پیش آئے، جن سے آپ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک طرف امریکا جیسا مغرور اور بد دماغ چودھری اور دوسری طرف پاکستان جیسا کمی کمین۔ ایسا غریب ہاری، جسے اپنے گھر پر بھی کوئی حق نہیں۔ اُس کی جان، مال اور عزت، سب چودھری کے رحم و کرم پر ہے۔

امریکا کا یہ سمجھنا سمجھ میں آتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے زیادہ تر حکمران بھی ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہم غریب اور بھکاری ہیں، نہ ہماری کوئی رائے ہے نہ کوئی پوزیشن اور نہ ہی کوئی عزت نفس۔

امریکا کتنی مداخلت کرتا ہے؟

امریکا کی ایک طویل تاریخ ہے، وہ دوسرے ملکوں میں داخل انداز کرتا ہے۔ جو حکومت اسے پسند نہیں ہوتی، اسے ہٹا دیتا ہے اور ان کی جگہ کٹھ پتلی حکمرانوں کو بٹھا دیتا ہے۔ پاکستان میں ملک بننے سے پہلے اس نے اپنی مداخلت کا راستہ بنانے کی کوشش کی۔

یکم مئی 1947 کو، پاکستان بننے سے ساڑھے تین مہینے پہلے دو امریکی افسران نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی۔ ان میں سے ایک امریکا کے جنوبی ایشیا ڈویژن کے سربراہ مسٹر ریمنڈ تھے اور دوسرے بھارت میں امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری تھامس ای ویل۔ دونوں قائد اعظم سے مل کر طے کرنا چاہتے تھے کہ پاک امریکا تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا؟ قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان روسی جارحیت سے نمٹنے میں امریکا کی مدد کرے گا، لیکن ہم کسی صورت انڈین یونین کو تسلیم نہیں کریں گے۔

قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا۔ یہاں تک کہ اُن کے قتل کا الزام تک امریکا پر لگایا گیا لیکن وہ تو ایک سویلین حکمران تھے۔ پاکستان میں تو فوجی جرنیل حمید گل یہ تک کہہ گئے کہ آرمی چیف کی سلیکشن امریکا کی مرضی سے ہوتی ہے اور میرے آرمی چیف نہ بننے کی وجہ یہ تھی کہ میں امریکا کو پسند نہ تھا۔

انہوں نے تو یہ الزام بھی لگایا کہ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو تباہ کرنے میں بھی امریکا ہی کا ہاتھ تھا۔ جب جرنیلوں کا یہ حال ہے تو سویلین حکمران کس کھیت کی مولی ہیں؟ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک کاغذ لہراتے رہ گئے کہ امریکا میرے خلاف سازش کر رہا ہے۔ تو حال ہی میں ہم نے عمران خان کو بھی دیکھا، جو ایک کاغذ لہراتے ہی رہ گئے۔

سائفر کیس

اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں تحریک انصاف کا جلسہ۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا اور دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی گئی۔ انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لئے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔ پی ٹی آئی نے الزام کسی اور پر نہیں بلکہ امریکا پر لگایا۔

اس کے بعد ہر طرف سائفر کے چرچے ہونے لگے۔ بعد میں وہ سائفر عمران خان کے پاس سے بھی غائب ہوگیا۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ امریکا کی خواہش تھی یا نہیں یا معاملہ کچھ اور تھا؟ حقیقت جو بھی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکا عمران خان سے خوش نہیں تھا۔

ایک تو انہوں نے افغانستان میں طالبان کی واپسی پر بڑا بیان دیا تھا، کہا تھا کہ آج غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں۔ ایک بار وہ اسامہ بن لادن کو شہید بھی کہہ گئے تھے۔ یہی نہیں، انہوں نے اپنے دور حکومت میں روس کا دورہ بھی کیا تھا۔ وہ بھی اُس وقت جب روس یوکرین پر حملہ کرچکا تھا اور امریکا سمیت تمام مغربی طاقتیں یوکرین کی پشت پر تھیں۔

اسی دوران امریکی نیوز سائٹ ’’انٹرسیپٹ‘‘ پر ایک رپورٹ بھی جاری ہوئی۔ اس میں انکشاف کیا گیا کہ امریکا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے اس سافٹ وئیر کو ہیک کیا جسے ملک کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت استعمال کرتی ہے۔ تبھی عمران خان نے کہا تھا:

کیا ہم کوئی غلام ہیں؟

کچھ واقعات تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ ہم واقعی امریکا کے غلام ہیں اور غلامی کو مضبوط کرنے کا ایک سادہ سا امریکی فارمولا ہے، ایک تو یہ کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہ ہو۔ ایوب خان ہوں یا یحیٰی خان، ضیاء الحق ہوں یا پرویز مشرف، امریکا کے پاکستان سے تعلقات ہر آمر کے دور میں ہمیشہ بہتر رہے ہیں۔

جبکہ لیاقت علی خان سے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف سے عمران خان تک جمہوری دور میں پاک امریکا تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کا چمپیئن بننے والا امریکا پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ہر ملک میں آمریت چاہتا ہے۔

غلام رکھنے کا دوسرا فارمولا ہے مالی بیساکھیاں۔ پاکستان کو شروع سے ہی محتاج بنا دیا گیا، اور ہم نے بھی یہ سب خوشی خوشی قبول کرلیا۔ ہم آج تک آئی ایم ایف سے 22 بار قرض لے چکے ہیں، پہلا پیکج 1958 میں لیا گیا۔ جی ہاں! آمریت آتے ہی اور آخری پیکج ابھی جاری ہے۔ ہائبرڈ نظام کے تلے! جب تک یہ پیکیجز ختم نہیں ہوں گے پاکستان کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اک خواب رہے گا۔ ہاں! جس دن خود سے جینا سیکھ لیا، وہ پاکستان کی آزادی کا پہلا دن ہوگا۔

آج پاکستان ایک بار پھر نازک موڑ پر ہے۔ جبکہ امریکا کے مخالف بلاک میں رہنے والا بھارت واشنگٹن کا چہیتا بنا ہوا ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ صرف جنگوں تک محدود رہا اور بھارت کے ساتھ تجارت میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ نرم گرم تعلقات میں کبھی تعاون رہا تو کبھی عدم اعتماد اور کبھی کھل کر مخالفت۔ یہ مرحلے پہلے بھی آئے اور آئندہ بھی آتے رہیں گے۔ لیکن اک بات اب اچھی طرح واضح ہو جانی چاہیے اور وہ یہ کہ پاکستانی عوام کو قربانی کی بھینٹ چڑھا کر لیڈروں کو نوازنے کا ماڈل، اب نہیں چلے گا۔

شیئر

جواب لکھیں