پاکستان میں سیاسی بے یقینی کے دوران عوام کی نظریں ایک بار پھر امریکا کی جانب اٹھ گئیں۔ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر خوشیاں منانا، بحث کرنا اور امیدیں وابستہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی مشکلات کا حل خود تلاش کرنے کے بجائے سمندر پار دیکھ رہے ہیں۔ یہی سوال فرحان ملک صاحب سے پوچھا جو رفتار پوڈکاسٹ میں ہمارے مہمان بنے۔

فرحان ملک صاحب نے کہا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری قوم اپنی بہتری کے لیے امریکا کے سیاسی نتائج پر انحصار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی آئینی یا قانونی بحران نہیں بلکہ اخلاقی بحران ہے۔ ہمیں خود کو مضبوط کرنا ہوگا، کیونکہ ہماری بقا کسی دوسرے ملک کے فیصلوں سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے وابستہ ہے۔

فرحان صاحب نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ٹرمپ مخالفت کے باوجود ان کی واپسی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا میں انتخابات کا احترام ہوتا ہے، چاہے نتائج کسی کے حق میں ہوں یا نہ ہوں۔ ٹرمپ پر الزامات لگے، میڈیا مخالف تھا، حملے بھی ہوئے، لیکن امریکی عوام کی رائے کو تسلیم کیا گیا۔ وہاں طاقت کا احترام ووٹ کو حاصل ہے، بوٹ کو نہیں۔

ملک صاحب نے کہا کہ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان حیرت انگیز مشابہت ہے۔ دونوں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں، سوشل میڈیا کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہیں اور عوام میں مقبول ہیں۔ تاہم، فرق یہ ہے کہ امریکا میں نتائج کا فیصلہ عوام کرتے ہیں، سسٹم نہیں۔ وہاں کا نظام ٹرمپ کا راستہ روکنے میں ناکام رہا، لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستانی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود نہیں کریں گے تو ہمیشہ دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اپنے مسائل کا حل خود نکالنا ہوگا کیوں کہ کینسر کا علاج پینیڈول سے نہیں ہوتا۔

آخر میں فرحان ملک صاحب نے کہا کہ یہ وقت سوچنے کا ہے۔ ہمیں اپنی اخلاقی اور قومی بنیادیں مضبوط کرنی ہوں گی۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہم ہمیشہ دوسروں کی خوشیوں پر اپنی امیدیں لگاتے رہیں گے۔

شیئر

جواب لکھیں