چاہے دنیا بھر میں ٹک ٹاک پر پابندی کی کتنی ہی باتیں کیوں نہ چل رہی ہوں یا کسی کو یہ کتنا ہی عجیب کیوں نہ لگتا ہوں، لیکن ٹک ٹاک کو روکنے والی کوئی طاقت نظر نہیں آتی۔ شارٹ وڈیو پلیٹ فارم کے مالک ادارے بائٹ ڈانس نے ایک سال میں 30 فیصد اضافے کے ساتھ 85 ارب ڈالرز کی آمدنی حاصل کر لی ہے، جو چین کے دوسرے بہت بڑے اداروں ٹین سینٹ اور علی بابا سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
ٹین سینٹ نے سال 2022 میں 23.9 اور علی بابا نے 22.5 ارب ڈالرز کمائے، لیکن بائٹ ڈانس کا صرف منافع ہی 25 ارب ڈالرز ہے ، یعنی دونوں کی آمدنی سے بھی زیادہ۔ اس زبردست کامیابی کی وجہ سے ٹک ٹاک، اور اس کے چینی متبادل Douyin پر اشتہار دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنی نے چین سے باہر سے صرف 15 ارب ڈالرز کمائے ہیں۔ وہ الگ بات یہ کہ رقم 2021 کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے لیکن یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونِ ملک پابندی لگنے سے بھی کمپنی پر کوئی خاص اثر پڑنے والا نہیں۔ کیونکہ 70 ارب ڈالرز کی آمدنی تو کمپنی نے چین ہی سے حاصل کر لی۔
بائٹ ڈانس کی ویلیو گزشتہ سال ہی 300 ارب ڈالرز سے زیادہ تھی۔ یوں وہ دنیا کی سب سے زیادہ ویلیوایبل پرائیوٹ کمپنی ہے۔ باوجود اس کے کہ کمپنی کو امریکا کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا ہے کہ وہ ٹک ٹاک پر پابندی لگا دے گا۔ امریکا الزام لگاتا ہے کہ کمپنی اپنا ڈیٹا چینی حکومت کو بیچتی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں 12 ممالک ایسے ہیں جہاں ٹک ٹاک پر جزوی یا مکمل پابندی ہے لیکن ٹک ٹاک کو مالی لحاظ سے آگے بڑھتا دیکھ کر لگتا نہیں کہ اس کا کوئی فرق کمپنی کو پڑا ہے۔