چاہے اب کتنی ہی وضاحتیں کیوں نہ پیش کی جائیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ بابر اعظم کی کپتانی پر جو سوال اٹھے ہیں، چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی کی وضاحت سے اُن کا جواب نہیں ملے گا۔

نجم سیٹھی نے سب کے سامنے تو بابر اعظم کی حمایت کی ہے لیکن ٹوئٹر پر ان کے الفاظ کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ اب بابر کے لیے معاملات آسان نہیں ہوں گے۔

چیئرمین پی سی بی کہتے ہیں کہ بابر اعظم کو ہر فارمیٹ میں کپتان برقرار رکھنے کے فائدے اور نقصانات پر بات ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے سابق اور موجودہ چیف سلیکٹر سے بات بھی ہوئی تھی جنھوں نے بالآخر یہی فیصلہ کیا کہ موجودہ کپتان کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اب ہیڈ کوچ وغیرہ کی رائے بھی بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔ اس لیے ہمیں کپتان کی حیثیت سے بابر اعظم کی تائید اور حمایت کرنی چاہیے اور یہی قومی ٹیم کے مفاد میں ہے۔

ذرا الفاظ کا انتخاب دیکھیں، "کرنا چاہیے"، یہ نہیں کہا کہ ہم ہر قیمت پر تائید اور حمایت کریں گے۔ سیٹھی صاحب پرانے صحافی ہیں، الفاظ کے کھلاڑی ہیں اور ان کی جانب سے کسی لفظ کا انتخاب دراصل صورت حال کی نزاکت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کہنے سے کچھ نہیں ہوگا کہ "اب افواہوں کا زور ٹوٹ گیا اور جعلی خبریں پھیلانے والے اپنی موت آپ مر گئے۔ "

بابر کی کپتانی پر پہلا سوال کب اٹھا؟

پاکستان کے آل فارمیٹ کیپٹن بابر اعظم کی قیادت پر پہلا سوال مایوس کن ہوم سیریز کے بعد اٹھا۔ پاکستان انگلینڈ سے ٹیسٹ سیریز بُری طرح ہارا، پھر ٹی ٹوئنٹی میں بھی برتری حاصل کرنے کے باوجود شکست کھائی۔ یہی نہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز بھی نہیں جیت پایا اور ون ڈے سیریز کی ہار کے ساتھ خطرہ واضح ہو گیا۔ اس کی پہلی علامت اس وقت ظاہر ہوئی جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے شان مسعود کو اچانک ون ڈے میں نائب کپتان بنانے کا اعلان کر دیا۔ اب صاف ظاہر ہو چکا تھا کہ کوئی کھچڑی تو پک رہی ہے۔ معاملہ تب گمبھیر ہوا جب نائب کپتان صاحب کو پہلے دونوں ون ڈے میچز میں کھلایا ہی نہیں گیا۔ یعنی اب کھلے عام رسّا کشی چل رہی تھی۔

یہاں تک کہ افغانستان کے خلاف سیریز آ گئی اور جھاڑو پھر گئی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے نہ صرف بابر بلکہ محمد رضوان، فخر زمان، حارث رؤف اور شاہین آفریدی سبھی کو باہر بٹھا دیا اور ٹی ٹوئنٹی قیادت دے دی شاداب خان کو۔ یہ بابر کی خوش قسمتی سمجھیں کہ پاکستان یہ سیریز ہار گیا اور اب بابر سمیت سب کو واپس بلا لیا گیا ہے۔

اب کیا ہوگا؟

اب نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہاں شکست کی صورت میں واقعی بابر کی کم از کم ایک فارمیٹ میں کپتانی چلی جائے۔

ایک ایسے سال میں، جس میں ورلڈ کپ کھیلا جائے گا پاکستان کرکٹ میں کپتانی کی دوڑ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں ایسے ہی تماشے ہم 2011 اور 2015 بلکہ اس سے پہلے والے کئی ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی۔

شیئر

جواب لکھیں