زیادہ دن نہیں گزرے، پاکستان سپر لیگ 2023 کے ایک میچ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بابر اعظم نے کہا تھا کہ نوجوان کھلاڑیوں کو ابھی ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے کا موقع دیں۔ وہاں جتنی اچھی کارکردگی پیش کریں گے، ان کے لیے بہتر ہوگا۔ لیکن کپتان کے خدشے کے عین مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک انتہائی ناتجربہ کار ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا، وہ بھی افغانستان کے مضبوط ترین اسکواڈ کا سامنا کرنے کے لیے۔

امیدیں تو خیر بڑی تھیں، لیکن سب پر پانی پھر گیا۔ پاکستان افغانستان کے ہاتھوں ابتدائی دونوں میچز بُری طرح ہار گیا۔ وہ ٹیم جو کبھی پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ میں نہیں ہرا پائی، نہ صرف پہلا مقابلہ بلکہ سیریز بھی جیت گئی۔

جہاں پاکستان کی بیٹنگ لائن بُری طرح ناکام ہوئی، وہیں بالنگ اٹیک بھی بہت ہلکا نظر آیا، کپتانی میں تو دم خم ہی دکھائی نہیں دیا اور سب سے افسوس ناک بات یہ کہ جس کا خطرہ تھا وہی ہوا، نوجوان کھلاڑی بُری طرح ناکام ہوئے۔

نوجوانوں کا حال

عبد اللہ شفیق نے دونوں میچز میں صفر کی ہزیمت اٹھائی اور مسلسل چار میچز میں 'ڈک' سہنے والے تاریخ کے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ صائم ایوب پہلے میچ میں 17 رنز بنانے کے بعد کلین بولڈ ہوئے اور دوسرے میں انھیں بھی صفر پر واپس آنا پڑا۔ محمد حارث بھی 6 اور 15 رنز ہی بنا سکے۔ طیب طاہر 16 اور 13 رنز سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ بڑی امیدوں اور ارمانوں کے ساتھ بلائے گئے اعظم خان پہلے میچ میں صفر اور دوسرے میں صرف ایک رن پر وکٹ دے گئے اور وکٹوں کے پیچھے بھی جو کارکردگی پیش کی، وہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں۔

شکست کی وجہ، ناتجربہ کاری یا کچھ اور؟

پاک-افغان سیریز میں شکست کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ پہلی اور واضح ترین وجہ تو تجربے کی کمی ہے۔ پوری ٹیم کی اوسط عمر صرف 24 سال ہے، اور دوسرا میچ کھیلنے والی ٹیم کے سات کھلاڑی ایسے تھے جن کا انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس سیریز سے یہ بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ لیگ کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ بہت الگ قسم کی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے ایسے کھلاڑی گزرے ہیں جو ڈومیسٹک میں تو کمالات کر گئے، لیکن انٹرنیشنل سرکٹ میں اُن کی ایک نہیں چلی۔

دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے خلاف میدان میں اتاری گئی ٹیم کا توازن درست نہ ہونا ہے۔ ٹیم میں جہاں بے خوف نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ کھیلنے والے تجربہ کاروں کا بھی ہونا بہت ضروری ہے۔ یہی توازن جیت کے امکانات بڑھاتا ہے۔ لیکن اِس ٹیم میں ایسا نہیں تھا۔ صرف پی ایس ایل کے چند میچز کی کارکردگی کی بنیاد پر نوجوانوں کو اتنے بڑے امتحان سے دوچار کرنا فیصلہ سازوں کی غلطی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

اب کیا ہوگا؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوانوں پر نزلہ گرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ افغانستان کے ہاتھوں تاریخی شکست کے بعد ہو سکتا ہے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز، ایشیا کپ بلکہ ورلڈ کپ کے دروازے بھی اُن پر بند ہو جائیں۔

یہ شکست چاہے کتنی ہی بُری کیوں نہ لگ رہی ہو، لیکن نوجوانوں کا یوں باہر ہونا پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو شامل کریں، انھیں تجربہ کار کھلاڑیوں کا بھرپور ساتھ فراہم کریں، کھل کر کھیلنے کے مواقع دیں اور غلطیوں سے سیکھنے کے بھی۔ لیکن اپنے فیصلوں کا بوجھ اُن پر نہ ڈالیں۔

اس سیریز میں کھیلنے والے تمام نوجوان بلاشبہ باصلاحیت ہیں، لیکن انھیں بڑے اسٹیج کے لیے تیار کرنا یہ انتظامیہ کا کام ہے، جو انھیں ذمہ داری کے ساتھ کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ ٹیلنٹ ضائع ہو جائے گا یا صرف لیگ کرکٹ جیسے چھوٹے اسٹیج پر ہی نظر آئے گا۔

شیئر

جواب لکھیں