ون ڈے کرکٹ آئی اور ٹیسٹ کرکٹ کو کھا گئی، ٹی ٹوئنٹی آیا تو ون ڈے کرکٹ کو دیوار سے لگا دیا لیکن اب تو لگتا ہے انٹرنیشنل کرکٹ ہی داؤ پر لگ گئی ہے۔ کیسے؟ انڈین پریمیئر لیگ کے ہاتھوں، جس کی فرنچائز دنیا بھر میں کھلاڑیوں کو گھیرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس طرح کہ وہ اپنے ملک کے کرکٹ بورڈ کے نہیں بلکہ آئی پی ایل ٹیم کے ملازم بن جائیں۔ جو جہاں چاہے دنیا بھر کی لیگز میں خریدی گئی اپنی ٹیموں میں انھیں استعمال کرے۔

ابھی تو بس اُڑتی اُڑتی خبر ہے، نہیں معلوم کن کن کھلاڑیوں کو یہ آفر کی گئی ہے لیکن ذرائع کہتے ہیں کہ انگلینڈ کے چھ پلیئرز کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں سے بھی ایسی بات چل رہی ہے۔

اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو نجانے کتنے کھلاڑی 'کرائے کے سپاہی' بن جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کھلاڑیوں کو 2 سے 5 ملین پونڈز تک، یعنی پونے دو ارب روپے سالانہ تک کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس لیے کہ وہ کسی کرکٹ بورڈ یا کاؤنٹی کے نہیں بلکہ آئی پی ایل فرنچائز کے ملازم بن جائیں اور پھر وہی فیصلہ کرے کہ انھوں نے کہاں کھیلنا ہے اور کہاں نہیں۔

فی الحال اگر کوئی ملک انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہا ہے تو اس کے کھلاڑی لیگ چھوڑ کر پہلے اپنی قومی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ لیکن اگر آئی پی ایل کی یہ چال چل گئی تو فرنچائز فیصلہ کرے گی کہ پلیئر کو اپنے ملک سے کھیلنے کے لیے بھیجا جائے یا نہیں۔

خیر، ابھی تک تو کسی کھلاڑی کے ایسا معاہدہ کرنے کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن آخر یہ معاملہ کب تک رکا رہے گا؟ بالآخر ایسا ہوگا اور کرکٹ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔

آخر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟

یہ فیصلہ لیگ کرکٹ کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ کر کیا جا رہا ہے۔ دراصل آئی پی ایل فرنچائز رکھنے والے ادارے صرف بھارت ہی میں نہیں بلکہ اس سے باہر بھی ہونے والی کئی ٹیموں کے مالکان ہیں۔ ساؤتھ افریقہ کی SA20 ہو یا ویسٹ انڈیز کی کیریبیئن پریمیئر لیگ، متحدہ عرب امارات کی انٹرنیشنل لیگ ٹی 20 ہو یا پھر امریکا کی نئی میجر لیگ ٹی 20، ان سب میں کئی ٹیمیں انھی بھارتی اداروں کی ہیں جو آئی پی ایل ٹیموں کے مالکان ہیں۔

یہ ادارے چاہتے ہیں کہ اگر وہ کسی کھلاڑی کو لیں تو وہ صرف آئی پی ایل ہی میں نہ کھیلے، بلکہ دنیا بھر میں موجود ان کی دیگر ٹیموں کی بھی نمائندگی کرے۔ لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟ اس وقت بھی یہ حال ہے کہ سال کے تقریباً تمام مہینوں میں کوئی نہ کوئی لیگ ضرور چل رہی ہوتی ہے۔ اس لیے کسی کھلاڑی کا کسی ایک فرنچائز کی تمام ٹیموں سے کھیلنا تبھی ممکن ہے جب وہ اپنے بورڈ کا نہیں بلکہ اس فرنچائز کا ملازم ہو۔

جھلک پہلے ہی نظر آ چکی تھی

لگتا ہے کرکٹ کا مستقبل فٹ بال جیسا ہی ہوگا، اس کی ایک جھلک ہمیں کچھ عرصہ پہلے نیوزی لینڈ میں نظر آئی تھی۔ ان کے اہم فاسٹ بالر ٹرینٹ بولٹ نے تو اپنے کرکٹ بورڈ کو سینٹرل کانٹریکٹ ہی واپس کر دیا یعنی وہ تب کھیلیں گے، جب ان کی مرضی ہوگی۔ پھر کئی پلیئرز نے اپنی مصروفیات کم کرنے کے لیے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کو چھوڑنا شروع کر دیا، جن میں بین اسٹوکس اور آرون فنچ جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ کرکٹ اب بدل رہی ہے اور جلد ہی اس کی صورت کچھ اور ہوگی۔

پھر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے فیصلوں میں بھی ایک جھلک نظر آتی ہے، جس نے آئی پی ایل کو باقاعدہ انٹرنیشنل کرکٹ کیلنڈر کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فیوچر ٹورز پروگرام کی لازمی پیروی کرنا بھی شرط نہیں، اب یہ دو ملکوں کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ آپس میں کھیلیں یا نہ کھیلیں۔

ہو سکتا ہے مستقبلِ قریب میں ملکوں کے درمیان کرکٹ اور ایک دوسرے کے دورے ختم ہو جائیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ آئی سی سی کا کوئی پریمیئم ایونٹ بھی ختم کر دیا جائے، خاص طور پر چیمپیئنز ٹرافی۔

اب کیا ہوگا؟

ایک ایسے وقت میں جب بھارتی کرکٹ بورڈ اور اس کی لیگ امیر سے امیر تر ہوتی جا رہے ہیں، کیا دوسرے ملک اس کے پیسوں اور اثر و رسوخ کا مقابلہ کر پائیں گے؟ اور کر لیا تو کیا آئی پی ایل کے بعد دی ہنڈریڈ اور بگ بیش لیگ کے لیے بھی آئی سی سی سے ونڈو مانگی جائے گی؟ اس صورت میں انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے کتنے دن بچیں گے؟

بہرحال، یہ کئی طرفہ سودے بازی ہوگی، جس میں کوئی جیتے گا، کوئی ہارے گا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کرکٹ کو کچھ نہیں ہونا۔ نہ ہی ہم آئی پی ایل کھیلتے ہیں اور نہ ہی دنیا بھر میں موجود بھارتیوں کی خریدی گئی دیگر ٹیموں میں۔ ہمارا اپنا ہی کرکٹ کلچر ہے اور اس پر کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔ دیکھیں، شر میں سے کیسے خیر برآمد ہوتا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں