پاکستان سپر لیگ میں ایک ٹیم ایسی ہے، جو نہ جیتتی ہے اور نہ ہی خوش ہوتی ہے۔ خود مالک کئی بار کہہ چکا ہے کہ آخر پی ایس ایل سے ہمیں ملتا کیا ہے؟

ہو سکتا ہے ہمیں یہ مذاق لگ رہا ہو، لیکن پی ایس ایل کوئی مذاق نہیں، it’s a serious business!۔ اندازہ لگانا چاہتے ہیں تولگا لیں: ترین گروپ نے ملتان سلطانز کے فرنچائز رائٹس 45 ملین ڈالرز میں خریدے تھے، یعنی تقریباً ساڑھے 12 ارب روپے میں۔ اور پی ایس ایل جیتنے والی ٹیم کو کتنے ملتے ہیں؟ 12 کروڑ روپے!

یعنی 12 ارب میں ٹیم خریدی اور جیتے صرف 12 کروڑ؟ یہ تو گھاٹے کا سودا لگتا ہے بھائی!  ارے، یہ اتنا بڑا بزنس کیا صرف پرائز منی پر کھڑا ہے؟ بالکل نہیں! ہر ٹیم کو صرف 12 کروڑ نہیں ، بلکہ اس سے کم از کم 8 گُنا زیادہ پیسہ ملتا ہے! کیسے؟ آج کو بتائیں گے کہ آخر پاکستان سپر لیگ میں پیسہ آتا کہاں سے ہے؟ پاکستان کرکٹ بورڈ کو کیا ملتا ہے اور ٹیمیں کیا کماتی ہیں؟ اصل میں اس کے پیچھے ہے ایک لمبی کہانی ہے۔

کمائی کے تین ذرائع

بنیادی طور پر پاکستان سپر لیگ میں پیسہ آتا ہے تین چیزوں میں: سب سے پہلے ٹیموں کی فروخت سے۔ یعنی کراچی کنگز سے لے کر ملتان سلطانز تک جتنی بھی ٹیمیں ہیں اُن کے فرنچائز ٹیموں کے رائٹس بیچ کر۔ یہ ذرا long-term ایگریمنٹ ہوتے ہیں۔ 2015 میں پی ایس ایل کی پہلی پانچ ٹیموں کے فرنچائز رائٹس 10 سال کے لیے بیچے گئے تھے یعنی 2025 تک یہ ٹیمیں انہی مالکوں کے پاس رہیں گی، بس تمام شرائط و ضوابط پر عمل کرتے رہنا ہوگا۔

اس کے بعد آتے ہیں براڈکاسٹنگ رائٹس۔ یہ دو تین سالوں کے لیے بیچے جاتے ہیں اور ان سے بڑی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔

اور آخر میں آتے ہیں ٹورنامنٹ اسپانسرز۔ جن میں شامل ہوتے ہیں ٹائٹل اسپانسرز سے لے کر چھوٹے موٹے اسپانسرز تک، یہ ہر سال نئی آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

کمائی کا پہلا قدم

تو کمائی کے پہلے قدم پر، یعنی ٹیموں کی فروخت سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے 93 ملین ڈالرز کمائے تھے۔ یہ ٹیمیں 10 سال کے لیے مختلف کمپنیوں کو فروخت کی گئی تھیں۔ 

سب سے مہنگی تھی کراچی کنگز جسے 26 ملین ڈالرز میں اے آر وائی گروپ نے خریدا تھا۔ لاہور قلندرز 25 ملین ڈالرز میں، پشاور زلمی 16 ملین ڈالرز، اسلام آباد یونائیٹڈ 15 ملین ڈالرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فرنچائز 11 ملین ڈالرز میں نیلام ہوئی تھی۔

تیسرے سیزن میں ایک نئی فرنچائز آئی، نام ہے ملتان سلطانز ۔ یہ اب پی ایس ایل کی سب سے مہنگی ٹیم ہے۔ اسے 41.6 ملین ڈالرز میں خریدا گیا تھا۔ لیکن شون گروپ ٹیم کو چھوڑ گیا اور پھر 45 ملین ڈالرز میں اسے ترین خاندان نے خرید لیا۔

یہ سارے پیسے ڈائریکٹ گئے پی سی بی کی جیب میں!

ٹائٹل اور دوسری اسپانسرشپس

پھر جب پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہوا تو حبیب بینک لمیٹڈ نے اسپانسرشپ رائٹس لیے۔ تین سال کے لیے اُس نے ادا کیے 5 ملین ڈالرز۔ یہ معاہدہ آخری مرتبہ 2021 میں renew ہوا تھا، جس میں ایچ بی ایل نے اگلے چار سالوں کے لیے 14.3 ملین ڈالرز دیے تھے۔

ٹائٹل اسپانسرشپ کے بعد اب آتے ہیں چھوٹے موٹے اسپانسرز، جو ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں: باؤنڈری لائن سے لے کر بورڈز تک، امپائروں کی شرٹوں سے اسٹیڈیم کی اسکرین تک، ہر جگہ کوئی نہ کوئی اسپانسر موجود ہے۔ یہی نہیں دو بالز کے بیچ میں اسپانسر، آگے اسپانسر، پیچھے اسپانسر، چوکا اسپانسرڈ تو چھکا بھی اسپانسرڈ۔

ان سب سے ملنے والے پیسے بہرحال، ٹائٹل اسپانسرشپ جتنے تو نہیں ہوں گے، لیکن پھر بھی ہو سکتا ہے چھ، سات اسپانسرز ملا لیں تو اتنے بن جاتے ہوں۔

سب سے زيادہ مال

خیر، سب سے زیادہ مال آتا ہے براڈکاسٹنگ رائٹس سے ۔ یعنی پی ایس ایل کے میچز کون سا چینل دکھا سکتا ہے؟  پاکستان سپر لیگ نے 2021 سے 2023 کے لیے براڈکاسٹنگ رائٹس اے اسپورٹس اور پی ٹی وی کو بیچے تھے۔ کتنے میں؟ پورے 24 ملین ڈالرز میں، یعنی ٹائٹل اسپانسرشپ سے بھی کہیں زیادہ۔ چار سال کی ٹائٹل اسپانسرشپ تو 14.3 ملین ڈالرز کی تھی، لیکن صرف دو سال کے میڈیا رائٹس 24 ملین ڈالرز کے گئے۔  ایسا کیوں؟ کیونکہ زیادہ دیکھنے والے میدان میں نہیں، اپنے ٹیلی وژن پر ہی میچز دیکھیں گے، جہاں یہ چینلز کمائیں گے اشتہار دکھا کر۔

اب کہانی میں آتا ہے تھوڑا سا ٹوئسٹ!  وہ یہ کہ ٹائٹل اسپانسرشپ اور میڈیا رائٹس بلکہ اسٹیڈیم ٹکٹ کے ریونیو کا بھی صرف پانچ فیصد پاکستان کرکٹ بورڈ رکھتا ہے، باقی 95 فیصد فرنچائزز میں تقسیم ہوتا ہے۔

یہ ٹیمیں صرف بورڈ سے ہی پیسہ نہیں لیتیں، بلکہ انہیں الگ سے اسپانسرز بھی ملتے ہیں۔ ٹیم اسپانسرز، کھلاڑیوں کی شرٹوں کے آگے، پیچھے، اوپر، نیچے، ہر جگہ لگے ہوئے اسٹیکرز بھی کروڑوں کے ہوں گے۔  ہاں! ٹیموں کو کھلاڑیوں کی سلیکشن کے اور دیگر اخراجات ضرور اٹھانے پڑتے ہیں۔

اب اور مال آئے گا!

پی ایس ایل کے اب تک 8 سیزنز ہو چکے ہیں اور جو معاہدہ ہوا، اس کے تحت 10 ویں سیزن تک ٹیموں کی تعداد بڑھا کر 8 کر دی جائے گی۔ یعنی جلد ہی دو مزید ٹیمیں آئیں گی، جن کی نیلامی سے بڑا مال ہاتھ آئے گا۔ یہی نہیں 10 سال مکمل ہونے پر پرانے ٹیم مالکان کا معاہدہ بھی ختم ہو جائے گا اور فرنچائز رائٹس دوبارہ فروخت ہوں گے۔ پرانے مالکان کی مرضی ہوگی کہ reserve پرائس سے 25 فیصد اوپر ادا کر کے اپنی ٹیموں کی ملکیت برقرار رکھیں یا پھر انہیں کھلی بولی میں نیلامی کر دیا جائے۔

کس کو کتنا ملتا ہے؟

شاید اسی گھن چکر کی وجہ سے ٹیم مالکان کہتے ہیں کہ ہمیں ملتا کیا ہے؟  لیکن سابق چیئرمین رمیز راجا نے بتایا تھا کہ پچھلے سال یعنی 2022 میں ہر فرنچائز نے 90 کروڑ روپے کمائےتھے۔

تو بڑی بڑی کمپنیوں کا پی ایس ایل میں اتنا involve ہونا، پیسہ لگانا اور پھر رونا دھونا بھی، یہ اصل میں کرکٹ سے محبت ہے؟ یا شہرت حاصل کرنے کا مہنگا لیکن آسان طریقہ؟ یا اصل میں بات کچھ اور ہے!

شیئر

جواب لکھیں