یہ یکم فروری 1979 ہے۔ ایران کے دارالحکومت تہران کی سڑکوں پر پچاس لاکھ افراد کا مجمع ہے جو اپنے لیڈر کے استقبال کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ وہ لیڈر جو گزشتہ 14سال سے جلا وطن تھا۔ جب جہاز میں موجود ایک صحافی لیڈر سے پوچھتا ہے کہ اتنے سال بعد بھی لاکھوں لوگ آپ کی واپسی کے انتظار میں سڑکوں پر ہیں۔ آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ تو وہ جواب میں صرف ایک لفظ کہتا ہے: ’’ہیچ‘‘ یعنی کچھ نہیں۔ صحافی حیرت سے پوچھتا ہے، ’’کچھ نہیں؟‘‘ تو وہ جواب دیتے ہیں، ’’ہیچ احساس نہ دارم‘‘ یعنی مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا ہے۔
یہ تھے آیت اللہ امام خمینی جو ایران کو اسلامی جمہوری ملک بنانے کی خاطر وطن واپس لوٹ رہے تھے۔ روح اللہ موسوی خمینی اس نئی ریاست کے پہلے سپریم لیڈر تھے اور 1989 تک، اپنے انتقال تک، اس منصب پر فائز رہے۔ سیاست دان ہونے سے پہلے وہ فقہ جعفریہ کے بہترین اسکالرز میں سے ایک تھے۔ ان اسکالرز کو آیت اللہ کا لقب دیا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی شناخت ہمیشہ آیت اللہ خمینی کے نام سے ہی رہی۔
سن 1902 میں پیدا ہونے والے بچے نے کیسے اپنے وطن ہی نہیں، پورے خطے بلکہ عالمی سیاست کو بھی بدلا؟ یہ کہانی بہت ہی دلچسپ ہے، جو آج ہم آپ کو بتائیں گے۔
آیت اللہ روح اللہ موسوی خمینی
روح اللہ خمینی شیعوں کے ساتویں امام، امام موسیٰ کاظم کی نسل سے تھے۔ آپ 24 ستمبر 1902 کو مرکزی ایران کے ایک چھوٹے سے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔ والد آغا موسیٰ کو 1903 میں قتل کردیا گیا، تب روح اللہ صرف چار مہینوں کے تھے۔ یوں ان کے تربیتی سفر کا آغاز ہوتا ہے اپنی والدہ کے سائے میں، جن کے کاندھوں پر چھ بچوں کو پالنے کی ذمہ داری تھی۔ اس لیے خاندان نے بھی اس کام میں اُن کا ہاتھ بٹایا۔ کچھ عرصے تک روح اللہ کی چچی بھی اُن کی سرپرست بنیں۔ لیکن ایک کردار جس نے روح اللہ کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا، وہ سب سے بڑے بھائی مرتضیٰ تھے۔
روح اللہ سولہ سال کے ہوئے کہ والدہ بھی انتقال کر گئیں، تب بڑے بھائی نے ہی روح اللہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اس خاندان میں دینی تعلیم حاصل کرنا اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کرنا، روایت کے ساتھ ساتھ فرض سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ روح اللہ کی دینی تعلیم چلتی رہی۔
قُم کی حاضری
تب ایران نہیں تھا، بلکہ آج کا ایران ہی فارس کہلاتا تھا۔ وہاں ایک روایت تھی کہ جیسے جیسے انسان دینی علم حاصل کرتا، اس کو القابات ملتے جاتے۔ جب علم کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوتا تو ’’آیت اللہ‘‘ کا رتبہ حاصل ہوتا۔
تو 19 سالہ روح اللہ نے دینی تعلیم کا آغاز کیا، اراک کے مشہور عالم آیت اللہ عبد الکریم حائری سے۔ دونوں نے 1922 میں شہر قُم کا رخ کیا، جو اُس زمانے میں بھی دینی تعلیم کا مرکز تھا۔ اراک سے قُم کا یہ سفر یوں تو زندگی کا ایک چھوٹا سا فیصلہ تھا، لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ فیصلہ پوری قوم کی تقدیر بدل دے گا۔ خیر، روح اللہ نے قُم میں ادبیات، فلسفہ، قانون اور عرفانی علوم حاصل کیے۔
1932 میں تہران کے ایک جانے مانے اسکالر کی بیٹی سے شادی ان کی شادی ہو گئی۔ یکے بعد دیگرے سات بچوں کی پیدائش ہوئی، جن میں سے دو پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد انتقال کرگئے۔
اس دوران 1937 میں آیت اللہ حائری بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔ تب روح اللہ نے ایک اور آیت اللہ حسین برجردی کی شاگردی اختیار کر لی۔ اب اُن کی پہچان ایک انتہائی ذہین اسکالر کے طور پر ہونے لگی۔ یہی وہ وقت تھا جب روح اللہ موسوی، روح اللہ خمینی کے نام سے پہچانے جانے لگے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ایران پر رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی۔ ان کے سر پر ایران کو جدید بنانے کا جنون سوار تھا۔
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے ملک کے سیاسی حالات تو خراب تھے ہی، اخلاقی حالت بھی بدترین تھی۔ ملک کے شہر ’’پارٹی سٹی‘‘ بنے ہوئے تھے۔ نائٹ کلب عام تھے، ایران پوری دنیا میں شراب برآمد کرتا۔ پھر رضا شاہ نے کچھ ایسے فیصلے بھی کیے، جن سے علما کا اثر و رسوخ کم ہونے لگا۔ پھر خواتین کو مردوں کے برابر مساوی حقوق دیے گئے۔ اُنہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی گئی۔ اُن کے لیے یونیورسٹیز کے دروازے کھولے گئے۔ یہی نہیں، حجاب کو بین کر دیا گیا۔ پولیس کو حکم تھا جو بھی اسکارف پہنے نظر آئے، اسے کا حجاب کھینچ لیا جائے۔ اب ایران کی سڑکوں پر خواتین مغربی لباس میں نظر آتیں، تنگ جینز، منی اسکرٹس اور سلیو لیس شرٹیں تو عام تھیں۔
اُس کے بعد امام خمینی کی تحریک کیسے کھڑی ہوئی؟ یہ آگے چل کر بتائیں گے۔ اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایران کی سیاست کیسی تھی؟ اور اس زمانے میں ملک کس طرح ایک نازک موڑ پر کھڑا تھا؟
ایران کی سیاست
جس ملک کو آج ہم ایران کے نام سے جانتے ہیں، وہ ایک لمبے عرصے تک قاچار خاندان کی سلطنت تھا۔ 1908 میں ملک میں تیل نکل آیا تو دنیا کی بڑی طاقتوں کے مفادات ایران سے جڑ گئے۔ 1925 میں طاقتوں کے پاور گیمز کے نتیجے میں ایران میں اقتدار ملا پہلوی خاندان کو۔ پہلوی خاندان کا حکومت کرنے کا خاص انداز تھا: ایک کڑی سنسر شپ اور پروپیگنڈے کے ساتھ قوم پرستی، سیکولر ازم اور اینٹی کمیونزم پر زور۔ اُن کے دور میں مذہب کو بہت دبایا گیا۔ کئی سماجی اور فائنانشل ریفارمز کی گئیں بلکہ فوج اور انتظامی شعبوں میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔
ملک کو جدید بنانے کے لیے پہلوی خاندان نے سہارا لیا جبر کا، ظلم کا۔ رضا شاہ یہ سمجھ رہے تھے کہ جب پڑوسی ملک میں مصطفیٰ کمال اتاترک ایسا کر سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟ رضا شاہ اُن کی طرح ملک کو جمہوریہ بھی بنانا چاہتے تھے، لیکن آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ برطانیہ اس کے خلاف تھا، کیونکہ جمہوریت آ جاتی تو تیل کیسے لوٹا جاتا؟ لولی لنگڑی جمہوریت بھی برطانوی مفادات کے خلاف ہوتی۔ اس لیے اس نے بادشاہت کو کھلا سپورٹ کیا۔
جب شاہ ایران نے فیصلے کرنا شروع کیے تو ملک میں بڑی ہلچل پیدا ہوئی، خاص طور پر مذہبی حلقوں میں۔ ایران کے حالات تو خراب ہو ہی رہے تھے، دنیا بھی دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے بُرے حال میں تھی۔ لیکن تیل جیسی دولت نہیں چھوڑی جا سکتی تھی، اس لیے 1941 میں، دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہی روس اور برطانیہ ایران میں گھس آئے۔ رضا شاہ کو حکومت نے نکال دیا گیا، کیونکہ وہ برطانیہ کے مفادات کے خلاف جا رہے تھے۔ اور ان کے نوجوان بیٹے محمد رضا کو نیا بادشاہ بنا دیا گیا، ایسا بادشاہ جو برطانیہ کے اشاروں پر چلتا۔
1951 میں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق نے آئل انڈسٹری کو نیشنلائز کر لیا۔ یہ ایک حرکت، دنیا کو ہلانے کے لیے کافی تھی۔ برطانیہ اور دوسری عالمی طاقتیں ایرانی تیل سے اربوں ڈالرز کماتی تھیں، وہ ایسا بالکل نہیں برداشت کر سکتی تھیں۔ انہوں نے شاہ پر دباؤ ڈالا اور مصدق کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا، مصدق بہت مقبول تھے، اتنے کہ شاہ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا۔
اب مصدق کو روکنے والا کون ہوتا؟ 1953 میں تو ملک میں یہ حالات ہو گئے کہ شاہ کو جلا وطن ہونا پڑا۔ اب مغربی دنیا کے مفادات اور اندھا منافع خطرے میں تھا۔ تب امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس نے ریٹائرڈ ایرانی جرنیلوں کی مدد سے بغاوت کی۔ مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور رضا شاہ کو واپس بلا کر حکومت انہیں دے دی گئی۔
اتنی بڑی فیور ملنے کے بعد شاہ نے وہی کرنا تھا جو مغرب کہتا۔ انہوں نے ملک کو مغرب زدہ کرنا شروع کر دیا۔ 1961 میں انقلابِ سفید کے نام سے ریفارمز کیں، جن کے پیچھے بھی امریکا ہی تھا۔
اب ایران دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔ ایک طرف جدت پسند طاقتیں، جن کے خیال میں یہ اصلاحات ابھی ناکافی ہیں، انہیں اور آگے بڑھنا ہے۔ دوسری طرف مذہبی حلقہ، جن کے خیال میں شاہ ایرانی تہذیب اور مسلم شناخت کا قتل کر رہے ہیں۔
یہ سب ایک طرف، حکومت نے جو خفیہ پولیس ’’ساواک‘‘ بنائی تھی، اُس کی وجہ سے ہر طبقہ شاہ سے نفرت کرنے لگا۔ اس خفیہ پولیس نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن یہ ضرور کیا کہ ایران کے لبرل اور مذہبی حلقوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا۔ تب جن علمائے دین کو حکومت سے سب سے زیادہ اختلاف تھا، ان میں امام خمینی سب سے نمایاں تھے۔ پورا مذہبی حلقہ ان کے سائے تلے جمع ہو رہا تھا اور ملک انقلاب کی راہ پر چل پڑا۔
بوڑھا خمینی، جوان انقلاب
جب انسان کی عمر 60 برس سے زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے لیکن آیت اللہ خمینی نے اِس زندگی میں جو کچھ حاصل کیا تھا، اب سب کچھ داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ سوچ لیا کہ اگر ملک کو شاہ کے عتاب اور عذاب سے بچانا ہے، تو سیاست میں اپنا کردار نبھانا ہوگا۔
یہ سال 1963 تھا، جب خمینی-شاہ مخالفت اپنے عروج پر پہنچی۔ خمینی کا پیغام تقریروں اور پمفلٹس کے ذریعے ایران بھر میں پہنچ رہا تھا۔ تب شاہ ایران نے کچھ ایسے فیصلے کیے، جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا۔ ایک تو عورتوں کو مزید حقوق دینے کا فیصلہ اور دوسرا بہائی اقلیت کو دفاتر کھولنے کی اجازت دینا۔ ملک میں گویا آگ لگ گئی!
امام خمینی کی گرفتاری و جلا وطنی
5 جنوری 1963، محرم کا مہینہ اور مقام قم۔ صبح سویرے امام خمینی کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ ساواک فورس روح اللہ خمینی کو گرفتار کر لیتی ہے۔
حکومت کو محرم میں ایسا کام کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ کچھ نہیں معلوم۔ لیکن جو بھی تھا، وہ شاہ کا وفا دار تو بالکل نہیں ہوگا کیونکہ محرم ایک مقدس مہینہ تھا، شیعہ مسلمانوں کے جمع ہونے، اکٹھے ہونے کا مہینہ۔ ایسے وقت میں خمینی جیسے پائے کے عالم کی گرفتاری پر رد عمل تو آنا تھا اور آیا بھی۔
ملک بھر میں احتجاج کا آغاز ہو گیا۔ تہران اور شیراز میں تو بات یہاں تک پہنچ گئی کہ کئی لوگوں مارے بھی گئے۔ ملک کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو لگتا تھا کہ خمینی کو کنٹرول کرنا آسان ہوگا کیونکہ وہ بات کرنے کی قابلیت رکھتے تھے، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے تھے۔ تو شاہ کی مخالفت میں اُن سے بہتر لیڈر کوئی نہیں ہوگا اور اپنا مقصد حاصل ہو جائے تو انہیں آرام سے کنٹرول بھی کر لیں گے۔
لیکن 1963 میں جو کچھ ہوا، اُن کی گرفتاری، رد عمل اور نتیجے میں بہنے والا خون، اُس نے شاہ اور مذہبی اشرافیہ دونوں کے اندازے خاک میں ملا دیے۔ اب ایران میں ایک نئے لیڈر کا جنم ہو چکا تھا۔ دُھن کا پکا، عوام میں مقبول اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا جنون رکھنے والا۔ جو اب کسی سے ڈکٹیشن لینے کا پابند نہیں تھا۔
تب تک امریکا بھی خمینی کو ’’مولویوں کا ایک کمزور مہرہ‘‘ سمجھتا تھا لیکن یہی غلط اندازہ اب امریکا کے گلے پڑنے والا تھا۔
اپریل 1964 میں خمینی کو رہا کرنا پڑا۔ اب اُن کی تقریر اور تحریر، دونوں پہلے سے اور زیادہ سخت ہو گئیں۔ اتنی سخت کہ شاہ نے بھی سوچ لیا، اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنا پڑے گا۔
نومبر 1964 میں روح اللہ خمینی کو جلا وطن کر دیا گیا۔ وہ پہلے ترکی گئے، جہاں سے شاہ کی مخالفت میں ایسے بیانات دیے کہ ترکی بھی اُن کا بوجھ نہیں اٹھا پایا۔ اُس نے شاہ کو پیغام بھیجا کہ خمینی کو ایران واپس بلایا جائے۔
ولایت فقیہ کا نظریہ
روح اللہ خمینی کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ ان کی نظر تھی شیعیت کے عالمی مرکز، عراق کے شہر نجف پر۔ یہ نجف ہی تھا، جہاں انہوں نے اپنا سب سے اہم نظریہ پیش کیا، ولایتِ فقیہ کا نظریہ۔
یہ نظریہ کیا تھا؟ یہ کہ جب تک اثنائے عشری شیعوں کے بارہویں امام، امام مہدی، نہیں آتے تب تک لوگوں پر حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف ایک جامع الشرائط مجتہد کو حاصل ہے۔ اور جسے مجتہد کی اجازت حاصل نہ ہو، اس کی حکومت ناجائز ہے۔ ایک دھماکا ہو گیا!
شیعہ عالم دو حصوں میں بٹ گئے۔ شیخ انصافی نے فتویٰ دیا کہ امام مہدی کے حاضر ہونے تک فتویٰ دینے کی ذمہ داری فقیہ یعنی علما کی ہے۔ لیکن لوگوں کی جان و مال پر ولایت صرف پیغمبر اکرمؑ، ان کے اہل بیت اور آئمہ کی ہے، یعنی نبی کے بعد حکمرانی کا حق اُن کی نسل کا ہے۔ لیکن خمینی کا نظریہ کچھ اور تھا یہ کہ
اگر نبی ﷺ کی آل میں سے کوئی موجود نہ ہو تو پھر سیاسی اور دینی رہنمائی، یا حق حکمرانی، صرف ایسے عالم کے پاس ہو سکتی ہے جو اسلامی قوانین، شریعت اور فقہ پر مکمل عبور رکھتا ہو۔
چونکہ امام خمینی اسی عبور کے لیے مانے جاتے تھے، اس لیے یہ نظریہ ایران پر ان کی حکمرانی کا پہلا عملی قدم بنا۔
انقلاب کیسے آیا؟
نجف میں بیٹھے آیت اللہ خمینی نے ایران میں شاہ کی مضبوط حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر کیسے مجبور کیا؟ وہ بھی اُس زمانے میں جب نہ انٹرنیٹ تھا، نہ موبائل فونز اور سوشل میڈیا۔ لیکن کوئی بھی انسانی دور ہو، میڈیا تو کسی نے کسی شکل میں موجود ہوتا ہے۔
1960 کی دہائی تھی وڈیو اور آڈیو کی، خاص طور پر کیسٹوں کی۔ گانے، نوحے، حمد، نعت، گویا ہر چیز جو انسان کے کانوں تک پہنچانی ہو، اُس کا ذریعہ بنتے تھے یہ آڈیو کیسٹ۔ تو خمینی کا پیغام عام کرنے کی وجہ بھی یہی کیسٹ بنے۔ اُن کی تقریریں، لیکچر، پیغامات سب کیسٹوں میں ریکارڈ ہوتے اور ایران اسمگل کیے جاتے بلکہ دنیا بھر میں پھیلائے جاتے۔ یہ کیسٹ، اور ان میں موجود پیغام ایران کے ہر طبقے میں penetrate کر گیا، خاص طور پر یونیورسٹیوں کے نوجوانوں میں۔
امام خمینی کا پیغام بالکل واضح تھا:
- وہ مرد اور عورت کو برابر حقوق دینے کے خلاف تھے
- شاہ ایران کی زرعی اصلاحات ٹھیک نہیں
- ایران کی خارجہ پالیسی میں امریکا اور روس کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے
- اقلیتوں کو سرکاری عہدے نہیں دینے چاہییں، خاص طور پر بہائی قوم کو حکومت میں نمائندگی دینا قبول نہیں
- ہم ریاست اسرائیل کے خلاف ہیں، جو شاہ کے خاندان اور نظریات پر اثر رکھتا ہے
ایک طرف یہ پیغام اور دوسری طرف شاہ کی ایک کے بعد دوسری غلطی، ملک میں بادشاہت کے خلاف غصہ بڑھتا چلا گیا۔ اور 1977 میں جب خمینی کے بڑے بیٹے مصطفیٰ کی پراسرار انداز میں موت ہوئی تو معاملات اور بگڑ گئے۔ مصطفیٰ 46 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے، لیکن خمینی نے اپنے بیٹے کی موت کو قتل کا نام دیا اور ذمہ دار ٹھیرایا شاہ کو۔
اب میدان گرم ہونے لگا، لوگ شاہ کے خلاف اعلانیہ کھڑے ہو گئے۔ کچھ مہینوں بعد جنوری 1978 میں ریاستی اخبار نے خمینی پر ایک آرٹیکل چھاپا۔ اس میں اُن کی حب الوطنی پر تو سوال اٹھائے ہی، لیکن جنسی معاملات پر جو باتیں لکھیں، وہ عوام کو غصہ دلانے لانے کے لیے کافی تھیں۔ لوگ تہران کی سڑکوں پر نکل آئے، اور پھر مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلا دی گئیں۔ تبریز میں فوج اور عوام کے تصادم میں 100 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اب ایران پھٹنے والا تھا اور عوام نے فیصلہ کر لیا تھا، انقلاب کا فیصلہ!
یہ مظاہرے اسی انقلاب کا آغاز تھے، جس نے ایران بلکہ پورے خطے کو بدل کر رکھ دیا۔ تب امام خمینی نجف میں تھے اور عراق پر صدام حسین کی حکومت تھی۔ شاہ ایران نے صدام کو کہا کہ وہ خمینی کو ملک بدر کریں۔ خمینی فرانس چلے گئے، جہاں انہیں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع ملا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ شاہ کی مقبولیت کم ہونے لگی۔ ایران میں افراتفری تھی، جھڑپیں روز کا معمول بن تھیں، دکانیں بند، کاروبار معطل اور ہڑتالوں پر ہڑتالیں۔ اِن ہڑتالوں کی وجہ سے تیل کی انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی، پیداوار 75 فیصد تک گھٹ گئی۔
حالات اتنے بگڑ گئے کہ شاہ نے ایران چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور حیرت کی بات! کسی ملک نے انہیں قبول نہیں کیا، حتیٰ کہ امریکا نے بھی نہیں۔ وہ جو ایران کے سیاہ و سفید کا مالک تھے، مصر میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
امام خمینی کی واپسی
ایک چارٹرڈ بوئنگ 747 جہاز نے پیرس سے اڑان بھری۔ اس جہاز میں کوئی اور نہیں، انقلابِ ایران کے ہیرو آیت اللہ روح اللہ خمینی سوار تھے۔ تقریباً سولہ سال کی جلا وطنی کے بعد بالآخر وہ وطن واپس آ رہے تھے۔ جہاں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُن کا منتظر تھا۔
لیکن خمینی کے ایران آنے پر سب خوش نہیں تھے، فوج تو ان کے قتل کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ فضائیہ کے ایک سینیئر کمانڈر تو خمینی کے جہاز کو ہی مار گرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مصر میں موجود شاہ ایران سے اجازت بھی مانگی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شاہ خود تو ملک میں موجود نہیں تھے، لیکن اُن کی انتظامیہ ضرور تھی۔
وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے ایران بھر میں کرفیو لگا دیا۔ امام خمینی کو اس کی کوئی پروا نہ تھی، انہوں نے بس ایک کاغذ لہرایا، جس پر لکھا تھا کہ کرفیو کی پروا نہ کریں۔ اس ایک کاغذ نے تمام بندشیں توڑ دیں۔ اور پھر اُن کا جہاز ایران پہنچ ہی گیا۔ لینڈ کرنے سے پہلے تین بار تہران کا چکر لگایا اور پھر ایران کے مہر آباد ایئر پورٹ پر اتر گیا۔
کچھ دیر بعد کالا عمامہ اور لمبا جبہ پہنے ایک جھکی کمر والا بوڑھا شخص جہاز سے نمودار ہوا۔ اس نے سولہ سال بعد اپنے چہرے پر ایران کی ٹھنڈی ہوا محسوس کی۔ اس ایک جھلک کے دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ موجود تھے، اتنے لوگ کہ انہیں پہلے ایک گاڑی کے ذریعے لے جانے کی ناکام کوشش کی گئی، لیکن پھر ہیلی کاپٹر کا استعمال کرنا پڑا۔
اب خمینی ایران کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ انہوں نے مہدی بازارگان کو نیا وزیر اعظم بنایا۔ گیارہ فروری کو فوج نے اعلان کیا کہ وہ سیاسی طور پر غیر جانب دار رہے گی اور فوجیوں کو بیرکوں میں جانے کا حکم دے دیا۔ اب ایران کی سڑکوں پر انقلابیوں کا قبضہ تھا۔ اور پھر وہی ہوا، جو ہر انقلاب میں ہوتا ہے!
سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا۔ بدنام زمانہ خفیہ پولیس ساواک کے سربراہ جنرل نعمت اللہ نصیری اور اُن کے قریبی ساتھیوں کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی۔ تب ہی تہران یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے کہا تھا:
میں سمجھتا تھا امام خمینی ایران میں جمہوریت لا رہے ہیں، لیکن اب لگتا ہے ہم نے ایک آمر کی جگہ دوسرا آمر کھڑا کر دیا ہے۔
خمینی ڈکٹیٹر شپ
ہم دھوکے میں رہ گئے، ہمارا مقصد یہ نہیں تھا، ہم سے کچھ اور کام لے لیا گیا!
یہ الفاظ ان شخصیات کے ہیں جو گزشتہ چالیس سال کے دوران ایرانی انقلاب سے مایوس ہوگئے۔ انقلاب میں حصہ لینے والے یونیورسٹی کے طلبا، دانش ور، ایران کی کمیونسٹ پارٹی سمیت دائیں اور بائیں بازو کی تنظیمیں تھیں کیونکہ ہر کوئی چاہتا تھا کہ بس کسی طرح شاہ ایران چلا جائے۔ شاہ ایران کا تختہ تو الٹ گیا، لیکن اقتدار سنبھال لیا امام خمینی نے۔ پھر وہ ہوا جو کسی نے سوچا نہیں تھا۔
آزادی اور جمہوریت کے نعرے لگانے والے اب ’’مرگ بر امریکا‘‘ اور ’’مرگ بر اسرائیل‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ صورتحال یہ تھی کہ اسکولز میں بھی اسمبلی سیشن کے دوران بچوں سے یہ نعرے لگوائے جاتے۔ خواتین پر حجاب لازم کر دیا گیا، صرف مسلمان ہی نہیں ہر مذہب کی پیروکار خاتون پر۔ شوخ رنگ، لپ اسٹک، نیل پالش یا ایک بال بھی نظر آنا خاتون کو جیل لے جا سکتا تھا۔ ناراض خواتین نے احتجاج کیا، جسے دبا دیا گیا۔ خاندانی تحفظ کا قانون کالعدم قرار دے دیا گیا جس کے مطابق اب خاتون اپنی مرضی سے خلع نہیں لے سکتی تھی۔
جب امام خمینی نے اقتدار سنبھالا تو شیعہ نسل میں اضافے کی ہدایت کی۔ 1979 میں ایران کی آبادی تین کروڑ ساٹھ لاکھ تھی، لیکن خمینی کی ہدایت کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہوا اور یہ 8 کروڑ سے بھی زیادہ ہو گئی۔ شاید اس سے بھی زیادہ ہوتی، اگر 1980 میں ایران عراق جنگ نہ ہوتی۔
مغرب کے ساتھ خراب تعلقات او ر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث ایران بری طرح متاثر ہوا۔ ملک کا انحصار تیل کی برآمدات پر تھا، باقی زیادہ تر ملک بنجر تھا، لیکن پابندیوں کے بعد وہ معاشی طور پر بھی بنجر ہوتا گیا۔ اس کا قومی خزانہ بھی خالی ہونے لگا، مہنگائی بڑھتی گئی، لوگ بیروزگار ہوئے اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوام کا غصہ بڑھنے لگا۔ ان حالات کا فائدہ اٹھایا پڑوسی ملک عراق نے۔
ایران عراق جنگ
ایران کے امریکا اور اسرائیل سے تعلقات خراب تھے، ایسے میں عراق نے اپنی طاقت مزید بڑھانی چاہی تو مغرب نے بھرپور ساتھ دیا۔ انقلاب کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، ایران بہت کمزور تھا، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1980 میں صدام حسین نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ سال یعنی اگست 1988 تک چلتی رہی۔ پانچ لاکھ سے زائد افراد اس جنگ میں مارے گئے اور دونوں ملکوں کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن ایران بچ گیا!
امام خمینی کا جنازہ
اب روح اللہ خمینی کی عمر بہت زیادہ ہو چکی تھی، ان کو معدے کا کینسر ہو چکا تھا۔ تین جون 1989 کو وہ 87 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انتقال کا اعلان ریڈیو تہران پر روتے ہوئے کیا گیا۔
غم کی فضا نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا۔ تمام ٹیلی فون لائنز کاٹ دی گئیں، ہوائی اڈے بند اور سرحدیں سیل کر دی گئیں اور پھر 11 جون کو انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جنازوں میں سے ایک ہوا۔ حکومت کے مطابق 32 کلومیٹر طویل جنازے میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ شریک تھے، یعنی ایران کی کُل آبادی کا چھٹا حصہ اس جنازے میں شرکت کے لیے آیا تھا۔
امام خمینی کو اسٹیٹ فیونرل دیا گیا۔ لوگوں نے اُن کی میت کا آخری دیدار بھی کیا۔ ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ اسے ہٹانے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کرنا پڑا، لیکن لوگ پھر بھی نہ ہٹے۔ تب خمینی کی میت کو ہیلی کاپٹر میں منتقل کر دیا گیا، لیکن جیسے ہی ہیلی کاپٹر نیچے اترا ہجوم نے آگے بڑھ کر امام خمینی کی میت کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ ان کے کفن کے ٹکڑوں کو بطور یادگار اپنے پاس رکھنے کی تگ و دو شروع ہو گئی۔ بہت مشکل سے اُن کے جنازے کو ہجوم سے بچایا گیا۔ اس عمل کے دوران درجنوں لوگوں کی جان گئی اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ پھر نماز جنازہ پڑھائی گئی، اور تہران کے بہشتِ زہرا قبرستان میں انہیں دفن کر دیا گیا۔
امام خمینی کا جسد تو منوں مٹی تلے دفن ہو گیا، لیکن ان کا پیغام آج بھی زندہ ہے۔
اسلام اس لیے آیا ہے کہ دنیا کی تمام قوموں، عرب، عجم، ترک، فارس سب کو ایک دوسرے کے ساتھ متحد کر دے۔ اور ملتِ اسلامیہ کے نام پر دنیا میں ایک بڑی ملت قائم کر دے۔ یہ صدی خداوند قادر کے فضل سے ظالموں پر مظلوموں کی اور باطل پر حق کی فتح کی صدی ہے۔