جنوبی افریقہ کے خراب معاشی حالات اور دیگر مسائل کم تھے کہ ایک نئی مصیبت بھی آن پڑی ہے۔ اگست میں برکس 2023 اجلاس ڈربن، جنوبی افریقہ میں ہوگا، جس میں تنظیم کے رکن روس کے صدر ولادیمر پوتن بھی شرکت کر سکتے ہیں۔ اس لیے مغرب دباؤ ڈال رہا ہے کہ جنوبی افریقہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے وارنٹ کی بنیاد پر پوتن کو پہنچتے ہی گرفتار کر لے۔

جنوبی افریقہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مانتا ہے اور قانون کے تحت اس کے فیصلے کا پابند ہے۔ اسی لیے ملک اپنے قانون میں تبدیلی کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے ذریعے وہ پوتن کو استثنا دے سکے گا لیکن ملک پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے بی بی سی کے پروگرام 'ہارڈ ٹاک' کا ایک کلپ بھی بہت وائرل ہے۔ مشہور صحافی اسٹیفن سکر نے جنوبی افریقہ کی حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس کے سربراہ فکیلی ایمبالولا سے بات کی۔ اس سوال پر کہ کیا جنوبی افریقہ پوتن کو گرفتار کرے گا، افریقی رہنما نے جواب کا آغاز ہی حیران کن جملے سے کیا کہ اگر ہمارے ہاتھ میں ہو تو ہم اگست میں نہیں، کل ہی پوتن کو یہاں بلائیں۔

ایمبالولا نے کہا کہ آپ کے ملک (یعنی برطانیہ) نے عراق میں کتنے جرائم کیے؟ جو آج اتنا بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں، خود انھوں نے عراق اور افغانستان میں کیا کچھ کیا؟ کیا انھیں پکڑا گیا؟

انھوں نے کہا کہ اب امن کی کوششیں کرنے والے جنوبی افریقہ کو دباؤ میں لانے کے لیے جو بہت زیادہ شور مچا رہا ہے، وہ خود روس اور یوکرین کی جنگ بند نہیں کروا سکا۔ "ہم یوکرین اور روس کے درمیان امن چاہتے ہیں، لیکن جو ہم سے ایسے مطالبات کر رہے ہیں اُن کا اپنا کردار کیا ہے؟ ٹونی بلیئر نے عراق میں جنگ مسلط کی اور دعویٰ کیا کہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھتا ہے؟ اس کے خلاف کوئی کھڑا ہوا برطانیہ میں؟ عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگ مر گئے اور وہ ہتھیار نہیں ملے۔"

بین الاقوامی فوجداری عدالت نے مارچ میں پوتن کے وارنٹ جاری کیے تھے جس میں انھیں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ ماسکو نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

جنوبی افریقہ کے ایک وزیر اوبیڈ باپیلا نے کہا ہے کہ بین الاقوامی عدالت کے معیارات دہرے ہیں۔ انھوں نے عراق میں قتلِ عام پر کبھی ٹونی بلیئر کو ملزم قرار نہیں دیا، کبھی جارج ڈبلیو بش کو نہیں بلایا بلکہ خود برطانیہ نے چلی کے آمر آگسٹو پنوشے کو کورٹ کے آرڈر کے باوجود رہا کر دیا تھا۔

فی الحال تو یہ بھی نہیں معلوم کہ پوتن اس اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں گے بھی یا نہیں۔ لیکن اس پر جتنا ہنگامہ کھڑا ہو چکا ہے لگتا ہے ہر گزرتے مہینے کے ساتھ یہ معاملہ اور گرم ہوگا۔

ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف روس بلکہ امریکا، چین، بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ممالک اس عدالت کو مانتے ہی نہیں۔

شیئر

جواب لکھیں