دنیا میں کوئی بھی رینکنگ آئے، یہ بات تو تقریباً طے ہے کہ پاکستان سب سے آخر میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک درجہ بندی ایسی ہے جس میں ہمارا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ہم سب سے آگے بلکہ بہت ہی آگے ہیں۔ یہ ہیں دنیا کی خطرناک ترین رینکنگ: ذیابیطس کی شرح۔

عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکی بہت میٹھا کھاتے ہیں، اس لیے موٹے بھی بہت ہوتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا ذیابیطس کی شرح کے لحاظ سے ٹاپ 50 ملکوں میں بھی شامل نہیں بلکہ برطانیہ تو ٹاپ 100 میں بھی نہیں ہے۔ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے 211 ملکوں کے لیے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق پہلے نمبر پر پاکستان ہے۔ ملک میں 20 سے 79 سال کی عمر کے افراد کی آبادی کا 31 فیصد ذیابیطس کا شکار ہے۔ یعنی تقریباً ہر تیسرا بالغ پاکستانی اس موذی مرض سے دوچار ہے۔

پاکستان میں 2021 میں کُل 3.3 کروڑ لوگ ذیابیطس کا شکار تھے، جو 2019 کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف دو، تین سال کے عرصے میں یہ مرض کتنی بری طرح پھیلا ہے۔ اتنا اضافہ مرض کی تشخیص بڑھنے سے بھی ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھیں، ملک میں تقریباً ایک چوتھائی لوگ ایسے ہیں جنھیں پتہ ہی نہیں کہ انھیں ذیابیطس جیسا خطرناک مرض ہے۔

پاکستان میں صرف 2021 میں چار لاکھ اموات ذیابیطس اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی دیگر پیچیدگیوں سے ہوئیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ موٹاپا، ناقص خوراک، ورزش یا جسمانی سرگرمی نہ ہونا اور جینیاتی طور پر خاندان میں یہ مرض ہونا بھی ذیابیطس کا سبب ہے۔ کیونکہ یہ تمام "خوبیاں" شہروں میں پائی جاتی ہیں، اس لیے ذیابیطس کے مریض بھی دیہات کے مقابلے میں شہروں میں زیادہ ہے۔

اور پھر یہ کہانی صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ پوری دنیا میں ذیابیطس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2021 کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 54 کروڑ لوگ اس مرض کا شکار ہیں، اور یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ ہے۔ جی ہاں! صرف دو سال میں 7.4 کروڑ لوگوں کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سلسلہ رکنے والا بھی نہیں۔ دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2030 تک بڑھتے ہوئے ساڑھے 64 کروڑ تک پہنچ جائے گی اور 2045 تک 78 کروڑ سے بھی آگے۔

لیکن جیسا ہمارا صحت کا نظام ہے اور حکومت کی ترجیحات میں صحت کو جو اہمیت حاصل ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض تباہی مچا دے گا۔

شیئر

جواب لکھیں