بہت سے لوگ وزن بڑھنے یا ذیابیطس کی وجہ سے میٹھی چیزیں استعمال نہیں کرتے۔ چینی اور دیگر قدرتی مٹھاس سے بنی چیزوں کے بجائے وہ ایسی اشیا استعمال کرتے ہیں جن میں مصنوعی مٹھاس یعنی سیکرین، اسپارٹیم ،  سکرالوز یا اسٹیویا وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔

ایسے لوگوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اسپارٹیم کو انسانوں میں کینسر کا باعث بننے والا مادہ قرار دیے جانے کا امکان ہے۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کا ذیلی ادارہ انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر (آئی اے آر سی) جولائی میں اس حوالے سے سفارشات جاری کرے گا۔

اسپارٹیم aspartame ڈائیٹ کوک، ڈائیٹ پیپسی جیسے ڈائیٹ مشروبات، مارس ایکسٹرا چاکلیٹ اور بہت سی چیونگموں میں شامل کیا جاتا ہے۔

آئی اے آر سی کی نئے ہدایت نامے میں بتایا جایا گا کہ اسپارٹیم انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک ہوسکتا ہے۔

Raftar Bharne Do
مصنوعی مٹھاس سے اصل خطرہ؟ 1

مصنوعی مٹھاس پر ڈبلیو ایچ او کی وارننگ

مئی 2023 میں ڈبلیو ایچ او نے وزن کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے متعلق خطرات کے بارے میں تنبیہ کی تھی۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ مصنوعی مٹھاس کا طویل عرصے تک استعمال نہ صرف بےفائدہ ہوتا ہے بلکہ صحت پر اس کے مضر اثرات پڑتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ بچوں یا بالغ افراد میں وزن کی کمی کے لیے طویل عرصے تک مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

کچھ عرصے پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ مصنوعی مٹھاس اگرچہ صحت کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی لیکن اس کا کوئی نقصان بھی نہیں۔ لیکن جدید تحقیقات سے یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے۔

خاص طور پر اسپارٹیم پر کئی برسوں سے سائنسی تحقیقات جاری ہیں۔

اسپارٹیم پر کیا تنازع ہے؟

اسپارٹیم چینی سے 200 گنا زیادہ میٹھا ہوتا ہے مگر اس میں کیلیوریز کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔

اسپارٹیم کئی دہائیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ امریکا اور یورپ کے فوڈ سیفٹی کے اداروں نے اسپارٹیم کے استعمال کی منظوری دے رکھی ہے اور اسے انسانی استعمال کے لیے موزوں قرار دیا گیا ہے۔ تاہم پچھلے کچھ برسوں سے اسپارٹیم کے متعلق سوال اٹھنے شروع ہوئے ہیں۔

انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر اسپارٹیم اور کینسر کے بارے میں 1،300 سے زیادہ تحقیقات کا جائزہ لیا ہے۔

یہ ایجنسی 4 قسم کی درجہ بندی کرتی ہے۔ یعنی ’’کینسر کا سبب بننے والی چیزیں‘‘، ’’کینسر کا خدشہ بڑھانے والی چیزیں‘‘، ’’ممکنہ طور پر کینسر کا سبب بننے والی چیزیں‘‘ اور ’’بغیر درجہ بندی کے چیزیں‘‘ جن کے متعلق ابھی مکمل طور پر علم نہ ہو۔

یہ درجہ بندی ہمیں بتاتی ہے کہ کسی چیز کے کینسر پیدا کرنے کے شواہد کس قدر مضبوط ہیں تاہم یہ نہیں بتاتی کہ وہ چیز ہمارے لیے کتنی خطرناک ہے۔

برطانیہ کی فوڈ اسٹینڈرڈ ایجنسی کے اسسٹنٹ چیف سائنٹفک ایڈوائزر رک ممفورڈ کا کہنا ہے کہ اسپارٹیم کے صحت کے لیے محفوظ ہونے سے متعلق شواہد کئی تحقیقات میں سامنے آچکے ہیں اور جس مقدار میں یہ آج کل استعمال ہوتا ہے وہ صحت کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی 1981ء سے جاری گائیڈ لائن کے مطابق جسمانی وزن کے ایک کلوگرام پر 40 ملی گرام اسپارٹیم کا استعمال محفوظ ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی کا وزن 60 کلو ہے تو وہ ڈائٹ سوڈا کے 12 سے 36 کین تک پی سکتا ہے۔

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن ایجنسی کے مطابق جسمانی وزن کے ایک کلو پر 50 ملی گرام اسپارٹیم کا ااستعمال محفوظ ہوتا ہے۔

سال 2000 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اسپارٹیم چوہوں میں کینسر کا سبب بنا تاہم اس تحقیق پر سوال اٹھائے گئے اور جانوروں پر کی گئی دوسری تحقیقوں  میں اسے محفوظ پایا گیا۔

گزشتہ سال ایک لاکھ پانچ ہزار افراد پر ایک تحقیق کی گئی۔ ان میں سے ایک گروپ کوئی مصنوعی مٹھاس استعمال نہیں کرتا تھا جبکہ دوسرا گروپ اسپارٹیم سمیت دیگر مصنوعی مٹھاس کی بھاری مقدار استعمال کرتا تھا۔ دوسرے گروپ کے افراد میں کینسر کی شرح زیادہ پائی گئی تاہم کہا جاتا ہے کہ دونوں گروپوں کی صحت اور طرز ِ زندگی میں دیگر بڑے فرق بھی تھے۔

ان کے علاوہ ایسے افراد جو ’’فینائل کیٹونوریا‘‘ نامی موروثی بیماری میں مبتلا ہوں ان کے لیے بھی اسپارٹیم مضر صحت ہوتا ہے۔ اس بیماری کے شکار افراد کا جسم اسپارٹیم کو ہضم نہیں کرسکتا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں