عمران خان کی حکومت میں وزیردفاع رہنے والے پرویز خٹک نے پارٹی کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں ہتھیار تو بہت پہلے ہی ڈال دیے تھے مگر اب وہ کھل کر عمران خان کے خلاف سامنے آچکے ہیں۔ 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد سے پرویز خٹک منظر عام سے غائب تھے۔ پھر یکم جون کو انھوں نے بھی بہت سے دیگر سینیئر رہنماؤں کی طرح پریس کانفرنس کی اور پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا۔
قیاس آرائیاں یہی کی جارہی تھیں کہ پرویز خٹک اپنی کوئی الگ جماعت بنائیں گے یا پھر پیپلزپارٹی یا آئی پی پی کو جوائن کرلیں گے۔ ایسے میں یہ خبریں بھی آئیں کہ پرویز خٹک پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو توڑنے کی بھی کوششیں کر رہے ہیں۔
22 جون کو پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے پرویز خٹک کو شوکاز نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’’یہ بات پارٹی قیادت کے علم میں آئی ہے کہ آپ پارٹی کے اراکین سے رابطہ کر رہے ہیں اور انہیں پارٹی چھوڑنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔‘‘
نوٹس میں مزید کہا گیا تھا کہ ’’ان رپورٹ شدہ سرگرمیوں کے پیش نظر آپ کو اس نوٹس کے سات دنوں کے اندر تحریری طور پر وضاحت دینے کی ہدایت کی جاتی ہے، اگر آپ کا جواب غیر اطمینان بخش ہوتا ہے یا آپ جواب نہیں دیتے ہیں تو پارٹی کی پالیسی اور قواعد کے مطابق آپ کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔‘‘
پرویز خٹک کے عمران خان پر الزامات
پرویز خٹک نے شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دیا۔ ایک نیوز چینل سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ وہ کوئی سرکاری ملازم نہیں جو شوکاز نوٹس کا جواب دوں۔ انھیں شوکاز نوٹس کی کوئی پروا نہیں۔
اس کے ساتھ ہی انھوں نے الزام لگایا کہ 9مئی کا واقعہ چیئرمین کا چند لوگوں سے مشاورت کا نتیجہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ فوجی اور قومی تنصیبات پر منظم سازش کے تحت حملے ہوئے۔ پارٹی چیئرمین کو ہمیشہ مثبت سوچ اور مثبت سیاست کا درس دیا مگر ان کی سوچ کچھ اور ہی تھی۔ قوم نے فوجی تنصیبات پر حملوں کو مسترد کر دیا ہے۔
پرویز خٹک کے الزامات پر پی ٹی آئی کا ردعمل
تحریک انصاف نے پرویز خٹک کے الزامات پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پی ٹی آئی ترجمان کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک کا عمران خان اور پارٹی کے خلاف بیان سراسر لغو، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پرویز خٹک پارٹی کے عہدوں سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد ان الزامات سے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پرویز خٹک عمران خان کو 9 مئی کے واقعات کا ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں جو سراسر جھوٹ، بے ہودہ اور بے بنیاد ہے۔
پارٹی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پرویز خٹک بطور صوبائی صدر پارٹی کے تمام فیصلوں میں مکمل طور پر شریک ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔
ترجمان نے سوال اٹھایا کہ پرویز خٹک کو پریس کانفرنس کے بعد عمران خان کے فیصلے غلط نظر آنے لگے ہیں۔ اگر انھیں پارٹی کے کیے ہوئے فیصلوں سے اختلاف تھا تو اسی وقت عہدے اور پارٹی رکنیت سے مستعفی کیوں نہ ہوئے؟ کیا وجہ ہے کہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے انھوں نے 9 مئی کا انتظار کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قوم گواہ ہے کہ چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنی 27 سالہ سیاست میں ہمیشہ پر امن احتجاج کی بات کی، پی ٹی آئی نے پچھلے ڈیڑھ سال میں 100 سے زائد جلسے کیے لیکن ایک گملا تک نہیں ٹوٹا۔
عمران خان نے 25 مئی اور 26 نومبر کے دھرنے بھی انتشار کے خدشے کے پیش نظر منسوخ کیے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کے باوجود ملک میں کوئی پر تشدد کارروائیاں نہیں کی گئیں۔ 9 مئی کے ہنگاموں کے وقت عمران خان ریاست کی قید میں تھے اور ان کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ترجمان تحریک انصاف نے کہا کہ پرویز خٹک کو پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر اکسانے کے لیے شو کاز نوٹس جاری کیا گیا، پرویز خٹک جھوٹے الزامات لگانے کی بجائے فیصلہ کریں کہ انھیں پارٹی میں رہنا ہے کہ نہیں۔
پرویز خٹک کا سیاسی مستقبل ختم ہوگیا ہے، ترجمان پی ٹی آئی
انھوں نے مزید کہا کہ شاید پرویز خٹک اس قسم کے الزامات کے ذریعے نئی کنگز پارٹی میں اپنے لیے کسی مرکزی عہدے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ پرویز خٹک اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد ان کا سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان یا پی ٹی آئی پر بے بنیاد الزمات لگا کر پرویز خٹک اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال نہیں کر سکتے۔ پاکستانی قوم تمام 'لوٹوں' کو پہلے ہی یکسر مسترد کر چکی ہے۔ ان جھوٹ پر مبنی بے ہودہ ہتھکنڈوں سے پرویز خٹک سمیت تمام منحرف اراکین قوم میں اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا دیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو شوکاز نوٹس کا جواب نہ دینے اور عمران خان پر الزامات لگانے پر پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ ان کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اعلامیہ جلد جاری ہونے کا امکان ہے۔