افریقہ کا نام سامنے آتے ہی سب سے پہلے کیا ذہن میں آتا ہے؟  جی ہاں! غربت۔

شمالی افریقہ کو چھوڑ کر باقی افریقہ کے بارے میں تو عام تاثر یہی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں فی کس کُل مقامی پیداوار (جی ڈی پی) میں اسی خطے کے کئی ممالک پاکستان سے کہیں آگے ہیں؟ جن میں سب سے نمایاں مثال ہے بوٹسوانا کی۔

جنوبی افریقہ میں واقع یہ ملک پاکستان کے کئی سال بعد 1960 میں آزاد ہوا۔ تب یہ دنیا کا تیسرا غریب ترین ملک تھا۔ پورے ملک میں صرف 22 یونیورسٹی گریجویٹس تھے اور فی کس آمدنی تھی صرف اور صرف 70 ڈالر۔

ایک شخص نے قسمت بدل دی

Raftar Bharne Do
سرتسے کھاما، بوٹسوانا کے پہلے صدر

تب صرف ایک شخص نے ملک کی قسمت بدل دی، ملک کے پہلے صدر سرتسے کھاما نے۔ اُس زمانے میں جب افریقہ میں لینن اور مارکس کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا، انھوں نے جمہوریت اور آزاد تجارت کے اصول اپنائے۔ اینٹی کرپشن کو اپنا اصول بنایا، نسل پرستی کے خلاف پرچم بلند کیا اور قانون کی حکمرانی کو اولیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ جس زمانے میں آدھا افریقہ خانہ جنگی کا شکار تھا یا آمریت کے شکنجوں میں تھا، بوٹسوانا ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔

سب سے الگ، سب سے جدا

‏60 اور 70 کی دہائی میں ہر سال ترقی کی شرح میں بوٹسوانا کا نام نمایاں رہا، یہاں تک کہ اس نے اپنے قدرتی وسائل  کی تلاش شروع کر دی۔ وہ بے وقوفی نہیں کی جو دوسرے ملک کر جاتے ہیں۔ اپنے وسائل میں اپنے ملک کا حصہ زیادہ رکھا۔  کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جس میں کم از کم 50 فیصد حصہ بوٹسوانا کو نہ ملے۔

Raftar Bharne Do
آج بوٹسوانا دنیا میں سب سے زیادہ ہیرے پیدا کرنے والا ملک ہے

دولت کا درست استعمال

ہیرے افریقہ کے دوسرے ملکوں میں بھی نکلتے ہیں، لیکن بوٹسوانا میں یہ دولت مقامی اشرافیہ کی جیبوں میں نہیں گئی۔ بلکہ خرچ ہوئی انفرا اسٹرکچر، تعلیم اور صحت  پر۔ ملک کے دیہی علاقوں میں کیٹل انڈسٹری بہت زیادہ تھی۔ حکومت نے اس پر بہت سبسڈی دی۔

پھر صدر کھاما نے اپنے ملک میں کسی عسکری گروہ کو بھی پنپنے نہیں دیا۔ بوٹسوانا کسی علاقائی تنازع میں فریق نہیں بنے بلکہ عرصے تک تو ملک کے دفاع پر بھی بہت معمولی رقم خرچ کی۔

افریقہ کی success story

آج بوٹسوانا کو "افریقہ کی success story" کہا جاتا ہے۔ صرف 23 لاکھ  آبادی رکھنے والے اس ملک کا فی کس جی ڈی پی پاکستان سے کم از کم تین گُنا زیادہ ہے اور یہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں بھی ہم سے کہیں آگے ہے۔

کیا بوٹسوانا کی داستان میں ہمارے لیے کوئی سبق ہے؟ یا ہماری ٹرین چھوٹ چکی ہے؟

شیئر

جواب لکھیں