کیا آپ جانتے ہیں پاکستان کی کُل قومی پیداوار (جی ڈی پی) قطر سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً 350 ارب ڈالرز ہے جبکہ قطر کا 180 ارب ڈالرز بھی نہیں۔ تو پاکستان کے معاشی حالات اتنے بُرے کیوں؟ اور قطر دنیا کے امیر ترین ملکوں میں کیوں شمار ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں کچھ بنیادی چیزیں سمجھنا ہوں گی۔

جی ڈی پی ہے کیا؟

Raftar Bharne Do

ایک مخصوص دورانیے میں کسی ملک میں تیار اور فروخت ہونے والی مصنوعات اور خدمات کی کُل مارکیٹ ویلیو کا نام ہے جی ڈی پی۔ کسی ریاست میں ایک عام فرد کتنا امیر ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ اشاریہ استعمال تو ہوتا ہے لیکن یہ اتنا اچھا نہیں ہے۔

یاد رکھیں کہ جی ڈی پی زیادہ ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ عوام بہت خوشحال ہیں۔ اصل میں آبادی کا حجم بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے پاکستان جیسا زیادہ آبادی رکھنے والا ملک، جو تقریباً 23 کروڑ افراد رکھتا ہے، صرف 26 لاکھ آبادی والے قطر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

اسی لیے جی ڈی پی کو آبادی سے تقسیم کیا جاتا ہے اور بنتا ہے GDP per capita۔ پاکستان کہ فی کس جی ڈی پی صرف 1,658 ڈالرز ہے جبکہ قطر کا 82,887 ڈالرز۔

دیکھا آپ نے؟ دونوں ملکوں کے عوام کی دولت میں کتنا فرق ہے؟

دوسرے اشاریے

کسی ملک کے عوام کی خوشحالی کو جانچنے کا ایک اہم پیمانہ انسانی ترقیاتی اشاریہ (HDI) بھی ہے۔ اس میں کسی ملک میں صحت، تعلیم اور آمدنی کی اوسط بنیاد پر اسکور دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایچ ڈی آئی اس وقت صرف 0.380، جس کی وجہ سے وہ دنیا میں 129 ویں نمبر پر ہے۔ لیکن اس میں بھی انفرا اسٹرکچر اور معیارِ زندگی وغیرہ کا فرق شامل نہیں۔ اس لیے تھوڑی بہت کمی تو HDI میں بھی رہ ہی جائے گی۔

ایک اندازہ Poverty Index یعنی غربت کے اشاریے سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی بہت ہی خراب ہے۔ اگر ملک کا اپنا غربت کا پیمانہ بھی لیا جائے تو 22 سے 24 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارتی ہے، یعنی تقریباً ایک چوتھائی لوگ۔

حکومتِ پاکستان اسے غریب سمجھتی ہے جو ماہانہ 13 ڈالرز یعنی 3 ہزار سے کم کماتا ہے۔ عالمی معیار تو اس سے کہیں زیادہ ہے جو کہتا ہے کہ دن میں 2.15 ڈالر سے کم کمانے والا غریب ہے۔ اگر عالمی معیار لاگو کیا جائے تو پاکستان میں غریبوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوگی۔

بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں غربت کی یہ شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت بھی ملک انٹرنیشنل پاورٹی انڈیکس میں 116 ملکوں 92ویں نمبر پر ہے اور بہت کم ملک ایسے ہیں جو اس سے پیچھے ہیں۔

کیا اصل فرق تیل کا ہے؟

ہمیں بالکل اندازہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ قطر جیسے ملک کے پاس تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل موجود ہیں جنھیں فروخت کر کے وہ امیر ترین ملکوں میں شامل ہو گیا ہے۔ لیکن شاید آپ کو جان کر حیرت ہو لیکن پاکستان کے پاس بھی تیل اور گیس کے ذخائر ہیں، لیکن وہ اتنے زیادہ نہیں کہ کم از کم ملک کی ضروریات ہی پوری کر سکیں۔

اس وقت پاکستان میں تیل کے ذخائر تقریباً 353 ملین بیرل ہیں جو سننے میں تو بہت زیادہ لگتے ہیں لیکن اتنے زیادہ ہیں نہیں۔ پاکستان تیل کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں 52ویں نمبر پر آتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں قطر جیسا ننھا سا ملک 25.2 ارب بیرل تیل کے ذخائر رکھتا ہے اور دنیا میں 13 ویں نمبر پر ہے جبکہ گیس کے ذخائر تو 858 ٹریلین مکعب میٹر ہیں، یعنی دنیا میں تیسرے نمبر پر۔

Raftar Bharne Do

لیکن کیا صرف تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہونا ہی کسی ملک کے امیر ہونے کے کافی ہے؟ نہیں! قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک صرف تیل و گیس کی وجہ سے امیر نہیں بلکہ وہ امیر ہیں دولت کے عقل مندی سے استعمال کی وجہ سے۔ انھوں نے اپنی اس دولت کو بہت دانائی سے استعمال کیا ہے اور طویل المیعاد منصوبوں میں اسے صرف کیا ہے۔ ورنہ تیل تو وینیزوئیلا اور نائیجیریا کے پاس بھی بہت ہے، لیکن وہ تو ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکے بلکہ آج دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہیں۔

Raftar Bharne Do

اس لیے اگر پاکستان کے پاس تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہوتے بھی تو شاید وہ ان وسائل کو لا یعنی منصوبوں پر ضائع کر دیتا، مثلاً ایک زیادہ بڑی اور بہتر فوج بنانے اور اسلحے کے انبار اکٹھے کرنے میں۔

پھر ہمارے ملک میں کرپشن یعنی بدعنوانی جس سطح پر ہے، اسے دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اگر تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہوتے تو پاکستان نے ایسا ہی رہنا تھا۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

شیئر

جواب لکھیں