مسجد اقصیٰ کا تقدس اسرائیلی پولیس نے ایک بار پھر پامال کردیا۔ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام اور قبلہ اول 75 سال سے یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ ایک معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کی آزادی حاصل ہے لیکن اسرائیلی فورسز اکثر ان سے یہ حق چھین لیتی ہیں۔ خاص طور پر جب کوئی یہودی تہوار ہو تو تصادم کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اسرائیلی حکام مسلمانوں پر ہی پابندی لگاتے ہیں اور انھیں مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔
یہودیوں کے تہوار ’’پاس اوور‘‘ سے پہلے بھی اسرائیلی پولیس نے ایسا ہی کیا ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں مسلمان بڑی تعداد میں مسجد اقصیٰ میں راتیں گزارتے ہیں اور وہاں قیام الیل اور ذکر و اذکار میں مصروف رہتے ہیں۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایسے میں اسرائیلی پولیس کی بھاری نفری نے نماز فجر سے پہلے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور نمازیوں پر حملہ کیا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلح اسرائیلی فوجی کس طرح فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد کررہے ہیں۔ خواتین اور بزرگ دہائیاں دیتے رہے، چیخ پکار اور آہ و بکا مچی ہوئی تھی۔
ا اسرائیلی پولیس نے نمازیوں پر اسٹن گرنیڈ اور ربڑ کی گولیاں چلائیں جن سے 14 افراد زخمی ہوگئے جبکہ 350 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
ایک فلسطینی بزرگ خاتون نے خبر ایجنسی سے گفتگو میں بتایا کہ وہ قرآن شریف کی تلاوت کر رہی تھیں۔ اس دوران اسرائیلی پولیس اندر گھس آئی اورگرینیڈ پھینکے، جن میں سے ایک ان کے سینے پر لگا، خاتون کو سانس لینے میں شدید دشواری پیش آ رہی تھی۔
فلسطینی ہلال احمر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے تنظیم کے ڈاکٹروں کو بھی زخمیوں کے علاج کے لیے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
اسرائیلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ڈنڈوں اور پتھروں سے مسلح مسلمان مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں چھپے ہوئے تھے جو یہودیوں کو پاس اوور کی تقریب سے روکنا چاہتے تھے۔ کمپاؤنڈ کو ان لوگوں سے خالی کرانے کے لیے چھاپا مارا گیا۔
اسرائیلی فورسز نے مسجدِ اقصیٰ میں گھسنے کے بعد غزہ پٹی پر راکٹوں سے بھی حملہ کیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں 2 تربیتی مراکز اور مہاجر کیمپ کو نشانہ بنایا۔ ادھر اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ سے اسرائیل پر 9 راکٹ داغے گئے جن میں سے 5 راکٹوں کو دفاعی نظام نے تباہ کردیا جبکہ 4 کھلے علاقے میں گرے۔
مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی فورسز کا حملہ، مسلم ممالک کا اظہار مذمت
مسجدِ اقصیٰ پر اسرائیلی فورسز کے حملے پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن سمیت کئی مسلم ممالک نے اظہار مذمت کیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’حملہ رمضان کے مہینے میں ہوا اور مقدس مذہبی مقامات کے احترام کے لحاظ سے اس قسم کے اقدامات بین الاقوامی اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی ہیں۔ اس حملے سے خطے میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔‘‘
خلیج تعاون کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’مسجد اقصی کا تقدس پامال کرتے ہوئے قابض فوج کے اس پر مسلسل حملے، اس میں عبادت کرنے والوں پر تشدد دراصل صورت حال کو مکدر کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔ یہ اقدامات بین الاقوامی اصولوں، مذہبی تقدس کے اصولوں اور بین الاقوامی قانون اور قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔‘‘
مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور فلسطین کی تاریخ
مقبوضہ بیت المقدس میں واقع الاقصیٰ کمپاؤنڈ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں کے لیے مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان ابتدا میں مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس لیے اسے قبلہ اول کہا جاتا ہے۔ شب معراج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ لایا گیا تھا۔ اس واقعے اور مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کی سورہ اسریٰ میں ہے۔ بیت المقدس پہلی بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں فتح ہوا تھا۔ چھٹی صدی ہجری میں عیسائیوں نے صلیبی جنگ کے بعد اسے مسلمانوں سے چھین لیا تھا تاہم صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو دوبارہ آزاد کرالیا تھا۔
اس کے بعد سے بیت المقدس زیادہ تر مسلمانوں کے پاس ہی رہا تاہم پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی تو یہ خطہ برطانیہ کے تسلط میں آگیا۔ برطانیہ نے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانا شروع کردیا۔ تیس کی دہائی میں جب ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں پر ظلم ڈھائے تو یہ سلسلہ بہت تیز ہوگیا۔ جرمنی، پولینڈ اور دیگر یورپی ممالک سے یہویوں کی بڑی تعداد فلسطین کا رخ کرنے لگی۔ مقامی فلسطینی باشندوں کو بے گھر کرکے یہودی بستیاں قائم کی گئیں۔ یہاں تک کہ مسلمان اقلیت میں بدلنے لگے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے اقتدار یہودیوں کو سونپ دیا۔ 15 مئی 1948 کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا جسے سب سے پہلے امریکا، برطانیہ اور روس نے تسلیم کیا۔ مسلم ممالک میں سے صرف ترکی کے سیکولر حکمرانوں اور ایران کے شاہ نے اس ناجائز ریاست کو تسلیم کیا۔
اسرائیلی میں یہودیوں کی آبادکاری کا سلسلہ اس کے بعد مزید تیز ہوتا گیا اور مسلمانوں پر زمین تنگ کی جاتی رہی۔ حتی کہ اب مسلمان غزہ اور مغربی کنارے کے تھوڑے سے علاقے میں سمٹ کر رہ گئے ہیں لیکن یہودی استعمار ان کا وجود مکمل ختم کردینا چاہتا ہے۔ غیرقانونی یہودی بستیاں تعمیر کرکے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور اقوام عالم صرف زبانی کلامی مذمت تک محدود رہتی ہے۔