کمرۂ عدالت کا ماحول گرم ہے۔ کوئی بھی گھڑی فیصلے کی ہو سکتی ہے۔ اتنے میں ٹربیونل کا صدر سخت لہجے میں سوال کرتا ہے: کیا یہ خیالات تم نے ابو الاعلیٰ مودودی کی کتابوں سے لیے ہیں؟ کٹہرے میں کھڑے سید قطب کا چہرہ پُر سکون ہے، جواب ملتا ہے: ہاں! میں نے مولانا مودودی کی کتابوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ٹربیونل کے صدر کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں، پوچھتا ہے: یہ بتاؤ، تمہاری دعوت اور ابو الاعلیٰ کی دعوت میں کیا فرق ہے؟ جواب اسی لہجے میں ملتا ہے: لا فرق (یعنی کوئی فرق نہیں)

فیصلے کی گھڑی آ جاتی ہے، قلم کاغذ پر چلنا شروع ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی آواز بلند ہوتی ہے۔ سید قطب اور دو ساتھیوں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

13 سال پہلے، سن 1953

یہ بھی اِس سے ملتا جلتا منظر ہے۔ جیل میں مولانا مودودی اور اُن کے ساتھی نماز کے بعد بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک فوجی افسر آتا ہے جو مارشل لا کورٹ کا صدر ہے۔ کوٹھڑی میں داخل ہوتے ہی وہ زور سے پوچھتا ہے: مولانا مودودی کون ہیں؟ مولانا جواب دیتے ہیں: میں ہوں ابو الاعلیٰ مودودی۔

فوجی افسر ہاتھ میں موجود پرچا پڑھنا شروع کر دیتا ہے: آپ کو کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس سزا کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی۔ ہاں! آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔

فضا میں خاموشی چھا جاتی ہے، مولانا کے ساتھی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور پھر سید مودودی کی آواز ابھرتی ہے:

مجھے کسی سے رحم کی اپیل نہیں کرنی۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔

فوجی افسر کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں ہیں، وہ اچانک واپس مڑتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ آدھے گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور دیگر وارڈرز کوٹھڑی میں داخل ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے: ’’مودودی صاحب تیار ہو جائیں، پھانسی گھر جانا ہے‘‘۔ مولانا بسم اللہ پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے، کپڑے بدلے، ٹوپی پہنی، قرآن مجید ہاتھ میں اٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے گلے مل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

یہ منظر دیکھ کر سب آبدیدہ ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے منہ سے بے اختیار نکلا:

مجھے یہ تو پتہ تھا کہ مولانا مودودی بڑے آدمی ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں اُن کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے؟

چند دن گزرتے ہیں اور انٹرنیشنل پریشر کی وجہ سے مولانا مودودی کی سزائے موت پر عمل درآمد تو نہیں ہو سکا لیکن انھیں ایک legendary حیثیت ضرور مل گئی۔

سید مودودی کی پرورش

سید ابو الاعلیٰ مودودی سن 1903 میں حیدرآباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا و اجداد کا تعلق سادات سے تھا جو افغان شہر ہرات کے قریب چِشت کے مقام پر آباد تھے۔ اس خاندان کے مشہور بزرگ تھے خواجہ قطب الدین مودود چشتی۔ آپ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ انھی خواجہ مودود چشتی کی وجہ سے ہی مولانا کا خاندان مودودی کہلایا۔

مودودی صاحب نے پرورش ایک دینی ماحول میں پائی۔ اردو، فارسی، عربی اور فقہ اور حدیث کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور گیارہ سال کی عمر میں اورنگ آباد کے مدرسہ فرقانیہ میں داخل ہوئے۔ آپ نے ‏1914 میں مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے لیکن اُس زمانے میں اُن کا خاندان مالی مشکلات کا شکار ہو گيا اور اورنگ آباد سے حیدر آباد آ گیا تب آپ کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔ اُس وقت دار العلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے، جو امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے لیکن یہاں تعلیم کا سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل پایا کیونکہ ایک دن اطلاع آئی کہ سید مودودی کے والد پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور کچھ ہی عرصے میں اُن کی وفات ہو گئی۔

والد کے انتقال کے بعد سید مودودی کو معاش کی فکر ہوئی۔ ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ بجنور، اتر پردیش کے اخبار ’’مدینہ‘‘ میں ایڈیٹر بنے اور جمعیت علمائے ہند کے روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں بھی کام کیا۔ سن 1925 میں جب جمعیت علمائے ہند کانگریس میں شامل ہوئی تو سید مودودی نے احتجاجاً اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ چھوڑ دیا۔ اس لیے کیونکہ وہ کانگریس کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔

الجہاد فی الاسلام

اس اخبار میں کام کے دوران سید مودودی کی زندگی کا اہم ترین موڑ آتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں شُدھی کی تحریک شروع ہو چکی تھی، جس کا مقصد تھا مسلمانوں کو ہندو بنانا۔ یہاں تک کہ سوامی شردھانند نے اپنی کتاب میں حضورؐ کی توہین بھی کی جس پر ایک مسلمان نے اسے قتل کر دیا۔ اس واقعے پر پورے ہندوستان میں بہت ہنگامہ مچا۔ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ تب مولانا محمد علی جوہر نے دلّی کی جامع مسجد میں ایک تقریر کی اور کہا کہ کاش کوئی اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے۔ اس پر سید مودودی نے ایک کتاب لکھی ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ وہ بھی صرف 24 سال کی عمر میں۔ اِس چھوٹی سی عمر میں اتنی شاندار کتاب لکھنا، آپ کا ایک بہت حیرت انگیز اور عظیم کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو ہر طرف سے بہت داد ملی، یہاں تک کہ علامہ اقبال نے بھی فرمایا:

اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صُلح اور جنگ پر یہ ایک بہترین کتاب ہے اور میں ہر آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ یہ کتاب ضرور پڑھے۔

جماعت کا قیام

بہرحال، سید مودودی اخبار چھوڑ کر حیدر آباد دکن چلے گئے جہاں آپ نے ہندوستان کے سیاسی حالات اور مسلمانوں کے حالات کو بھی بہت قریب سے دیکھا اور اس پر کئی کتابیں لکھیں اور یہیں 1932 میں ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ آتا ہے، جب وہ ایک رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کرتے ہیں۔ رسالے کا مقصد مغربی خیالات اور اُن کے طریقوں کا زور توڑنا اور مسلمانوں کے ذہنوں پر انگریزوں کی مرعوبیت ختم کرنا تھا لیکن اسی رسالے نے آگے بڑھ کر ایک تحریک کو جنم دیا۔ ایسی تحریک کو جو ایک جماعت کے قیام تک پہنچی، جماعت اسلامی کے قیام تک۔

جماعت اسلامی کیوں بنائی؟

اس جماعت کا ایک مقصد تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت ہے تو دوسری جانب سیاسی نظام میں نیک اور صالح لوگوں کو اقتدار سونپنے کی بات بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ ہم خود سید مودودی کی طرف دیکھیں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟

پاکستان کی مخالفت

اپنی ایک کتاب ’’تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:

مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندوستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے، تمام روئے زمین ایک ملک ہے انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہو جائے تو کیا بگڑ جائے گا؟ اس بُت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرہ خاک کو تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔

اس مؤقف کے ساتھ سید مودودی نے 26 اگست 1939 کو لاہور میں ایک جماعت قائم کی، نام رکھا گیا جماعت اسلامی۔ یہ جماعت کہتی ہے: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاست سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔ لیکن کہاں؟ اس کا میدان بنتا ہے آٹھ سال بعد۔

پاکستان کا قیام

پاکستان کا پہلا اور بڑا مسئلہ ہے آئین یعنی پاکستان کے آئین کی بنیادیں کیا ہونی چاہییں؟ یہ طے کرنے میں جہاں دوسرے علما بھی پیش پیش ہیں، وہیں مولانا مودودی کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ مگر قائد اعظم کے انتقال کے بعد، اگلے ہی مہینے اکتوبر 1948 میں مودودی صاحب کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یہ اُن کی پہلی قید ہے، لیکن وہ اپنے مطالبے سے بالکل پیچھے نہ ہٹتے: یعنی اسلامی نظام کا مطالبہ۔ یہاں تک کہ جب قراردادِ مقاصد کا متن تیار ہوتا ہے، تب بھی وہ ملتان جیل میں ہیں اور یہ متن انھیں وہیں دکھایا جاتا ہے۔

بیس مہینے قید کے بعد مولانا کو 1950 میں رہا کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سید مودودی کے اثرات پاکستان سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہو گئے ہیں بلکہ بیسویں صدی کی پوری اسلامی دنیا پر سید مودودی کی علمیت اور جدوجہد کا ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ impact ضرور پڑا ہے۔ خاص طور پر نئی اسلامی تحریکوں پر یہ تحریکیں ہر میدان میں ہیں، علمی میدان میں بھی اور عملی میدان میں بھی اور مولانا مودودی اِن اسلامی تحریکوں کے روح و رواں ہی نہیں ہیں بلکہ انھوں نے صدیوں کا جمود بھی توڑا، وہ جمود جو مغرب کی غلامی سے پیدا ہوا تھا۔

مودودی کی فکر نے ہی جماعت اسلامی ہند، جماعت اسلامی بنگلہ دیش، تونس کی النہضہ (Ennahda)، مصر کی اخوان المسلمون، ترکی کی رفاہ پارٹی، سوڈان کی الحرکت الاسلامیہ، امریکا اور کینیڈا میں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کو جنم دیا لیکن دنیا بھر میں impact رکھنے والی جماعت اسلامی کے ساتھ پاکستان میں کیا ہوا؟ جی ہاں! اپنے ہی ملک میں کامیابی حاصل نہیں کر پائی، نہ سید مودودی کی زندگی میں اور نہ ہی اس کے بعد۔

اس کی وجوہات بہت ساری ہیں۔ ایک تو پاکستان بننے کے بعد ملک میں بڑی سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ اس کے اثرات جماعت اسلامی میں بھی نظر آئے اور بالآخر لاوا پھٹ پڑا۔

جماعت میں پھوٹ

یہ 21 فروری 1957 ہے ماچھی گوٹھ کے مقام پر جماعت اسلامی کا اجتماع ہو رہا ہے، جس میں دو مخالف گروہ آمنے سامنے ہیں۔ سید مودودی اور اُن کے ہم خیال چاہتے ہیں کہ انتخابی عمل میں حصہ لیا جائے جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ معاشرے کے سدھار پر ہی کام کیا جائے اور انتخابی سیاست سے دُور رہا جائے۔ اس گروپ میں ڈاکٹر اسرار احمد، امین احسن اصلاحی، اور ارشاد احمد حقانی جیسے بڑے نام شامل ہیں۔

اجتماع نے مولانا مودودی کی رائے سے اتفاق کیا، اور جماعت اسلامی انتخابی سیاست کی راہ پر چل پڑی۔ ڈاکٹر اسرار، امین احسن اصلاحی اور ارشاد احمد حقانی، تینوں جماعت اسلامی چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں مولانا مودودی کا انتخابی سیاست میں حصہ لینا وہ فیصلہ بن جاتا ہے جس پر آج بھی اُن کے ماننے والوں بڑا اختلاف ہے۔

جماعت کی سیاسی ناکامی

نہ اُن کی جماعت اسلامی سیاست میں بڑی کامیابی حاصل کر پائی اور نہ ہی علمی اور اصلاحی کاموں میں وہ کردار ادا کر پائی جو ابتدائی دنوں میں کیا تھا۔ یعنی نہ معاشرے کو سدھارنے کا کام ہو پایا، نہ علمی تحریک چل پائی۔ سید مودودی کا ’’نظریہ سیاست‘‘ بیلٹ بکس کے رستے کبھی منزل نہیں پاسکا۔

1970 کے عام انتخابات پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اپنی اسٹریٹ پاور کو دیکھتے ہوئے سید مودودی کو بڑی امید ہے کہ لوگ جماعت اسلامی ووٹ دیں گے لیکن جماعت اسلامی قومی اسمبلی میں صرف چار سیٹیں حاصل کر پاتی ہے۔ اسلامی انقلاب کا خواب ٹوٹ جاتا ہے اور ساتھ ہی پاکستان بھی۔ ‏1972 میں سید مودودی جماعت اسلامی کی امارت چھوڑ دیتے ہیں۔

جماعت اسلامی کو سیاسی میدان میں کیوں لائے؟ اس پر مولانا مودودی سے آخر تک سوالات کیے گئے۔ ‏1974 میں ایک اجتماع سے خطاب میں انھوں نے کہا:

کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ کچھ نہ کچھ آپ کو بھی ’’کرنا‘‘ چاہیے۔ لیکن میں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے، لیکن آپ سچائی کے رستے سے نہ ہٹیں۔ وہ غلط وعدہ جسے آپ پورا نہ کر سکتے ہوں، وہ آپ نہ کیجیے، کوئی ایسا کام نہ کیجیے کہ جس سے آپ کے اوپر ذمے داری خدا کے ہاں آجائے کہ آپ قوم کا اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں، آپ اِس قوم کو لفنگا بنا کر آئے ہیں، آپ بھی اِس قوم کو جھوٹ اور گالی اور دوسری اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کر کے آئے ہیں۔ جو ذمے داری آپ پر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ جو اللہ اور رسولﷺ کا بتایا ہوا رستہ ہے، اس کے اوپر کام کریں۔ آپ کا کام اِسی رستے پر چل کر محنت کرنا ہے، جان کھپانا ہے۔ اِس میں اگر آپ کوتاہی کریں گے تو ماخوذ ہوں گے۔

سید مودودی کے علمی کارنامے

سیاسی میدان سے ہٹ کر دیکھیں تو سید مودودی کا علمی کام بہت بڑا ہے۔ الجہاد فی الاسلام کے بعد ترجمان القرآن کا آغاز ہوا اور پھر مولانا مودودی کی کئی کتابیں سامنے آتی رہیں۔ ’’پردہ‘‘، ’’مسئلہ مِلکیت زمین‘‘، ’’سود‘‘ ، ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ پھر ‘‘تنقیحات‘‘ اور ’’تفہیمات‘‘ سامنے آتی ہیں، جو مغرب کی برتری کی غلط فہمی دُور کرنے کام کرتی ہیں ، اور سب سے اہم قرآن مجید کی وہ تفسیر جسے اردو کی بہترین تفاسیر میں سے ایک سمجھا جاتا ہے: تفہیم القرآن۔

سید مودودی کی اہم کتابوں کے بارے میں مشہور عالم احمد جاوید لکھتے ہیں:

مولانا مودودی صاحب کی کتابوں میں ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ اہم ترین اور بنیادی کتاب ہے جس میں ان کی پوری فکر اور تصورِ دین سمجھ میں آ جاتا ہے۔ ان کا ’’تفہیمات‘‘ کا جو سلسلہ ہے اس کا مجھ پر بہت زیادہ اثر ہوا کیونکہ اس میں بہت سے مسائل میری دلچسپی کے تھے جس پر وہ جواب لکھتے تھے۔ ایک اور اہم ترین کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ ہے جو شاید اُس وقت کتابی شکل میں نہیں تھی، بلکہ ڈاکٹر عبد الودود کے ساتھ ان کا مکالمہ چل رہا تھا اور رسائل میں چھپ رہا تھا۔ اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ ان سے متاثر ہونے کا ایک دینی جذبہ تھا لیکن دوسرا سبب یہ ہوا کہ ان کا استدلال بہت ہی قابلِ اعتبار ہے۔ اگر مودودیؒ صاحب کی دو تین نمائندہ تحریریں منتخب کی جائیں تو ’’قرآن پاک کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ اس میں ضرور شامل ہوگی۔ اصل میں ان کا سب سے بنیادی کام ان کی تفسیر ہے۔ ایک کتاب جو شاید کم نظر آتی ہے، لیکن بہت اہم اور قابلِ ذکر کتاب ہے، وہ ’’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مُبادی‘‘ ہے۔ وہ بھی میری بہت پسندیدہ کتاب ہے۔ لیکن اس زمانے میں میرے لیے تھوڑی مشکل تھی۔ یہ کتاب غالباً مولانا مودودیؒ صاحب کی سب سے مشکل کتاب ہے۔ ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کی اہمیت یہ ہے کہ مودودی صاحب کی ساری کتابوں کا جو نچوڑ اس میں نظر آتا ہے، وہ کسی اور میں نہیں۔ تو اگر کوئی شخص ان کی فکر کا مطالعہ کرنا چاہے تو اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس سے آغاز کرے۔

سید مودودی کی وہ دو کتابوں نے ایک عام مسلمان کے تصورِ اسلام کو ٹھیک کیا، وہ ’’دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ تھیں۔ اسلامی عبادتوں کی ایسی تعریف اردو زبان میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ انھی دونوں کتابوں نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں میں بھی بڑا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ پھر نئے دور میں مسلم دنیا میں سیاسی بیداری پر اگر کوئی کتاب ہے تو وہ سید مودودی کی ’’اسلامی ریاست‘‘ ہے۔ اس کتاب میں اسلامی حکومت کے طریقِ کار، حکومت کی نوعیت اور اہداف شامل ہیں۔ اس کتاب سے ایران کے امام خمینی بھی بہت متاثر ہوئے اور گویا اسی کتاب میں اپنا نظریہ ولایت فقیہ شامل کیا، جس نے ایران اور عراق میں عوام پر زبردست اثرات پیدا کیے۔ یعنی یہی وہ کتاب ہے جو ایران میں انقلاب برپا ہونے کی بنیاد بنی۔

اسلامی تحریکوں پر اثر

جماعت اسلامی کو عملی کامیابی ملی ہو یا نہ ملی ہو لیکن سید مودودی کی کتابوں نے بیسویں صدی میں دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کو ضرور جنم دیا۔ پاکستان میں سید مودودی کو صرف اور صرف مخالفت ہی ملی، وہ بھی بہت بڑے پیمانے پر۔ ایک طرف پاکستان میں ہر آنے والی حکومت اُن کے خلاف رہی۔ آپ 1948 میں گرفتار ہوتے ہیں تو ‏1950 میں رہائی ملتی ہے۔ ‏1953 میں قید ہوتے ہیں تو سزائے موت بھی سنا دی جاتی ہے۔ جو بعد میں عمر قید میں بدلتی ہے اور تقریباً تین سال بعد رہائی نصیب ہوتی ہے۔ یہی نہیں، 1963 میں ایک قاتلانہ حملہ بھی ہو جاتا ہے، جس میں سید مودودی بال بال بچتے ہیں۔ ‏1964 میں تو ان کی جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے۔ سید مودودی سمیت جماعت اسلامی کے کئی رہنما سال بھر کے لیے قید کر دیے جاتے ہیں۔ یہ تو حکومتوں کا رویہ تھا، روایتی علما بھی سید مودودی کے بہت بڑے مخالف بن کر سامنے آئے۔ ایک طرف اُن کی جماعت کو ایک الگ فرقہ سمجھا گيا تو دوسری طرف اُن کے افکار کو ’’فتنۂ مودودیت‘‘ کا نام بھی دے دیا تھا لیکن تمام تر مخالفتوں کے باوجود سید مودودی کا ایک ہی اصول ہے: ایسے کسی الزام کا جواب نہیں دینا۔

پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عسکریت پسند اسلامی تحریکوں پر سید قطب کے علاوہ سید مودودی کا بھی بہت اثر ہے۔ اِس کی وجہ ضرور اُن کی الجہاد فی الاسلام جیسی کتابیں ہوں گی یا پھر جماعت اسلامی کی جہادِ افغانستان اور جہادِ کشمیر میں شمولیت ہوگی۔ لیکن یہ دونوں قدم جماعت نے تب اٹھائے جب سید مودودی اِس دنیا سے جا چکے تھے۔

22 ستمبر 1979 کو۔ جب وطن سے ہزاروں کلومیٹرز دُور امریکا میں ان کا انتقال ہو جاتا ہے، جہاں وہ علاج کے لیے گئے تھے۔ سید مودودی کا جنازہ لاہور میں پڑھایا جاتا ہے جو بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک ہوگا۔ لیکن اِس جنازے کے ساتھ کئی سوال بھی ابھرتے ہیں:

  • سید مودودی کی اصل legacy کیا ہے؟
  • اُن کی جماعتِ اسلامی جو کبھی پاکستان کے انتخابات میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی؟
  • یا پھر وہ نعرہ جو اُن کی دعوت کی بنیاد تھا یعنی اسلامی نظام کا نعرہ؟

پاکستان میں آپ آج کسی سے بھی پوچھیں، کیا آپ کو ملک میں اسلامی نظام چاہیے؟ اندازہ یہی ہے کہ بڑی اکثریت کا جواب یہی ہوگا، جی ہاں! اس ایک ’’ہاں‘‘ میں بہت بڑا کردار سید ابو الاعلیٰ مودودی کا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں