یہ مناظر جماعت اسلامی کے جلسوں کے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد اور شرکا کا جوش و خروش دیکھ کر جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو یہ امید ہو جاتی ہوگی کہ ان کی پارٹی الیکشن میں کشتوں کے پشتے لگا دے گی۔ مخالفین کو چاروں شانے چت کر دے گی۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ الیکشن کے نتائج آتے ہیں تو جماعت اسلامی کے حامیوں کے ارمانوں پر اوس پڑ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ایک ایسی جماعت جس کے رہنما بے داغ کردار کے مالک اور اصول پرست سمجھے جاتے ہوں انھیں مطلوبہ تعداد میں ووٹ کیوں نہیں ملتے؟ آج ہم اسی سوال کا جواب ڈھونڈیں گے۔

جماعت اسلامی کی سیاست، سیاسی حکمت عملی اور مقاصد کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔ تقسیم سے بھی پہلے کے وقت۔

یہ 26 اگست 1941 کا دن تھا جب لاہور میں ایک تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ ہندوستان بھر میں مقبول ہو چکی تھی اور مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت سمجھی جاتی تھی۔ ایسے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ  مودودی نے ایک نئی جماعت قائم کیوں کی؟ اس کا جواب انھوں نے اپنی تحریروں میں یوں دیا کہ جماعت اسلامی کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام کا احیا کیا جائے۔ مسلمانوں کی کردار سازی کی جائے۔ انھیں اخلاقی برائیوں سے پاک کیا جائے۔ سیکولرزم، سوشلزم اور مغربی تہذیب کے غلبے سے بچایا کر اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے قریب لایا جائے۔ ان میں علیحدہ قومیت کا تشخص اجاگر کیا جائے۔

مولانا مودودی اس مقصد کے لیے 1932 سے حیدر آباد دکن سے ترجمان القرآن رسالہ بھی نکال رہے تھے اور بحیثیت عالم دین ہندوستان معروف ہو چکے تھے۔ اس وقت تک وہ کئی کتابیں بھی لکھ چکے تھے۔ جماعت کے قیام کے وقت اس کے ارکان کی تعداد 75 تھی جنھوں نے 38 سالہ سید مودودی کو اپنا امیر منتخب کیا۔ جماعت کا پیغام آہستہ آہستہ پورے ہندوستان میں پھیلنے لگا اور پاکستان بننے تک جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 700 سے زیادہ اور کارکنوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی تھی۔

تاہم یہ دور مسلم لیگ کی مقبولیت کے عروج کا دور تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں پر ایک ہی دھن سوار تھی بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان۔ ایسے میں اگر کوئی پاکستان بننے کی مخالفت کرتا تو جذباتی مسلمان اس کے دلائل سننے کے بجائے اسے اپنا دشمن اور ہندوؤں کا ایجنٹ تصور کرنے لگتے تھے۔ مولانا مودودی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انھوں نے ابتدا میں پاکستان بننے کی مخالفت کی۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل نہ کیا جائے بلکہ اس پر قرآن و سنت کی حکمرانی کا ایک مکمل لائحہ عمل بھی ہونا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ قائداعظم ایک اسلامی ریاست کے بجائے مسلمانوں کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کی مخالفت جمعیت علمائے ہند جیسی نہیں تھی جو کانگریس کی ہمنوا تھی اور ہندوستان کی تقسیم کے مکمل خلاف تھی اور اس وجہ سے مسلمان تقسیم ہو چکے تھے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے علیحدہ قوم ہونے کا تصور پختہ کرنے میں مولانا مودودی کا اہم کردار رہا ہے۔ کانگریس اور جمعیت علمائے ہند متحدہ قومیت یا ایک قومی نظریے کی حامی تھیں۔ مولانا مودودی نے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضمون لکھے۔ جو کتابوں کی صورت میں "مسئلہ قومیت" اور "مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئے۔ مولانا مودودی کی ان تحریروں سے مسلم لیگ نے بھی فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کو یہ سمجھانے میں مدد ملی کہ متحدہ ہندوستان میں ان کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ بہرحال، مخالفین عرصہ دراز تک جماعت اسلامی پر پاکستان اور قائداعظم کی مخالفت کا الزام دھرتے رہے۔ یہ بھی شاید ایک وجہ ہو سکتی ہے جو جماعت کی مقبولیت کی راہ میں رکاوٹ رہی ہو۔

قیام پاکستان کے فوری بعد بھی جماعت اسلامی نے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران اکتوبر 1948 میں حکومت پاکستان نے مولانا مودودی کو جہاد کشمیر کی مخالفت کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ مولانا مودودی کا موقف تھا کہ جہاد انفرادی سطح پر نہیں ہوسکتا اور ریاست عالمی معاہدوں کی وجہ سے ایسے جہاد میں شامل نہیں ہوسکتی۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ ایسا سازش کے تحت کیا گیا اور انھیں اپنے بیان کی وضاحت پیش کرنے نہیں دی گئی۔ اصل میں ان کی گرفتاری اسلامی نظام کے مطالبے پر ہوئی۔ بہرحال جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کے مطالبات پر 1949 میں قرارداد مقاصد منظور کرلی گئی۔ 20 ماہ جیل میں رہنے کے بعد انھیں 1950 میں رہائی ملی۔

‏1953 میں ختم نبوت تحریک کے دوران انھوں نے قادیانی مسئلہ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ اس پر انھیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور فوجی عدالت نے انھیں موت کی سزا سنادی۔ مولانا مودودی نے معافی کی اپیل کرنے سے انکار کیا۔ اس وقت تک مولانا مودودی بطور عالم دین پوری دنیا میں معروف ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو سزائے موت سنائے جانے کے خلاف پاکستان کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ کئی ملکوں میں مظاہرے ہوئے، وہاں کے علما نے پاکستان حکومت سے رابطے کیے۔ بالآخر ان کی سزائے موت کو 14 سال قید کی سزا میں بدلا گیا مگر 25 ماہ قید کے بعد ہائی کورٹ کے حکم پر انھیں آزادی مل گئی۔

جماعت اسلامی نے اگرچہ 1951 میں پنجاب کے انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم ابھی تک یہ ایک مکمل سیاسی جماعت نہیں تھی۔ بلکہ اس کا مقصد افراد کی کردار سازی کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنا تھا مگر مولانا مودودی نے شاید محسوس کرلیا تھا کہ انتخابی سیاست میں حصہ لیے بغیر ملک کے نظام میں کوئی جوہری تبدیلی لانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ 1957 میں ماچھی گوٹھ میں ہونے والے اجتماع میں انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔ اس اقدام کے نتیجے میں مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبدالغفار حسن، ڈاکٹر اسرار احمد، ارشاد احمد حقانی جیسے پرانی ساتھی ان سے الگ ہوگئے۔ اس وقت اگر الیکشن ہوتے تو جماعت کی مقبولیت کا اندازہ ہوجاتا تاہم ایوب خان نے اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگاتے ہی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی۔ جماعت اسلامی کے تمام دفاتر بند، بیت المال منجمد کردیا گیا اور ریکارڈ قبضے میں کر لیے گئے۔ 1962 میں سیاسی جماعتیں بحال کی گئیں۔

اکتوبر 1963 میں جماعت اسلامی کا سالانہ جلسہ لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایوب حکومت نے منٹو پارک کے بجائے بھاٹی گیٹ کے باہر تنگ جگہ پر جلسے کی اجازت دی۔ 25 اکتوبر کو جب مولانا مودودی تقریر کر رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی جس سے جماعت اسلامی کا ایک کارکن جاں بحق ہو گیا تاہم مولانا مودودی بچ گئے۔

ایوب خان جماعت اسلامی کے اسلامی نظام کے مطالبوں سے اتنا تنگ تھے کہ 1964 میں انھوں نے پارٹی کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ مولانا مودودی سمیت 65 رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے جماعت کو بحال کیا۔ ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن بنی جس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہوئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔ انتخابات میں بدترین دھاندلی کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کو شکست ہوئی۔

اس کے بعد 1965 کی جنگ میں حکومت سے بھرپور تعاون کے باوجود ایوب خان جماعت اسلامی سے خوش نہیں تھے۔ 1967 میں عید کے چاند کے معاملے پر بھی مولانا مودودی کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ آمریت کے ایک طویل دور کے بعد 1970 میں ملک میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے۔ یہ جماعت کا پہلا بڑا امتحان تھا۔

ادھر ملک کی صورت حال یہ تھی کہ ایوب خان کی آنکھ کا تارا رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی مغربی پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن چکی تھی۔ ان کا روٹی کپڑا اور مکان اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ گھر گھر میں گونج رہا تھا جبکہ مشرقی پاکستان کے لوگ شیخ مجیب کو اپنا مسیحا سمجھ رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے مشرقی پاکستان اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ بڑی سیاسی پارٹیوں میں جماعت اسلامی ہی تھی جس نے ملک کے دونوں بازوؤں میں امیدوار کھڑے کیے۔ الیکشن کے نتائج آئے شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 160 سیٹیں اور مجموعی طور پر 1 کروڑ 29 لاکھ 37 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو 61 لاکھ ووٹ اور 81 سیٹیں ملیں۔ جماعت اسلامی نے 19 لاکھ 89 ہزار ووٹ لے کر تیسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ اس کے 4 امیدوار کامیاب ہوئے جن میں سے 3 کراچی سے منتخب ہوئے تھے۔

ان انتخابات کے نتیجے میں ملک تقسیم کے دہانے پر پہنچ گیا۔ شیخ مجیب جنھوں نے اپنے جن مشہور 6 نکات پر الیکشن جیتا تھا ان میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو خوف تھا کہ اگر حکومت شیخ مجیب کو دی گئی تو وہ پاکستان توڑ دیں گے۔ ادھر اقتدار نہ دیے جانے پر شیخ مجیب کی جماعت نے علم بغاوت بلند کردیا۔ عوامی لیگ کے عسکری ونگ مکتی باہنی نے مغربی پاکستان کے نمائندوں اور غیربنگالیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو فوج نے آپریشن شروع کیا۔ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیموں البدر اور الشمس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو روکنے کے لیے فوج کا ساتھ دیا۔

مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ البدر اور الشمس نے پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر بنگالیوں پر ظلم و ستم کیے اور قتل و غارت میں حصہ لیا۔ بنگلادیش بننے کے بعد بھی جماعت اسلامی وہاں کام کرتی رہی مگر 2018 میں وہاں کی سپریم کورٹ نے 71 میں مظالم کے الزام لگا کر جماعت اسلامی پر پابندی لگادی تھی۔ جماعت بنگلادیش کے کئی رہنماؤں کو پھانسی بھی دی گئی۔

ادھر پاکستان میں بھٹو نے اقتدار سنبھال تو لیا۔ 1973 میں ملک کو پہلا متفقہ آئین بھی دے دیا۔ 1974 میں اسلامی سربراہی کانفرنس بھی منعقد کرڈالی مگر ان کے خلاف اپوزیشن کا دباؤ بڑھتا رہا۔ مارچ 1977 میں الیکشن ہوئے تو جماعت اسلامی اکیلے الیکشن لڑنے کے بجائے 9 جماعتی اتحاد پاکستان نیشنل الائنس کا حصہ بن گئی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس اتحاد میں مذہبی جماعتوں کے علاوہ ایسی جماعتیں بھی شامل تھیں جو سیکیولر سمجھی جاتی ہیں۔ اس اتحاد کے سربراہ بھی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے خان عبدالولی خان تھے۔ جماعت اسلامی پر تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے اپنا تشخص کھو کر ایک ایسے اتحاد میں شمولیت کیوں اختیار کی۔

یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ مولانا مودودی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے 1972 میں جماعت کی امارت سے سبکدوش ہوچکے تھے اور یہ ذمے داری محمد طفیل کو سونپ دی گئی تھی۔ بہرحال، جنرل الیکشن میں پیپلزپارٹی نے 155 سیٹیں جیتیں جبکہ پی این اے صرف 36 نشستیں حاصل کرسکا۔ پی این اے نے بھٹو پر دھاندلی کا الزام لگایا اور ملک بھر میں ہنگامے اور فسادات شروع ہوگئے۔  ضیاءالحق نے موقع غنیمت جان کر ملک میں مارشل لا لگادیا۔ جماعت اسلامی نے ضیاءالحق کا ساتھ دیا۔

ایک فوجی آمر ضیاءالحق کا ہمنوا بن کر جماعت اسلامی کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ جہاد افغانستان، جہاد کشمیر میں شمولیت کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ کیا پاکستان کی جامعات میں تشدد، اور کلاشنکوف کلچر جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے پھیلایا؟ اس پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے۔ دیکھنا نہ بھولیے گا۔

شیئر

جواب لکھیں