ایسا ملک جس کی تقریباً 96 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ امت مسلمہ کی سب سے بڑی فوج ہے یہاں۔ دنیا کی واحد مسلم نیوکلیئر پاور ہے لیکن پھر بھی اِس ملک میں عسکری تنظیمیں ہیں، جو مذہب کے نام پر دہشت پھیلاتی ہیں، قتل و غارت کرتی ہیں۔ آخر کیوں؟

یہ کہانی ہے بہت پرانی۔ اس میں بڑے اتار چڑھاؤ ہیں۔ اس میں رومینس بھی ہے اور نفرت کی آگ بھی!

یہ یکم مئی 1960 کا دن ہے۔ پاکستان کے شہر پشاور کے نزدیک بڈبیر کے فضائی اڈے سے ایک طیارہ اڑان بھرتا ہے اور کچھ ہی دیر میں سوویت یونین کی فضائی حدود میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ جاسوس طیارہ اپنے جدید کیمروں سے کئی حساس علاقوں کی تصویریں بناتا ہے، وہ بھی 70 ہزار فٹ بلندی سے۔ اتنی اونچائی پر اسے بھلا کیا خطرہ ہو سکتا تھا؟ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، تب اچانک ایک میزائل آ کر لگتا ہے اور جہاز تباہ ہو جاتا ہے۔ لیکن طیارہ تھا کس کا؟ اور آخر فضائی جاسوسی کا مقصد کیا تھا؟ اور یہ واقعہ نقطہ آغاز تھا، اس دشمنی کا جس نے بالآخر پاکستان کو ایک نئے رخ پر ڈال دیا۔ کیسے؟

اُسی دن سوویت وزیر اعظم نکیتا خروشیف اعلان کرتے ہیں: ہم نے امریکا کا U2 جاسوس طیارہ مار گرایا ہے۔ یہ طیارہ اڑا تھا پاکستان کے شہر پشاور سے۔ پھر کیا تھا؟ پوری دنیا کو پتہ چل گیا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایسے اڈے جہاں سے روس کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ اس واقعے پر سوویت یونین نے پاکستان سے بڑا احتجاج کیا اور پھر جب موقع ملا، پاکستان کو بڑا نقصان پہنچایا۔ دونوں ملکوں کا ٹکراؤ ہوا ‏19،20 سال بعد، جب دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے افغانستان میں!

معروف صحافی فیض اللہ خان اس بارے میں بتاتے ہیں:

یہ پہلا مرحلہ تھا جب ہمارا امریکا کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہوا۔ اس سے پہلے بھی تعلقات تھے، کم ترین سطح پر تھے لیکن ایوب خان کے دور میں جب بڈبیر کا اڈا ہم نے امریکیوں کو دینے کا فیصلہ کیا تو وہاں سے ہمارے تعلقات میں ایک جہت پیدا ہوئی۔ اور اس وقت، اگر ماضی کو دیکھیں تو اس وقت امریکا برطانیہ کے ذریعے سوویت یونین کو کسی طرح سے روکنا تھا کیونکہ مشرقی یورپ میں سوویت یونین کا اثر و رسوخ تھا وہاں پر کمیونسٹ ریاستیں بن چکی تھیں۔ تو اس کو یہاں روکنے کے لیے ایوب خان کا دور بہتر تھا۔

ایوب خان سے ضیاء الحق کے دور تک، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ ‏1979 میں دو ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جنہوں نے دنیا ہی بدل دی اور سب سے زیادہ بدلا پاکستان کو۔ پہلا واقعہ تھا افغانستان میں روس کا قدم رکھنا جس کے بارے میں فیض اللہ نے بتایا:

ستر کی دھائی کے آخر میں جب سوویت یونین افغانستان آیا تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے مذہبی طبقے اور یہاں کے حکم رانوں کے درمیان ایک نئے رومینس کا آغاز ہوا، یعنی ان کے تعلقات میں اضافہ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قبضہ کر چکے تھے۔ اس سے پہلے پی این اے کی تحریک چلی تھی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اور اس تحریک کے نتیجے میں وہ اقتدار سے معزول ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق نے قبضہ کیا اور پھر انہیں پھانسی بھی ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق نے جب اقتدار سنبھالا تو اس کے ساتھ ہی سوویت یونین افغانستان میں آ چکا تھا یہ وہ مرحلہ تھا جب پاکستان کو ضرورت تھی ان مذہبی تنظیموں کی جو افغانستان میں جا کر جنگ لڑ سکیں۔ جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے اور امریکیوں کا اس میں مفاد یہ تھا کہ کسی طرح سے سوویت یونین کو وہاں انگیج کیا جائے، روکا جائے۔ اچھا اس میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ سوویت یونین کا وہاں پر آنا ایک الگ سے موضوع ہے کہ اس کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ روس سے نکل کر وہاں پر آئے اور اپنی افواج تعینات کرے، گو کہ وہاں کے جو افغان حکمران تھے وہ ان کی دعوت پر وہاں آئے تھے لیکن ان حکم رانوں کا بھی نظریاتی تعلق سوویت یونین سے ہی تھا۔

افغان حکومت کی دعوت پر جب سوویت افواج نے افغانستان میں قدم رکھا تو امریکا کو بڑا خطرہ محسوس ہوا۔ اس کے جاسوس ادارے CIA نے تاریخ کا سب سے مہنگا ’’آپریشن سائیکلون‘‘ لانچ کیا، جس میں کمیونسٹوں کے خلاف جہادی گروہوں کی تربیت کی گئی۔ ایک گنگا بہنے لگی، جس میں خوب ہاتھ دھوئے گئے۔ امریکی ڈالرز کے بدلے میں پاک افغان سرحدی علاقوں میں جہادی بنانے کی فیکٹریاں لگ گئیں۔

پاکستان کے مشہور مذہبی و سیاسی رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ امریکا کے کہنے پر پاکستان نے اپنے تعلیمی نصاب میں جہادی مواد ڈالا تھا۔ یعنی امریکی منشا پر ہی جہادی آیات کو نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ کیسی عجیب بات ہے نا، بلکہ میں تو کہوں گا کہ کیا بے بسی ہے؟ امریکا کے کہنے پر ایک صدر نے نصاب میں جہادی مضامین شامل کیے اور اُسی امریکا کے کہنے پر جنرل پرویز مشرف کے دور انہی مضامین کو نکال بھی دیا گیا۔ خیر، بات بہت آگے نکل گئی۔ ذرا پیچھے اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں: تو 1978 میں افغانستان میں داؤد خان کی حکومت کے خاتمے اور 1979 میں ایران میں انقلاب، دونوں کا اثر براہِ راست پاکستان پر پڑا۔

محقق اور صحافی ضیاء الرحمٰن اس پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

دو بڑی تبدیلیاں جو آئیں تھی 1979 میں، ایک افغانستان میں جو انقلاب ثور آیا تھا روس میں اس وقت کی جو کمیونسٹ حکومت تھی اس کو سپورٹ کرنے کے لیے، اور ایک جو ایران میں شیعہ انقلاب آیا۔ ان دونوں واقعات کے بڑے اثر پڑے پاکستان کی سیاست پر، خاص کر شدت پسند سیاست پر۔ اس وقت ویسٹ میں ایک خوف پھیلا عرب ممالک اور خاص کر پاکستان میں کہ روس اپنا influence پاکستان میں بڑھائے گا۔ تو اس وقت ہم نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا فنڈ بنا سوویت فورسز کے خلاف اور پاکستان نے اس کے اندر ایک بڑا رول پلے کیا کیونکہ ہم ہی پڑوس میں تھے، اس وقت بہت پیسہ آیا۔ امریکا سے اور ویسٹ اور سعودی عرب سے بہت پیسہ آیا۔ اور ہم نے اس وقت یہاں سے جہادی بھیجے اس وقت کی روسی فورسز کے خلاف اور یہ جنگ کافی سالوں تک جاری رہی اور بعد میں یہ جنگ روس کے انخلا کے بعد ختم تو ہوگی جسے ہم اپنی بہت بڑی فتح سمجھتے ہیں۔ مگر اس کے بعد یہ ہوا کہ روس سے نکلنے والے مجاہدین تھے انھوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا اور درجنوں گروپ بن گے مجاہدین کے ان میں پاکستان نے کچھ گروپوں کو اسپورٹ کیا جسے ہم ’’پشاور سیون‘‘ کہتے ہیں اور ایران نے کچھ گروپوں کو اسپورٹ کرنا شروع کیا جس کو ہم ’’تہران ایٹ‘‘ کہتے ہیں۔ تو پاکستان نے بھی اپنے حمایت یافتہ گروپ رکھے ان کی پراپر ٹریننگ کی ان کی فنڈنگ کی پشاور تب ہیڈ کوارٹر ہوتا تھا۔ اسی طرح تہران بھی اپنے مسلک کی بنیاد پر کافی گروپس کو اسپورٹ کرتا رہا۔ اور یہ بڑا وائیلنس رہا اس کے اندر بھی چونکہ ہم involve تھے تو پاکستانی سوسائیٹی کے اس پر بڑے impact پڑے۔

فیض اللہ نے اس بارے میں یہ بتایا:

رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں ایران کو کہا جاتا تھا کہ وہ اس ریجن میں امریکا کا ’’پولیس مین‘‘ ہے۔ لیکن انقلاب آنے کے بعد صورتحال تبدیل ہوگی اور پھر اس کے نتیجے میں یہاں پر ہماری خلیج کی ریاستیں ہیں، کئی گلف کے ممالک ہیں ان کو بھی بہت زیادہ خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ اب یہ تبدیلیاں ایک ساتھ ہوئیں سوویت یونین کا افغانستان میں آنا اور اسی عرصے میں ایران میں انقلاب آنا اور پاکستان میں ایسے حکمران کا آنا جو کسی حد تک اپنے آپ کو ’’اسلام پسند‘‘ ظاہر کرتے تھے۔ تو یہ نیکسز اس طرح بنا کہ پاکستان کو ضرورت پڑی کے اس جنگ میں امریکا نے امداد کی اس وقت جوہری بم بھی بنایا، ہم نے اپنی اسلحہ سازی کو بھی مضبوط کیا، ہمارے پاس کافی پیسے بھی آئے ڈالر بھی آئے۔ اس کے بدلے میں ہم نے یہ کیا کہ پشاور کو ہم نے عالمی جہادی مرکز بنا دیا یعنی اس میں صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں تھا، دنیا بھر سے اسلامی ممالک کے نوجوان آتے تھے اور پشاور ایک بڑا مرکز بن گیا تھا۔ اور یہ معاملہ صرف پشاور تک محدود نہیں تھا اس طرح کا ایک مرکز لندن میں بھی تھا، یعنی یورپ میں بھی یہ کام ہوتا تھا اور عرب ممالک میں تو ہو ہی رہا تھا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں یہ کام ہوا تو یہاں پر یہ تنظیمیں بنتی چلی گئیں اور اس وقت عرب نوجوان بھی آئے اور وہ لڑتے رہے۔ اور پھر اسی دوران پاکستان میں بھی یہ تنظیمیں قائم ہوئیں۔ ان تنظیموں میں جماعت اسلامی کی البدر تھی جو افغانستان میں خوست کے قریب عسکری کیمپ تھا اور یہ ٹریننگ دیتے تھے اور یہ لوگ سوویت یونین کے خلاف لڑتے تھے، حزب اسلامی کے ساتھ مل کر گلبدین حکمت یار کے ساتھ۔ اس کے ساتھ ساتھ جو تنظیمیں تھیں وہ دیوبندی مکتب فکر کی تھیں جن میں حرکت مجاہدین تھی حرکت جہاد اسلامی تھی پھر جو بعد میں جیش محمد بن گئی۔ اسی طرح سے اہل حدیث مکتب فکر کی لشکر طیبہ تھی۔ ان میں سے کئی تنظیموں پر پابندی بھی لگ گئی۔ یہ کالعدم تنظیمیں افغانستان کے ساتھ کشمیر میں بھی متحرک رہیں۔

انقلابِ ایران میں بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔ کچھ قوتیں کہہ رہی تھیں کہ یہ تو جذباتی انقلاب ہے، چار دنوں میں ختم ہو جائے گا، باقی کہہ رہے تھے یہ ایک فرقے اور مسلک کا انقلاب ہے، جو اسی مسلک تک محدود رہے گا۔ لیکن مسائل نے تب جنم لیا جب اس انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی یا یوں کہہ لیں امپورٹ کرنے کوشش۔ تو ایران کے انقلاب نے پاکستانی سیاست پر بہت گہرا اثر ڈالا اور یہیں ایسی تنظیمیں قائم ہوئیں۔

فیض اللہ اس بارے میں بتاتے ہیں:

علامہ عارف حسینی نے جب پارا چنار میں تحریک جعفریہ بنائی اور وہاں سے جب تحریک نے کام شروع کیا اور 80 کی دہائی میں پنڈی سیکریٹیریٹ کا گھیراؤ ہوا تھا زکوٰۃ کے تنازع پر اس کے بعد اہل تشیع وہاں دھرنہ دے کر بیٹھے تھے اور یہ ایک لمبا معاملہ چلا تھا۔ اس طرح دھرنا دے کر اسٹیٹ کے سامنے کھڑا ہونا اس کی مثال پہلے نہیں تھی کیونکہ وہاں تب بہت پر تشدد معاملات ہوئے تھے اور اس کے بعد سٹیٹ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ خطرے کی گھنٹی تھی گلف کے لیے بھی کیونکہ دو مسائل تھے وہاں پر بادشاہت قائم تھی اس کے لیے مسائل ہو سکتے تھے۔ اگر لوگ وہاں اٹھ کھڑے ہوتے اور دوسرا جو فرقہ وارانہ اختلاف تھا، وہ بھی بہت زیادہ تھا تو ان دونوں کے استعمال کرنے کے بعد پھر یہ ہوا کہ پاکستان میں سپاہِ صحابہ بنی۔ یہ 80 کی دہائی کے وسط کی ہم بات کر رہے ہیں کہ جب جھنگ سے مولانا حق نواز جھنگوی نے سپاہِ صحابہ کی بنیاد رکھی۔

سپاہ صحابہ کے حوالے سے الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کا قیام سعودی فنڈنگ سے ہوا اور اس میں حکومتِ وقت کی آشیرباد بھی شامل تھی۔ کیوں؟ کیونکہ انقلابِ ایران کے اثرات سے روکنے میں سعودی عرب کی بڑی دلچسپی تھی، جس کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا اور ایسی تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی جو اہلِ تشیع میں پیدا ہونے والی تحریک کو روکیں۔ فیض اللہ خان اس بارے میں بتاتے ہیں:

سپاہِ صحابہ کے بطن سے ہی لشکر جھنگوی کا دھڑا نکلا۔ اس نے پاکستان میں اہلِ تشیع کو قتل کیا۔ ان کی مجالس پر حملے کیے اور اس کے ساتھ ساتھ اہل تشیع نے سپاہِ محمد کے نام سے ایک تنظیم بنا لی۔ اس نے جوابی طور پر سپاہِ صحابہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا۔ اسی کی دہائی میں جب پاکستان افغان جہاد میں ملوث ہوا تو یہاں کی دیوبند مکتب فکر کی تنظیموں کو سعودی عرب کی جانب سے بہت زیادہ امداد ملی۔ اس عرصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں جو مدارس بنے، علما کے پاس بڑی بڑی لگژری گاڑیاں آنے لگیں، ان کے مدارس وسع پیمانے پر پھیلتے چلے گئے، کئی کئی شاخیں بنتی چلی گی۔

علامہ عارف حسینی کو 1988 میں افغانستان سے ملحق قبائلی علاقے پارہ چنار میں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے اور ڈیڑھ سال بعد 1990 میں سپاہِ صحابہ کے رہ نما مولانا حق نواز جھنگوی ایک بم حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ اس قتل کا بدلہ لاہور میں تعینات ایرانی قونصل جنرل صادق گنجی کو قتل کر کے لیا جاتا ہے اور ذمہ داری عائد ہوتی ہے سپاہِ صحابہ کے رکن ریاض بسرا پر۔ شیعہ سُنی کی اس مارا ماری میں پھر نمبر آتا ہے سپاہِ صحابہ کے مولانا ایثار الحق قاسمی، مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی اور بالآخر مولانا اعظم طارق کا۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور اسی دوران کچھ نئی تنظیمیں جنم لیتی ہیں: مثلاً لشکر جھنگوی جس کے تانے بانے بالآخر القاعدہ تک جاتے ہیں۔

فیض اللہ اس بارے میں یہ بتاتے ہیں:

لشکر جھنگوی ایک ایسی تنظیم تھی جس کا کراچی سے لے کر گلگت تک ایک اچھا نیٹ ورک موجود تھا۔ چونکہ سپاہ صحابہ سے عسکریت کی طرف جو لوگ جاتے تھے ان کی پہلی منزل لشکر جھنگوی ہوتی تھی۔ تو لشکر جھنگوی کو القاعدہ نے بھی استعمال کیا وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بھی رہی وہ لاجسٹک بھی دیتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس وسائل بھی ہوتے تھے۔ یہاں تک کے ان کے پاس حملہ آور بھی موجود ہوتے تھے۔ لشکر جھنگوی کے کئی گروپس ہوتے تھے۔ مرکزی گروپ تو ایک وقت میں ریاض بسرا اور اکرم لاہوری کے تھے۔ ریاض بسرا پر تو امریکا نے حملہ کیا تو کابل میں مارا گیا، اکرم لاہوری یہاں سے گرفتار ہو گیا تھا۔ اسی طرح سے ایک کریکٹر پیدا ہوا، اس کے پلاٹ پر ڈینیل پرل کا قتل ہوتا ہے۔ اس میں بھی لشکر جھنگوی نے مدد فراہم کی تھی۔

افغانستان سے روسی فوجیں نکل جانے کے بعد ریاست نے عارضی طور پر ان جہادی تنظیموں کا رخ کشمیر کی طرف کیا تھا۔ فیض اللہ نے اس بارے میں بتایا:

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت کراچی سے لے کر اسلام آباد تک جیش محمد، لشکر طیبہ، البدر اور حزب المجاہدین، ان تمام تنظیموں کے دفاتر موجود ہوتے تھے اور اچھے پوش علاقوں میں ہوتے تھے۔ بنیادی طور پر کانسیپٹ یہ تھا کہ روس میں جو لڑے اس کے بعد ہماری اسٹیٹ نے فیصلہ کیا ان لوگوں کا رخ کشمیر کی جانب کیا جائے تاکہ وہاں ہندوستان کو انگیج کیا جائے اور آزادی کی جو ایک تحریک وہاں چل رہی تھی اس کو مدد فراہم کی جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو مقامی تنظیمیں تھیں ان میں حزب المجاہدین تھی، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تھی اور اس کے علاوہ کچھ اور تنظیمیں تھیں۔ یہ مقامی تنظیمیں تھیں۔ لیکن ہوا یہ کہ جب بتدریج پاکستانی تنظیموں کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا تو حزب المجاہدین کے علاوہ جو باقی تنظیمیں تھیں، پیچھے ہٹتی چلی گئیں۔ کیونکہ اس میں سے کچھ تنظیمیں خود مختار کشمیر کی بات کرتی تھیں اور پاکستانی نکتہ نگاہ سے اس کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں جو تنظیمیں سرگرم رہیں، ان میں حرکت المجاہدین تھی حرکت جہاد اسلامی تھی البدر مجاہدین تھی لشکر طیبہ تھی۔ یہ وہ تنظیمیں تھیں جن کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ایک جمعیت المجاہدین تھی جس کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے تھا، گو کہ ان تنظیموں میں کشمیری لوگ بھی شامل تھے۔ لیکن ان کا اوریجن پاکستان اور افغانستان کی زمینوں سے تھا۔ نوے کی دہائی میں جب بہت سے لوگ وہاں جانا شروع ہوئے، تو لوگوں کے لیے یہ بات کافی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اس وقت جو پاکستانی مقبوضہ کشمیر جاتے تھے ان کو افغانی کہا جاتا تھا۔ یعنی ان کو افغانی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور ان میں سے کئی ایسے کردار تھے جو بعد میں بہت معروف ہوئے جس میں شمس الحق، اکبر افغانی پھر اسی طرح سے لشکر طیبہ نے جب پہلی بار خود کش حملہ کیا تھا، میرے خیال میں 1996 میں کیا تھا، سرینگر میں اور اس حملہ کو سر انجام دینے والی کارروائی کا جو نام تھا وہ ابو طلحہ ہزاروی تھا۔ ابو طلحہ ہزاروی کا تعلق ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں سے تھا اور میری ان کے ساتھ کراچی میں ملاقاتیں رہیں تھی۔ یہ وہ ہی آدمی تھے جس نے سری نگر پر جا کر حملہ کیا تھا۔ یہ اس وقت کا پہلا فدائی حملہ کہا جاتا ہے اور اس کے بعد لشکر طیبہ نے یہ سلسلہ شروع کیا اور پھر اس کے بعد کئی کارروائیاں کی گئیں۔

تب دسمبر 1999 میں ایک واقعہ پیش آتا ہے۔ نیپال کے دارالحکومت کاٹھمنڈو سے نئی دلّی جانے والی انڈین ایئر لائنز کی پرواز ہائی جیک ہو جاتی ہے۔ ہائی جیکرز اس پرواز کو قندھار لے جاتے ہیں، وہ شہر جو طالبان کا سب سے بڑا گڑھ تھا۔ جہاز کے 191 مسافروں کی رہائی کے لیے انڈیا سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ تین قیدیوں کو رہا کرے: عمر شیخ، مشتاق احمد زرگر اور مسعود اظہر۔ سات دن کے بعد بالآخر یہ قیدی رہا کر دیے جاتے ہیں۔

مولانا مسعود اظہر کی ’’حرکت الانصار‘‘ کو امریکا دہشت گرد اور کالعدم تنظیم قرار دیتا ہے، جو پھر بناتے ہیں جیشِ محمد۔ اس پر آج بھی کئی حملوں کے الزامات ہیں، جو زیادہ تر بھارت کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے 2019 میں جب پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بالاکوٹ پر بم پھینکے تو دعویٰ یہی کیا کہ اس نے جیش محمد کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

یہاں ایک اور واقعے کا ذکر کروں گا، جس سے شاید نئی جنریشن واقف نہ ہو۔ اس واقعے کے بعد بہت سی پکچرز کلئیر ہوں گی۔

‏1995 میں ’’آپریشن خلافت‘‘ کی خطرناک منصوبہ بندی ہوتی ہے اس منصوبے کا مقصد نظام خلافت کا نفاذ تھا۔ چند آرمی افسران، جن میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور بریگیڈیئر مستنصر باللہ سمیت 38 فوجی افسران شامل تھے، نے منصوبہ بنایا کہ وہ 30 ستمبر کو راولپنڈی میں ہونے والی کور کمانڈرز میٹنگ پر حملہ کریں گے اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور کابینہ کے ارکان سمیت آرمی چیف جنرل عبد الوحید کاکڑ اور اہم فوجی افسران کو قتل کر کے میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو امیر المومنین بنائیں گے اور اس طرح خلافت کے نظام کو نافذ کیا جائے گا۔ یہ سازش اس وقت بے نقاب ہوئی جب یہ سازش تیار کرنے والے اہم رکن قاری سیف اللہ اختر کو گرفتار کر لیا گیا، جو حرکت الجہاد الاسلامی کے سربراہ تھے۔ وہ سارا راز اگل دیتے ہیں اور وعدہ معاف گواہ بن کر اپنی جان تو چھڑوا لیتے ہیں۔ اتنی بڑی سازش بے نقاب ہونے کے بعد فوجی افسران کو چند سالوں کی سزائیں ملتی ہیں اور پھر وہ بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔

یہاں ایک اور دلچسپ بات بتانا چاہوں گا، قاری سیف اللہ اختر کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر اکتوبر 2007 میں کراچی میں ہونے والے حملے کے الزام میں بھی گرفتار کیا جاتا ہے مگر جرم ثابت نہ ہونے پر انہیں چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔ قاری سیف اس واقعے کے بعد افغانستان چلے جاتے ہیں اور پھر وہاں ڈرون حملہ میں مارے جاتے ہیں۔

یہاں میرا آپ سے ایک سوال ہے، اس جواب کمینٹس میں ضرور دیجیے گا کہ کیا خلافت کے نفاذ کے لیے کی جانی والی سازش میں فوجی افسران سزا کے حق دار تھے یا نہیں؟

خیر، حرکت المجاہدین کے ساتھ یہ رومینس یہیں ختم نہیں ہوتا، یہ اپنی پیک پر جاتا ہے۔ فیض اللہ اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں:

حرکت الجہاد السلامی وہ تنظیم تھی جس کے الیاس کشمیری سربراہ رہے اور ان کی سربراہی میں یہ جماعت القاعدہ کے ساتھ ضم ہو گئی۔ الیاس کشمیری کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ الیاس کشمیری کا بنیادی تعلق کشمیر سے تھا اور الیاس کشمیری کی تنظیم نے مقبوضہ کشمیر میں جا کر انڈین آرمی کے خلاف بڑی کارروائیاں کی تھیں اور ایک کارروائی تو ایسی بھی تھی جس میں وہ انڈین فوجیوں کے سر کاٹ کر لے آئے تھے اور پرویز مشرف صاحب نے باقاعدہ انعام بھی دیا تھا اور پھر یہ ہی تنظیم تھی جس نے پرویز مشرف پر ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس کے لیے لوگ اور وسائل بھی فراہم کیے پاکستان میں سیکورٹی فورسز پر ہونے والے کئی حملوں کی منصوبہ بندی میں الیاس کشمیری اور ان کا گروپ شامل تھا۔

آہ! کیا کیا نہیں ہوا اس ملک میں؟ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے، لیکن ٹرننگ پوائنٹ کے بعد۔ جی ہاں! نائن الیون۔ اور پہلی بار ان تنظیموں پر پابندیوں کا آغاز ہوا۔

القاعدہ کا قیام 1988 میں عمل میں آیا تھا، آپ سن کر حیران ہوں گے کہ تب ڈاکٹر عبداللہ عزام، ایمن الظواہری اور اسامہ بن لادن پشاور آتے رہتے تھے۔ یہ شہر القاعدہ کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، جس کی پالیسی تھی کہ پاکستان میں موجود گروپوں کی معاونت کر کے انہیں نا صرف فعال بلکہ مضبوط بھی کیا جائے۔ فیض اللہ اس بارے میں بتاتے ہیں:

آپ کو اندازہ ہے کہ نائن الیون کا جو حملہ ہوا تھا، اس کے لیے سب سے پہلا بنیادی خیال کب پیش کیا گیا؟ یہ پیش کیا گیا تھا 1992 میں کہ جہازوں کے ذریعے امریکا پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کو پیش کرنے والا ایک مصری پائلٹ تھا جو کہ یورپ میں مقیم تھا اور وہاں پروازوں کو لے کر آنے جانے میں کام کرتا تھا۔ وہ پائلٹ پشاور آتا ہے اور القاعدہ کی لیڈر شپ جیسے اسامہ بن لادن انہیں خیال پیش کرتا ہے کہ میں پائلٹ ہوں مجھے اگر جہاز دیا جائے تو میں وہاں جا کر حملے کر سکتا ہوں۔ تو یہ بنیادی خیال 1992 سے موجود تھا اور اس وقت خالد شیخ محمد نے اس وقت اپنے طور پر کارروائی کرنے کی کوشش کی۔ فائنل یہ 2001 میں جا کر یہ سامنے آیا۔ جہادی تنظیموں میں یہ بات بہت دیر سے پہلے تھی کہ انھوں نے امریکا کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ اب یہ تمام لوگ آنکھیں بند کیے ہوئے تھے یا یہ بھی چاہتے تھے کہ ایسا ہو جائے یا پھر ان کی لاعلمی تھی یہ بالکل الگ موضوع ہے۔ اب جب یہ اعلان ہو گیا تو پھر جتنی جہادی تنظیمیں تھیں، ان کے تربیت یافتہ لوگوں پر مشتمل ایک حصہ ٹوٹ کر ان کے پاس گیا۔

یہی گروپ روس کے خلاف کامیابی اور افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد over confident ہو جاتے ہیں۔ اتنے کہ سمجھتے ہیں وہ افغانستان کے پاکستان پر بھی قبضہ کر لیں گے۔ یوں وہ پاکستانی ریاست اور سوسائٹی پر ہی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا نعرہ لگا کر وہ خون ریزی، بم دھماکے اور فسادات کیے گئے کہ جس کی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔

محقق اور مصنف شمس الدین شگری اس بارے میں بتاتے ہیں:

ملک کے اندر اسلامی سسٹم لانے کے لیے جو شدت پسندی یہ جو پچھلے چند عشروں سے جو دہشت گردی بم دھماکے اسکول پر مسجدوں میں یہاں تک کے مسجدوں میں اور امام بارگاہوں پر مارکٹس میں جو حملے ہیں، اس کی بنیاد یہ دوسری والی ہے۔ اس کے اندر یہ شیعہ سنی یا سنی شیعہ کا اختلاف نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ اسلامی نظام نہیں ہے، یہ طاغوت کا نظام ہے، ہم اس کو ختم کریں گے۔ اس کے لیے ہم جہاد کر رہے ہیں یہ دوسری ہے جہاں تک کے پہلی بات شدت پسندی کو ہم مسلک کی بنیاد پر بات کریں تو پاکستان بننے سے پہلے وہ شدت بات کرنے میں تو تھی مگر مار دھاڑ کی چیز نہیں تھی۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی مناظرے ہوتے تھے ہر فرقہ کا عالم اسٹیج لگا کر بیٹھا ہوتا تھا ایک طرف اس عالم کے حمایتی لوگ بیٹھے ہوتے تھے اور دوسری طرف دوسرے لوگ صرف نعرے بازی ہوتی تھی ہلا گلا ہوتا تھا مگر مار کٹائی نہیں تھی، قتل نہیں تھا۔

ضیاء الرحمٰن اس بارے میں مزید تفصیل یوں بیان کرتے ہیں:

نائن الیون ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا اور بہت پریشر آیا جو اس وقت کی فوجی حکومت تھی پرویز مشرف کی شکل میں، اس وقت یہ پریشر آیا کہ آپ ان کے ساتھ ہو یا ہمارے ساتھ اس وقت ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی ریاستی پالیسیاں جہادی گروپس کے حوالے سے بہت تبدیل ہوئیں۔ اس وقت تنظیموں پر پابندیاں لگنی شروع ہوئیں۔ ان میں سر فہرست لشکر جھنگوی اور سپاہِ محمد شامل تھیں۔ اس کے بعد کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیمیں جیشِ محمد تھی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت پرویز مشرف پر کافی حملہ ہوئے جس کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی کیونکہ اس دور میں پاکستان باقاعدہ امریکا کی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں شامل ہوگی تھی۔ ان واقعات کے بعد ہماری جہادی لینڈ اسکیپ پر بہت برا اثر پڑا۔ لال مسجد کے واقعات تک ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف جہادی گروپس پاکستان کے مختلف علاقوں میں آپریٹ ہوتے تھے۔ سوات کے اندر فضل اللہ کا گروپ کام کر رہا تھا اور باجوڑ میں مولانا فقیر محمد کا گروپ تھا، ان ہی دنوں میں وزیرستان کے علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔

ملک میں آج بھی درجنوں تنظیمیں کالعدم ہیں۔ کچھ پر پابندی بہت پہلے لگ جانی چاہیے تھی اور کچھ ایسی ہیں جن پر پابندی دل پر پتھر رکھ لگائی گئی۔ دنیا بھر میں ایسی تنظیمیں بنتی ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی تنظیمیں بنانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اصل میں ریاستیں اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے جب کھل کر سامنے نہیں آنا چاہتیں تو ایسی تنظیموں کا استعمال کرتی ہیں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی تنظیم اپنی ہی ریاست کے خلاف ہو جائے؟ یہ نرالا کام صرف ریاستِ پاکستان نے ہی کیا ہے۔

یہ معاملہ صرف مذہبی تنظیموں تک ہی محدود نہیں، اُن کے ساتھ تو love-hate relationship چلتا ہی رہتا ہے۔ کچھ کو ’’good‘‘ اور کچھ کو ’’bad‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسی کئی تنظیمیں بھی ہیں جو مارکسسٹ ہیں، لیننسٹ ہیں، انقلاب کے نعرے لگاتی ہیں اور قتلِ عام کرتی ہیں، معصوم لوگوں کا خون بہاتی ہیں اور خود کو مظلوم کہتی ہیں۔

آخر یہ سب کب تک چلتا رہے گا؟ کیا یہ ہماری ریاست کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے؟ یا پھر ہمیں پڑوس ہی غلط مل گیا ہے؟ یا پھر بات اصل میں کچھ اور ہے!

شیئر

جواب لکھیں