پاکستان میں ہر کچھ سال بعد ایک ’’گیم چینجر‘‘ آتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے یہ گیم چینجر سی-پیک تھا، آج کل ایس آئی ایف سی کو اس گیم چینجر کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں گیم چینج ہو نہیں رہا۔ البتہ ایک سیکٹر ایسا ہے کہ جس کے بارے میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس طرف توجہ دی جائے تو گیم واقعی چینج ہو سکتا ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے یا واقعی ایسا ممکن ہے؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نے بات کی اطہر عمران نواز صاحب سے، جو ٹیکنالوجی کے امور میں ماہر ہیں اور نجی ادارے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بھی ہیں۔

رفتار کی اس پوڈکاسٹ میں اطہر عمران نے کاروباری دنیا بالخصوص آئی ٹی کے شعبے سے متعلق اپنے تجربے کی روشنی میں پاکستان کی ٹیک انڈسٹری کی موجودہ صورتحال اور اس کی ترقی کے امکانات کا جائزہ لیا۔ گفتگو کے دوران انھوں نے پاکستان میں پنپنے والے فری لانسنگ اور اسٹارٹ اپ کلچر جیسے اہم موضوعات پر دلچسپ گفتگو کی۔ اس کے علاوہ موجودہ دور کے اہم ترین موضوع ’’مصنوعی ذہانت‘‘ یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور اس کے آئی ٹی انڈسٹری پر اثرات پر بھی بات ہوئی۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اطہر عمران نے کہا کہ پاکستان کی کثیر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ڈیجیٹائزیشن نے ان نوجوانوں کے لیے بے شمار مواقع پیدا کیے ہیں، لہٰذا وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں، انھیں ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ ڈگری بمقابلہ ہنر سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوانوں اور آئی ٹی شعبے کے لیے درکار مہارتوں کے درمیان موجود خلا پر تفصیل سے روشنی ڈالی نیز اس خلا کو پُر کرنے کی تجاویز بھی پیش کیں۔

اطہر عمران نے زور دیا کہ پاکستان میں خدمات یعنی سروسز کی فراہمی سے آگے بڑھ کر مصنوعات کی تیاری پر کام ہونا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے حکومتی سطح پر شعبے کے لیے درست سمت متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں کے درمیان جدت طرازی میں تعاون کے ثمرات پر بھی روشنی ڈالی۔ اطہر عمران پُر امید ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اور اس ضمن میں آئی ٹی سیکٹر بہت کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹائزیشن کے اہم موضوع پر مزید تفصیلات اور سیر حاصل گفتگو کے لیے مکمل پوڈکاسٹ ملاحظہ فرمائیے۔

شیئر

جواب لکھیں