مسجد اللہ کا گھر ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں بادشاہ فقیر ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یعنی امیر غریب سب برابر ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان سب کی امامت کرنے والا ہمارا مولوی کیا وہ ہمارے معاشرے کے کسی عام فرد کے برابر ہے؟

ستر کی دہائی میں کراچی کی مساجد میں زیادہ تر امام مسجد، قاری اور مؤذن مقامی ہوا کرتے تھے۔ پھر بنگالی ائمہ بھی بڑی تعداد میں ہوتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ کراچی کے امام اور مؤذن ایک ہی علاقے سے آنے لگے، جنوبی پنجاب سے۔

مفتی آصف سعید اس بارے میں بتاتے ہیں:

کراچی ایک بڑا شہر ہے اور ظاہری بات ہے یہاں ہر کوئی رزق کی تلاش میں آتا ہے اسی طرح ائمہ اکرام وہ زیادہ تر ملتان ، بہاولپور، بہاولنگر ، لییہ، ڈیرہ غازی خان، یہاں سے زیادہ تر افراد کراچی میں آتے ہیں شعبہ امامت کے لیے۔ بلدیہ ٹاؤن میں زیادہ تر ان کی تعداد مل جائے گی۔ اسی طرح کورنگی، لانڈھی اورنگی ٹاؤن میں اور زیادہ تر مضافاتی علاقوں میں ان کی تعداد مل جائے گی۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں نئی مساجد آباد ہو رہی ہوتی ہیں، یہ ان کو بھی آباد کر لیتے ہیں۔ کراچی شہر جس طرح مختلف مسائل کا شکار رہا ہے، اسی طرح کراچی اس مسئلے کا بھی شکار رہا کہ کراچی شہر ائمہ تیار نہیں کر پایا۔

قاری عبد الغفار اویسی خود بھی 1983 میں ملتان سے کراچی کے علاقے لیاری آئے تھے۔ امامت کے فرائض سر انجام دیتے دیتے، آج وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں۔ کہتے ہیں ساری زندگی معمولی معاوضے پر گزاری، جس کی وجہ سے آج وہ کئی مسائل کے شکار ہیں۔

امام مسجد زیادہ تر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ کسی نے کبھی ہمدردی کے طور پر اس کی مدد کر دی تو کر دی۔ بالکل یہ بھی کہہ سکتے ہیں وہ مانگ کر، لوگوں سے اپنے دکھ بیان کر کے مانگتا بھی ہے۔ اچھا! لوگ طنز بہت کرتے ہیں کہ ان کو کیا ہے؟ یہ تو ٹھاٹ باٹ میں ہیں، پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ لیکن آپ کو اگر یہ اچھا لگ رہا ہے کہ پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں تو یہ کام ذرا تم خود کر لو۔ ذرا اٹھاؤ نا ہاتھ میں کشکول، ذرا تم بھی تو مانگ کر دیکھو۔ میں نے پچیس سال میں نے ایک مسجد میں گزارے، وہاں میں بارہ سو روپے وظیفے پر لگا اور پچیس سال کے عرصے میں میری وہاں تنخواہ ساڑھے سات ہزار روپے ہوئی۔ جہاں مساجد کے اچھے وسائل ہیں وہاں اس وقت سترہ سے اٹھارہ ہزار روپے دے دیتے ہیں۔

قاری اشرف بھی ایک عرصے سے کراچی کے علاقے صدر میں امام مسجد ہیں۔ اور ان کی تنخواہ، یا وظیفہ کہہ لیں، صرف بیس ہزار روپے ہے۔

بظاہر تو ایسا لگتا ہے ہم بہت خوشحال ہیں لیکن اندر کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ میرا ماہانہ وظیفہ 20 ہزار روپے ہے۔ میرے گھر کا کرایہ 8 ہزار روپے ہے۔ کرایہ، بجلی اور گیس کا بل ملا کر تقریباً 12 ہزار بن جاتے ہیں۔ بچوں کی فیس 3 ہزار روپے اسکول جاتی ہے۔ جو وظیفہ ہوتا ہے، اس میں سے گھر میں راشن ڈالنے کے لیے بھی پیسے نہیں بچتے۔ میرا بیٹا ہے، جس کی عمر 13سال ہے، بیٹی کی عمر 6 سال ہے، وہ مجھے کہتے ہیں کہ ابو! ہمیں آج باہر لے کر جائیں، کچھ کھلائیں، آئس کریم، چکن رول یا زنگر برگر وغیرہ کھلائیں۔ اتنے بھی پیسے نہیں ہوتے کہ ہم اپنے بچوں کی خواہشات پوری کر سکیں۔

جن ائمہ حضرات کی اولاد ان چھوٹی موٹی خواہشات سے آگے بڑھ گئی ہے، ان کے مسائل اور بھی بڑے ہیں۔ قاری عبد الغفار اویسی اس بابت کہتے ہیں:

ہم جب کسی کا نکاح پڑھانے کے لیے جاتے ہیں تو لوگوں کی وہاں ٹھاٹ باٹ دیکھتے ہیں۔ ایک فنکشن ہوتا ہے، اچھا کھانا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے گھر میں بچی بیٹھی ہوئی ہے، اس کے لیے سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ایک بندے نے مجھے خود پیشکش کی تھی کہ یار! امام صاحب کی بچیاں ہیں ان سے پوچھ لو ان کی بچیوں کی شادی کے لیے کیا کیا درکار ہوتا ہے؟ میں نے بیان کر دیا، تو اس نے کہا آپ نے کیا کرنا ہے اس کے لیے؟ بس ایک دیگ بنوا لیں، دو سوٹ بنا کر بچی کو رخصت کر دیں۔ بھائی! یہ تو میں کر لوں گا، لیکن بات یہ ہے کہ معاشرے میں ایک امام کی بیٹی کو کوئی مقام ملنا چاہے کہ نہیں؟

شہرِ کراچی کے علاقے بلدیہ کے ایک مدرسے میں پڑھانے والے قاری ساجد نواز کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے۔ بتاتے ہیں کہ ائمہ کرام تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انہیں اپنے بچوں کے لیے کوئی اچھا رشتہ ملے گا۔

اگر میں یہ سوچ کر بیٹھوں گا نا کہ میں اعلیٰ خاندان میں اپنے بچوں کی شادیاں کروں گا، اعلیٰ خاندان والے مجھے ابھی بھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ ان کی نظر میں، میں ایک مولوی ہوں اور ان کو پتہ ہے کہ مولوی ہے، یہ کیا خدمت کر پائے گا؟ پتہ نہیں گھر چلا پائے گا کہ نہیں چلا پائے گا۔ یہ اخراجات پورے کر پائے گا یا نہیں؟

جب حالات اس نہج پر آ جائیں، اور مرد کسی کے سامنے کچھ کہہ بھی نہ سکتا ہو تو اس کے ذہن پر خطرناک اثرات پڑتے ہیں۔ قاری عبد الغفار کے الفاظ انہی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ صبر اور شکر والی بات ہوتی ہے، پھر وہ مجبوری کے تحت اپنی خواہشات کا گلا دباتے ہیں۔ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی خواہشات کا گلا دباتے ہیں۔ کسی کی اُترن مل جائے گی تو وہ پہن کر گزارہ کر لیں گے۔ پی ٹی وی پر ایک مولوی کے حالات بتائے گئے تھے، بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ ہمارے یہ مسئلے ہیں۔ اس نے کہا کہ بیگم دعا کرو کہ چوہدریوں کا کوئی مر جائے، تو پھر ہمیں وہاں سے کپڑے بھی اچھے آ جائیں گے اور کھانا بھی اچھا آ جائے گا۔ ویسے تو قاری کا قرآن میں اللہ نے بڑا رتبہ رکھا ہے، مگر دنیاوی اعتبار سے ہم اس کو تیسرے طبقے کی مخلوق بھی نہیں سمجھتے۔

مفتی آصف سعید بھی اس خیال سے متفق ہیں۔ کہتے ہیں:

فرسٹریشن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فیملی سے دور رہنے کی وجہ سے، دوسرا ضروریات زندگی کا پورا نہ ہونا، تیسرا یہ کہ ہم ان لوگوں کو الگ تھلگ کر دیتے ہیں۔ امام بیچارا، نمازیوں پر غصہ نہیں نکال سکتا، مقتدیوں کو کچھ نہیں کہہ سکتا تو اسے غصہ نکالنا ہوتا ہے اپنے بیوی بچوں پر۔ جس کی وجہ سے اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی بیویاں بھی پریشان رہتی ہیں۔ یہ سب چیزیں فرسٹریشن کا شکار کرتی ہیں۔ اسی بنیاد پر ائمہ سے پھر غلطیاں بھی سر زد ہوتی ہیں۔

کسی بھی مسجد میں امام اور مؤذن کا انتخاب علاقے کے عوام ہی کرتے ہیں۔ تو کیا وہ اُن سے اتنا غافل رہتے ہیں؟ مفتی آصف سعید جواب دیتے ہیں:

اہلِ علاقہ میں سے جو کمیٹی بنائی جاتی ہے وہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ کس اعتبار سے؟ دینی اعتبار سے۔ اکثر مساجد کا یہی حال ہے کہ وہ نا تو عالم ہوتے ہیں، نا حافظ ہوتے ہیں اور نا ہی قاری اور نا ہی ان کو قرآن پڑھنا آتا ہے۔ وہ مسجد کے ذمہ دار بنے ہوتے ہیں یعنی آپ نے خزانے پر ایک چور کو ذمہ دار بنا دیا ہے، تو وہ خزانے کی خوب حفاظت کرے گا۔ پیسے بچانے کے لیے مسجد کی کمیٹیاں سستا امام ڈھونڈ کر لاتی ہیں۔ کنوارے اماموں کو لے آتی ہیں۔ یا شادی شدہ ائمہ کو لاتی ہیں تو ان کے بیوی بچوں کو رہائش نہیں دیتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

یہ دور ٹیکنالوجی کا ہے، ہر کوئی آگے بڑھ رہا ہے۔ مگر ہماری مسجد کے امام زمانے کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ چکے ہیں۔ قاری اشرف اس بارے میں کہتے ہیں:

گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر، ہم یہیں تک محدود ہیں۔ ہم اتنا دنیا سے پیچھے ہیں تو ہمارے بچے کتنا پیچھے ہوں گے؟ اب اگر میرا کوئی دوست مجھ سے کہتا ہے کہ آپ جہاں موجود ہیں، وہاں کی لوکیشن بھیجیں، تو میں اپنی لوکیشن نہیں بھیج سکتا۔ مجھے موبائل میں کچھ بھی کرنا نہیں آتی ہے۔

آخر یہ سب ہوا کیوں؟ ہمارا دینی طبقہ، جو کسی زمانے میں سب سے پڑھی لکھی کلاس تھی، آخر اتنا پیچھے کیسے رہ گیا؟ کیا اس کی ذمہ داری عام لوگوں پر عائد ہوتی ہے؟ یا اس میں کوئی کردار خود مولویوں کا بھی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں