تحریک انصاف کے ایک اور رہنما علی زیدی کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ علی زیدی کو ڈیفنس کراچی میں پی ٹی آئی سندھ کے دفتر سے گرفتار کیا گیا۔

سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سندھ پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس کچھ افراد پی ٹی آئی کے دفتر میں داخل ہوئے اور علی زیدی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ علی زیدی نے وارنٹ دکھانے کا مطالبہ کیا توماسک  لگائے سادہ لباس والے شخص نے انھیں ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور پولیس کے اہلکار نے انھیں پیچھے سے دھکیلا اور وہ لوگ علی زیدی کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔

ایک اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سادہ لباس والا شخص اور پولیس اہلکار انھیں عمارت سے باہر لے جاتے ہیں۔ سادہ لباس والے شخص نے ان کا ہاتھ مسلسل تھاما ہوا تھا۔ علی زیدی کو ایک فور بائی فور گاڑی میں بٹھا کر لیے جایا گیا۔ فواد چودھری نے یہ ویڈیو ٹوئیٹر پر شیئر کی اور لکھا کہ تحریک انصاف کے صدر علی زیدی کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کیا گیا ہے، ظلم اور جبر کا یہ نظام کسی طور قبول نہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے علی زیدی کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ یہ سب اسی لندن پلان کا حصہ ہے یہ سب اسی لندن پلان کا حصہ ہے جس کے تحت نواز شریف کو تحریک انصاف کو کچلنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے3000 سےزائد کارکنان کو گرفتار، اغواء اور وحشت کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔

علی زیدی کی گرفتاری کے بعد عمران خان کو زمان پارک پر یلغار کا خدشہ

عمران خان نے علی زیدی کی گرفتاری پر ٹوئیٹر پیغامات میں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ پہلے علی امین اور اب علی زیدی کو اٹھا لیا گیا ہے۔ پولیس کے ذریعے مزید غیرقانونی کارروائیوں سمیت 27 رمضان المبارک کے بعد یا عیدالفطر کے موقع پر زمان پارک پر یلغار کےنئےمنصوبے پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ان کا خیال ہے کہ انتخابات کی صورت میں ہمیں کمزور کردیں گے۔

میں دوٹوک الفاظ میں واضح کر دوں کہ یہ ہتھکنڈے ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ ان سب حربوں سے محض عوام کا غصّہ ہی بڑھ رہا ہے اور یہ اس ناپاک لندن منصوبے کا خمیازہ انتخابات میں بھگت لیں گے۔

عمران خان نے دو روز پہلے اپنے سیکیورٹی انچارج افتخار گھمن کی گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے بھی ٹوئیٹ میں مزید پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریوں کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ سابق وزیراعظم نے لکھا تھا کہ جب علی امین کو تحویل میں لیاگیا تو ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈی پی او نےسیشنز جج سےکہا کہ وہ توہین عدالت کا مقدمہ تو گوارا کرلے گا مگر علی امین کو گرفتار کرکے ہی رہے گا کیونکہ احکامات ”اوپر سے“ آئے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ آج میرے سیکورٹی انچارج افتخارگھمن کو اٹھا لیا گیا ہے۔ یہ سب اس لندن پلان کاحصہ ہے جس کے تحت نواز شریف کو یقین دہانی کروائی گئی کہ PTI کو کچل دیا جائےگا۔ چنانچہ اب قانون کی حکمرانی اور آئین کومکمل طور پر پیروں تلےروندتے ہوئے ہمارے قائدین سمیت میرے قریب ترین افراد کو دھمکانے، اغواء کرنے، اذیت وعقوبت کانشانہ بنانےاور ملک بھرمیں ان کے خلاف جھوٹے مقدمے قائم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

Raftar Bharne Do

پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کی گرفتاری کا سلسلہ پچھلے سال اگست ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ پہلے عمران خان کے مشیر شہبازگل اور سینیٹر اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کو بھی پابند سلاسل کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے جیل بھرو تحریک چلائی تو شاہ محمود قریشی اور اسد عمر بھی جیل میں قید رہے۔

 خود عمران خان کی گرفتاری کے لیے بھی حکومت بے قرار دکھائی دیتی ہے۔ چند ہفتے پہلے زمان پارک لاہور میں دو بار آپریشن کیے گئے۔ پہلے عمران خان کی موجودگی میں ان کے گھر پر زبردست شیلنگ کی گئی اور بعد میں جب وہ اسلام آباد کچہری میں پیشی کے لیے گئے ہوئے تھے تو ان کے گھر پر دھاوا بولا گیا۔ پنجاب پولیس گیٹ توڑ کر ان کے گھر میں گھسی اور گھر سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

چیئرمین تحریک انصاف یہ سنگین الزام بھی لگاچکے ہیں کہ حکومت انھیں قتل کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب یہ کوششیں بھی کی جارہی ہیں کہ سیاسی تناؤ کو دور کیا جائے۔ اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی سرگرم ہوچکے ہیں۔ انھوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ثالثی کی ان کوششوں کے نتیجے میں بریک تھرو ممکن ہے۔ تاہم اس کے لیے دونوں فریقوں کو لچک دکھانی ہوگی۔

ایک جانب جہاں مصالحت کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں بتارہی ہیں کہ سیاسی کشیدگی کے خاتمے کی منزل ابھی دور ہے۔ حکومت کسی صورت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کرانے کو تیار نہیں۔ اب پی ٹی آئی پنجاب میں مئی میں الیکشن کے مطالبے سے دستبردار ہوگی یا سیاسی تناؤ میں اضافہ ہوگا۔ اس کا فیصلہ اگلے کچھ دنوں میں ہوجائے گا۔

شیئر

جواب لکھیں