پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا ہے۔ 25 صفحے پر مشتمل تفصیلی اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ازخود نوٹس 3-4 سے مسترد ہوا۔ عدالت کو سیاسی تنازع سے بچنے کے لیے فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی، فل کورٹ کی تشکیل سے عوامی اعتماد قائم رہتا۔

اطہر من اللہ نے تفصیلی نوٹ میں اور بھی کئی باتیں کی ہیں کہ عدالت کو اپنی غیر جانبداری کے لیے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے۔ سیاستداں مناسب فورم کے بجائے عدالت میں تنازعات لاتے ہیں۔ سیاسی مقدمات میں کوئی ایک جماعت تو مقدمہ جیت جاتی ہے لیکن عدالت ہر صورت ہار جاتی ہے۔ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمے داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ کے اس نوٹ پر بھی مختلف تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اسے اپنے اصولی موقف کی فتح قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ پر تنقید کرنے والوں میں ایک بڑا نام بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مرکنڈے کاٹجو کا بھی سامنے آیا ہے۔ جسٹس ریٹائر کاٹجو بھارت اور پاکستان کے قانونی و آئینی معاملات پر رائے دیتے رہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ کے اختلافی نوٹ پر بھی انھوں نے ایک مضمون لکھ کر ان پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کے مضمون کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے۔

Raftar Bharne Do
جسٹس اطہر من اللّٰہ پر جسٹس کاٹجو کی کڑی تنقید 1

جسٹس مرکنڈے کاٹجو کا جسٹس اطہر من اللّٰہ کے اختلافی نوٹ پر مضمون

پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے التوا کے خلاف درخواست کے سلسلے میں اپنے چیف جسٹس پر حملہ کرتے ہوئے 26 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی نوٹ جاری کر کے انتہائی ناشائستگی اور بے ضابطگی کا ارتکاب کیا ہے۔

عدلیہ میں یہ ایک دیرینہ، مستحکم مگر غیر تحریری روایت ہے کہ حاضر سروس ججوں کو صرف اپنے فیصلوں کے ذریعے بات کرنی چاہیے۔ عوامی دائرے میں نہیں جانا چاہیے۔ یہ نوٹ جاری کر کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اس روایت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور اس تحمل کا فقدان ظاہر کیا ہے جس کی توقع اعلیٰ عدالت کے ججوں سے کی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں عدالتی تاریخ کے ایک واقعے کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے ایک جج لارڈ اٹکنز نے Liversidge vs Anderson (1942) A.C.206 میں ایک مشہور اختلافی فیصلہ لکھا۔ بنچ میں شامل ان کے بھائی جج لارڈ موگم نے لارڈ اٹکنز کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ایک پریس نوٹ جاری کیا۔ اس غیر مہذب رویے کے لیے لارڈ موگم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد انھیں انگلینڈ میں مزید کوئی عدالتی ذمے داری نہیں دی گئی۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ سیاسی تنازعات کا فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے، عدلیہ کو ایسے کیس نہیں سننے چاہییں۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ کچھ تنازعات خالصتاً سیاسی نہیں ہوتے بلکہ سیاسی و قانونی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کا فیصلہ عدالت ہی کو کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ بھی ایسی ہی نوعیت کا تھا۔ اس مقدمے میں پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 224(2) کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں۔ پنجاب اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل کر دی گئی تھی، اس لیے انتخابات 18 اپریل تک ہونے چاہیے تھے، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ظاہر ہے کہ کسی دباؤ کے تحت انھیں 8 اکتوبر تک ملتوی کر دیا، جو کہ آرٹیکل 224(2) کی صریح خلاف ورزی ہے۔

کیا عدالت کو آرٹیکل 224(2) کا نفاذ نہیں کرنا چاہیے تھا اور خاموش رہنا چاہیے تھا؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ کی منطق یہ ہے کہ چونکہ یہ سیاسی معاملہ ہے اسے حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن پاکستانی پارلیمنٹ پر حکمران پی ڈی ایم کا غلبہ ہے جو فوری انتخابات نہیں چاہتی، کیونکہ اسے عمران خان کی پی ٹی آئی (جیسا کہ تمام رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے) شکست دے گی۔ لہٰذا عدالت کی مداخلت کے بغیر آرٹیکل 224(2) غیر نافذ ہی رہتا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ کہتے ہیں کہ ایسا فیصلہ دینے سے عدالت ہار گئی ہے۔ لیکن کس طرح؟ کیا آئین کے نفاذ سے عدالت ہار جاتی ہے؟

اس کے برعکس، میری رائے میں، اس کا وقار بلند ہوتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے نوٹ میں وعظ و نصیحتیں کی ہیں، مثلاً یہ  کہ کسی میں انا نہیں ہونی چاہیے۔ درحقیقت وہ اپنے ہی چیف جسٹس پر کھلے عام حملہ کر کے اپنی خود ساختہ انا اور احساس کمتری کو ظاہر کر رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ انھیں 5 رکنی بنچ میں نہیں رکھا گیا تھا۔ میں بھی (الہ آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا کا) جج رہا ہوں، لیکن میں نے کبھی بھی چیف جسٹس کی طرف سے کسی خاص بنچ میں رکھے جانے یا کسی خاص بنچ میں نہ رکھے جانے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی فل کورٹ (یعنی جس میں تمام جج ہوں) کو یہ کیس سننا چاہیے تھا۔ یقیناً وہ بہت سینئر ہیں اور یہ بات جانتے ہوں گے کہ بنچوں کی تشکیل صرف اور صرف چیف جسٹس کا استحقاق ہے، جو روسٹر (بنچوں کی تشکیل) کا ماسٹر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس اکیلا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا جج کس بنچ میں بیٹھے گا، اور کسی مخصوص بنچ میں کتنے جج ہوں گے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ اپنے نوٹ میں ایک لیکچر دیتے ہیں کہ ججوں کو سیاست میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے (جو 3 ججوں کے بنچ نے یقیناً نہیں کیا بلکہ صرف ایک آئینی شق کو نافذ کیا)۔ مگر انھوں نے خود اپنے نوٹ میں یہ کہہ کر سیاست میں ہاتھ ڈال دیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے ارکان کو پارلیمنٹ سے استعفے نہیں دینے چاہیے تھے، عمران خان کو پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل نہیں کرنی چاہیے تھیں، وغیرہ وغیرہ۔

مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے لیکن جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جج بننے کے لیے اپنی اہلیت کی مکمل کمی ظاہر کی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں