قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں وفاقی وزرا، وزرائے اعلیٰ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ساحر شمشاد مرزا، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔

قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ اتحادی حکومت نے یہ اجلاس اس لیے بلایا ہے تاکہ قومی اسمبلی کی جانب سے سپریم کورٹ کے پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلے کے خلاف مہر تصدیق ثبت کرائی جاسکے۔ ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کرانے یا ملک میں ایمرجنسی لگانے کا راستہ نکالا جاسکے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی ان خدشات کا برملا اظہار کیا تھا۔ ٹوئیٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ پوری طرح سے واضح ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم ہر حال میں انتخابات سےفرار ہی چاہتی ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے حوالے سےایک غیرآئینی قانون لے کر  آئے اور انھوں نے عدلیہ کے خلاف قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کی۔ اب انتخابات کو التوا میں ڈالنےکی کوشش کرنے اور سیکیورٹی کو اس کے ایک جواز  کے طور پر استعمال کرنے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ان کا یہ اقدام مسلح افواج کو عدلیہ ہی نہیں بلکہ براہِ راست قوم کے سامنے لاکھڑا کرے گا۔

فواد چودھری نے بھی رفتار کے سوال میں کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے واضح ہوجائے گا کہ ادارہ غیرجانبدار ہے یا نہیں۔

پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے ٹوئیٹر پیغام میں کہا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ملکی سلامتی کے حوالے سے لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے اہم ہوگا۔ اجلاس میں بہت کچھ سامنے آئے گا کہ آیا آئین اور قانون کی حکمرانی برقرار رہے گی یا جنگل کا قانون غالب رہے گا اور عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں کیا کہا گیا ہے؟

بہر حال، قیاس آرائیوں کے برعکس قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں توجہ قومی سلامتی کے معاملات پر مرکوز رکھی گئی ہے۔ اعلامیے کے مطابق شرکا نے بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی، معاشرے میں تقسیم اور در پردہ اہداف کی آڑ میں ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا پر بیرونی اسپانسرڈ زہریلا پروپیگنڈا پھیلانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔

کمیٹی نے ملک دشمنوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے کا عزم دہرایا اور کہا کہ شہیدوں کی عظیم قربانیوں سے ملنے والے امن و امان کو ہر صورت برقرار رکھا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف ایک جامع اور ہمہ جہت آپریشن کی بھی منظوری دی گئی جو ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کا خاتمہ کرے گا۔ اس آپریشن میں  سیاسی، سفارتی، سیکیورٹی، معاشی اور سماجی سطح پر کوششیں بھی کی جائیں گی۔ اس سلسلے اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جودو ہفتوں میں آپریشن پر عمل درآمد سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، قیاس آرائیاں ختم؟ 1

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں نام لیے بغیر عمران خان کی سابق حکومت، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی کالعدم تحریک طالبان سے متعلق پالیسی پر تنقید کی گئی۔ اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رکھے گئے نرم گوشے اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے جو عوامی خواہشات کے بالکل منافی تھی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اس پالیسی کے باعث دہشت گردوں کو بلاروک ٹوک واپس آنے کی اجازت دی گئی اور ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتمادسازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کیا گیا۔ ان خطرناک دہشت گردوں کی رہائی، واپسی اور افغانستان میں موجود مختلف دہشت گردوں کی جانب سے انھیں مدد ملنے سے ملک میں امن و امان متاثر ہوا جو بے شمار قربانیوں اور کوششوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے سے بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ اتحادی حکومت قومی سلامتی کمیٹی اجلاس سے الیکشن میں التوا کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور  اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کے تنازعات میں غیرجانبدار رہنے کے عزم پر قائم ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسی لیے اجلاس کے اعلامیے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ فواد چودھری نے  ٹوئیٹر پیغام میں لکھا کہ قومی سلامتی کمیٹی ایک قانونی ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد سلامتی کی صورتحال پر غور کرنا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس فورم نے اپنے اعلامیے میں خود کو سیکیورٹی معاملات تک محدود رکھا ہے اور حکومتی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کا حصہ نہیں بنے۔

واضح رہے کہ پچھلے مہینے فوج نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھاکہ ملک کے اندرونی اور سرحدوں کی سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے پاک فوج کے دستے الیکشن ڈیوٹی کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے۔ مگر اب قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن بڑھانے کا مطلب یہی ہے کہ فوج کے اہلکار انتخابات میں فرائض کی انجام دہی کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے۔ اتحادی حکومت بھی سیکیورٹی کی صورت حال کو انتخابات کے التوا کا بڑا جواز قرار دیتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اتحادی حکومت مئی میں پنجاب میں الیکشن نہ کرانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور اس صورت میں سپریم کورٹ اور پی ٹی آئی کا کیا ردعمل ہوگا۔

شیئر

جواب لکھیں