چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بار بار ملکی حالات کو 1971ء کے حالات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن نہ کرانے، پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں پر انھوں نے کئی بار کہا کہ جو کچھ مشرقی پاکستان میں کیا گیا وہ دہرایا جارہا ہے۔
ایک تفصیلی ٹوئیٹ میں انھوں نے پھر یہ بات کہی اور لندن پلان کے الزام کو دہرایا ہے۔ عمران خان نے لکھا کہ ’’چنانچہ اب لندن پلان تو کھل کر سامنے آچکا ہے۔ میں قید میں تھا تو تشدد کی آڑ میں یہ خود ہی جج، جیوری اور جلاد بن بیٹھے ہیں! منصوبہ اب یہ ہے کہ بشریٰ بیگم کو زندان میں ڈال کر مجھے اذیّت پہنچائیں اور بغاوت کے کسی قانون کی آڑ لیکر مجھےآئندہ دس برس کیلئےقیدکر دیں۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی بچی کھُچی قیادت اور کارکنان کو بھی پوری طرح جکڑ لیں گے۔ اور آخر میں پاکستان کی سب سے بڑی اور وفاقی جماعت پر پابندی لگا دیں گے۔(جیسے انھوں نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ پر لگائی)- یہ یقینی بنانے کے لیے کہ عوام کی جانب سے کوئی ردّعمل نہ آئے، انہوں نے دو کام کیے ہیں؛ اوّل: محض تحریک انصاف کے کارکنان ہی کو خوفزدہ نہیں کیا جارہا بلکہ عام شہریوں کے دلوں میں بھی خوف بٹھایا جارہا ہے۔ دوم: میڈیا پر پوری طرح قابو پایا جا چکا ہے اور بزورِ جبر اس کی آواز دبائی جاچکی ہے۔ کل پھر یہ انٹرنیٹ سروسز معطل کردیں گے اور سوشل میڈیا، جو پہلے ہی جزوی طور پر چل رہا ہے, کو پوری طرح بند کردیں گے۔ اس دوران،جبکہ میں آپ سے مخاطب ہوں،گھروں کی حرمت پامال کی جارہی ہے اور پولیس نہایت بے شرمی سے گھر کی چار دیواری میں موجود خواتین سے بدتمیزی وبدسلوکی میں مصروف ہے۔ آج سے پہلے اس ملک میں چادر و چاردیواری کا تقدس کبھی یوں پامال نہ ہوا جیسا کہ یہ مجرم کر رہے ہیں۔ یہ لوگوں کے دلوں میں اتنا خوف بٹھانا چاہتے ہیں کہ جب یہ مجھے گرفتار کرنے آئیں تو لوگ باہر نہ نکلیں۔
سپریم کورٹ کے باہر فضل الرحمان والے تماشے کا واحد مقصد بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو مرعوب کرنا ہے تاکہ وہ آئینِ پاکستان کےمطابق کوئی فیصلہ صادر کرنے سے باز رہیں۔ پاکستان پہلے ہی 1997 میں نون لیگی غنڈوں کو نہایت ڈھٹائی سے سپریم کورٹ پر عملاً حملہ آور ہوتے دیکھ چکا ہے جس کے نتیجے میں ایک نہایت محترم چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹایا گیا۔ عوامِ پاکستان کو میرا پیغام ہے کہ؛ میں اپنے خون کے آخری قطرے تک حقیقی آزادی کے لیے لڑوں گا کیونکہ مجرموں کے اس گروہ کی غلامی سے موت میرے لیے مقدّم ہے۔ میں اپنے لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے کلمہ لَاِ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی صورت میں یہ عہد باندھ رکھا ہے کہ ہم ربّ ذوالجلال کے علاوہ ہرگز کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ اگر آج ہم خوف کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوگئے تو ذلت اور شکست و ریخت ہماری آئندہ نسلوں کا مقدّر ٹھہرے گی۔ وہ ملک جہاں ناانصافی اور جنگل کے قانون کا دَور دَورہ ہو وہ زیادہ دیر تک صفحۂ ہستی پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے!‘‘