لاہور کے زمان پارک میں عمران خان کے گھر پر پولیس کے چھاپے نے ہماری سیاست میں ریاستی اداروں کے استعمال کی ایک اور افسوس ناک مثال قائم کی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے ماضی میں بھی مارتی رہی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے نیب نے ان کے گھر پر چھاپے مارے تھے۔ لیکن عمران خان کے گھر پر پولیس نے ایک ایسے وقت میں دھاوا بولا جب سب کو علم تھا کہ عمران خان گھر پر نہیں ہیں اور عدالت میں پیشی کے لیے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی گھر پر اکیلی ہیں۔ اور اس کے بعد سابق وزیراعظم کے گھر میں پولیس نے جو کیا وہ سوشل میڈیا کے ذریعے سب نے دیکھا۔

آپریشن کے لیے لاہور پولیس نے  پہلے تمام راستے بند کیے۔ پھر بھاری نفری نے عمران خان کے گھر پر آپریشن کا آغاز کیا۔۔ سابق وزیراعظم کے گھر کا دروازہ کرین کی مدد سے گرایا گیا اور پولیس اندر داخل ہوگئی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس نے اندر موجود کارکنوں اور عملے کے افراد پر لاٹھیاں برسائیں۔  پولیس کے مطابق تحریک انصاف کے کارکنوں نے ان پر حملہ کیا  جس کے بعد 60 سے زیادہ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

زمان پارک میں پولیس کا لاٹھی چارج
زمان پارک میں پولیس کا پی ٹی آئی کارکنوں پر لاٹھی چارج

پولیس کا دعویٰ ہے کہ چھاپا مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت کی اجازت سے مارا گیا۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عمران خان کے گھر سے 5 کلاشنکوف، گولیاں، پٹرول بم کے لیے استعمال ہونے والی بوتلیں، غلیلیں اور کنچے ملے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن الزام لگارہے ہیں کہ پولیس اپنے ساتھ ہتھیار خود لائی تھی جنھیں عمران خان کے گھر سے برآمد ہونےو الا اسلحہ بتایا جارہا ہے۔

ادھر عمران خان کو اپنے گھر پر چھاپے کی خبر اس وقت ملی جب وہ توشہ خانہ کیس میں پیشی کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھے۔

انھوں نے ٹوئیٹ کیا کہ لاہور میں میری رہائش گاہ پر پولیس نے دھاوا بول دیا ہے جہاں بشریٰ بیگم اکیلی ہیں۔ کس قانون کے تحت یہ لوگ یہ سب کر رہے ہیں؟ یہ لندن پلان کا حصہ ہے جس کے تحت ایک تقرری پر رضامندی کے عوض مفرور نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے وعدے کیے گئے۔

اس سے پہلے دیگر ٹوئیٹ اور ویڈیو پیغام میں عمران خان کا کہنا تھا کہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ تمام مقدمات میں عدالت سے ضمانت حاصل کرنےکے باوجود پی ڈی ایم حکومت مجھے گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ ان کی تمام تر بدنیتی کے باجود میں عدالت میں پیشی کے لیے اسلام آباد جارہا ہوں کیونکہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں۔ مگر مجرموں کے اس گروہ کی بدنیتی اور اصل عزائم کے حوالے سے اب کوئی ابہام باقی نہیں رہناچاہیے! یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ لاہور میں کیے جانے والے محاصرے کا مقصد ایک مقدمے میں مجھے عدالت میں پیش کرنا نہیں بلکہ کسی زندان میں قید کرنا تھا تاکہ میں اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکوں۔

عمران خان پیشی کے لیے عدالت پہنچے تو ان کے ساتھ ہزاروں کارکن اور پارٹی رہنما تھے۔ اس موقع پر بھی شیلنگ کی گئی اور کارکنوں کو عدالت میں داخلے سے روکا گیا۔ عدالت کے احاطے مین اتنی سیکیورٹی فورس تھی کہ عمران خان کمرہ عدالت تک پہنچ ہی نہیں سکے۔ سیشن جج نے چیئرمین تحریک انصاف کی حاضری قبول کرتے ہوئے وارنٹ گرفتاری  منسوخ کردیے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت عمران خان کی گرفتاری کے اپنے عزائم میں اس لیے کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ ہزاروں جانثار اس کے خلاف رکاوٹ بن گئے تھے۔ ادھر اسلام آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی پولیس پر شیلنگ اور پتھراؤ کیا۔

زمان پارک آپریشن اور مریم نواز کا ردعمل

ویسے غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کو حکومت نے اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ اس وقت عمران خان کی گرفتاری کے سب سے بڑے خواہشمند نواز شریف اور مریم نواز نظر آتے ہیں۔ مریم نواز ایک جلسے میں کہہ چکی ہیں کہ جب تک ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں ہوں گے الیکشن نہیں ہوں گے۔ مریم نواز نے مطالبہ کیا تھا کہ عمران خان کو گرفتار کیا جائے، انھیں نااہل کیا جائے اور نواز شریف پر مقدمات ختم کرنے کے علاوہ ان کو عدالت کی جانب سے دیے گئے سسلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے القاب واپس لیے جائیں۔

لاہور میں عمران خان کے گھر پر چھاپے پر وہ بہت خوش نظر آئیں اور مختلف ٹوئیٹ اور ری ٹوئیٹ کرکے آپریشن کو جائز قرار دیا۔

اسلام آباد میں عمران خان کے کمرہ عدالت میں نہ جانے پر انھوں نے تنقید کی۔

اس سے پہلے جب عمران خان لاہور میں تھے اور پولیس نے ان کی گرفتاری کے لیے دو دن آپریشن کیا تھا۔ تب بھی مریم نواز کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نظر نہیں آتا تھا۔ وہ عمران خان کو بزدلی کے طعنے دے کر انھیں گرفتاری پیش کرنے کا کہتی رہیں۔

جیل سے 8 ہفتے کے لیے علاج کے لیے لندن جانے والے اور دو سال سے واپس نہ آنے والے نواز شریف نے بھی عمران خان کو غیرت اور بہادری کے طعنے دیے تھے۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جب کوئی لیڈر حکومت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے مخالف کے لیے وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرنا جائز سمجھتا ہے جو وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اپنے لیے ناجائز اور سیاسی انتقام قرار دیتا ہے۔ سیاسی مقدمات اور رہنماؤں کی گرفتاری کا یہ کھیل قوم 75 سال سے دیکھ رہی ہے جس میں سب سے زیادہ نقصان صرف ملک ہی کا ہوا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں