ایسا فائنل تو نہ کبھی دیکھا اور نہ سنا۔ جس لاہور نے پاکستان سپر لیگ 2023 کا آغاز ملتان کے خلاف ایک رن کی کامیابی سے کیا تھا، سیزن کے آخری اور سب سے بڑے مقابلے میں بھی سلطانز کو 1 رن سے ہرانے میں کامیاب ہو گیا۔ یعنی جیسا پی ایس ایل فائنل ہونا چاہیے، یہ بالکل ویسا ہی مقابلہ تھا، جذبات عروج پر، سنسنی خیزی بھی انتہا پر اور نتیجہ بھی ایسا کہ سالوں تک یاد رکھا جائے۔

پاکستان سپر لیگ 2023 - فائنل

لاہور قلندرز بمقابلہ ملتان سلطانز

‏18 مارچ 2023

قذافی اسٹیڈیم، لاہور، پاکستان

نتیجہ: لاہور 1 رن سے جیت گیا

🟩 لاہور قلندرز200-6
عبد اللہ شفیق65 (40)
شاہین آفریدی44 (15)
ملتان باؤلنگامرو
اسامہ میر30243
خوشدل شاہ20112
🟦 ملتان سلطانز(ہدف: 201)199-8
رائلی روسو52 (32)
محمد رضوان34 (23)
لاہور باؤلنگامرو
شاہین آفریدی40514
راشد خان40262

قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والے اس تاریخی مقابلے میں سب کچھ قلندرز کے حق میں ہوا، ٹاس بھی انھوں نے جیتا اور پہلے خود کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تین اوورز میں 37 رنز بھی بنا لیے، جب احسان اللہ آئے اور پہلے اوور میں صرف ایک رن دے کر آخری گیند پر پچھلے میچ کے ہیرو طاہر مرزا کی وکٹ بھی لے لی۔ یہاں فخر زمان اور عبد اللہ شفیق نے ذمہ داری سنبھالی اور اننگز کے درمیان یعنی 10 اوورز تک اسکور 82 تک پہنچا دیا۔ فخر کا آغاز ذرا سُست تھا جس اِس مقام پر 28 گیندوں پر صرف 28 رنز ہی بنا پائے تھے البتہ اس کے بعد رفتار پکڑنا شروع کی۔

ملتان کی واپسی

فخر زمان کی اننگز کا واحد چھکا اُن کے پی ایس ایل کیریئر کا 100 چھکا بھی تھا اور وہ یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے کھلاڑی بھی بنے۔ بہرحال، اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ کے بعد ملتان میچ میں واپس آ گیا۔ پہلے فخر اننگز 34 گیندوں پر صرف 39 رنز کی مایوس کن اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو اسامہ میر کے اگلے ہی اوور میں سیم بلنگز بھی کلین بولڈ ہو گئے۔ اسامہ صرف اسی پر نہیں رکے، بلکہ نوجوان احسن حفیظ کو بھی گولڈن ڈک کا نشانہ بنایا۔ یہاں جو کمی رہ گئی تھی وہ خوشدل شاہ کی پہلی ہی گیند پر سکندر رضا کے کلین بولڈ نے پوری کر دی۔

لاہور قلندرز صرف چار گیندوں پر تین وکٹیں دے چکا تھا۔ 15 واں اوور اختتام کو پہنچا تو اسکور بورڈ پر صرف 115 رنز تھے اور پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ پچھلی 30 گیندوں پر صرف 33 رنز بنے تھے جب شاہین آفریدی خود ڈیوڈ ویزا سے پہلے آئے اور میچ کا نقشہ ہی بدل دیا۔

شاہین کی پرواز

احسان اللہ کے پھینکے گئے 17 ویں اوور کو شاہین آفریدی نے جس طرح لوٹا، اس نے نوجوان باؤلر کے پورے پی ایس ایل سیزن کو خراب کر دیا۔ وہ ایسی لائن اور لینتھ ایسی بھولے کہ 11 گیندوں کا اوور کرا دیا۔ پانچ وائیڈز کیں، شاہین سے دو چھکے کھائے اور پھر ایک چوکا بھی۔ اس اوور میں بننے والے 24 رنز سے ملتان کی پچھلے اوورز کی تمام تر برتری کو ختم کر دیا اور ساتھ ہی ثابت کیا کہ تجربہ آخر کیوں اہم ہوتا ہے؟ ایک چھکا کھانے کے بعد احسان اللہ نے جس طرح اعتماد کھویا، وہ دیکھنا افسوس ناک تھا۔

بہرحال، عبد اللہ شفیق نے 19 ویں اوور میں انور علی کو ایک چھکا اور دو چوکے لگائے اور پھر آؤٹ ہو گئے۔ 40 گیندوں پر 65 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہونے والے آخری لاہوری بیٹسمین تھے۔ شاہین نے 15 گیندوں پر 44 رنز کی دھواں دار اننگز کھیلی، جس کی بدولت لاہور آخری پانچ اوورز میں 85 رنز بنانے میں کامیاب ہوا۔

بھیانک یادیں لیکن بہترین آغاز

اب ملتان کو ایک مشکل ہدف کا سامنا تھا۔ پی ایس ایل 7 کے فائنل کی بھیانک یادیں ایک مرتبہ پھر سامنے آ گئیں، جب لاہور 180 رنز بنا گیا تھا اور سلطانز جواب میں صرف 138 رنز پر آل آؤٹ ہو گئے تھے۔ اس لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا، تاریخ کو بدلنا تھا اور اس کے لیے آغاز بہت تگڑا لیا۔ شاہین آفریدی کے ایک ہی اوور میں چار چوکے لگے تو سمجھیں ماحول بن گیا۔

ڈیوڈ ویزا نے عثمان خان کی وکٹ ضرور دلائی لیکن پاور پلے میں 72 رنز بن چکے تھے اور 11 ویں اوور تک لاہور کا کوئی باؤلر اگلی وکٹ نہیں لے سکا۔ میچ اب ملتان کے حق میں تھا۔ یہاں ایک مرتبہ پھر راشد خان آئے اور لاہور کو مقابلے میں واپس لے آئے۔

ٹرننگ پوائنٹ

یہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ راشد نے پہلے خطرناک موڈ میں کھیلنے والے رائلی روسو کو کلین بولڈ کیا اور اگلے اوور میں سیٹ محمد رضوان کی وکٹ بھی لے لی۔ روسو 32 گیندوں پر 52 رنز بنا چکے تھے جبکہ 34 رنز پر آؤٹ ہونے والے رضوان کی وکٹ تو اصل میں ڈیوڈ ویزا کو ملنی چاہیے، جنھوں نے لانگ آن پر ایک ناقابلِ یقین کیچ لیا۔

باؤلنگ میں بھی شاہین

ملتان کو آخری پانچ اوورز میں 60 رنز کی ضرورت تھی اور معاملہ آخری تین اوورز میں 41 رنز تک آ گیا اور ٹم ڈیوڈ آخری امید بنے کھڑے تھے۔ یہاں شاہین نے ایک ہی اوور میں تین وکٹیں حاصل کر کے گویا میچ کا خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے ٹم کے بعد انور علی اور اسامہ میر دونوں کی وکٹیں لیں۔

کہانی میں آخری ٹوئسٹ

جب لگ رہا تھا کہ میچ ختم ہو گیا، تب کہانی میں ایک اور ٹوئسٹ آیا۔ حارث رؤف نے 19 واں اوور پھینکا اور خوشدل شاہ کے بعد عباس آفریدی سے بھی چھکا اور پھر دو چوکے کھا لیے۔ ایک اوور میں 22 رنز بنے اور معاملہ آخری اوور میں 13 رنز تک پہنچ گیا۔

یہاں نوجوان زمان خان نے کمال کر دیا۔ انھوں نے پانچویں گیند پر ایک چوکا کھایا بس، باقی خوشدل شاہ کی ایک نہ چلنے دی، یہاں تک کہ وہ آخری گیند پر میچ ٹائی کرنے کی کوشش میں تیسرا رن لیتے ہوئے رن آؤٹ ہو گئے اور لاہور صرف ایک رن سے جیت گیا۔ جیسے سیزن کے پہلے میچ میں وہ زمان خان کے خلاف ناکام ہوئے تھے، آخری مقابلے میں بھی یہی ہوا۔

زمان کا زمانہ

زمان خان کے اوور میں ہمیں نظر آیا کہ فاسٹ باؤلر کے پاس صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایسی صورت حال میں ایک خاص مائنڈسیٹ بھی ہونا چاہیے۔ کچھ دیر پہلے ہم نے احسان اللہ کو ایک چھکا کھانے کے بعد گھبراتے ہوئے دیکھا تھا کہ ان سے پانچ وائیڈ بالز ہو گئیں۔ لیکن فائنل جیسے بڑے مقابلے کا فائنل اوور پھینکتے ہوئے بھی زمان خان بالکل ٹھنڈے دماغ کے ساتھ کھیلے اور بالآخر اپنی ٹیم کو جتوا کر رہے۔

یوں لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بنی اور ساتھ ہی شاہین آفریدی دو مرتبہ پی ایس ایل ٹائٹل حاصل کرنے والے پہلے کپتان بھی۔ اور اس میں وہ خود سب سے آگے آگے تھے۔ 15 گیندوں پر 44 رنز کی طوفانی اننگز اور پھر 4 وکٹیں، یہ سب ان کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ آل راؤنڈ کارکردگی انھیں فائنل کا مین آف دی میچ بھی بنا گئی۔

اعزازات کسے ملے؟

آخر میں اعزازات کی لمبی فہرست: عماد وسیم کو ٹورنامنٹ کے بہترین آل راؤنڈر کا انعام ملا، کیرون پولارڈ بہترین فیلڈر، محمد رضوان بہترین وکٹ کیپر اور بہترین بیٹسمین کے ایوارڈ ملے جبکہ احسان اللہ بہترین باؤلر قرار پائے۔ یہی نہیں انھیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ بھی قرار دیا گیا۔ جی ہاں! وہ پی ایس ایل کی تاریخ میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے باؤلر ہیں۔ بہترین ایمرجنگ پلیئر کا ایوارڈ عباس آفریدی کو ملا جنھوں نے سیزن میں سب سے زیادہ 23 وکٹیں حاصل کیں۔

شیئر

جواب لکھیں