کراچی میں نئی مردم شماری تقریبا نوے فیصد مکمل ہوچکی ہے اور عبوری اعداد و شمار کے مطابق شہر کی آبادی 2017 کی مردم شماری سے تقریباً 16 فیصد کم ہوئی ہے۔ ان اعداد و شمار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ کراچی کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری میں کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو غائب کردیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور قومی اسمبلی کی نگراں کمیٹی برائے مردم شماری کے سربراہ احسن اقبال سے ملاقات کی۔

ایم کیو ایم کےوفد کا کہنا تھا کہ کراچی کی 66 فیصد آبادی کو گنا ہی نہیں گیا۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی کو غائب کر دیا گیا ہے۔ کراچی کی آبادی 2017 میں ڈیڑھ کروڑ دکھائی گئی تھی اس مردم شماری میں اس سے بھی مزید 10 لاکھ کم ظاہر کی جارہی ہے۔ کچی آبادیوں اور سپرہائی وے کے اطراف کی آبادیوں کو گنا ہی نہیں گیا۔ کثیر منزلہ عمارتوں میں ہر گھر کو الگ شمار کرنے کے بجائے ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ بہت سی عمارتوں پر م ش لکھ دیا گیا لیکن وہاں کے رہنے والوں کے کوائف ہی نہیں لیے گئے۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے الزام لگایا کہ سازش کے تحت کراچی کی آبادی کم دکھائی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کی حمایت کا دارومدار اب شفاف مردم شماری پر ہوگا۔

مردم شماری کی نگراں کمیٹی کے سربراہ احسن اقبال نے ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے یقین دہانی کرائی۔

مردم شماری پر تحفظات، کمیٹی قائم

مردم شماری پر تحفظات سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک اجلاس بھی منعقد کیا جس میں سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، وفاقی وزیر برائے آئی ٹی امین الحق، وفاقی ادارہ شماریات کے چیف سینس کمشنر، نادرا کے کے ڈائریکٹر اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو بڑے شہروں میں آبادی کم گننے کے الزامات کی تحقیقات کرے گی اور مردم شماری میں پائے جانے والے نقائص دور کرنے کے اقدامات تجویز کرے گی۔

اس کمیٹی میں سیکریٹری پلاننگ سید ظفر علی شاہ، چیف سینسس کمشنر ڈاکٹر نعیم الظفر اور صوبائی سیکریٹری صاحبان شامل ہیں۔

جماعت اسلامی نے بھی کراچی میں مردم شماری کے اعداد وشمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے وڈیرے یقینی بناتے ہیں کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی اندرون سندھ سے کم رہے۔ کیونکہ اگر کراچی کی آبادی پوری گنی گئی تو قومی اور صوبائی اسمبلی میں شہر کی نمائندگی بڑھے گی اور وزارت اعلیٰ وڈیروں کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

کراچی میں جماعت اسلامی کے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی بین الاقوامی ادارے نے بتایا ہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے مگر نئی مردم شماری میں اسے 2017 کی آبادی سے بھی کم دکھایا جارہا ہے۔

جماعت اسلامی نے مردم شماری مانیٹرنگ ویب پورٹل کا آغاز بھی کیا ہے جہاں شہری مردم شماری کے عملے کے آنے یا نہ آنے سے متعلق آگاہ کرسکتے ہیں۔


تحریک انصاف بھی مردم شماری کے نتائج پر سوال اٹھا رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں جب %95 مردم شماری ہوچکی ہے تو پتہ چل رہا 5 سال میں کراچی کی آبادی 20 لاکھ کم ہوگی۔ کراچی، حیدرآباد کی آبادی میں صرف 29 لاکھ کا فرق رہ گیا ہے، اس سے اندازہ لگا لیں 45 ارب سے ہونے والی یہ مردم شماری کتنی شفاف ہے۔ کراچی کی آبادی 20 لاکھ کم ظاہر کرنے سے قومی اسمبلی کی 2 سیٹیں کم ہوجائیں گی۔

فواد چودھری کا کہنا تھا کہ کراچی والوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم آپ کے حقوق کے لیے لڑیں گے۔ ایم کیو ایم کے چار پانچ وزیر بک بھی جائیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔  کراچی عمران خان کا شہر ہے، سندھ بھی عمران خان کا ہے، ہم وفاقی جماعت کی حیثیت سے پورے ملک کے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔

واضح رہے کہ 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 1 کروڑ 60 لاکھ دکھائی گئی تھی۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی نے 2017 کی مردم شماری کے نتائج کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا تھا جس پر عمل درآمد پی ڈی ایم کے دور حکومت میں کیا جارہا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں