وفاقی حکومت نے توشہ خانے کے 21 سال کا ریکارڈ جاری کردیا ہے۔ کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری لسٹ میں 2002 سے مارچ 2023 تک صدور، وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، وزرائے اعلی، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے ملازمین، سرکاری افسران اور صحافیوں کو ملنے والے تحفوں کی تفصیلات درج ہیں۔
دوسرے ملکوں کی جانب سے ملنے والے تحفوں میں بلٹ پروف گاڑیوں، قیمتی گھڑیوں، ہیروں کے ہار، سونے کے سکوں، لیپ ٹاپ، آئی فون، کراکری، فن پاروں سمیت کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہیں۔
446 صفحات کے اس سرکاری ریکارڈ کے مطابق پچھلے 22 سال میں ہر صدر اور وزیراعظم نے توشہ خانہ سے فائدہ اٹھایا۔ ان میں پرویز مشرف، آصف زرداری، ممنون حسین، عارف علوی ہوں یا ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان سب نے توشہ خانے کے تحفے کبھی بلا قیمت تو کبھی تخمینہ شدہ قیمت کا دس یا بیس فیصد جمع کراکے گھر لے گئے۔
شہباز شریف کو وزیراعظم بنے ایک سال بھی نہیں ہوا لیکن وہ خود کو ملنے والے 60 سے زیادہ تحفے اپنے پاس رکھ چکے ہیں۔ حالانکہ ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے خود کو ملنے والے تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع کرادیے ہیں یا وہ وزیراعظم ہاؤس میں رکھے گئے ہیں۔
توشہ خانہ کے تحائف اور تنازعات
شریف خاندان نے گزشتہ 21 سال میں توشہ خانہ کے سیکڑوں تحفے اپنے پاس رکھے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں سب سے نرالا کام یہ ہوا کہ نواز شریف نے 20 اپریل 2008 کو توشہ خانہ سے ایک مرسڈیز گاڑی لی۔ حالانکہ اس وقت نہ وہ وزیراعظم تھے نہ دیگر کوئی عوامی عہدہ ان کے پاس تھا۔ اس وقت وزیراعظم پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی تھے۔ اس مرسڈیز کی قیمت کا تخمینہ 42 لاکھ 56 ہزار روپے لگایا گیا اور نواز شریف صرف 15 فیصد قیمت یعنی 6 لاکھ 37 ہزار روپے ادا کرکے یہ قیمتی گاڑی گھر لے گئے۔ غیرقانونی طریقے سے گاڑی لینے کے اس معاملے پر نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب میں ریفرنس بھی دائر ہے اور عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کیے تھے۔
اسی طرح سابق صدر آصف زرداری نے بھی خود کو ملنے والا کوئی تحفہ توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا۔ تمام تحائف بغیر قیمت یا معمولی قیمت دے کر اپنے پاس رکھ لیے۔ مگر ان پر سب سے بڑا الزام 3 بلٹ پروف گاڑیاں لے جانے کا ہے۔ یہ گاڑیاں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی اور متحدہ عرب امارات کے صدر کی طرف سے تحفے میں دی گئی تھیں۔ ان میں سے 2008 ماڈل کی بی ایم ڈبلیو کی قیمت کا تخمینہ 5 کروڑ 78 لاکھ لگایا گیا اور ٹویوٹا لیکسس کی قیمت 5 کروڑ روپے مقرر کی گئی۔ آصف زرداری نے یہ دونوں گاڑیاں 1 کروڑ 61 لاکھ روپے دے کر ذاتی استعمال کے لیے حاصل کرلی۔ اسی طرح 2004 ماڈل کی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2 کروڑ 73 لاکھ مقرر کی گئی جس کے لیے زرداری نے تقریباً 41 لاکھ روپے ادا کیے۔
یہ گاڑیاں لینے پر آصف زرداری کے خلاف بھی نیب میں ریفرنس دائر ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں دعویٰ کیا تھا کہ ن گاڑیوں کے لیے رقم کی ادائیگی جعلی بینک اکاؤنٹس کے ریفرنس کے ملزم عبدالغنی مجید نے جعلی اکاؤنٹس سے کی۔
توشہ خانہ کے تحائف کی مالیت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
توشہ خانہ کے تحائف کی مالیت کا تعین کیبنٹ سیکریٹری کی نگرانی میں ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے افسر کرتے ہیں۔ دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ یہ قیمتوں کا یہ تخمینہ آزادانہ طور پر لگایا جاتا ہے لیکن یہ اسیسمنٹ کتنی آزاد اور کتنی درست ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگایا جاسکتا ہے۔ فروری 2020 میں ملنے والے آئی فون X گولڈ کی قیمت کا تخمینہ 1 لاکھ روپے لگایا گیا تھا حالانکہ اس کی مارکیٹ میں قیمت ساڑھے 11 سو ڈالر تھی۔ اس وقت ڈالر 155 روپے کا تھا یعنی فون کی اصل قیمت ایک لاکھ 78 ہزار بنتی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے تحائف ہیں جن کی کوئی کمرشل ویلیو مقرر نہیں کی گئی اور ان میں سے زیادہ تر تحفے حکمرانوں نے اپنے پاس رکھ لیے تھے حالانکہ ان میں سے بہت سی چیزیں آرٹ کے فن پارے یا نوادر ہوسکتے ہیں جن کی مالیت کروڑوں میں جاسکتی ہے۔ بہر حال اگر تخمینہ شدہ قیمتیں درست بھی مانی جائیں تو 2001 سے اب تک ملنے والے تحائف کی مجموعی مالیت سوا سے ڈیڑھ ارب روپے بنتی ہے۔ جس کے بدلے سرکاری خزانے میں صرف 21 کروڑ روپے جمع ہوئے۔
توشہ خانہ سے سب سے زیادہ فائدہ کس نے اٹھایا؟
ویسے تو توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں مگر تحائف کی مالیت کے لحاظ سے بات کریں تو شاہد خاقان عباسی اور ان کی فیملی بازی لے گئی۔ ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی یکم اگست 2017 سے 31 مئی 2018 تک وزیراعظم رہے۔ ان دس مہینوں میں انھوں نے 23 کروڑ روپے مالیت کے تحفے سمیٹے جن میں سوئٹزرلینڈ کی قیمتی گھڑیاں اور جیولری شامل ہیں۔ ان تحائف کے لیے انھوں نے 20 فیصد رقم یعنی 4 کروڑ 60 لاکھ روپے ادا کیے۔ یعنی صرف دس مہینے میں 17 کروڑ 40 لاکھ کا فائدہ حاصل کرلیا۔
عمران خان اور ان کی بیگم بشریٰ بی بی نے تقریباً 15 کروڑ روپے کے تحفے توشہ خانہ سے حاصل کیے اور اس کے لیے انھوں نے تقریباً 3 کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرائے۔ ان تحائف میں گراف کی مکہ ایڈیشن والی گھڑی کا وہ مشہور سیٹ شامل ہے جس پر عمران خان کو نااہل قرار دے کر ان کے خلاف فوجداری کیس چلایا جارہا ہے۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انھوں نے ان تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کی تھی۔
آصف علی زرداری کو ملنے والی تین بلٹ پروف گاڑیوں کی مالیت 13 کروڑ روپے مقرر کی گئی جس کے عوض سابق صدر نے 15 فیصد رقم ادا کی تھی۔
نواز شریف اور ان کی بیگم کو 2016 میں ملنے والے تحائف کی مالیت 9 کروڑ روپے سے زیادہ بنتی تھی جو انھوں نے 20 فیصد رقم جمع کراکے اپنے پاس رکھ لیے۔ ان تحائف میں کرسٹوفر کلاریٹ کی گھڑی، 2 کروڑ روپے کی انگوٹھی، ایک کروڑ 60 لاکھ کے کف لنکس، 4 کروڑ 16 لاکھ کا نیکلیس اور ایک کروڑ 27 لاکھ کا بریسلیٹ شامل ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کو مئی 2022 میں رولیکس کی ایک گھڑی تحفے میں دی گئی جس کی مالیت کا تخمینہ 14 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ گھڑی وزیراعظم ہاؤس میں رکھی گئی ہے۔