سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے قانونی محاذ پر مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف ملک اب تک 76 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ ان میں توہین مذہب، دہشت گردی اور بغاوت جیسے سنگین الزامات بھی شامل ہیں۔ عمران خان ان مقدمات کو اپنے خلاف سازش کرنے والوں کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہیں۔

عمران خان مقدمات کے سلسلے میں ان دنوں مختلف عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کیس ایسے ہیں جو سابق وزیراعظم کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں۔

قانونی ماہرین خاص طور پر توشہ خانہ کیس کو عمران خان کے سر پر لٹکتی تلوار قرار دیتے ہیں۔ اس کیس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے اور اسلام آباد پولیس نے عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک لاہور میں ان کے گھر پر چھاپہ بھی مارا تھا۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ توشہ خانہ کیس کیا ہے۔ اس میں کیا الزامات ہیں اور ان کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔

توشہ خانہ کیا ہے؟

توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے تحت 1974 میں قائم کیا گیا ایک سرکاری محکمہ ہے۔ پاکستانی حکمرانوں اور اعلیٰ عہدیداروں کو دوسرے ملکوں سے ملنے والے تحائف اسی محکمے میں جمع کرائے جاتے ہیں۔

قانون کے مطابق اگر کسی تحفے کی قیمت 30,000 روپے سے کم ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا عہدیدار اسے اپنے  اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاہم زیادہ قیمتی تحائف توشہ خانے میں جمع کرانا ضروری ہے۔

Toshakhana Gifts

توشہ خانہ میں جمع کرائے کیے تحائف کابینہ کی منظوری سے فروخت بھی کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے اس عہدیدار کو تحفے کی قیمت کا پچاس فیصد ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ رقم پہلے 20 فیصد تھی جسے عمران خان کے دور میں 50 فیصد کردیا گیا تھا۔

ان تحائف میں عام طور پر قیمتی گاڑیاں، سونے، ہیرے کے زیورات، قیمتی جواہرات، مہنگے قلم، ڈیکوریشن پیس، آرٹ کے فن پارے اور دوسری چیزیں شامل ہوتی ہیں۔

توشہ خانہ کیس کیا ہے؟

عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ سے قیمتی گھڑیاں اور دیگر چیزیں خریدنے کی تفصیلات ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ہی سامنے آچکی تھیں۔ یہ تحائف سعودی عرب، یواے ای کے شاہی خاندان اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے دیے گئے تھے۔ اپریل 2022 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان پر توشہ خانہ کے تحائف بیچنے اور ان سے ہونے والی آمدن چھپانے کے الزامات میں تیزی آئی۔

اگست 2022 میں حکمران اتحاد پی ڈی ایک کے پانچ ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا۔ ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ مران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا اس لیے انھیں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیا جائے۔

یہ آرٹیکل رکن اسمبلی کے لیے صادق اور امین ہونے کی شرط عائد کرتا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسی آرٹیکل کے تحت نا اہل قرار دیا گیا تھا۔

عمران خان نے 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا۔ اس کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

Toshakhana Golden Kalashnikov

ان تحائف  میں زیادہ تر گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز جیسی چیزیں تھیں تاہم ان میں گھڑی، قلم، کف لنکس، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

عمران خان کے مطابق ان میں صرف 14 تحائف کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت  2 کروڑ 16 لاکھ روپے ادا کر کے خریدا تھا۔  عمران خان نے یہ بھی اعتراف کیا کہ خریدے گئے تحفوں میں سے کچھ انھوں نے فروخت کردیے تھے۔ جن میں گراف کی گھڑی، کف لنکس، مہنگا قلم، انگوٹھی اور رولیکس کی تین گھڑیاں شامل تھیں۔۔ ان تحائف کی فروخت سے عمران انھیں 5 کروڑ 80 لاکھ روپے آمدن ہوئی۔

Toshakhana Graff Watch

21 اکتوبر 2022 کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا۔ اس لیے انھیں آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔

توشہ خانہ کیس میں کتنی سزا ہو سکتی ہے؟

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی گئی تھی جس کے بعد نومبر میں ان کے خلاف اسلام آباد کی سیشن عدالت میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔

اس سے پہلے کہ کیس آگے بڑھتا، عمران پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے۔ عمران کو گولیاں لگنے کے بعد اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے عبوری ضمانت دی تھی اور اس کے بعد سے طبی وجوہات کی بنا پر ان کی ضمانت میں توسیع کی جاتی رہی۔

منگل 28 فروری کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے مسلسل عدم پیشی پر عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد پولیس کی ٹیم 5 مارچ کو زمان پارک لاہور پہنچی تھی مگر عمران خان کی گرفتاری نہیں ہوسکی تھی۔

7 مارچ کو سیشن عدالت میں کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی۔ اسی دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ منسوخ کردیے۔

قانونی ماہرین کے مطابق توشہ خانہ کیس میں جرم ثابت ہونے پر تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ناہل قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی جمع کرا رکھی ہے۔

توشہ خانہ سے متعلق نیب میں بھی ریفرنس فائل ہو چکا ہے اور نیب نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو نیب میں پیش ہونے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

اس کے علاوہ عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس۔ مبینہ بیٹی ٹیریان کو ظاہر نہ کرنے کا کیس، دہشت گردی کیس، توہین الیکشن کمیشن کیس، خاتون جج کو دھمکی دینے کا کیس بھی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں