شام کے پانچ بج رہے تھے، سینما میں شام کا شو دیکھنے والوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک نوجوان کی نظریں مسلسل دروازے پر ہیں، وہ اندر آنے والوں کو بڑی بے چینی سے دیکھ رہا ہے، کیوں؟ کیونکہ آج ’’وہ‘‘ سینما آ رہی ہے۔ ’’وہ‘‘ کہ جسے دیکھتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہیں۔ اچھا امپریشن ڈالنے کے لیے اُس نے اپنے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی بھی طاری کرلی ہے۔ زندگی میں پہلی بار وہ ایک سلجھا ہوا، میچور اور سمجھدار نوجوان نظر آنا چاہتا ہے۔
خیر، لڑکی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آئی، فلم دیکھی اور چلی بھی گئی۔ اور وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ موقع بھی ضائع ہو گیا۔ لیکن اب اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر حاصل کر کے رہے گا۔ ویسے دونوں خاندانوں کی آپس میں جان پہچان تو ہے، مگر پھر بھی لڑکی اتنی ہائی پروفائل ہے کہ اُس کا ہاتھ مانگنے کے لیے بڑی ہمت چاہیے۔ اس لیے نوجوان نے پلان بنایا پہلے تعلقات بناؤں گا، پھر رشتہ بھیجوں گا۔ یوں لڑکی کے گھر والوں کو گفٹس بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کبھی چاکلیٹیں تو کبھی کیک، کبھی پھول تو کبھی سندھڑی آموں کی پیٹیاں۔ اور پھر کسی فلم کی طرح ایک دن ہیرو کو اپنی ہیروئن کو ریسکیو کرنے کا موقع مل ہی گیا۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک دن یہ نوجوان پولو کھیل رہا تھا کہ اچانک وہ لڑکی بھی اپنی کسی دوست کے ساتھ پولو گراؤنڈ پہنچ گئی۔ اُس کا موڈ بھی اچھا لگ رہا تھا۔ نوجوان نے ارادہ کر لیا کہ آج تو بات کر کے ہی رہوں گا، لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ گومگو کی کیفیت میں ہی تھا کہ اچانک ایک شہد کی مکھی cupid بن کر آ گئی۔ مکھی نے لڑکی کے ہاتھ پر کاٹ لیا، اسے تکلیف میں دیکھ کر نوجوان آگے بڑھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنا چاہتا تھا کہ لیکن اُسے ’’اِٹس او کے‘‘ کہہ کر روک دیا گیا۔ وہ کہتا رہا کہ میں آپ کو اسپتال لے چلتا ہوں، مگر لڑکی مسلسل انکار کرتی رہی۔ لیکن آخر کب تک؟ بالآخر اُس نے ہتھیار ڈال دیے نوجوان نے اپنی گاڑی میں لڑکی کو نہ صرف اسپتال پہنچایا بلکہ اسے بڑے احترام سے گھر پر ڈراپ بھی کیا۔ لڑکی راستے بھر سوچتی رہی کہ کتنا ’’کیئرنگ‘‘ نوجوان ہے؟ یوں اس واقعے سے آغاز ہوا پاکستانی سیاست کی سب سے طاقتور جوڑی کا۔
یہ نوجوان تھا آصف زرداری، اور لڑکی تھیں بے نظير بھٹو۔
یہ وہی آصف زرداری ہیں، جنہیں مفاہمت کا بادشاہ، کنگ میکر، سیاسی جادوگر، سیاست کا پی ایچ ڈی، میکاولی کا باپ بلکہ مسٹر 10 پرسنٹ اور نجانے کیا کیا کہا جاتا ہے؟ اس تحریر میں ہم یہ بھی بتائیں گے کہ آخر بے نظیر بھٹو جیسی قد کاٹھ کی لیڈر کیسے ایک غیر معروف سے آصف زرداری کی دلہن بننے پر تیار ہو گئیں؟ اور یہ بھی کہ بے نظیر نے شادی کے لیے کون سی شرط رکھی تھی؟ اس بات سے بھی پردہ اٹھائیں گے کہ وہ طاقتور ترین آدمی کون تھا، جس نے کوشش کی کہ یہ رشتہ نہ ہو اور زرداری فیملی کو بھاری آفرز بھی کیں۔ یہ سب بتانے سے پہلے آپ کو لے چلتے ہیں زرداری کے بچپن میں۔
زرداری کا بچپن
آصف علی زرداری 26 جولائی 1955 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد حاکم علی زرداری اپنے قبیلے کے ایک با اثر آدمی تھے۔ آصف نے کچھ عرصے تک کراچی گرامر اسکول سے پڑھا، پھر سینٹ پیٹرک کراچی سے میٹرک کیا۔ ویسے انھیں پڑھائی میں کم اور یار دوستوں کے ساتھ ہلا گلا کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ پڑھتے اتنا ہی تھے کہ بس امتحان پاس کر جائیں۔ بیٹے کی اِس لا ابالی اور کھلنڈری طبیعت سے حاکم زرداری بالکل خوش نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے اُن کا اکلوتا بیٹا ایک ذمے دار نوجوان بنے۔ یہی سوچ کر انہوں نے میٹرک کے بعد آصف زرداری کا داخلہ کیڈٹ کالج پٹارو میں کروا دیا اِس امید کے ساتھ کہ کیڈٹ کالج والے آصف کو تیر کی طرح سیدھا کر دیں گے، مگر وہ یہاں بھی اپنی عادتوں سے باز نہیں آئے۔ دوستوں کے ساتھ مل کر کیڈٹ کالج کی history کی پہلی اور شاید آخری اسٹرائک کروا دی۔ بہرحال، کسی نہ کسی طرح 1974 میں انٹرمیڈیٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کیڈٹ کالج کے بعد انہوں نے لندن ا سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی کسی ادارے سے بھی پڑھا ہے، لیکن ان کی گریجویشن آج تک کنفرم نہیں ہو سکی۔
بچپن میں آصف زرداری ذرا موٹے تھے لیکن پھر بھی بڑے پھرتیلے، چالاک اور تیز و طرار تھے، ہر وقت دوڑتے بھاگتے رہتے۔ اُن کے قریبی دوست انجم حسین شاہ بتاتے ہیں کہ میرے والد اور حاکم زرداری نواب شاہ جم خانہ میں ٹینس کھیلتے تھے۔ جب بال پیچھے چلے جاتی تو ہم دونوں بچے گیند پر لپکتے اور اسے دوبارہ ٹینس کورٹ میں پھینکتے۔ میں آصف کے مقابلے میں دبلا پتلا تھا، پھر بھی زیادہ تر آصف ہی گیند تک پہلے پہنچتا۔ اسی جم خانہ میں مسز ڈی سوزا نامی خاتون بھی ہوتی تھیں۔ انہیں بچوں میں دوڑ کے مقابلے کرانے کا بڑا شوق تھا اور اِدھر آصف کو جیت کا جنون تھا۔ اتنا کہ دوڑ میں بچوں کو دھکے دے کر بھی خود آگے نکل جاتا۔
اسی زمانے میں آصف زرداری نے ایک پاکستانی فلم ’’منزل دُور نہیں‘‘ میں بھی کام کیا۔ یہ فلم 29 نومبر 1968 کو ریلیز ہوئی لیکن بری طرح فلاپ ہوئی۔ عقیل عباس جعفری بتاتے ہیں کہ یہ فلم آصف زرداری کی خالہ ملکہ سلطانہ آفندی نے بنائی تھی۔ فلم کے ہیرو تھے اُن کے شوہر حنیف اور صوفیہ نامی کسی خاتون نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ یعنی ایک طرح سے یہ ’’زرداری فیملی فلم‘‘ تھی۔
جوانی کی کہانی
کہتے ہیں وہ جوانی جوانی ہی نہیں، جس کی کوئی کہانی نہ ہو۔ مگر آصف زرداری کی جوانی کی ایک نہیں کئی کہانیاں ہیں۔ جو سب شروع ہوتی ہیں بیمبینو سینما سے۔ یہ سینما اُن کے والد نے ساٹھ کی دہائی میں بنایا تھا۔ یہ اپنے دور کا اتنا بڑا سینما تھا کہ افتتاح کرنے صدر ایوب خان آئے تھے۔ تب سینما ویسے ہی بڑا منافع بخش کاروبار ہوتا تھا۔ اس لیے آصف زرداری کو پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اُن کا ہر شوق پورا ہوتا، باوجود اس کے کہ سارے شوق امیروں والے تھے۔ جیسے، وہ پولو کھیلنے کے شوقین تھے۔ ’’زرداری فور‘‘ کے نام سے اُن کی اپنی پولو ٹیم بھی تھی۔ اس شوق میں وہ کئی بار گھوڑے سے گر کر زخمی بھی ہوئے، مگر پولو نہیں چھوڑا۔ یہی شوق آگے چل کر انہیں بہت مہنگا بھی پڑا۔ کیسے؟ یہ قصہ آپ کو آگے بتائیں گے، پہلے ذرا کنوارے آصف کے کارنامے مکمل کر لیں۔
تو زرداری نوجوانی میں بھی اپنی یاری کی وجہ سے بڑے مشہور تھے۔ یاروں دوستوں پر دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے اور ہر قسم کے ایڈونچر کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔ تبھی تو دوست انہیں ’’دل والا‘‘ کہتے تھے۔
ایک بار ایسا ہوا کہ جرمن سفارت کار کی بیٹی اپنے گھوڑے سمیت دلدل میں پھنس گئی۔ کوئی اندر اترنے کو تیار نہیں تھا، مگر دل والا زرداری بلا خوف اس دلدل میں اتر گیا۔ لڑکی کو بھی نکالا اور پھر گھوڑے کو بھی۔ ایک تو اکلوتا، دوسرا جوان، تیسرا مالدار۔ زرداری کی جوانی میں رنگ ہی رنگ تھے۔ اُن کی پرائیویٹ ڈانس پارٹیز بھی بڑی مشہور تھیں۔ یہ تک کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گھر میں پرائیویٹ ڈسکو کلب بنایا ہوا تھا۔ اسی لیے تو دوست انہیں ’’ڈسکوتھک گائے‘‘ کہتے تھے۔ خیر، آصف زرداری بھی ایک الزام ایسا بھی ہے جو آج تک لگتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک کرتے تھے۔ آدھی صدی گزر گئی، یہ طعنہ آج بھی انھیں ملتا ہے، خاص طور پر سیاسی مخالفین کی طرف سے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ زرداری کو اپنے لیے ٹکٹیں بلیک کرنے کی کوئی ضرورت تھی ہی نہیں۔ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ وہ اکثر اپنے یاروں دوستوں کو شوز کی کچھ ٹکٹس دے دیتے تھے کہ جاؤ تم بھی کچھ کما لو۔ جب یہ شکایت حاکم زرداری تک پہنچی تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’دوستوں میں تو اتنا چلتا ہے‘‘۔ لیکن یہ اس البیلے اور منچلے جوان کو پتہ نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں آگے اور کیا ہونے والا ہے؟
شادی اور سیاست میں انٹری
زرداری خاندان اور پیپلز پارٹی کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ حاکم زرداری، ذوالفقار علی بھٹو کے بالکل ابتدائی سیاسی دوستوں میں سے تھے۔ 70 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بھی بنے۔ اب یہ جھوٹ ہے یا سچ، مگر کہا جاتا ہے کہ ایک بار بھٹو کو حاکم زرداری کی کسی بات پر غصہ آگیا۔ بھٹو تو تھے بھٹو، انہوں نے حاکم صاحب کی کچھ زیادہ ہی بے عزتی کر دی۔ یہیں سے دونوں کی راہیں الگ ہو گئیں۔ حاکم زرداری نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور اے این پی میں شامل ہو گئے۔ پھر لوگوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد حاکم زرداری نے جنرل ضیاء الحق کو اپنے ہاتھ سے اجرک پہنائی۔ یہ تصویر آ ج بھی زرداری خاندان کو haunt کرتی ہوگی۔
ضیا دور میں ہی بے نظیر وطن واپس آ گئیں اور حاکم زرداری دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پھر دونوں خاندانوں کا میل جول اتنا بڑھا کہ بات رشتے تک پہنچ گئی۔ کتاب ’’دختر مشرق‘‘ میں بے نظیر کا ایک ایسا انٹرویو بھی شامل ہے، جس میں انھوں نے اپنی شادی کے بارے میں بتایا ہے۔ لکھتی ہیں کہ یہ جولائی 1985 تھا، میری والدہ نصرت اور پھوپھی زرداری خاندان کا رشتے کا پیغام لے کر میرے پاس آئیں۔ مجھے کہا گیا کہ پشاور اور لاہور کے کاروباری خاندانوں کے رشتے بھی ہیں لیکن وہ تمہارے مزاج کے نہیں۔ بے نظیر بتاتی ہیں کہ زرداری سے شادی کا فیصلہ صرف 7 دنوں میں کیا تھا۔ اس موقع پر زرداری نے انہیں ایک انگوٹھی دی تھی، جس کے اوپر دو دل بنے ہوئے تھے، ایک سیفائر کا اور دوسرا ہیرے کا۔ اس انگوٹھی پر لکھا تھا ’’صرف موت ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر سکتی ہے‘‘۔
آگے چل کر آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ وہ کون تھا، جس سے عمران خان، بے نظیر کی شادی کرانا چاہتے تھے، مگر ابھی ذکر زرداری اور بے نظیر کی منگنی کا، جو دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا کی ہیڈ لائن بنی تھی۔
اور منگنی ہو گئی
بے نظیر اور آصف زرداری کی منگنی ہوئی 29 جولائی 1987 کو لندن میں۔ نیوز ویک، ٹائم میگزین، گارڈیئن، واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی، کئی بڑے اداروں نے اس خبر کو نمایاں جگہ دی اور کیوں نہ دیتے؟ آخر ذوالفقار علی بھٹو کی جانشین بیٹی کی منگنی تھی۔ وہ کہ جسے بھٹو پیار سے پنکی کہتے تھے۔
زرداری کے دوست انجم حسین شاہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ رشتہ کرانے میں سب سے بڑا کردار آصف کی سوتیلی والدہ زریں آرا بخاری کا تھا۔ وہ ایک سوشل خاتون تھیں اور نصرت بھٹو کے ساتھ بھی اُن کی میل ملاقات رہتی تھی۔ زریں آرا زیڈ اے بخاری کی صاحبزادی تھیں، جو بڑے مشہور براڈ کاسٹر تھے۔ انجم حسین کہتے ہیں کچھ دوستوں کو اِس منگنی کی بھنک پڑ گئی تھی، لیکن آصف نے کسی کو نہیں بتایا، اپنے بہت قریبی دوستوں کو بھی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ لندن گئے، تب بھی یہ راز کسی کو نہیں بتایا۔ اس لیے جب منگنی کی خبر آئی تو دوست ہی نہیں، کئی جیالے بھی پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہوا؟
کئی تھیوریز گردش کرنے لگیں، جتنے منہ اتنی باتیں۔ یہیں پر کچھ پیار کے دشمن بھی میدان میں آ گئے۔ انجم حسین شاہ کے مطابق ایک دن زرداری نے اُن سے کہا کہ ضیا پاگل ہو گیا ہے، دو دو شوگر ملیں آفر کر رہا ہے۔ کہہ رہا ہے بے نظیر سے منگنی ختم کر دو۔ بتاؤ ایسا بھی کہیں ہوتا ہے؟ اسے پتا نہیں ہم سندھی بلوچ جب زبان دے دیتے ہیں تو واپس نہیں لیتے؟
دوست کا دعویٰ اپنی جگہ، مگر لوگوں میں اور بھی بہت سی باتیں ہو رہی تھیں۔ مثلاً زرداری جیسا کھلنڈرا بندہ اور بے نظیر جیسی سیاسی لیڈر؟ یہ جوڑ بنتا نہیں۔ اس لیے یہ تک کہا گیا کہ شاید بے نظیر کو ٹریپ کیا گیا ہو اور یہ لا ابالی نوجوان اُن کا سیاسی کیریئر تباہ کرنے کے لیے آیا ہو؟ یہی نہیں، 2020 میں ایک صحافی شبیر احمد صدیقی نے ایک کتاب لکھی ’’بے نظیر کی شادی کس نے کرائی؟‘‘ اس کتاب میں تو یہ دعویٰ تک کیا گیا کہ یہ شادی ضیاء الحق نے کرائی تھی۔ جی ہاں! یہ صاحب لکھتے ہیں ایک دن جنرل ضیاء الحق کراچی آ رہے تھے اور بے نظیر لندن جا رہی تھیں۔ ایئرپورٹ پر بہت سے صحافی موجود تھے، جن میں اُن کے دوست یوسف خان بھی تھے۔ تب کسی خفیہ ایجنسی کا افسر دوست کے پاس آیا اور دونوں میں کچھ گفتگو ہوئی۔ جب میں نے یوسف سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو جواب ملا اس افسر نے بتایا ہے بے نظیر منگنی کرنے لندن جا رہی ہیں، بیمبینو سینما والے حاکم زرداری کے بیٹے کے ساتھ۔ میں نے پوچھا یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہی جا سکتی ہے؟ تو اس نے جواب دیا یہ منگنی حکومت ہی کروا رہی ہے، ایک بڑی ڈیل کے تحت یہ رشتہ ہو رہا ہے، بس تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔
یہ سب تھیوریز اپنی جگہ، مگر بے نظیر خود اس رشتے کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟ آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما اس رشتے پر بڑے پریشان تھے۔ وہ پارٹی رہنما بیگم این ڈی خان سے ملے، ان سے پوچھا کہ زرداری کے بارے میں کچھ اچھا نہیں سنا، آخر بے نظیر ان سے شادی کیسے کر سکتی ہیں؟ جس پر بیگم این ڈی خان نے کہا پہلے میرا بھی یہی خیال تھا، لیکن بی بی نے فیصلہ کرنے سے پہلے دو کام کیے۔ پہلا آصف زرداری کو اپنے اُس ملازم سے ملوایا جسے کوڑے لگائے گئے تھے۔ اور کہا کہ آصف! دیکھ لو، بھٹو کے تو ملازمین کو بھی کوڑے لگتے ہیں، آپ بھٹو کی بیٹی سے شادی کرنا چاہ رہے ہیں؟ یہ سب برداشت کر سکیں گے؟ زرداری نے جواب دیا کہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کروں گا، مجھ سے گزر کر ہی کوئی آپ کی طرف آئے گا۔ یہ بی بی کو امپریس کرنے والا جواب تھا۔ دوسرا بے نظیر نے زرداری کو ایک روحانی شخصیت سے بھی ملوایا، اور اس کے بعد ہی ہاں کی۔
پھر شادی ہو گئی
اور وہ دن آ گیا، 18 دسمبر 1987۔ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی شادی ہو گئی۔ دلہن بنی بے نظیر ککری گراؤنڈ، لیاری میں موجود تھیں۔ دُنیا بھر کے موسیقار، کھلاڑیوں اور نامور شخصیات کا ایک میلا سجا ہوا تھا، جو رات گئے تک جاری رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جیالوں نے پہلی بار خوشی دیکھی تھی۔ ایک جیالا تو جوشِ عقیدت میں آصف زرداری کے قدموں میں گر گیا۔
ارے، وہ عمران خان والا رشتہ تو کہیں پیچھے رہ گیا۔ چلیں، اب آپ کو بتا ہی دیں کہ وہ کون تھا؟
سینئر صحافی حامد میر بتاتے ہیں کہ عمران خان نے لندن میں بے نظیر بھٹو کا تعارف اپنے ایک کزن قمر خان سے کرایا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو کی شادی قمر خان سے ہو جائے لیکن بے نظیر نے آصف زرداری سے شادی کر لی۔ حامد میر تو یہی کہتے ہیں کہ عمران خان بھی بے نظیر کی زرداری سے شادی پر خوش نہیں تھے۔
مصیبتیں شروع ہو گئیں
شادی کو صرف ایک سال ہی گزرا تھا کہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بن گئیں اور یوں آصف زرداری وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے۔ یہیں سے ان کی زندگی کا ایک نیا اور تنازعات سے بھرپور دور شروع ہوتا ہے۔ آغاز ہوتا ہے کرپشن کے الزامات کی ایسی داستان کا، جو پھر کبھی نہیں رکی۔ آگے چل کر آپ کو بے نظیر اور زرداری کے ایک ایسے فلیٹ کی کہانی بھی سنائیں گے، جسے منحوس سمجھا جا رہا ہے مگر پہلے اُس دور کی بات جب سینما چلانے والے آصف زرداری نے حکومت چلانی شروع کر دی۔
بے نظیر نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی اور زیادہ وقت نہیں لگا، آصف زرداری ہیڈ لائنز میں آنا شروع ہو گئے۔ کہا جانے لگا کہ زرداری شیڈو وزیر اعظم ہیں۔ کسی سرکاری ٹھیکے، سودے کی فائل کی منظوری کا راستہ آصف زرداری کی ٹیبل سے گزر کر جاتا ہے۔ وہ مسٹر 10 پرسنٹ کے نام سے مشہور ہونے لگے۔ یہ اصطلاح پہلی بار 1988 میں ہیرلڈ میگزین نے استعمال کی تھی۔ آپ کو پتہ ہے اس وقت ہیرلڈ کا ایڈیٹر کون تھا؟ جی ہاں! شیری رحمٰن جو بعد میں بے نظیر بھٹو کی قریبی ساتھی بنیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’مسٹر 10 پرسنٹ‘‘ کی یہ اصطلاح شیری رحمٰن ہی کا کارنامہ تھی مگر سیاست کے رنگ دیکھیں، آج وہ اُس پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں۔ اس پارٹی کا جس کے سیاہ و سفید کے مالک آصف زرداری ہیں۔
بے نظیر کے دوسرے دور میں تو آصف زرداری کو مسٹر ٹوئنٹی بلکہ مسٹر تھرٹی پرسنٹ بھی کہا جانے لگا۔ اُن پر ملک سے باہر کروڑوں کی جائیداد بنانے کا الزام بھی لگا۔ لندن میں موجود ’’سرے محل‘‘ کا میڈیا میں بڑی دیر تک چرچا رہا۔ پہلے تو زرداری اس کی ملکیت سے انکار کرتے رہے لیکن 2004 میں اچانک اعتراف کر لیا کہ سرے محل ان کی ملکیت رہا ہے۔ بی بی سی نے سرے محل کی قیمت ایک کروڑ پاؤنڈز بتائی تھی۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر یا آصف زرداری یہاں کبھی رہے نہیں۔ یہی خبریں تھیں جو حکومت جانے کے بعد مصیبت بن گئیں۔
نواز شریف کے دوسرے دور میں زرداری کا بال بال مقدموں میں جکڑا رہا الزامات پر الزامات لگتے رہے۔ صرف کرپشن ہی نہیں، اس سے بھی کہیں بڑے الزامات!
الزامات ہی الزامات
آصف زرداری پر کئی بہت بڑے اور سنگین الزامات بھی لگے مثلاً سابق چیئرمین اسٹیل مل سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام۔ ایس جی ایس کو ٹیکنا کیس، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد کا الزام۔ ہیلی کاپٹروں کی خریداری، ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن اور کک بیکس لینے کا الزام۔
ان پر کئی اور سنگین مقدمات بھی بنے۔ سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور اسپین میں آئل فار فوڈ اسکینڈل بھی زرداری سے جڑا۔ پھر ایسی لسٹیں بھی جاری ہوئیں کہ آصف زرداری نے حیدر آباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی ہے۔ کہا گیا کہ چھ شوگر ملوں میں ان کا حصہ ہے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بیلجیئم اور فرانس میں دو، دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری بھی ہے۔ سوئس بینکوں میں چھ ارب ڈالر جمع کرانے کا الزام بھی لگا۔ یہی معاملہ ہے جس میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنی وزارت عظمیٰ کی قربانی دینا پڑ گئی تھی۔
ایک خطرناک الزام
زرداری پر یہ الزام بھی لگا کہ 1990 میں ایک برطانوی بزنس مین مرتضیٰ بخاری کی ٹانگ سے بم باندھ کر ان سے سات لاکھ ڈالر نکلوائے۔ سن 1994 میں پاکستان نے فرانس سے آگسٹا آبدوز خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ یہ ایک ارب ڈالر کی ڈیل تھی، اس میں بھی آصف علی زرداری کا نام آنے لگا۔ یہ کیس اس وقت دنیا بھر کی نظروں میں آ گیا، جب 2002 میں آگسٹا آبدوز پر کام کرنے والے 11 انجینیئرز ایک خود کش دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ فرانس میں تحقیقات ہوئیں تو یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ فرانس کے سیاست دانوں بلکہ سابق نیول چیف ایڈمرل منصور الحق کے اکاؤنٹس میں بھی بھاری رقم ٹرانسفر ہوئیں۔
آصف زرداری پر اتنے مقدمے بنے کہ اگر صرف ان پر بات کی جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق صرف صدر غلام اسحاق خان نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف 19 ریفرنسز بنوائے تھے، مگر ثابت ایک بھی نہیں ہو سکا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے تو مدر آف آل allegations لگا دیا، وہ مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو، دونوں کے قتل کا الزام آصف زرداری کے سر ڈالتے رہے۔
ان الزامات کی وجہ سے زرداری نے بہت لمبی قید کاٹی۔ وہ جی ایم سید کے بعد پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں، جنھوں نے لگ بھگ گیارہ سال جیل میں گزارے۔ کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اتنی بہادری سے جیل کاٹتے ہیں، اسی وجہ سے آصف زرداری کو ’’مرد حُر‘‘ بھی کہا جانے لگا اور ’’پاکستان کا منڈیلا‘‘ بھی۔
نواز شریف کے دور تو زرداری پر بہت مشکل گزرے۔ ان کے دونوں ادوار میں آصف زرداری ایک دن کے لیے بھی جیل سے باہر نہیں نکلے۔ یہی زمانہ تھا، جس میں جیل میں اُن کی زبان کاٹنے کا واقعہ بھی مشہور ہوا۔ مگر زرداری کی سیاسی ذہانت، مفاہمت اور لچک کا اندازہ لگائیں۔ آج وہ اسی نواز شریف کے ساتھ گلے ملتے دکھائی دیتے ہیں اور سیاسی مخالف ہونے کے باوجود آج بھی لفظی جنگ سے گریز کرتے ہیں۔
خیر، بات ہو رہی تھی آصف زرداری پر کیسز کی!
تو 2006 میں بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف سے این آر او لیا اور یوں زرداری سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمے ختم ہو گئے۔ مگر جب عمران خان کی حکومت آئی تو جیل ایک بار پھر آصف زرداری کی منتظر تھی۔ پندرہ سال بعد انھیں پھر جیل جانا پڑ گیا۔ الزام تھا جعلی اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ کا۔ یہاں تک کہ مشہور ماڈل گرل آیان علی بھی گرفتار ہوئیں، ان پر مقدمہ بھی چلا، لیکن وہ بری ہو گئیں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آیان علی کے پیچھے بھی آصف زرداری کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ perception is stronger than reality۔ اس لیے بے شک عدالتوں میں کرپشن ثابت نہیں ہوئیں، لیکن جتنا میڈیا پر چرچا ہوا، زرداری کی عالمی شہرت بہت خراب ہوئی۔ یہاں تک کہ 2010 میں جب بطور صدر برطانیہ گئے تو ایسے تبصرے ہوئے کہ زرداری سے ہاتھ ملانے کے بعد برطانوی وزیر اعظم کیمرون کو اپنی انگلیاں گن لینی چاہییں۔ اپریل 2023 میں نیدرلینڈز کے ایک اسکول کی کتاب ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہی جس طالب علموں کو مضمون لکھنے کے لیے دیا گیا کہ بتائیں آصف زرداری کو مسٹر 10 پرسنٹ کیوں کہا جاتا ہے؟ ڈچ حکومت نے اس خبر کی تصدیق بھی کی، لیکن جواز پیش کیا کہ اسکول اپنا نصاب بنانے میں آزاد ہیں۔
اس کے باوجود کتنی حیرت کی بلکہ ناقابلِ یقین بات ہے کہ نوّے کی دہائی سے آج تک زرداری پر کرپشن کے الزامات ہیں لیکن نہ ان کا نام پاناما لیکس میں آیا اور نہ پینڈورا لیکس جیسے اسکینڈل میں۔ حیرت انگیز طور پر یہاں اُن کا ریکارڈ بالکل صاف ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باقی سیاست دانوں کے مقابلے زرداری ذرا ہٹ کر سوچتے ہوں۔
ایک نیا الزام
صدارت کے آخری دنوں میں آصف زرداری پر ایک نئی قسم کا الزام لگا۔ افواہیں اڑنے لگیں کہ جب 2006 میں زرداری نیو یارک میں رہتے تھے تب انھوں نے ڈاکٹر تنویر زمانی نام کی ایک خاتون سے شادی کر لی تھی۔ یہ تک کہا گیا کہ تنویر سے ان کا ایک چار سال کا بیٹا بھی ہے، جس کا نام سجاول ہے۔ ہر طرف شور مچ گیا۔ اُس وقت کے صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر اور دوسرے پارٹی رہنماؤں نے اس خبر کی سختی سے تردید کی۔ اس ڈرامے کا ڈراپ سین تک ہوا جب ڈاکٹر تنویر زمانی کی دستاویزات سامنے آ گئیں۔ اس کے مطابق ان کے شوہر حیات ہیں اور وہ چار بچوں کی ماں ہیں۔
نیو یارک سے یاد آیا، ہمیں تو آپ کو اس فلیٹ کی کہانی بھی بتانی ہے جس میں زرداری تین سال رہے اور اسے منحوس فلیٹ کیوں کہا جاتا ہے؟
جب 2004 میں جنرل پرویز مشرف نے آصف زرداری کو رہا کیا تو وہ نیویارک چلے گئے۔ یہاں وہ جس فلیٹ میں رہے، وہ آصف زرداری بلکہ پوری پیپلز پارٹی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ ایک تو بقول ڈاکٹر تنویر زمانی، یہی وہ فلیٹ تھا جہاں ان کی آصف زرداری سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ اس اسکینڈل کو ایک طرف رکھ بھی دیں، تب بھی اس فلیٹ سے کچھ اور واقعات بھی جڑے ہیں۔ ایک تو الیکشنز 2018 کے لیے جب آصف زرداری نے الیکشن کمیشن میں کاغذات جمع کروائے اور اپنے اثاثوں کی details دیں تو اس فلیٹ کا ذکر گول کر دیا۔ اس پر سیاسی مخالفوں خاص طور پر پی ٹی آئی نے انھیں نشانے پر رکھ لیا۔ آصف زرداری کو تب بڑی شرمندگی اٹھانا پڑی، جب نیو یارک کے محکمہ خزانہ نے تصدیق کر دی کہ یہ فلیٹ زرداری کی ہی ملکیت ہے۔ ریکارڈ کے مطابق یہ اپارٹمنٹ 20 جون 2007 کو خریدا گیا، لیکن باقاعدہ رجسٹریشن سات دسمبر 2007 کو ہوئی، یعنی بے نظیر بھٹو کی شہادت سے صرف 20 دن پہلے۔
ویسے کچھ عرصہ بے نظیر بھی اس فلیٹ میں رہی تھیں۔ 25 اپریل 2008 کو کراچی کے اخبار ’’دی نیوز‘‘ میں ایک خبر شائع ہوئی کہ اس فلیٹ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ جس نے بھی اسے خریدنے کی کوشش کی یا خرید لیا وہ زندہ نہیں بچ سکا۔ اس اپارٹمنٹ کو خریدنے کے بعد کچھ ہی عرصے میں بے نظیر بھٹو کی شہادت ہو گئی۔ سابق مالکن سیما بوئسکی نے بھی انکشاف کیا کہ یہ اپارٹمنٹ ان کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس فلیٹ کی خریداری کی تمام ڈیل انہوں نے بے نظیر بھٹو سے کی تھی۔
خیر، 10 اکتوبر 2006 کو اس بلڈنگ میں رہنے والوں پر لرزہ طاری ہو گیا جب ایک چھوٹا طیارہ عمارت سے ٹکرا گیا، اس حادثے میں چار افراد ہلاک ہوئے۔ سیما بوئسکی کے مطابق بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد وہ یہ بات سوچتی رہیں کہ یہ فلیٹ خاصا منحوس ثابت ہوا۔
بے نظیر کے بعد
آصف زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوانی سے آج تک اپنی سیکیورٹی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب نوجوان تھے تو اپنی پسٹل ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ اپنے دوستوں کو سندھی کہاوت سنایا کرتے کہ ’’کوہاڑو‘‘ یعنی کلہاڑی مناسب وقت کے لیے ہمیشہ تیار رکھو۔ ویسے تو یاروں کے یار مشہور ہیں، لیکن آج جب پارٹی اُن کے ہاتھ میں ہے تو بے نظیر بھٹو کے کئی قریبی ساتھی پارٹی سے دوری پر مجبور ہیں۔ صفدر عباسی، ناہید عباسی، سردار عبد اللطیف کھوسہ، ذوالفقار مرزا سمیت اور بھی کئی نام ہیں۔
آصف زرداری پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ جس وصیت پر وہ پارٹی چیئرمین بنے، وہ جعلی ہے۔ یہ الزام لگانے والوں میں بے نظیر بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی مرحوم امین فہیم بھی پیش پیش تھے۔ لیکن یہ آصف زرداری جیسے ذہین دماغ کا کمال ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دنیا سے چلے جانے کے باوجود پارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ورنہ کہا جا رہا تھا کہ اب پارٹی بکھر جائے گی۔
ایک زرداری سب پہ بھاری
بہرحال، 9 ستمبر 2008ء کو آصف زرداری نے پاکستان کے صدر بنے۔ پہلی بار ایوان صدر میں ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کا نعرہ پوری قوت سے لگا۔ اُس دور میں آصف زرداری کرپشن کے الزامات سے بڑی حد تک محفوظ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ مخالف سیاسی پارٹیوں سے بھی تعلقات خراب نہیں ہونے دیے یہاں تک کہ خود اپنے اختیارات کم کر لیے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلے منتخب صدر بنے، جنہوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کر کے صوبائی خود مختاری میں اضافہ اُن کا بڑا سیاسی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔
زرداری کا ایک نعرہ
اس مقام تک پہنچنے کے لیے زرداری کو بڑی قربانی دینا پڑی۔ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ پورے ملک پر لرزہ طاری ہو گیا۔ سندھ میں تو لوگ غم و غصے میں آپے سے باہر ہو گئے۔ بسیں، ریلوے اسٹیشن، سرکاری عمارتیں، گاڑیاں جو ہاتھ لگا اسے آگ لگا دی۔ اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں۔ ایسا لگ رہا تھا خدانخواستہ سندھ سے بھی علیحدگی کی آوازیں آ رہی ہیں۔ ان بدترین حالات اور انتشار کے ماحول میں یہ آصف زرداری ہی تھے جو میدان میں آئے۔ لوگوں کو سمجھایا کہ دکھ بہت بڑا سہی، لیکن پاکستان کو بچانا ہے۔ انھوں نے ’’پاکستان کھپے‘‘ یعنی ’’پاکستان چاہیے‘‘ کا تاریخ ساز نعرہ لگا کر عوام کے جذبات کو قابو کیا۔
ماننا پڑے گا کہ ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ آصف زرداری کا ملک پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس ایک نعرے پر ان کے سارے گناہ معاف کیے جا سکتے ہیں کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں!