بہت مشکل وقت تھا وہ جب ماں نویں جماعت کا رزلٹ تھامے سر پکڑے بیٹھی تھی۔ وہ مارکس کم آنے، پوزیشن گر جانے کا سبب پوچھ رہی تھی۔ مگر نوجوان خاموش تھا۔ بولتا بھی تو کیا کہ اِس بالی عمر میں جناب عشق فرما رہے ہیں؟ سونے پہ سہاگا جس لڑکی سے عشق لڑا رہے تھے وہ انگلش سے ناواقف تھی اور لڑکے کو بہت اچھی اردو نہیں آتی تھی۔ مگر وہ عشق ہی کیا جس میں دوستوں کی مدد شامل نہ ہو۔
ہوا یوں کہ ایک دوست۔ لڑکی کے اردو میں لکھے خطوط انگلش میں ترجمہ کر کے لڑکے کو سُناتا اور لڑکے کی انگلش کو اردو میں ترجمہ کر کے۔ خط لڑکی تک پہنچا دیا جاتا لیکن عاشقوں کی داستان میں اِس سے بھی مزے دار بات خط بھیجنے کا نرالا طریقہ تھا۔
لڑکی پڑوس میں ہی رہتی تھی۔ لڑکا اکثر نانی اماں کے پاس جا کر انہیں بار بار پڑوسیوں کے گھر جانے کے لیے مجبور کیا کرتا۔ اور جب نانی اماں راضی ہو جاتی تو ان کا برقعہ خود لا کر انہیں دیا کرتا۔ نانی اماں پڑوس جا کر آرام سے بیٹھ کر پڑوسیوں سے گفتگو فرماتیں تو لڑکی ان کا یہ عبایا کھوٹی پر ٹانگنے لے جاتی۔ نہیں سمجھے؟ ارے بھئی لڑکا برقعے میں خط رکھ دیا کرتا تھا۔ اور وہاں سے لڑکی خط وصول کرلیتی۔ یعنی نانی اماں انجانے میں عاشقوں کے لیے پیمبر بنی ہوئی تھیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں کا عشق نئی منزلوں پر پہنچ رہا تھا مگر پھر کراچی کے اِس لڑکے کے والدین ناظم آباد نمبر تین سے گھر شفٹ کر کے گارڈن روڈ آ گئے۔ اِس دوری نے لڑکے کے ذہن پر سوار۔ عشق کا بخار بھی اتار دیا۔ لیکن ٹھہریے! عاشق مزاجی ختم نہیں ہوئی۔ اب اِس محلے میں لڑکے کو ایک خوبصورت بنگالی لڑکی نظر آئی اور موصوف پھر عشق فرمانے لگے۔ والدہ کو شک پڑا تو اِس عاشق مزاج لڑکے کے کرتوت اور چالاکیاں دیکھتے ہوئے اُسے فوج میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اور پھر ایک دن وہ لڑکا پاکستان کی تاریخ کا سب سے طاقتور آرمی چیف بن گیا۔ اس کا نام تھا، ’’جنرل سید پرویز مشرف‘‘!
پرویز مشرف کی ایک شخصیت کے بھی کئی رنگ تھے۔ وہ شرارتی بھی تھے اور سنجیدہ بھی۔ فراست فہم بھی تھے اور جذباتی بھی۔ عاشق مزاج بھی تھے اور جنگجو بھی۔ سخت جان بھی تھے اور نرم بھی۔ ڈبیٹر بھی تھے اور ڈکٹیٹر بھی۔ وردی میں بھی تھے اور صدر بھی۔ کراچی والے بھی تھے اور پنڈی بوائے بھی۔ محب وطن بھی تھے اور غدار بھی۔ ہیرو بھی تھے اور ولن بھی۔
آخر وہ تھے کون؟ میدانِ جنگ میں اگلی صفوں میں لڑنے والا مشرف یا این آر او دے کر پچھلی صفوں میں چھپنے والا مشرف؟ دہشت گردی کے خلاف مشرف یا خود دہشت کی علامت مشرف؟ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والا یا امریکا کے سامنے بچھ جانے والا مشرف؟ وطن کے لیے مَر مِٹنے والا مشرف یا دیار غیر میں مرنے والا مشرف؟
پرویز مشرف کی زندگی پڑھنے میں مجھے کافی وقت لگا۔ لیکن آپ کو سمجھانے کے لیے میں نے اِس تحریر کو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
- وہ کون تھا؟ جس نے مشرف کو آرمی چیف لگوایا؟
- وہ کونسا پہلا آرمی چیف تھا جس نے سویلین کے سامنے سرینڈر کر دیا؟
- نواز شریف کو مشرف کی کیا ادا پسند آئی تھی؟ اور پھر ایسا کیا ہوا تھا کہ
- مشرف اور نواز شریف ایک دوسرے کے دشمن بن گئے؟
- یہ سب آپ جان سکیں گے اس سلسلے میں آگے آنے والے حصوں میں۔
تو مشرف کے عروج و زوال کی داستان شروع کرنےسے پہلے میں آپ کو یہ قصہ سنانا چاہتا ہوں۔
آزادی سے بربادی تک
گہری اندھیری رات، سیاہ ترین آسمان، ہاتھوں کو ہاتھ نظر نہیں آ رہا۔ مگر کانوں میں مسلسل ٹرین کی چُھک چُھک سنائی دے رہی ہے۔ یہ ٹرین زندگی کی طرف بھاگ رہی ہے لیکن ڈر ہے کہ کب موت راستہ روک لے۔ لُٹے ہوئے، بھوکے پیاسے انسان ٹرین کی چھت تک لدے ہوئے ہیں۔ کچھ سہمے ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو سہمے ہوئے بچوں کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
اِنہی میں ایک چار سال تین دن کا بچہ بھی موجود ہے۔ یہ بچہ گیارہ اگست 1943 کو اپنے پردادا خان بہادر قاضی محی الدین کی نہر والی حویلی میں پیدا ہوا جو دلی کے ڈپٹی کلیکٹر تھے۔ اِس بچے کا خاندان بھی ہندوستان میں سب چھوڑ چھاڑ کر آزادی کی طرف بھاگ رہا ہے۔ ایک آزاد وطن کی طرف۔ اور 56 سال بعد وہ بچہ اسی آزاد وطن کو آمریت میں جکڑ لیتا ہے۔
جی ہاں! وہ بچہ تھا پرویز مشرف!
باقی مہاجرین کی طرح ان کا خاندان بھی کراچی آ کر بستا ہے۔ چونکہ پرویز مشرف کے والد سید مشرف الدین وزارت خارجہ میں اکاؤنٹنٹ لگتے ہیں اسی لیے یہاں اِنہیں جیکب لائن میں دو کمروں کا پُرانا سا کوارٹر ملتا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے والدین سمیت خاندان کے 18 افراد اِن دو کمروں میں جیسے تیسے گزارا کرتے ہیں۔
بلکہ ایک رات کا واقعہ یاد آگیا۔
پرویز مشرف نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے صوفے کے پیچھے ایک شخص کو چھپا ہوا دیکھا۔ وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے مگر ذہین ضرور خاموشی سے پلٹے اور سیدھا جا کر والدہ کو بتایا کہ صوفے کے پیچھے چور چھپا بیٹھا ہے۔ والدہ نے شور مچا دیا۔ مشرف کے والد تو ترکی جا چکے تھے البتہ اریب قریب سے لوگ دوڑے چلے آئے اور چور کو پکڑ لیا۔ ان دنوں مشرف کے گھر میں کوئی قیمتی سامان نہیں تھا جو تھا وہ چور لے جا رہا تھا اور وہ تھی صرف ایک کپڑوں کی گٹھڑی۔
چور نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ بتایا کہ وہ کئی روز سے بھوکا ہے۔ اتنی دیر میں پولیس بھی پہنچ چکی تھی۔ چور کو ساتھ لے جانے کے لیے اہلکار آگے بڑھے مگر مشرف کی والدہ نے روک دیا۔ پولیس سے کہہ دیا کہ یہ چور نہیں۔ اس شخص کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اور جانے دیا۔
خیر یہ واقعہ اپنی جگہ مگر آگے چل کر میں آپ کویہ بھی بتاؤں گا کہ پرویز مشرف نے بے نظیر زرداری اور نواز شریف کو NRO دے دیا تھا۔
پرویز مشرف تھک کر چور بستر پر لیٹتے تو وہ کون تھی جو مشرف کے خوابوں میں آیا کرتی؟ یہ آپ جان سکیں گے لیکن پہلے یہ جانیے کہ دلی سے لیکر کراچی تک پرویز مشرف کی والدہ زرین اپنے شوہر مشرف الدین کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ وہ دلی میں اسکول ٹیچر تھیں۔ بلکہ پرویز مشرف بتاتے ہیں کہ وہ پیسے بچانے کے لیے تانگے کے بجائے پیدل اسکول آیا جایا کرتیں۔ اور جو پیسے بچتے اس سے بچوں کے لیے پھل خرید لیا کرتیں۔ کراچی آ کر وہ کورنگی کریک کسٹمز میں ملازمت کرنے لگیں۔ مگر پھر کراچی آمد کے دو سال بعد ہی مشرف کے والد کی تعیناتی ترکی کے پاکستانی سفارتخانے میں ہو گئی اور وہیں والدہ ٹائپسٹ کی جاب کرنے لگیں۔
یہاں مشرف اور ان کے خاندان نے سات سال گزارے۔ واپس کراچی آ کر ناظم آباد نمبر تین میں مکان خرید لیا۔ مشرف یہاں سینٹ پیٹرک اسکول میں پڑھتے تھے۔ ترکی میں رہنے کی وجہ سے انہیں اردو بالکل نہیں آتی تھی۔ مگرجب یہاں آٹھویں جماعت میں اردو کے امتحان میں فیل ہوئے تو والدین نے توجہ دے کر مشرف کی اردو بہتر کروائی مگر پھر بھی ان کی اردو اتنی اچھی نہیں ہوئی تھی کہ محبوبہ کو خط لکھ سکتے۔
محبوبہ سے یاد آیا ویڈیو کے شروع میں۔ میں نے ذکر کیا تھا کہ انہیں ایک بنگالی دوشیزہ سے محبت ہو گئی تھی۔ اب مشرف صاحب کی عاشق مزاجی کا لیول چیک کیجیے۔ 1961 میں جناب کا اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخلہ ہوا تو سینئر کیڈٹس کی جانب سے درگت بنائے جانے کے بعد پہلی ہی رات جانتے ہیں انہیں خواب میں کون آیا؟ وہی بنگالی محبوبہ۔ جبکہ سیکنڈ لیفٹیننٹ بننے کے بعد انہوں نے 36 لائٹ اینٹی ایئر کرافٹ کا انتخاب بھی اسی لیے کیا تاکہ انہیں کراچی جانا پڑے اور وہ اپنی بنگالی محبوبہ سے مل سکیں۔ مگر وہ ہاتھ سے نکل چکی تھی۔!
خیر ہاتھ سے تو ان کی فوج کی نوکری بھی نکل جاتی۔ ان کے لا ابالی پن کی وجہ سے یوں سمجھ لیں کہ 1965 میں بھارت نے حملہ کر کے پرویز مشرف کا کورٹ مارشل ہونے سے بچا لیا۔
قصہ یوں ہے کہ سیکنڈ لیفٹیننٹ بننے کے بعد پرویز مشرف کی پوسٹنگ چھانگا مانگا ہو گئی۔ اب پنجاب کے آفیسر تو چند گھنٹوں میں اپنے گھرسے ہو کر آ جاتے تھے لیکن مشرف کو کراچی آنے کے لیے لمبی چھٹی چاہیے تھی۔ مشرف نے درخواست دی مگر کمانڈنگ آفیسر نے رد کر دی۔ مشرف کو طیش آیا اور ٹرین پکڑ کر سیدھے کراچی چلے آئے۔ سینئرز نے سمجھایا بھی کہ وہ مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ مگر مشرف نے پورے آٹھ دن کراچی میں Chill کیا اور واپس پہنچے تو اُدھر جناب کے کورٹ مارشل کی تیاریاں جاری تھیں۔
مگر قسمت کی دیوی مہربان۔ بھارت نے حملہ کر دیا اور 65 کی جنگ شروع ہو گئی۔ مشرف بھی آگے بڑھ کر الگ الگ محاذوں پر لڑے۔ دشمن کی سرزمین میں گھس کر کھیم کرن کے پندرہ میل رقبے تک قبضہ کر لیا۔ اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ اس بہادری پر انہیں دو الگ الگ انعام ملنا تھے لیکن ہوا یوں کہ ایک تمغہ ملا اور دوسرا انعام یہ تھا کہ ان کے خلاف کورٹ مارشل کا مقدمہ ختم کر دیا گیا۔
- نواز شریف نے موسٹ سینئرز کو چھوڑ کر پرویز مشرف کا نام کیوں سلیکٹ کیا؟
- نواز شریف کو آرمی چیف کی ایسی کیا بات بری لگ گئی کہ ان کی چھٹی کر دی؟
یہ سب آپ جان سکیں گے اگلے حصے میں۔
سپاہی سے چیف تک
5اکتوبر1998 کی شام۔ وزیراعظم ہاؤس میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ نوازشریف تیز تیز قدم بڑھا کر اِدھر سے اُدھر ٹہل رہے ہیں۔ دھڑکن خوف کے مارے بڑھتی جارہی ہے۔ اُدھر پیپلزپارٹی اور باقی اپوزیشن خوشیاں منارہی ہے۔ اِدھر نوازشریف کا چہرہ غصے سے سُرخ ہے اور وہ گہری سوچ میں ہیں۔ حالانکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری کو عہدوں سے فارغ کر کے وہ قانونی جنگ جیت چکے ہیں۔ پھر کس کا خوف؟ یہ سمجھنے کےلیے اِسی روز صبح کیا ہوا، یہ جاننا ہوگا۔
آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت لاہور کے نیول کالج کی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ لیکن وہ اچانک حکومت کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ ملک کے اعلیٰ ترین فیصلوں میں فوج کو بھی شامل کیا جائے، ایک نیشنل سیکیورٹی کونسل بننی چاہیے۔ بس اسی بیان سے نواز شریف کو بغاوت کی بُو آنے لگی اور بالآخر انہوں نے فیصلہ کرلیا۔
آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو وزیراعظم ہاؤس بلوالیا، اکیلے کمرے میں لیکر گئے اور کہا، ’’جنرل صاحب! آپ استعفیٰ دے دیں۔ ‘‘ یہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا تھا کہ ایک وزیراعظم۔ آرمی چیف سے استعفیٰ مانگ رہا تھا۔ اور یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ چوبیس گھنٹے سے کم وقت میں جہانگیر کرامت نے پاکستان کی سب سے طاقتور کُرسی چھوڑ دی۔
نہیں پلیز! آپ عمران باجوہ دور کی مثال نہیں دیجیے گا۔ اگر آپ ایسا کچھ کمنٹ کرنے والے ہیں تو میں پہلے ہی جواب دے دوں کہ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف باجوہ کو برطرف کرنے کی خبروں کی تردید کر دی تھی۔
نواز شریف کا امتحان ابھی باقی تھا کیونکہ آرمی چیف کی کُرسی خالی ہے۔ انہیں تلاش تھی یَس سر کہنے والے آفیسر کی اور ان کی ٹیبل پر تین نام تھے۔ پہلا لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان جو کہ موسٹ سینئر تھے، دوسرا لیفٹیننٹ جنرل خالد نواز خان اور تیسرا نام تھا لیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف کا۔
علی قلی خان کی فاروق لغاری سے یاری تھی اور دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے۔ پہلے سے ڈرے ہوئے نواز شریف کے لیے یہ نام تو بالکل قابل قبول نہ تھا۔ جبکہ چوہدری نثار علی خان کے بھائی افتخار علی خان جو کہ سیکریٹری دفاع تھے۔ انہوں نے بھی علی قلی خان کے نام پر مخالفت کی تھی۔ نواز شریف لیفٹیننٹ جنرل خالد نواز خان پر بھی متفق نہ ہوئے۔ پرویز مشرف کے نام پر آ کر رکے لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ان سے متعلق رپورٹ ٹھیک نہیں تھی۔
ایجنسیز نے نواز شریف کو خبردار کیا تھا کہ پرویز مشرف جذباتی آدمی ہیں۔ مگر پھر ایسا کیا ہوا۔ کہ پنجابی زبان کی بے ساکھیوں پر کھڑے سیاستدان کو مہاجر، اردو اسپیکنگ، کراچی کا لڑکا۔ اور اوپر سے فوجی پرویز مشرف آرمی چیف کی کرسی کے لیے پسند آگئے۔ کیوں؟ وہ بھی بتاتا ہوں۔ لیکن پہلے آگے کی کہانی جانتے ہیں۔
جنرل کرامت کی متنازع تقریر کے دو دن بعد یعنی 7 اکتوبر کی شام۔ منگلا میں پرویز مشرف اپنی اہلیہ صہبا کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ فون آتا ہے، ’’مشرف صاحب! آپ فوراً پرائم منسٹر ہاؤس پہنچیے۔‘‘
اِس بات سے بے خبر مشرف کہ ان کے چیف استعفیٰ دے چکے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ملٹری سیکریٹری کو جواب دیتے ہیں۔ میں اپنے چیف کو بتا کر آتا ہوں۔ ملٹری سیکریٹری نے کہا، ’’ نہیں! یہ انتہائی خفیہ ہے۔ آپ کسی کو بھی بتائے بغیر آئیے ‘‘۔ مشرف اپنا گلاک 17 پستول لیتے ہیں اور ملٹری پولیس کے ساتھ اسلام آباد کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
راستے میں انہیں ایک دوست بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا فون آتا ہے۔ جو لاہور میں آئی ایس آئی کے مقامی شعبے میں تعینات تھے۔ اعجاز شاہ پرویز مشرف کو مبارکباد اور خبر دیتے ہیں۔ کہ آپ کو آرمی چیف بنایا جا رہا ہے، جنرل کرامت نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
مشرف پی ایم ہاؤس میں داخل ہوتے ہیں تو نواز شریف صوفے پر بیٹھے ان کے منتظر تھے اور انکے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ پرویز مشرف اپنی کتاب ’’ان دا لائن آف فائر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل کرامت نے جس بودے پن سے استعفیٰ دیا اس سے فوج میں سپاہی اور آفیسر دونوں کو تذلیل محسوس ہوئی۔
نواز شریف نے پرویز مشرف کو ’’یس سَر‘‘ کہنے والا سمجھ کر سپہ سالار کی چھڑی تو تھما دی مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ پرویز مشرف اِسی چھڑی کو ان کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کا ذکر آگے چل کریں گے ابھی آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ وہ کون تھے جن کی رائے کے سامنے نواز شریف نے انٹیلی جنس ایجنسی کے مشورے کو بھی ویلیو نہیں دی۔ وہ تھے یہ صاحب، مہران بینک کے ڈائریکٹر حامد اصغر قدوائی!
صحافی حامد میر لکھتے ہیں کہ قدوائی نواز شریف کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہی رہتے تھے اور پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کے لیے لابنگ کر رہے تھے۔ دوسری جانب پرویز مشرف کہتے تھے کہ جب انہوں نے نواز شریف سے پوچھا کہ مسٹر پرائم منسٹر! آپ نے میرا نام ہی سلیکٹ کیوں کیا؟ تو نواز شریف نے جواب دیا کہ آپ وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹلی مجھ تک کوئی سفارش نہیں بھجوائی۔
- پھر ایسا کیا ہوا کہ نواز شریف نے امریکی صدر سے کہا کہ وہ ڈبے میں بند ہو گئے ہیں؟
- فوجیوں نے نواز شریف کو ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ انہیں قائد اعظم بننے کے خواب آنے لگے؟
- بے نظیر نے مشرف کو کیا کہہ کر چڑا دیا تھا؟
یہ سب آپ جان سکیں گے اگلے حصے میں!
کارگل وار
ماضی میں چلتے ہیں۔ ابھی مشرف آرمی چیف نہیں بنے وہ ڈی جی ایم او ہیں اور ان کے پاس، کشمیر کی آزادی کا پلان ہے۔ میٹنگ کی سربراہی ایئرچیف مارشل فاروق فیروز خان کر رہے ہیں۔ مگر مشرف وردی والوں کے درمیان جن کے سامنے پلان پیش کرر رہے ہیں، وہ ہیں دوسری بار وزیر اعظم بننے والی بے نظیر بھٹو۔
لمبا چوڑا پلان سُننے کے بعد بے نظیر بھٹو پوچھتی ہیں۔ تو پھر کیا ہوگا جب آپ سری نگر لے لیں گے؟ مشرف جواب دیتے ہیں پھر ہم سری نگر کی اسمبلی پر پاکستانی پرچم لہرائیں گے۔ بے نظیر پوچھتی ہیں پھر کیا ہوگا جب آپ سری نگر پر پاکستانی پرچم لہرائیں گے؟ مشرف کہتے ہیں پھر آپ یونائیٹڈ نیشن جائیے گا اور بتائیں کہ ہم نے سری نگر حاصل کرلیا ہے۔ بے نظیر پھر پوچھتی ہیں اس سے کیا ہوگا؟ مشرف کہتے ہیں پھر آپ ان سے کہیں کہ نقشے میں جغفرافیہ چینج کریں۔ بے نظیر پھر کہتی ہیں تو اس سے کیا ہوگا؟ مشرف چڑ جاتے ہیں اور بولتے ہیں محترمہ آپ مجھ سے کیا کہلوانا چاہتی ہیں؟ ہم بازی جیت چکے ہوں گے۔ بے نظیر لقمہ دیتی ہیں، ’’نو جنرل، اگر یونائیٹڈ نیشن نے ہم سے Go Back کہہ دیا تو؟ اور نہ صرف سری نگر بلکہ آزاد کشمیر بھی خالی کرنے کو کہہ دیا تو؟‘‘ بے نظیر کہتی ہیں انہوں نے ’’نو‘‘ کہہ کر پلان پر عمل روک لیا ورنہ اس وقت وہاں موجود پوری فوجی قیادت مشرف کی ہم خیال تھی۔
اب اسی واقعے کو ذہن میں رکھتے ہوئے آگے آ جائیے۔ پرویز مشرف آرمی چیف بن چکے ہیں۔ اب ان کے پاس پاور بھی ہے اور اتھارٹی بھی۔ انہیں لگتا ہے وہ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ سری نگر پر پاکستانی پرچم لہرانے کا وہ خواب جو بے نظیر نے شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ وہ اب پورا ہو سکتا تھا۔ بس موقع کا انتظار تھا اور وہ بھی مل ہی گیا۔
ابھی پرویز مشرف آرمی چیف بنے ہی تھے کہ اُسی مہینے کارگل میں بھارت کو گھس کر مارنےکا پلان ان کی ٹیبل پر تھا اور سامنے تین کمانڈرز۔ پلان بنانے والے ایف سی این اے کے کمانڈر میجرجنرل جاوید حسن، ان کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان اور ٹین کور کے کمانڈر جنرل محمود جو پلان پر پہلے ہی قائل ہو چکے تھے۔ جنرل جاوید حسن نے آرمی چیف سے کہا کہ امریکا بھارتیوں سے پہلے ہی نفرت کرتا ہے۔ اس جنگ میں وہ ہمارا ساتھ دے گا۔ پرویز مشرف نے تاکید کی کہ کوئی فوجی بھارتیوں کے ہاتھ نہ لگے۔ یوں آرمی چیف نے حکومت اور آئی ایس آئی کو آن بورڈ لیے بغیر آپریشن ’’کوہِ پیما‘‘ کی منظوری دے دی۔
یہاں پر کارگل آپریشن کا تھوڑا بیک گراؤنڈ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل 1984 میں بھارت نے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاچن کے ایک بڑے گلیشیئر پر قبضہ کرلیا تھا۔ پاکستانی فوج میں شدید غصہ تھا۔ بدلہ لینے کے لیے بار بار پلان بن رہے تھے اور مسترد بھی ہو رہے تھے۔ لیکن اس بار تمام ہم خیال اکٹھا تھے۔ چاروں جنرلز نے اس کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔ سیاستدان تو دور فوج کی باقی قیادت کو بھی اس آپریشن کا علم نہیں تھا۔ اُدھر مائنس بیس ڈگری میں رہنے والے جوانوں کو ایکٹیو کر دیا گیا۔
18 دسمبر 1998
چاروں طرف اندھیرا۔ سفید برف، گھمبیر سناٹا اور خون جما دینی والی سردی۔ ہاتھ میں چھوٹے ہتھیار، خشک میوہ اور ایک خیمہ لیے 6 افراد لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارتی سرزمین پر آ جاتے ہیں۔ یہ تھے کیپٹن ندیم، کیپٹن علی، حوالدار لالک جان اور ان کے ساتھ تین افراد۔ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ لائن آف کنٹرول پار کر کے بھارتی علاقے میں ریکی کریں۔
تین دن کی ریکی کے بعد انہوں نے اطلاع دی کہ سارا علاقہ خالی پڑا ہے۔ دشمن کا دور دور تک پتہ نہیں۔ صرف برف ہی برف ہے۔ اگلا حکم ملا کہ اب دو سو آدمیوں کے لیے اسلحہ اور خوراک اکھٹی کی جائے کیونکہ اگلا قدم تھا لائن آف کنٹرول کے پار جا کر دشمن کے خالی علاقوں میں پاکستانی چوکیاں قائم کرنا۔
پلان کے مطابق سب ٹھیک چل رہا تھا۔ دشمن کے علاقے میں چوکیاں بنائی جانے لگیں۔ اِدھر فوج بھارت سے جنگ کی تدبیریں کر رہی تھی اور اُدھر نواز شریف بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے بغل گیر ہوئے چلے جا رہے تھے۔
آزادی کے بعد پہلا موقع تھا کہ پاکستان اور بھارت شیر و شکر ہوئے۔ واجپائی لاہور میں مینار پاکستان آئے اور دہلی تک بس چلانے کے پلان کا بھی بتایا۔ مگر دوسری طرف سرحد پر بارود کی بُو کا اندازہ ابھی کسی کو نہیں تھا۔ پاکستانی جوان بھارتی علاقوں میں سو سے زائد چوکیاں قائم کرچکے تھے۔ البتہ پرویز مشرف اپنی کتاب ’’ان دا لائن آف فائر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ چوکیاں لائن آف کنٹرول کے اندر قائم کی گئی تھیں، اگلے مورچوں پر تو مجاہدین گئے تھے۔ مگر اس بات سے کوئی متفق نہیں۔
پلان کے مطابق جوانوں کی چوکیاں تو بنادی گئیں مگر اتنی زیادہ تعداد میں خوراک پہنچانا ممکن نہ تھا۔ اکتوبر کے آخر میں شروع ہونے والی کارروائی مئی کے پہلے ہفتے میں داخل ہو چکی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی۔ لیکن پھر ایک روز چوکیاں بناتے ہوئے جوانوں نے ایک چرواہے کو بھارتی علاقے میں گزرتے دیکھا جس کے پاس شکاری کتے بھی تھے۔ جوانوں کو اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا مگر بعض کا خیال تھا کہ ان کے پاس پہلے ہی خوراک کم ہے وہ خود کھائیں گے یا جانوروں کو کھلائیں گے۔ چرواہا جانوروں کے ساتھ بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔ اِس جانے دینا درست نہ تھا۔ کیونکہ وہ صرف چرواہا نہیں بلکہ بھارتی فوج کا انفارمر بھی تھا۔
اگلے ہی روز ایک بھارتی ہیلی کاپٹر، کافی نیچے اڑ کر پاکستانی چوکیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ جوانوں نے ہیلی کاپٹر پر میزائل داغنے کی اجازت مانگی مگر ہائی کمان نے روک دیا۔ دراصل آپریشن کی پلاننگ کرنے والوں کا خیال تھا کہ جون میں برف پگھلنے کے بعد ہی بھارتی فوج کو انفلٹریشن کا پتہ چلے گا اور تب تک پاک فوج کے جوان مکمل قبضہ کرچکے ہوں گے۔ ویسے خیال غلط بھی نہیں تھا۔ کیونکہ بھارتی فوج ان دنوں لداخ میں چڑیا گھر بنانے میں مصروف تھی۔
اب دشمن نے بھرپور طاقت سے حملہ کر دیا۔ اسپیشل بوفور توپوں سے پاکستانی چوکیوں پر گولے برسائے مگر پاکستانی جوان بھرپور مزاحمت کر رہے تھے۔ معاملات قابو میں نہ آئے تو بھارتی فضائیہ نے بم گرانے شروع کر دیے۔ لیکن اب کارگل میں چھڑنے والی جنگ خفیہ نہیں رہی تھی۔ دھماکوں کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی تھی۔ اور پھر دوست بن کر لوٹنے والے بھارتی وزیر اعظم نے دشمن بن کر نواز شریف کو فون گھما دیا۔
نواز شریف کے پیروں تلے زمین نکل رہی تھی وہ اپنی عقل پر ہاتھ مار رہے تھے کہ اتنا سوچ بچار کر کے انہوں نے آرمی چیف لگایا تھا مگر جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ انہوں نے فوراً مشرف کو فون گھمایا۔ آرمی چیف پرویز مشرف نے درخواست کی کہ وہ پنڈی آئیں انہیں ایک بریفنگ میں معاملہ سمجھایا جائے گا۔ نواز شریف دوڑے دوڑے پنڈی پہنچے۔ اب یہاں وزیر اعظم اور باقی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ فضائیہ اور نیول چیف نے بھی لاعلم رکھنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
مگر نواز شریف نے پرویز مشرف کو کیوں نہ ہٹایا؟ ابھی آپ سمجھ جائیں گے۔
اب گلی میٹنگ 17 مئی 1999 کو اوجڑی کیمپ میں ہوتی ہے۔ مشرف سمیت پلاننگ کرنے والے چاروں جنرلز نواز شریف کو سمجھا رہے تھے کہ وہ کامیابی کے قریب ہیں۔ لیکن نواز شریف کا موڈ ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ ایسے میں چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان کھڑے ہوئے اور نواز شریف سے کہا، ’’مسٹر پرائم منسٹر! اگر یہ آپریشن کامیاب ہو گیا تو تاریخ میں آپ کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ قائد اعظم کے بعد آپ کو ہی فاتح کشمیر کے نام سے یاد کیا جائے گا۔‘‘ بس پھر کیا تھا، نواز شریف پھولے نہ سمائے۔ مسکرا کر پوچھا، ’’آپ نے یہ نہیں بتایا کہ سری نگر پر پاکستانی پرچم کب لہرائے گا۔‘‘
اب تو وہ خود آرمی چیف کے ساتھ جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کارگل پہنچ چکے تھے۔ ٹینشن کا ماحول آرمی چیف اور وزیر اعظم کے درمیان ختم ہوا تھا مگر دھیان رہے جنگ کی وجہ سے دنیا میں بھر میں ٹینشن بڑھ رہی تھی کیونکہ پاکستانی جوانوں نے جنگ دراس سیکٹر تک پھیلا دی تھی۔
پاک فوج کے جوان دشمن کو گھر میں گھس کر مار رہے تھے۔ بھارت کے مگ طیارے، ہیلی کاپٹرز گر کر تباہ ہو رہے تھے۔ مگر کب تک؟ مسئلہ تھا پاکستانی افواج کو خوراک اور اسلحے کی سپلائی جاری رکھنا۔ جو بھارت نے فضائیہ کے ذریعے منقطع کرنا شروع کر دی تھی۔ اُدھر پاکستانی فضائیہ بھی جواب دینے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ مگر پھر ساری کہانی ریورس ہونے لگی۔ چین، روس اور امریکا۔ پاکستان پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے لگے۔
اب پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہو رہا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی دوڑیں لگنے لگیں۔ انہوں نے چین کا دورہ کیا۔ مگر ساتھ نہ ملا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو لگنے لگا کہ یہ جنگ بند کرنا ہوگی۔ مدد کے لیے انہیں واشنگٹن نظر آ رہا تھا۔ 4 جولائی کو امریکا جانے سے پہلے انہوں نے آرمی چیف پرویز مشرف کو فون کیا اور فوری طور پر اسلام آباد ایئر پورٹ بلایا۔ مشرف پہنچے تو سوال کیا کہ کیا ہمیں جنگ بندی اور پسپائی قبول کر لینی چاہیے؟ مشرف نے جواب دیا جنگ کی صورتحال ہمارے حق میں ہے لیکن سیاسی فیصلہ آپ کا اپنا ہوگا۔
یہ سُننے کے بعد نواز شریف امریکا کے لیے اُڑ گئے وہاں بڑی مشکل سے امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات کا وقت ملا۔ یہاں ون آن ون ملاقات میں ایک شخص اور تھا۔ جو کونے میں بیٹھا میٹنگ کے نوٹس لے رہا تھا۔ وہ تھے امریکی پریذیڈنٹ کے ایڈوائزر بروس ریڈل۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اس ملاقات کا حال بتایا۔ نواز شریف نے امریکی صدر کلنٹن سے کہا I am in a box۔ کلنٹن ریپلائی کرتے ہیں you have put me in a box۔ نواز شریف نے کلنٹن سے مدد مانگی۔ اس دوران امریکی صدر نے بھارتی وزیر اعظم کو بھی فون کیا۔ کلنٹن نے تعاون کرنے کے لیے نواز شریف کے سامنے ایک ہی کنڈیشن رکھی کہ پاکستان بغیر کسی شرط کے بھارتی حدود سے اپنی فوج واپس بلا لے۔
اِدھر اب بھارتی حدود پار کرنے والے پاکستانی جوانوں کی حالت بھی بہتر نہیں تھی۔ سپلائی لائن کٹنے کی وجہ سے وہ بھوکے پیاسے بھارتی فوج کا مقابلہ کر رہے تھے۔ Come back کے آرڈر کے بعد فوجیں واپس آںے لگیں تو بھارتی فورسز نے پیچھے سے فائرنگ کر دی۔ جس سے پاکستانی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
مشرف کے مطابق سیز فائر سے پہلے 157 پاکستانی فوجی شہید اور 250 زخمی ہوئے تھے۔ سیز فائر کے بعد شہدا کی تعداد 200 تک پہنچ گئی اور 415 زخمی ہوئے جبکہ پاکستان افواج نے وسائل کم ہونے کے باوجود 200 بھارتی فوجی ہلاک اور 1500 زخمی کر دیے تھے لیکن مشرف کہتے ہیں یہ تعداد دگنی تھی، اس وقت انڈیا کو لاشوں کے لیے تابوت کم پڑ گئے تھے۔
- مشرف کی ناکام خفیہ پلاننگ کے بعد اب نواز شریف چپکے چپکے کیا کر رہے تھے؟
- وہ کون تھا جس کا یس یا نو، مشرف کو بادشاہ سے غلام بنا سکتا تھا؟
- پی ٹی وی کے اندر ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر پر کس نے اسلحہ تان لیا تھا؟
- وہ کون تھے جنہوں نے پرویز مشرف کا اقتدار پر قبضہ کامیاب بنایا؟
یہ سب آپ جان سکیں گے اگلے حصے میں!
اندرونی جنگ
سرحدوں پر ختم ہونے والی جنگ نے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان جنگ چھیڑ دی۔ آرمی چیف جہانگیر کرامت، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری کے عہدے ایک جھٹکے میں اُڑا دینے والے نواز شریف کو اپنی سیاست پر یقین تھا کہ مشرف ان کے سامنے کچھ نہیں۔ جبکہ اُدھر پرویز مشرف نے نواز شریف کو پیغام بھجوا دیا تھا، ’’میں جہانگیر کرامت نہیں ہوں۔‘‘
سال 1999 کا آخر بڑا ہی عجیب تھا۔ ملک کی دونوں بڑی طاقتیں چیف ایگزیٹکیو اور آرمی چیف، ایک دوسرے سے ان سیکیور تھے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف سیاست کر رہے تھے۔ نواز شریف اُلٹی چھری سے کاٹنا چاہ رہے تھے۔ مشرف کو دعوتوں میں بُلاتے۔ کھانے کی نشست پر اپنے والد کے ساتھ گپے لگواتے اور دوسری طرف ان کی برطرفی کی پلاننگ بھی تیار کر رہے تھے۔ شاید انہوں نے یہ طریقہ اس لیے اپنایا کہ دشمن اصل چال سے بے خبر رہے اور جوابی وار نہ کرسکے لیکن اُدھر مشرف کو شک پڑ گیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے وہی جنرلز جنہوں نے کارگل کی پلاننگ کی تھی، انہیں سمجھا رکھا تھا کہ برطرفی کی صورت میں انہوں نے کیا کرنا ہے۔ اب پلان دونوں طرف تیار تھا۔
10 اکتوبر، اتوار کا روز۔ جب نواز شریف اٹیک کے لیے پہل کرتے ہیں۔ اِس بات سے بے خبر کہ مشرف ڈیفنس پلان بنا چکے ہیں۔ چھٹی کے دن نواز شریف صبح صبح اٹھتے ہی اپنے ملٹری سیکٹریٹری جاوید اقبال کو بلاتے ہیں۔ انہیں جاتی عمرہ کے گارڈن میں لے جا کر کہتے ہیں، ’’اپنا موبائل فون سوئچ آف کریں۔‘‘ پھر نواز شریف اپنا فون بھی بند کردیتے ہیں۔ اپنے ملازم شکیل کو دونوں فون دے کر دور بھیجتے ہیں اور پھر فیصلہ سناتے ہیں کہ وہ پرویز مشرف کو برطرف کرنے جا رہے ہیں!
یہ سن کر ملٹری سیکٹری کے رنگ اڑ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مگر ایک بار‘‘ نواز شریف ٹوکتے ہیں، ’’میں فیصلہ کر چکا ہوں۔‘‘ جاوید اقبال کہتے ہیں، ’’یاد رکھیے سر، ضیاء الحق بھٹو کو پھانسی کے تختے تک لے گیا تھا۔‘‘ نواز شریف اگنور کرتے ہیں اور اگلی صبح یعنی گیارہ اکتوبر کو وہ اپنے بیٹے حسین نواز سے صحافی نذیر ناجی کو بلواتے ہیں۔ وہ بھی نواز شریف کا فیصلہ سن کر دنگ تھے۔ نذیر ناجی کو بلوانے کا مقصد تقریر لکھوانا تھا جس کا متن تھا، آرمی چیف کی برطرفی اور کارگل کی انکوائری۔
یہ تقریر نواز شریف نے مشرف کی برطرفی کے بعد پی ٹی وی پر کرنا تھی۔ لیکن ایک منٹ۔ برطرف کرنے کے بعد نیا آرمی چیف کسے لگانا ہے؟ نواز شریف یہ فیصلہ بھی کر بیٹھے تھے اور وہ تھے، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ضیا الدین بٹ۔ مگر وہ ابھی تک اس بات سے لا علم تھے کہ وہ چوبیس گھنٹے بعد ملک کے آرمی چیف ہوں گے۔
اُسی روز نواز شریف کو ابوظہبی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ وہ آئی ایس آئی چیف جنرل ضیا الدین بٹ کو بھی ساتھ لیتے ہیں۔ اب طیارے میں ایک طرف نواز شریف ضیا الدین بٹ سے کھسر پسر کر رہے تھے اور دوسری طرف حسین نواز اور نذیر ناجی بیٹھے تقریر تیار کر رہے تھے۔ نواز شریف جنرل ضیا الدین بٹ کو اپنا فیصلہ بتا دیتے ہیں۔ البتہ جنرل بٹ تو ریٹائرمنٹ لیکر سکون کی زندگی کا خواب دیکھ رہے تھے مگر نواز شریف نے ان کا سکون غارت کرنے کا پورا پلان بنا رکھا تھا کیونکہ جو بِلے وہ ان کے سینے پر سجا رہے تھے وہ انہیں جیل لے جانے والے تھے۔
اور پھر 12 اکتوبر کا وہ دن آگیا۔
پہلا کام، نواز شریف کو شجاع آباد میں کسانوں سے تقریر کرنا تھی۔ وہ وہاں پہنچے ضرور، مگر ان کا ذہن مشرف کی برطرفی میں ہی الجھا ہوا تھا۔ اس کی سب سے بڑی نشانی تھی۔ جلسہ گاہ کے اسٹیج پر اسپیشل لینڈ لائن لگوائی گئی۔ نواز شریف بار بار فون کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور پھر گھنٹی بجی، نواز شریف نے جھٹ سے ریسیور اٹھایا پیغام سُنا۔ فٹا فٹ جلسے سے مختصر خطاب کیا اور واپس اسلام آباد کے لیے نکل پڑے۔ فون پر گو ہیڈ کس کی طرف سے ملا؟ آج تک واضح نہیں ہو سکا مگر اِس دوران انہوں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کیا انہوں نے فون اٹھایا؟ بیٹے حسین نواز نے کہا اب تک بات نہیں ہو سکی۔
یہ کس کی بات ہورہی تھی؟ سیکریٹری دفاع افتخار علی خان کی۔ کیونکہ اب نواز شریف کو آخری وار کرنا تھا، یعنی نوٹیفکیشن کا اجرا۔ اور یہ کام کرنا تھا افتخار علی خان نے۔ مگر وہ تو بیمار تھے اور دوائی لے کر سو رہے تھے۔ بالآخر نواز شریف کے اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچنے سے پہلے رابطہ ہو گیا۔ افتخار علی خان آدھے سوئے آدھے جاگے دوڑے دوڑے پہنچے۔ نواز شریف نے انہیں اپنی گاڑی میں بٹھایا اور وہی فیصلہ دہرایا۔ افتخار علی خان کے بھی ہوش اڑ گئے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ نیند کی دواؤں کا اثر بھی زائل ہو گیا۔ انہوں نے نواز شریف کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے کافی دلائل دیے مگر نواز شریف نے ایک نہ سُنی۔ اور انہیں نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
اُدھر تقریر بھی تیار ہو چکی تھی۔ شام ڈھل رہی تھی۔ اِدھر شہباز شریف اور چوہدری نثار ساری ہلچل دیکھ کر بے تاب ہو رہے تھے کہ نواز شریف آخر کرنے کیا جا رہے ہیں۔ مگر نواز شریف نے دونوں سے کچھ شیئر نہیں کیا۔ خیر! اس دلہا کو بھی بلا لیا گیا جسے صاحب منصب بنانا تھا۔ جنرل ضیا الدین بٹ بہت خوش تھے۔ نواز شریف نے وقت ضائع کیے بغیر ان کے سینے پر بلے لگائے۔ نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ اور پی ٹی وی پر خبر نشر کروا دی گئی بس پھر کیا تھا۔ بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔
نواز شریف کا فیصلہ اب ساری دنیا کے سامنے تھا۔ اتنا سب کچھ ہو رہا تھا مگر مشرف اور انکی ٹیم کہاں تھی؟ یہ بھی جان لیجیے۔
پرویز مشرف حالات سے بے خبر طیارے میں بیٹھے سری لنکا سے واپس آ رہے تھے۔ جس وقت انکی برطرفی کی خبر نشر ہوئی۔ ان کا طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والا تھا۔ اب نئے آرمی چیف نے پرائم منسٹر ہاؤس سے ہی ہدایات دینا شروع کر دیں۔ پنڈی سے لیکر کراچی تک سب کو فون گھمائے گئے۔
پہلا حکم، پرویز مشرف کو کراچی ایئر پورٹ اترتے ہی پروٹوکول کے ساتھ آرمی ہاؤس لے جایا جائے۔
دوسرا حکم، کارگل والے جرنلز یعنی جنرل محمود احمد اور جنرل عزیز کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
ان کے ساتھ ایک اور جنرل کی معطلی کا حکم دیا گیا جو نہ صرف ڈی جی ایم او تھے بلکہ مشرف کے قریبی رشتہ دار بھی تھے اور ڈی جی ایم او کا حکم فوج میں آرمی چیف کا حکم تصور کیا جاتا ہے، یہ تھے جنرل شاہد عزیز۔ جبکہ 111 بریگیڈ کے کمانڈر صلاح الدین ستی کا جھکاؤ بھی مشرف ہی کی طرف تھا اور پرویز مشرف اپنی ٹیم کو پہلے ہی آگاہ کر گئے تھے کہ ایسی صورتحال میں انہوں نے کیا کرنا ہے۔
جنرل محمود احمد اور لیفٹنںٹ جنرل عزیز ٹینس کھیل رہے تھے کہ خبر ملتے ہی دوڑ پڑے۔ ڈی جی ایم او جنرل شاہد عزیز گھر پہنچ کر جوتوں کے تسمے کھول رہے تھے کہ خبر ملتے ہی بوٹ کسے اور وہ بھی نکل پڑے۔ سب سے پہلے ایک ٹیم پرائم منسٹر ہاؤس میں اور دوسری پی ٹی وی میں داخل ہوئی۔ پرائم منسٹر ہاؤس میں 111 بریگیڈ کے کمانڈرز پہنچنے پر نواز شریف سمجھ گئے کہ گیم پلٹ سکتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے سب سے پہلے حکم دیا کہ مشرف کا طیارہ کراچی میں لینڈ نہ ہونے دیا جائے۔
وہاں کیا دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی وہ بتانے سے پہلے ذرا پی ٹی وی کا حال سناتا ہوں۔
یہاں 111 بریگیڈ کے کمانڈوز نے آرمی چیف کی برطرفی کی خبر رکوائی تو ایم ڈی یوسف بیگ مرزا نے فَٹ سے پرائم منسٹر ہاؤس میں فون ملایا مگر وہاں حسین نوازنے غیر سنجیدہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ خبر چلاتے رہیں، اگر آپ کی جان چلی گئی تو آپ شہید کہلائیں گے۔ بعد میں صورتحال کا اندازہ ہوا تو ملٹری سیکٹری جاوید اقبال اپنی گن لوڈ کر کے پی ٹی وی پہنچے اور 111 بریگیڈ کے کمانڈر پر تان لی۔ جواب میں تمام جوانوں نے جاوید اقبال پر اسلحہ تان لیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن شاید لہولہان ہو جاتا مگر 111 بریگیڈ کے کمانڈر نے ہوش مندی سے کام لیا اور جوانوں کو ہتھیار ڈالنے کا کہا اب برطرفی کی خبر دوبارہ چلنے لگی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد فوج کے مزید دو ٹرک وہاں پہنچ گئے اور اب ایم ڈی پی ٹی وی کو پرائم منسٹر ہاؤس میں دوبارہ فون کرنے کا موقع نہ ملا۔ پی ٹی وی کی اسکرین پر کلر بار آیا۔ پھر ایک پھول نمودار ہوا اور فوج کے ترانے سنائے جانے لگے۔
اب سب سے اہم تھا۔ پرویز مشرف کا طیارہ بحفاظت کراچی اتروانا۔ جس میں صرف مشرف نہیں بلکہ انکی اہلیہ سمیت 198 مسافر سوار تھے۔ طیارے کو پاکستانی حدود سے باہر مسقط لے جانے کے احکامات مل رہے تھے جبکہ جہاز میں فیول بھی کم بچا تھا۔ اب یہاں سب سے اہم کردار تھا کور کمانڈر کراچی جنرل مظفر عثمانی کا کیونکہ انہیں دو الگ الگ احکامات موصول ہوئے تھے۔ پہلا نواز شریف کی طرف سے کہ مشرف کا طیارہ کراچی نہ اترنے دیا جائے اور اگلی کال 5 بج کر40 منٹ پر لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان کی تھی کہ وہ ایئر پورٹ کو تحویل میں لیں اور مشرف کو بطور آرمی چیف پورے اعزاز کے ساتھ ریسیو کریں۔
اب ’’کو‘‘ کی کامیابی یا ناکامی کور کمانڈر کراچی جنرل عثمانی کے کاندھوں پر تھی کہ وہ کس کی طرف جھکتے ہیں۔ اور انہوں نے مشرف کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ملک افتخار کو کنٹرول ٹاور پہنچنے کا کہا اور خود بھی ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ اُدھر مشرف بھی طیارے کے کاک پٹ میں آگئے۔ جنرل ملک افتخار نے کنٹرول ٹاور کے انچارج سے طیارے کے پائلٹ سے بات کرانے کا کہا مگر اس نے ہدایت ماننے سے انکار کر دیا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنی کنپٹی پر پستول کی نال محسوس کی تو پیچھے مڑے بغیر پائلٹ سے رابطہ کروا دیا۔
اس وقت طیارہ نواب شاہ کی جانب جا رہا تھا۔ ملک افتخار نے پائلٹ کو حکم دیا کہ طیارے کو کراچی ایئر پورٹ پر ہی اتارا جائے۔ چونکہ مشرف بھی کاک پٹ میں ہی موجود تھے انہوں نے پوچھا کیا صورتحال ہے؟ ملک افتخار نے انہیں سارے معاملات سے آگاہ کیا لیکن ساتھ ہی مطمئن بھی کیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے، آپ کراچی لینڈ کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف نے یہ کنفرم کرنے کے لیے کہ وہ ملک افتخار سے ہی بات کر رہے ہیں، اپنے پالتو کتوں کے نام پوچھے۔ جواب ملا، ’’سر ڈاٹ اور بڈی۔‘‘
مشرف مطمئن ہوئے اور آرڈر دیا کوئی شخص ملک سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ اب ایئر پورٹ کا رن وے کلیئر کرا لیا گیا تھا۔ مشرف کا طیارہ لینڈ ہوا۔ اور جنرل مظفر عثمانی نے ان کا بطور آرمی چیف استقبال کیا۔ ادھر پرائم منسٹر ہاؤس میں لیفٹیننٹ کرنل شاہد علی مزید کمانڈوز کے ساتھ سیدھا نواز شریف کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ نواز شریف نے پوچھا کیا مارشل لا لگ چکا ہے؟ کرنل نے جواب دیا مجھے نہیں پتہ۔
جنرل ضیا الدین بٹ مسلسل فون پر ہدایات دے رہے تھے جن سے فون چھین لیا گیا۔ کچھ ہی دیر میں راولپنڈی کے کور کمانڈر جنرل محمود احمد بھی وہاں پہنچے اور پرائم منسٹر ہاؤس میں موجود تمام لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ پرویز مشرف لکھتے ہیں کہ شہباز شریف اس وقت واش روم میں تھے اور وہ نواز شریف کی تقریر پانی میں بہا رہے تھے۔ انہیں دروازہ توڑ کر باہر نکالا گیا۔ اور پھر رات کے ڈھائی بجے، ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘
- پرویز مشرف کی گاڑی ہوا میں تھی، ٹائر پھٹ چکے تھے؟ پھر کیا ہوا؟
- وہ کون سا سال تھا جس نے پرویز مشرف کو صرف زوال ہی زوال دکھایا؟
- تاریخ کے سب سے طاقتور آرمی چیف کو وردی کیوں اتارنا پڑی؟
- وطن کے لیے جینے والے کو وطن میں مرنا نصیب کیوں نہ ہوا؟
یہ سب آپ جان سکیں گے، اگلے حصے میں!
پرویز مشرف کا زوال
نئی صدی تھی۔ نیا دور تھا۔ وہ بچہ جو اپنا سب کچھ ہندوستان چھوڑ کر آیا تھا، آج پورا پاکستان اس کے پاس تھا۔ وہ جو چاہے کر سکتا تھا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طاقت ور اور مقبول ترین آرمی چیف بن گیا تھا۔ سیاہ و سفید کا مالک۔ وہ اپنے عروج کی انتہا کو چھو رہا تھا۔ طاقت کے نشے میں چور ہو رہا تھا۔ عدالت، فوج، سیاستدان بلکہ ہر شعبہ ان کے ساتھ تھا۔ میدان صاف تھا۔ نہ نواز شریف اور ان کا خاندان ملک میں تھا اور نہ بے نظیر بھٹو۔ زرداری بھی جیل میں تھے۔ سیاسی بساط پر دونوں طرف صرف اُنہی کے پیادے تھے۔ مگر پھر، دنیا بدل گئی۔
انہیں ایک ایسا فون آیا۔ جو انہیں گورنر ہاؤس میں میٹنگ چھوڑ کر سُننا پڑا۔ فون سے آواز باہر آئی، ’’مسٹر مشرف! یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف؟‘‘ یہ فون کسی اور کا نہیں۔ 9/11 حملوں کے بعد امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کا تھا۔ اب وہ پاکستان جو پرویز مشرف کے پاس تھا، وہ اُسے امریکا سے شیئر کرنے کو تیار ہو گئے۔
پرویز مشرف نے پاکستانی اڈے امریکا کے حوالے کر دیے۔ وہاں سے افغانستان پر ڈرون گرائے جانے لگے۔ پاکستانی سرزمین پر امریکی دندنانے لگے۔ 2003 میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ’’راولپنڈی‘‘ سے اغوا کر کے لے گئے۔ 2004 میں ایٹمی دھماکے کرنے ڈاکٹر والے عبدالقدیر خان عہدے سے فارغ کر دیے گئے۔
2000 کی اس دہائی میں پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے جنم لیا تھا۔ وہ مجاہدین جنہیں خود ریاست نے پالا تھا، اب وہ ریاست کے دشمن بن گئے تھے۔ مشرف نے امریکا کی جنگ میں ساتھ دے کر نہ صرف قوم کو بلکہ خود کو بھی مشکل میں ڈال لیا تھا۔ لیکن مشرف پر قسمت کی دیوی ابھی مہربان تھی۔
آپ نے ساؤتھ انڈین موویز تو دیکھی ہوں گی۔ جس میں گولیوں کی بوچھاڑ اور بم دھماکوں میں بھی ہیرو ’’آئرن مین‘‘ کی طرح بچ کر نکل جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ یہ سین حقیقی زندگی میں ہوئے تھے۔
14 دسمبر 2003 کو ہر طرف دو خبروں کا چرچہ تھا۔ ایک اچھی اور دوسری بُری۔ صدام حسین کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اور پولو میں پاکستان نے بھارت کو ہرا دیا تھا۔ لیکن کچھ ہی دیر میں اس وقت کی سب سے بڑی خبر آتی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار آرمی چیف کی گاڑی کو بَم سے اُڑادیا گیا۔
صدرِ پاکستان و آرمی چیف پرویز مشرف کا قافلہ چکلالہ ایئربیس سے آرمی ہاؤس پنڈی کی طرف روانہ ہوا تھا۔ جیسے ہی گاڑی پُل پر پہنچی تو تین ٹن وزنی مرسڈیز اور بکتربند کھلونوں کی طرح فضا میں اُچھل پڑے۔ قسمت دیکھیے! دھماکے کی وجہ سے پُل درمیان سے ٹوٹ گیا تھا۔ اگر دھماکا گاڑی گزرنے سے ایک سیکنڈ بھی پہلے ہوتا تو پرویز مشرف کی موٹرکیڈ پچیس فٹ نیچے جا گرتی۔ مارنے والوں کی خواہش تو یہی تھی مگر ان کی آنکھیں اس وقت کھلی رہ گئیں جب اُسی شام پرویز مشرف کو زندہ سلامت اسلام آباد کے سرینا ہوٹل کی ایک شادی کی تقریب میں دیکھا۔ دراصل نقل و حرکت محدود کرنے کے بجائے اُسی شام شادی کی تقریب میں شرکت کر کے پرویز مشرف دشمن کو یہی شو کرنا چاہتے تھے کہ مشرف کوChill دیکھ کر دشمن اور زیادہ گرم ہو گیا اور گیارہ دن بعد ہی ایک اور حملہ ہوتا ہے۔
مشرف کی گاڑی اُسی ٹوٹے پُل سے گزر رہی ہے جو زیرتعمیر ہے۔ وہ آرمی ہاؤس جا رہے ہیں۔ اچانک مشرف کی نظر سامنے کھڑی ایک سوزوکی یا منی وین پر پڑتی ہے جو دونوں سڑکوں کی درمیانی گرین بیلٹ کے یوٹرن پر ٹیڑھی ہو کر کھڑی ہے۔ ابھی مشرف اُسے مشکوک نظر سے دیکھ کر واپس سامنے کی جانب گردن موڑتے ہیں کہ اُسی لمحے سب بدل جاتا ہے۔
کان پھاڑ دینے والی دھماکے کی آواز کے ساتھ گاڑی فضا میں اچھلتی ہے۔ مشرف اپنا گلوک پستول نکالتے ہیں۔ چاروں طرف اندھیرا ہے، دھواں، ملبا اور انسانی اعضا ہیں۔ گاڑی زمین پر گرتی ہے تو ٹائر پھٹ چکے تھے۔ سڑک پر رِم کی چنگاریوں کے ساتھ بغیر ٹائروں کے گاڑی آگے بڑھتی ہے کہ ایک اور دھماکا آگے کی جانب ہوتا ہے اور کوئی بڑی سی چیز سیدھی ونڈ اسکرین سے اِس زور سے آ ٹکراتی ہے کہ اس میں گڑھا پڑ جاتا ہے۔
اگر یہ گاڑی بم پروف نہ ہوتی تو یہ بھاری چیز ڈرائیور کو چیرتی ہوئی مشرف سے ٹکراتی۔ چَرخی کی طرح زور دار آوازوں کے ساتھ چنگاریاں نکالتی مشرف کی گاڑی سیدھی آرمی ہاؤس پہنچتی ہے۔ جس پر انسانی اعضا کے لوتھڑے چپکے دیکھ پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا چیخ پڑتی ہیں۔ اس واقعے میں چودہ لوگوں کی جان گئی جبکہ تین فوجی زخمی ہوئے۔
India Love & Hate title
پرویز مشرف کے تن پر وردی بھی تھی اور شیروانی بھی۔ سرحدی اور سفارتی، دونوں محاذ کے وہی محافظ تھے۔ ایسے میں انڈیا ایک بار پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرات کرتا ہے۔
2001 کے آخر میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کا الزام بھارتی حکومت پاکستان پر لگا کر ایئر اسٹرائیک کی تیاری میں تھی۔ لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ اب بھارت پر حملہ کرنے کے لیے مشرف کو کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ سیدھی تڑی لگاتے ہیں!
Bye Bye Good Luck title
2005 ختم کیا ہوا یہ سمجھیں مشرف نے اپنی قسمت کو گڈ بائے کہہ دیا۔ سال 2006 سے مشرف کے برے دن شروع ہو گئے مگر ابھی انہیں یہ احساس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی باتوں میں آ کر ایک کے بعد ایک غلطی کرتے جا رہے تھے۔
بھلے وہ بلوچستان میں اکبر بگٹی کے قتل کو بالکل سہی قرار دے کر جارحیت دہرانے کا عزم ہو یا 12مئی 2007 کو کراچی میں قتل و غارتگری کے بعد مکے لہرا کر زخموں میں پر نمک چھڑکنا ہو۔ ویسے 12 مئی 2007 کو کیا ہوا؟ دو چیف کی جنگ میں کراچی والوں کی ہلاکت پر ہماری تحریر ضرور پڑھیے گا۔ خیر، ابھی ان واقعات کی حدت کم نہ ہوئی تھی کہ اسلام آباد میں لال مسجد کے معاملے پر شدت نے پرویز مشرف کو اور بھی کمزور کر دیا۔
پرویز مشرف جتنا طاقت کا استعمال کر رہے تھے وہ اتنے مسائل میں دھنستے جا رہے تھے مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ دائیں بائیں مفت مشورے دینے والے چوہدریز ہوں یا وردی والے دوست، انہیں فائدہ نہیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پرویز مشرف آمریت کی جس بند گلی میں پہنچ چکے تھے وہاں سے نکلنے کی کوئی ایگزٹ اسٹریٹیجی ان کے پاس نہ تھی۔ ان پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ اور بالآخر انہیں وردی اتارنی پڑی۔
وردی اتار کر اب انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی ساری طاقت تو اسی طوطے میں تھی۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے اب وہ ہر اصول قربان کرنے کو تیار تھے۔ انہوں نے دبئی جا کر بے نظیر بھٹو سے ڈیل کی۔ مشرف بے نظیر کو این آر او دینے، یعنی ان پر اور زرداری پر بنے تمام کیسز ختم کرنے پر راضی تھے۔ مگر بدلے میں جو وہ مانگ رہے تھے بے نظیر اس پر راضی نہ تھیں۔ پرویز مشرف صدارتی منصب اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے تھے۔ چوہدری شجاعت اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بیںظیر نے وزیر اعظم بننے کے لیے مشرف سے ڈیل کرلی تھی لیکن پھر ایک اور سانحہ ہو گیا۔
اب سیاست کی توپوں کا رخ مشرف کی جانب تھا۔ اِدھر سعودی حکومت سے دباؤ ڈلوا کر نواز شریف پاکستان آنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ البتہ اقتدار ان کے نہیں بلکہ زرداری کے نصیب میں آیا۔ اب کہانی پلٹ چکی تھی۔ پرویز مشرف کے پاس کچھ نہ تھا۔ 18اگست 2008 کو وہ پاکستان کو خدا حافظ کہہ کر دبئی چلے گئے۔
لیکن پھر کراچی والوں کی پسندیدگی اور ایم کیو ایم پر احسانات ذہن میں رکھتے ہوئے پرویز مشرف 2013 کے الیکشن سے پہلے واپس آتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا والہانہ استقبال ہوگا مگر دور بدل چکا تھا۔ انہیں ’’ویلکم بیک‘‘ کہنے کےلیے نہ ایم کیوایم نے ساتھ دیا اور نہ کراچی والوں نے۔ پرویز مشرف کی جماعت اے پی ایم ایل بھی فلاپ شو ثابت ہوئی۔ الٹا پاکستان پہنچ کر ان پر کیسز بن گئے۔ وہ ملکی تاریخ کے واحد آرمی چیف ہیں جنہوں نے نہ صرف عدالتوں میں رگڑا کھایا، نظر بند ہوئے۔ آرٹیکل چھ لگی اور غداری کا مقدمہ چلا گیا۔
ایک روز ستر برس کے مشرف کو عدالت جاتے ہوئے دل کی تکلیف ہوئی۔ گاڑی پنڈی کے اسپتال کی طرف موڑ لی گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ موڑ انہیں ملک سے باہر لے جانے کا سبب بنا۔ 2016 کو مشرف ملک سے ایسے گئے کہ پھر زندہ واپس نہ آئے۔
ان کی غیر موجودگی میں خصوصی عدالت نے انہیں سنگین غدار کیس میں پھانسی کی سزا سنا ئی۔ جسٹس سیٹھ وقار احمد نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اگر مشرف مردہ پائے جائیں تو لاش کو گھسیٹ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر لایا جائے اور تین دن تک لٹکایا جائے۔
اِدھر پاکستان میں یہ سب چل رہا تھا اور اُدھر دبئی میں پرویز مشرف میں جان لیوا مرض کی تشخیص ہوئی۔ اب وہ طاقتور، لاؤ و لشکر لیکر چلنے والا، جو دل میں آئے کر گزرنے والا، اپنے اسٹائل اپنی مرضی سے جینے والا، 18کروڑ پر حکمرانی کرنے والا دبئی کے اسپتال میں اکیلا زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑ رہا تھا۔
5 فروری 2023 کو وہ یہ جنگ ہار گیا۔ انہیں پورے اعزاز کے ساتھ کراچی کے فوجی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے جانے کے بعد بس اب ایک چیز باقی رہ گئی، اور وہ ہے یہ بحث کہ وہ ہیرو تھا یا وِلن؟