برطانیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال سے کار مینوفیکچررز کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ پٹرول اور ڈیزل گاڑیاں ایک حد سے زیادہ نہ بنائیں۔ یوں الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے شعبے میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔

حکومت نے طے کر دیا ہے کہ ایک کار مینوفیکچرر سال میں کتنی پٹرول یا ڈیزل گاڑیاں فروخت کر سکتا ہے اور یہ ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں اسے کتنا جرمانہ ہوگا۔ یہ قدم الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھانے اور نیٹ زیرو اہداف حاصل کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔

اس فیصلے سے الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کی شرح بڑھے گی اور ساتھ ہی پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کی پیداوار میں بھی کمی ہوگی، جن پر 2030 تک مکمل پابندی عائد ہو جائے گی۔ اس کے بعد صرف ہائبرڈ کار ہی ایسی نان-الیکٹرک گاڑی ہوگی، جس کی فروخت کی اجازت ہوگی۔

ہدف یہ ہے کہ اگلے سال کسی بھی کمپنی کی فروخت کی گئی کم از کم 22 فیصد کاریں الیکٹرک ہوں۔ جو اگلے 7 سالوں میں 80 فیصد تک پہنچنی چاہئیں۔ جو مینوفیکچرر اس ہدف کو حاصل نہیں کر پائے گا، اسے فی گاڑی 15 ہزار پونڈز کا جرمانہ ہوگا۔

گاڑیاں بنانے والے جو ادارے ان اہداف کو حاصل نہیں کریں گے، انھیں ٹارگٹ سے جتنی کم گاڑیاں ہوں گی، فی گاڑی 15 ہزار پونڈز کا جرمانہ ہوگا۔ یعنی ٹارگٹ میں جتنی گاڑیاں کم ہوں گی، فی گاڑی 52 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ ادا کرنا ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی کمپنی ہدف سے 2,000 گاڑی پیچھے رہی تو اسے 30 ملین پونڈز کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔  

اسی طرح وین کے لیے بھی ہدف مقرر کیا گیا ہے: 2024 میں 10 فیصد اور 2030 میں 70 فیصد الیکٹرک وین بنانا ضروری ہوگا۔

برطانیہ میں پچھلے سال رجسٹر ہونے والی نئی کاروں میں سے 16.6 فیصد الیکٹرک تھیں۔

ویسے موسمیاتی تبدیلی سے جو تباہی پاکستان میں مچی ہے، ایسے فیصلوں کی ضرورت تو ہمیں ہے۔ لیکن الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقل ہونا اتنا آسان نہیں۔ اِس کے لیے اتنا بڑا انفرا اسٹرکچر چاہیے کہ برطانیہ جیسے ملک کے لیے بھی یہ ہدف حاصل کرنا آسان نہیں۔

شیئر

جواب لکھیں