آبادی میں اضافہ، وسائل کی کمی، تاریک مستقبل، بچے دو ہی اچھے، کم بچے خوشحال گھرانہ اور ایسی کتنی ہی باتیں ہیں جو ہم دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی آبادی 2050 تک رک جائے گی اور اِس صدی کے اختتام پر یعنی 2100 میں زمین پر صرف 6 ارب انسان رہ جائیں گے۔ یعنی جس 'پاپولیشن بم' سے ڈرایا جاتا رہا ہے، وہ کبھی پھٹے گا ہی نہیں۔

یہ انکشاف 'دی کلب آف روم' نامی ایک نان پرافٹ ادارے کی تحقیق میں ہوا ہے، جس کا کہنا ہے کہ اگر آبادی میں اضافے کا یہی رجحان برقرار رہا تو عالمی آبادی موجودہ 8 ارب سے 2050 تک 8.6 ارب تک پہنچے گی، جس کے بعد اگلے 50 سالوں میں اِس میں دو ارب کی کمی آئے گی۔

یہ اچھی خبر ہے یا بُری؟

یہ ایک لحاظ سے بہت اچھی خبر بھی ہے اور بہت بُری بھی۔ جہاں زمین کے ماحولیاتی مسائل کم ہوں گے، وہیں دوسرے کئی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔ مثلاً گرتی ہوئی آبادی کا مطلب ہے کام کرنے کی عمر رکھنے والے نوجوانوں کی آبادی گھٹ جانا، جس سے ورکنگ پاپولیشن پر دباؤ بہت بڑھ جائے گا۔ پھر حکومتوں پر پریشر میں بھی بہت اضافہ ہوگا جنھیں پنشن کی مد میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑیں گی اور ساتھ ہی صحت کے نظام پر بھی۔

کلب آف روم کے لیے یہ پروجیکشن تیار کی ہے ماحولیاتی سائنس دانوں اور معاشی ماہرین پر مشتمل ایک گروپ Earth4All نے۔ جو اقوامِ متحدہ کے اندازوں سے بالکل مختلف ہے جس کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی 9.7 ارب تک پہنچے گی، اور 2100 میں 10.4 ارب ہوگی۔

لیکن Earth4All کا ماڈل اقوام متحدہ کے مقابلے میں ذرا پیچیدہ ہے۔ اس میں کئی اضافی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے، مثلاً ماحولیات اور معیشت کے علاوہ عدم مساوات، غذائی پیداوار، مستقبل میں عالمی حدت کے اثرات وغیرہ۔

اندازے اور دو ممکنہ نتائج

ان کی بنیاد پر مستقبل میں انسانی آبادی میں اضافے کے دو ممکنہ نتائج کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ایک کے مطابق معاملات جیسے چل رہے ہیں، ویسے ہی چلتے رہیں اور دنیا بھر کی حکومتیں ایسے ہی بے عملی کے ساتھ کام کرتی رہیں اور حالات ایسے ہی رہیں تو دنیا کی آبادی 2050 تک 9 ارب تک پہنچ جائے گی اور 2100 تک گرتے ہوئے 7.3 ارب ہوگی۔

دوسرے سیناریو کے مطابق اگر حکومتیں تعلیم، مساوات اور ماحول دوست طریقوں میں سرمایہ کاری کریں تو 2050 میں آبادی 8.5 ارب تک پہنچے گی جو 2100 تک گھٹتے ہوئے 6 ارب رہ جائے گی۔

Raftar Bharne Do

سب سے حیران کُن بات

رپورٹ میں جو سب سے اہم اور حیران کن بات کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی آبادی کا زیادہ ہونا موسمیاتی تبدیلی کا بنیادی محرّک نہیں ہے۔ اس کے بجائے اس میں دنیا کی امیر آبادی کو مور دِ الزام ٹھیرایا گیا ہے۔ نارویجیئن اسکول آف بزنس سے تعلق رکھنے والے Earth4All کے ایک رکن یورگن رینڈرس نے کہا کہ انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لگژری کاربن اور فضاؤں کا بے دریغ استعمال ہے، آبادی ہر گز نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ جن علاقوں میں انسانی آبادی اس وقت بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہاں ماحول پر پڑنے والے اثرات آبادی کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں۔ بلکہ جن علاقوں میں آبادی دہائیوں پہلے اپنی انتہائی بلندی تک پہنچ چکی اور اب گھٹ رہی ہے، ان کے ماحول پر اثرات کہیں زیادہ ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں