سعودی عرب چین اور روس کے بنائے گئے بلاک میں شامل ہو رہا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ریاض کے بیجنگ کے ساتھ تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں، اور امریکا ویسے ہی مشرق وسطیٰ سے دور ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کی کابینہ نے ملک کی شنگھائی تعاون تنظیم میں بطور 'ڈائیلاگ پارٹنر' شمولیت کی منظوری دے دی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم 2001 میں روس، چین اور وسطِ ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں نے بنائی تھی، جو ان ملکوں کا ایک سیاسی اور سکیورٹی بلاک ہے۔ خطے میں مغرب کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ جبکہ پچھلے سال ایران نے بھی مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لیے دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔

اقتصادی تعاون اور باہمی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کے لیے تنظیم کا سالانہ سربراہ اجلاس ہوتا ہے، جس میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی پر بھی بات ہوتی ہے۔ رکن ممالک اس سال اگست میں روس میں 'دہشت گردی کے خلاف مشقوں' کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، حالانکہ یہ کوئی فوجی اتحاد نہیں۔

اب سعودی عرب کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کا فیصلہ سعودی-ایران معاہدے پر دستخط کے بعد سامنے آیا ہے، جسے چین کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اسی نے اس معاہدے کو ممکن بنایا تھا۔

ویسے عمان اور عراق نے ایران-سعودی تعلقات کی بحالی کے لیے ماضی میں کوشش کی تھیں، لیکن سعودی عرب اس معاہدے کا کریڈٹ پچھلے سال چینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے کی گئی پیشکش کو دیتا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ پچھلے سال دسمبر میں چینی صدر کا دورۂ سعودی عرب دراصل اس رکنیت کی بنیاد رکھ گيا تھا۔

خلیج میں چین کے گہرے تعلقات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی انتظامیہ دیگر علاقوں میں بیجنگ کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ سے دُور ہوتی جا رہی ہے۔

امریکا لمبے عرصے سے سعودی عرب کے سکیورٹی پارٹنر کا کام کر رہا ہے اور خطے سے امریکا کے انخلا نے ان خلیجی اداروں کو دوسرے سکیورٹی پارٹنرز کا رخ کرنے پر بھی مجبور کیا۔

کیا دہائیوں کے بعد بالآخر مشرق وسطیٰ پر امریکا کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے؟ یا یہ خطہ ایک نئی سرد جنگ کا میدان بننے والا ہے؟ فوری طور پر تو یہ دونوں امکانات نظر نہیں آتے لیکن سعودی-ایران کشمکش میں کمی نہ صرف خطے بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے بڑی خوش آئند خبر ہے۔

شیئر

جواب لکھیں