Author: رفتار
اس زمانے میں ہائی جیکنگ کا بڑا چارم تھا۔ ستر کی دہائی میں ہائی جیکنگ کے کئی ایسے واقعات پیش آئے، جن میں ہائی جیکرز اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے۔ اسی لیے مرتضیٰ ہائی جیکنگ کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان میں ہو کیا رہا ہے؟
اس رفتار پوڈ کاسٹ میں ہم ایک ایسی کہانی بیان کریں گے جو آپ کے ذہن کو جھنجھوڑ دے گی۔ اس کہانی کے سفر میں ہمارے رہنما ہیں ممتاز مصنف، محقق اور تاریخ دان خرم علی شفیق صاحب۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنہیں ان کی لاثانی خدمات کے لیے تین بار ’’صدارتی اقبال ایوارڈ‘‘ سے نوازا جا چکا ہے۔ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف، خرم صاحب ہمیں پاکستان کے قیام کی داستان سنائیں گے اور بتائیں کہ گے پاکستان کا خواب محض چند سالوں میں نہیں، بلکہ دہائیوں کی جدوجہد، قربانیوں اور عزم کا نتیجہ تھا۔ خرم علی صاحب…
پاکستان کو دھماکوں میں دھکیلنے والے محمد ضیاء الحق کا اپنا انجام بھی ایک ہولناک دھماکے کی صورت میں ہوا اور محمد ضیاء الحق کا وجود 20 اگست 1988 کو منوں مٹی تلے دب گیا۔
دسمبر 1999 منع کرنے کے باوجود انڈین طیارہ 176 مسافروں کے ساتھ پاک سرزمین پر لینڈ کرنے والا ہے۔ مسافروں کو الرٹ کیا گیا کہ وہ سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ پائلٹ نے لینڈنگ گیئر کھول دیے۔ طیارہ تیزی سے زمین کی طرف جانے لگا۔ لیکن یہ کیا؟ جیسے ہی پائلٹ کی نظر زمین پر پڑی۔ تو وہ حیران رہ گیا۔ کہ جہاں وہ جہاز اتارنے جا رہا ہے وہاں تو گاڑیاں چل رہی ہیں۔ کیونکہ یہ رن وے نہیں۔ بلکہ ہائی وے ہے۔ جی ہاں! یہ طیارہ لاہور کے ہائی وے پر گاڑیوں کے درمیان کریش لینڈنگ کرنے والا تھا۔…
پاکستان کی معیشت کئی دہائیوں سے مشکلات کا شکار ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے، ہم نے معروف اقتصادی ماہر قیصر بنگالی سے ملاقات کی۔ ملکی معیشت پر ان کی گہری نظر اور تجزیاتی صلاحیت نے پاکستان کی معاشی حالت پر روشنی ڈالی۔ بنگالی صاحب نے اپنے خیالات کا آغاز حکومتی اداروں کی کارکردگی پر تنقید سے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں قائم کی گئی کفایت شعاری کمیٹی میں شامل ہونے کے باوجود، ان کے تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا۔ یہ کمیٹی حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن نتائج مایوس…
ستمبر کی شدید گرمی تھی۔ درجن بھر لوگ کافی دیر سے دھوپ میں کھڑے کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ ویسے تو ٹمپریچر چالیس سے کچھ کم تھا لیکن صحرا کی ہواؤں میں پچاس سے ایک ڈگری کم محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ انتظار کرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق کسی سرکاری ادارے سے لگ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی دھول اڑاتی آئی اور ان لوگوں کے پاس آ کر رک گئی۔ پھر اس گاڑی سے ایک تابوت باہر نکالا گیا اور ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ اس تابوت کے دونوں کونوں پر موٹے موٹے…
یہ محمد فاضل ہے۔ جناح اسپتال کے کینسر وارڈ میں بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ دھکے اس کے نصیب میں شروع سے نہیں لکھے تھے بلکہ اپنی زندگی کے پہلے 42 سال تو اس نے بہت اچھے گزارے۔ بس پچھلے چھ مہینے میں فاضل حال سے ایسا بے حال ہوا کہ آج وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر سکتا۔ نوکری چھوٹ گئی۔ بچے پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اور قرضہ چڑھتا جا رہا ہے۔ صرف چھ مہینوں کے اندر 7 بچوں کے باپ کی زندگی اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے…
حسینہ واجد پھر جلا وطن تھیں اور ان کے ملک میں داخلے پر پابندی تھی۔ لگ رہا تھا کہانی ختم ہوئی، لیکن اصل میں یہ نئی کہانی کا اسٹارٹ تھا۔
یہ جاوید میانداد ہی تھے جنہوں پاکستان کو یقین دلایا کہ وہ صرف میچ ہی نہیں ٹورنامنٹ بھی جیت سکتا ہے۔ یہ کہانی ہے پاکستان کرکٹ کے ’’اسٹریٹ فائٹر‘‘ جاوید میانداد کی۔
گوجرانوالہ کرکٹ اسٹیڈیم میں فرسٹ کلاس میچ ہو رہا تھا۔ کھلاڑیوں میں رمیز راجا جیسے انٹرنیشنل اسٹارز بھی شامل تھے لیکن انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ سخت گرمی تھی لیکن اس کے باوجود دوسرا سیشن شروع ہوتے ہی گراؤنڈ بھرنا شروع ہو گیا۔ دس بیس پچاس کی ٹولیوں میں تماشائی اسٹیڈیم میں آنا شروع ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں پورا اسٹیڈیم کھچا کھچ بھر گیا۔ کھلاڑی حیران تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ مگر پھر تماشائیوں کے ساتھ ساتھ پولیس بھی آنا شروع ہو گئی۔ کچھ ہی دیر میں ایک ایس ایچ او صاحب میدان میں داخل…